الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
9. بَابُ قَوْلِهِ: {ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ} :
9. باب: آیت کی تفسیر ”جب کہ دو میں سے ایک وہ تھے دونوں غار میں (موجود) تھے جب وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھا کہ فکر نہ کر اللہ پاک ہمارے ساتھ ہے“۔
(9) Chapter. The Statement of Allah: “...The second of two, when they (Muhammad and Abu bakr ) were in the cave, and he said to his companion (Abu bakr ) ’Be not sad (or afraid), surely Allah is with us.’ ” (V.9:40)
حدیث نمبر: 4666
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(موقوف) حدثنا محمد بن عبيد بن ميمون، حدثنا عيسى بن يونس، عن عمر بن سعيد، قال: اخبرني ابن ابي مليكة: دخلنا على ابن عباس،فقال:" الا تعجبون لابن الزبير، قام في امره هذا"، فقلت: لاحاسبن نفسي له ما حاسبتها لابي بكر ولا لعمر، ولهما كانا اولى بكل خير منه، وقلت: ابن عمة النبي صلى الله عليه وسلم، وابن الزبير، وابن ابي بكر، وابن اخي خديجة، وابن اخت عائشة، فإذا هو يتعلى عني، ولا يريد ذلك، فقلت: ما كنت اظن اني اعرض هذا من نفسي فيدعه، وما اراه يريد خيرا، وإن كان لا بد لان يربني بنو عمي، احب إلي من ان يربني غيرهم".(موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ مَيْمُونٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ: دَخَلْنَا عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ،فَقَالَ:" أَلَا تَعْجَبُونَ لِابْنِ الزُّبَيْرِ، قَامَ فِي أَمْرِهِ هَذَا"، فَقُلْتُ: لَأُحَاسِبَنَّ نَفْسِي لَهُ مَا حَاسَبْتُهَا لِأَبِي بَكْرٍ وَلَا لِعُمَرَ، وَلَهُمَا كَانَا أَوْلَى بِكُلِّ خَيْرٍ مِنْهُ، وَقُلْتُ: ابْنُ عَمَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَابْنُ الزُّبَيْرِ، وَابْنُ أَبِي بَكْرٍ، وَابْنُ أَخِي خَدِيجَةَ، وَابْنُ أُخْتِ عَائِشَةَ، فَإِذَا هُوَ يَتَعَلَّى عَنِّي، وَلَا يُرِيدُ ذَلِكَ، فَقُلْتُ: مَا كُنْتُ أَظُنُّ أَنِّي أَعْرِضُ هَذَا مِنْ نَفْسِي فَيَدَعُهُ، وَمَا أُرَاهُ يُرِيدُ خَيْرًا، وَإِنْ كَانَ لَا بُدَّ لَأَنْ يَرُبَّنِي بَنُو عَمِّي، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَرُبَّنِي غَيْرُهُمْ".
ہم سے محمد بن عبید بن میمون نے بیان کیا، کہا ہم سے عیسیٰ بن یونس نے، ان سے عمر بن سعید نے، انہیں ابن ابی ملیکہ نے خبر دی کہ ہم ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے کہا کہ ابن زبیر پر تمہیں حیرت نہیں ہوتی۔ وہ اب خلافت کے لیے کھڑے ہو گئے ہیں تو میں نے ارادہ کر لیا کہ ان کے لیے محنت مشقت کروں گا کہ ایسی محنت اور مشقت میں نے ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے لیے بھی نہیں کی۔ حالانکہ وہ دونوں ان سے ہر حیثیت سے بہتر تھے۔ میں نے لوگوں سے کہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی کی اولاد میں سے ہیں۔ زبیر رضی اللہ عنہ کے بیٹے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نواسے، خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھائی کے بیٹے، عائشہ رضی اللہ عنہا کی بہن کے بیٹے۔ لیکن عبداللہ بن زبیر نے کیا کیا وہ مجھ سے غرور کرنے لگے۔ انہوں نے نہیں چاہا کہ میں ان کے خاص مصاحبوں میں رہوں (اپنے دل میں کہا) مجھ کو ہرگز یہ گمان نہ تھا کہ میں تو ان سے ایسی عاجزی کروں گا اور وہ اس پر بھی مجھ سے راضی نہ ہوں گے۔ خیر اب مجھے امید نہیں کہ وہ میرے ساتھ بھلائی کریں گے جو ہونا تھا وہ ہوا اب بنی امیہ جو میرے چچا زاد بھائی ہیں اگر مجھ پر حکومت کریں تو یہ مجھ کو اوروں کے حکومت کرنے سے زیادہ پسند ہے۔

Narrated Ibn Abi Mulaika: We entered upon Ibn `Abbas and he said "Are you not astonished at Ibn Az-Zubair's assuming the caliphate?" I said (to myself), "I will support him and speak of his good traits as I did not do even for Abu Bakr and `Umar though they were more entitled to receive al I good than he was." I said "He (i.e Ibn Az-Zubair) is the son of the aunt of the Prophet and the son of AzZubair, and the grandson of Abu Bakr and the son of Khadija's brother, and the son of `Aisha's sister." Nevertheless, he considers himself to be superior to me and does not want me to be one of his friends. So I said, "I never expected that he would refuse my offer to support him, and I don't think he intends to do me any good, therefore, if my cousins should inevitably be my rulers, it will be better for me to be ruled by them than by some others."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 188



تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4666  
4666. حضرت ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم حضرت ابن عباس ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے فرمایا: ابن زبیر ؓ کے معاملے میں تم لوگوں کو حیرت نہیں ہوتی، اب وہ خلافت کے لیے کھڑے ہو گئے ہیں؟ میں نے دل میں ارادہ کر لیا ہے کہ اب میں ان کے لیے محنت و مشقت کروں گا۔ ایسی محنت تو میں نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کے لیے بھی نہیں کی، حالانکہ یہ دونوں حضرات ان سے ہر اعتبار سے بہتر تھے۔ میں نے (لوگوں سے) کہا: وہ نبی ﷺ کی پھوپھی کی اولاد میں سے ہیں۔ حضرت زبیر ؓ کے بیٹے، حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے نواسے، حضرت خدیجہ‬ ؓ ک‬ے بھتیجے اور حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ے بھانجے ہیں۔ لیکن انہوں نے کیا کیا ہے کہ وہ مجھ سے بڑا بننے کی کوشش میں ہیں۔ وہ مجھے کسی خاطر میں نہیں لائے۔ میں نے (دل میں) کہا: مجھے ہرگز یہ گمان نہ تھا کہ میں تو ان سے ایسی عاجزی کروں اور وہ اس پر بھی مجھ سے راضی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4666]
حدیث حاشیہ:
ان جملہ روایات میں کسی نہ کسی طرح حضرت صدیق اکبر ؓ کا ذکر خیر ہوا ہے۔
اس آیت کے تحت ان احادیث کو لانے کا یہی مقصد ہے۔
صحابہ کرام کے ایسے باہمی مذاکرات جو نقل ہو ئے ہیں وہ اس بنا پر قابل معافی ہیں کہ وہ بھی سب انسان ہی تھے۔
معصوم عن الخطاء نہیں تھے۔
ہم کو ان سب کے لئے دعائے خیر کا حکم دیا گیا ہے۔
﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ﴾ (آمین)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4666   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4666  
4666. حضرت ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم حضرت ابن عباس ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے فرمایا: ابن زبیر ؓ کے معاملے میں تم لوگوں کو حیرت نہیں ہوتی، اب وہ خلافت کے لیے کھڑے ہو گئے ہیں؟ میں نے دل میں ارادہ کر لیا ہے کہ اب میں ان کے لیے محنت و مشقت کروں گا۔ ایسی محنت تو میں نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کے لیے بھی نہیں کی، حالانکہ یہ دونوں حضرات ان سے ہر اعتبار سے بہتر تھے۔ میں نے (لوگوں سے) کہا: وہ نبی ﷺ کی پھوپھی کی اولاد میں سے ہیں۔ حضرت زبیر ؓ کے بیٹے، حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے نواسے، حضرت خدیجہ‬ ؓ ک‬ے بھتیجے اور حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ے بھانجے ہیں۔ لیکن انہوں نے کیا کیا ہے کہ وہ مجھ سے بڑا بننے کی کوشش میں ہیں۔ وہ مجھے کسی خاطر میں نہیں لائے۔ میں نے (دل میں) کہا: مجھے ہرگز یہ گمان نہ تھا کہ میں تو ان سے ایسی عاجزی کروں اور وہ اس پر بھی مجھ سے راضی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4666]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں بھی ابن عباس ؓ نے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کا شکوہ کیا ہے کہ میری خیر سگالی کے باوجود وہ مجھ سے منہ موڑتے ہیں۔
ان کی یہ خواہش نہیں کے میں ان کا مقرب بنوں۔
ایسے حالات میں میری بھی یہ خواہش نہیں کہ میں ان کے حق میں اخلاص کا اظہار کروں اور وہ اس کی قدر نہ کریں۔
اگر یہی بات ہےتو پھر میں اپنا وزن، بنوامیہ کے پلڑے میں ڈالتاہوں کیونکہ وہ میرے چچا کے بیٹے ہیں اور میرا ان کی اطاعت کرلینا دوسروں کی اطاعت کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔
نوٹ:
۔
صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آسمان کے درخشاں ستارے اور وحی کے چشم دید گواہ ہیں لیکن وہ انسان تھے، فرشتے یا انبیاء ؑ نہیں تھے خواہ حضرت ابن عباس ؓ یا عبداللہ بن زبیر ؓ دونوں ہمارے لیے قابل احترام ہیں، ان کے آپس میں جھگڑوں کے متعلق خاموشی اختیار کرنے میں ہمارے لیے عافیت ہے۔
اس سلسلے میں ہمارے لیے حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ بہترین نمونہ ہیں۔
ان سے اہل صفین کے بارے میں سوال ہوا تو انھوں نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے ان کے خون سے میرے ہاتھوں کو محفوظ رکھا، اب میں نہیں چاہتا ہوں کہ اپنی زبان کو اس میں ملوث کروں۔
(موافقات للشاطبي: 320/4)
اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان حضرات کے لیے ان الفاظ میں دعا کرنے کا حکم دیاہے:
"اے ہمارے پروردگار! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور ایمان داروں کے بارے میں ہمارے دل میں کینہ نہ ڈال۔
اے ہمارے پروردگار! بے شک تو شفقت کرنے والا نہایت مہربان ہے۔
" (الحشر: 10/59)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4666   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.