الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
11. بَابُ قَوْلِهِ: {الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ} :
11. باب: آیت «الذين يلمزون المطوعين من المؤمنين» کی تفسیر۔
(11) Chapter. The Statement of Allah: “Those who defame such of the believers who give charity (in Allah’s Cause) voluntarily..." (V.9:79)
حدیث نمبر: 4669
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن إبراهيم، قال: قلت لابي اسامة: احدثكم زائدة، عن سليمان، عن شقيق، عن ابي مسعود الانصاري، قال:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يامر بالصدقة، فيحتال احدنا حتى يجيء بالمد، وإن لاحدهم اليوم مائة الف، كانه يعرض بنفسه".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي أُسَامَةَ: أَحَدَّثَكُمْ زَائِدَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُ بِالصَّدَقَةِ، فَيَحْتَالُ أَحَدُنَا حَتَّى يَجِيءَ بِالْمُدِّ، وَإِنَّ لِأَحَدِهِمُ الْيَوْمَ مِائَةَ أَلْفٍ، كَأَنَّهُ يُعَرِّضُ بِنَفْسِهِ".
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابواسامہ (حماد بن اسامہ) سے پوچھا، آپ حضرات سے زائدہ بن قدامہ نے بیان کیا تھا کہ ان سے سلیمان نے، ان سے شقیق نے اور ان سے ابومسعود انصاری نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ کی ترغیب دیتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ مزدوری کر کے لاتے اور (بڑی مشکل سے) ایک مد کا صدقہ کر سکتے لیکن آج انہیں میں بعض ایسے ہیں جن کے پاس لاکھوں درہم ہیں۔ غالباً ان کا اشارہ خود اپنی طرف تھا (حماد نے کہا ہاں سچ ہے)۔

Narrated Shaqiq: Abu Mas`ud Al-Ansari said, "Allah's Messenger , used to order us to give alms. So one of us would exert himself to earn one Mud (special measure of wheat or dates, etc.,) to give in charity; while today one of us may have one hundred thousand." Shaqiq said: As if Abu Masud referred to himself.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 191


   صحيح البخاري2273عقبة بن عمروأمرنا بالصدقة انطلق أحدنا إلى السوق فيحامل فيصيب المد
   صحيح البخاري4669عقبة بن عمرويأمر بالصدقة فيحتال أحدنا حتى يجيء بالمد
   صحيح البخاري1416عقبة بن عمروأمرنا بالصدقة انطلق أحدنا إلى السوق فتحامل فيصيب المد
   سنن النسائى الصغرى2530عقبة بن عمرويأمرنا بالصدقة فما يجد أحدنا شيئا يتصدق به حتى ينطلق إلى السوق فيحمل على ظهره فيجيء بالمد
   سنن ابن ماجه4155عقبة بن عمرويأمر بالصدقة فينطلق أحدنا يتحامل حتى يجيء بالمد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4155  
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی معیشت کا بیان۔`
ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ و خیرات کا حکم دیتے تو ہم میں سے ایک شخص حمالی کرنے جاتا، یہاں تک کہ ایک مد کما کر لاتا، (اور صدقہ کر دیتا) اور آج ان میں سے ایک کے پاس ایک لاکھ نقد موجود ہے، ابووائل شقیق کہتے ہیں: گویا کہ وہ اپنی ہی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4155]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سخاوت کے اعلی مقام پر فائز تھے کہ خود امداد کے مستحق ہونے کے باوجود امداد قبول نہیں کرتے تھے بلکہ اس مفلسی میں بھی محنت مزدوری کر کے خیرات کرتے تھے۔

(2)
صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی تعمیل کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے تھے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو نام لے کر حکم نہیں دیتے تھے کہ خیرات کرو۔
تب بھی ان کی کوشش ہوتی تھی کہ ہم بھی اس کی تعمیل کرنے والوں میں شامل ہوجائیں۔

(3)
فی سبیل اللہ خرچ کرنے کا اچھا بدلہ دنیا میں بھی خوشحالی کی صورت میں مل جاتا ہے۔

(4)
حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنےحالات بیان فرمائے لیکن یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ یہ اپنا واقعہ ہے تاکہ یہ ریاکاری میں شامل نہ ہوجائے جب کہ ان کا مقصد سامعین کو اس نیکی کی ترغیب دلانا تھا اس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا اخلاص واضح ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 4155   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4669  
4669. حضرت ابو مسعود انصاری ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ جب ہمیں صدقہ کی ترغیب دیتے تو ہم میں کوئی محنت و مزدوری کر کے لاتا اور بڑی مشکل سے ایک مد (کھجوریں) صدقہ کرتا لیکن آج ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جن کے پاس لاکھوں درہم ہیں۔ گویا ان کا اشارہ خود اپنی طرف تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4669]
حدیث حاشیہ:

غزوہ تبوک کے موقع پر قحط سالی تھی، ابھی فصلیں بھی نہیں پکی تھیں، سفر بھی دوردراز کا تھا مقابلہ بھی اس دور کی انتہائی مضبوط اور زبردست طاقت رومی حکومت سے تھا، اسلحہ اور سواریوں کی بھی قلت تھی، اس بنا پر رسول اللہ ﷺ نے جہاد فنڈ کے لیے پرزور اپیل کی جس کے نتیجے میں حضرت عثمان ؓ اور حضرت عبدالرحمان ؓ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اتنا چندہ دیاکہ آپ خوش ہوگئے۔
سیدناعمر ؓ اپنے گھر کا آدھا سامان بانٹ کر جہاد فنڈ کے لیے لے آئے جبکہ حضرت ابوبکرصدیق ؓ گھر کا تمام سامان اٹھا کر لے آئے۔
الغرض مال دار اورمزدور پیشہ لوگوں نے اپنی حیثیت کے مطابق چندہ دیا۔
لیکن منافقین کی طعنہ زنی سے کوئی بھی محفوظ نہ رہا۔

حضرت ابومسعودانصاری ؓ نے حدیث کے آخر میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ میں نے بھی اس وقت محنت مزدوری کرکے صدقہ کیا تھا اور آج اللہ تعالیٰ نے اتنا دیا ہے کہ لاکھوں میں کھیل رہا ہوں۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں اس سے مقصود یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں قلت مال کے باوجود لوگ محنت مزدوری کرکے صدقہ کیا کرتے تھے۔
اب اللہ تعالیٰ نے ان پر مال وولت کے دروازے کھول دیے ہیں۔
بڑی آسانی کے ساتھ صدقہ خیرات کرتے ہیں۔
انھیں تنگی کا خوف دامن گیر نہیں ہوتا۔
(فتح الباري: 422/8)
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4669   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.