الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
32. مسنَد اَبِی هرَیرَةَ رَضِیَ اللَّه عَنه
حدیث نمبر: 8862
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا سليمان ، انبانا إسماعيل ، اخبرني عمرو يعني بن ابي عمرو ، عن ابي سعيد المقبري ، عن ابي هريرة : ان النبي صلى الله عليه وسلم انصرف من الصبح يوما، فاتى النساء في المسجد، فوقف عليهن، فقال:" يا معشر النساء، ما رايت من نواقص عقول ودين اذهب لقلوب ذوي الالباب منكن، فإني قد رايتكن اكثر اهل النار يوم القيامة، فتقربن إلى الله ما استطعتن"، وكان في النساء امراة عبد الله بن مسعود، فاتت إلى عبد الله بن مسعود، فاخبرته بما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم واخذت حليا لها، فقال ابن مسعود: فاين تذهبين بهذا الحلي؟ فقالت: اتقرب به إلى الله عز وجل ورسوله، لعل الله ان لا يجعلني من اهل النار، فقال: ويلك، هلمي فتصدقي به علي وعلى ولدي، فإنا له موضع، فقالت: لا والله حتى اذهب به إلى النبي صلى الله عليه وسلم فذهبت تستاذن على النبي صلى الله عليه وسلم، فقالوا للنبي صلى الله عليه وسلم: هذه زينب تستاذن يا رسول الله، فقال:" اي الزيانب هي؟" فقالوا: امراة عبد الله بن مسعود، فقال:" ائذنوا لها"، فدخلت على النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إني سمعت منك مقالة، فرجعت إلى ابن مسعود فحدثته، واخذت حليا اتقرب به إلى الله وإليك، رجاء ان لا يجعلني الله من اهل النار، فقال لي ابن مسعود: تصدقي به علي وعلى ولدي، فإنا له موضع، فقلت: حتى استاذن النبي صلى الله عليه وسلم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" تصدقي به عليه وعلى بنيه فإنهم له موضع"، ثم قالت: يا رسول الله، ارايت ما سمعت منك حين وقفت علينا:" ما رايت من نواقص عقول قط ولا دين اذهب بقلوب ذوي الالباب منكن"، قالت: يا رسول الله، فما نقصان ديننا وعقولنا؟ فقال:" اما ما ذكرت من نقصان دينكن: فالحيضة التي تصيبكن، تمكث إحداكن ما شاء الله ان تمكث لا تصلي ولا تصوم، فذلك من نقصان دينكن، واما ما ذكرت من نقصان عقولكن: فشهادتكن، إنما شهادة المراة نصف شهادة" .حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ ، أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو يَعْنِي بْنَ أَبِي عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَة : أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ مِنَ الصُّبْحِ يَوْمًا، فَأَتَى النِّسَاءَ فِي الْمَسْجِدِ، فَوَقَفَ عَلَيْهِنَّ، فَقَالَ:" يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، مَا رَأَيْتُ مِنْ نَوَاقِصِ عُقُولٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِقُلُوبِ ذَوِي الْأَلْبَابِ مِنْكُنَّ، فَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَتَقَرَّبْنَ إِلَى اللَّهِ مَا اسْتَطَعْتُنَّ"، وَكَانَ فِي النِّسَاءِ امْرَأَةُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، فَأَتَتْ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، فَأَخْبَرَتْهُ بِمَا سَمِعَتْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخَذَتْ حُلِيًّا لَهَا، فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: فَأَيْنَ تَذْهَبِينَ بِهَذَا الْحُلِيِّ؟ فَقَالَتْ: أَتَقَرَّبُ بِهِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَرَسُولِهِ، لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ لَا يَجْعَلَنِي مِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَقَالَ: وَيْلَكِ، هَلُمِّي فَتَصَدَّقِي بِهِ عَلَيَّ وَعَلَى وَلَدِي، فَإِنَّا لَهُ مَوْضِعٌ، فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ حَتَّى أَذْهَبَ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَهَبَتْ تَسْتَأْذِنُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَذِهِ زَيْنَبُ تَسْتَأْذِنُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ:" أَيُّ الزَّيَانِبِ هِيَ؟" فَقَالُوا: امْرَأَةُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، فَقَالَ:" ائْذَنُوا لَهَا"، فَدَخَلَتْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي سَمِعْتُ مِنْكَ مَقَالَةً، فَرَجَعْتُ إِلَى ابْنِ مَسْعُودٍ فَحَدَّثْتُهُ، وَأَخَذْتُ حُلِيًّا أَتَقَرَّبُ بِهِ إِلَى اللَّهِ وَإِلَيْكَ، رَجَاءَ أَنْ لَا يَجْعَلَنِي اللَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَقَالَ لِي ابْنُ مَسْعُودٍ: تَصَدَّقِي بِهِ عَلَيَّ وَعَلَى وَلَدِي، فَإِنَّا لَهُ مَوْضِعٌ، فَقُلْتُ: حَتَّى أَسْتَأْذِنَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَصَدَّقِي بِهِ عَلَيْهِ وَعَلَى بَنِيهِ فَإِنَّهُمْ لَهُ مَوْضِعٌ"، ثُمَّ قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ مَا سَمِعْتُ مِنْكَ حِينَ وَقَفْتَ عَلَيْنَا:" مَا رَأَيْتُ مِنْ نَوَاقِصِ عُقُولٍ قَطُّ وَلَا دِينٍ أَذْهَبَ بِقُلُوبِ ذَوِي الْأَلْبَابِ مِنْكُنَّ"، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَا نُقْصَانُ دِينِنَا وَعُقُولِنَا؟ فَقَالَ:" أَمَّا مَا ذَكَرْتُ مِنْ نُقْصَانِ دِينِكُنَّ: فَالْحَيْضَةُ الَّتِي تُصِيبُكُنَّ، تَمْكُثُ إِحْدَاكُنَّ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَمْكُثَ لَا تُصَلِّي وَلَا تَصُومُ، فَذَلِكَ مِنْ نُقْصَانِ دِينِكُنَّ، وَأَمَّا مَا ذَكَرْتُ مِنْ نُقْصَانِ عُقُولِكُنَّ: فَشَهَادَتُكُنَّ، إِنَّمَا شَهَادَةُ الْمَرْأَةِ نِصْفُ شَهَادَةٍ" .
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر پڑھ کر واپس ہوئے تو مسجد میں موجود خواتین کے قریب سے گذرتے ہوئے وہاں رک گئے اور فرمایا اے گروہ خواتین بڑے بڑے عقلمندوں کے دلوں پر قبضہ کرنے والی ناقص العقل والدین کوئی مخلوق میں نے تم سے بڑھ کر نہیں دیکھی اور میں نے دیکھا ہے کہ قیامت کے دن اہل جہنم میں تمہاری اکثریت ہوگی اس لئے حسب استطاعت اللہ سے قرب حاصل کرنے کے لئے صدقہ خیرات کیا کرو۔ ان خواتین میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اہلیہ بھی تھیں انہوں نے گھر آکر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سنایا اور اپنا زیور لے کر چلنے لگیں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے پوچھا یہ کہاں لے جارہی ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں اس کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب حاصل کرنا چاہتی ہوں تاکہ اللہ مجھے جہنمیوں میں سے نہ کردے انہوں نے فرمایا بھئی یہ میرے پاس لاؤ اور مجھ پر اور میرے بچے پر اسے صدقہ کردو کہ ہم تو اس کے مستحق بھی ہیں ان کی اہلیہ نے کہا واللہ ایسا نہیں ہوسکتا میں اسے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے پاس جاؤں گی۔ چنانچہ وہ چلی گئیں اور کاشانہ نبوت میں داخل ہونے کے لئے اجازت چاہی لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ زینب اجازت چاہتی ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کون سی زینب؟ (کیونکہ یہ کئی عورتوں کا نام تھا) لوگوں نے بتایا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اہلیہ فرمایا انہیں اندر آنے کی اجازت دے دو چنانچہ وہ اندر داخل ہوگئیں اور کہنے لگیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے آپ سے ایک حدیث سنی تھی میں اپنے شوہر ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس واپس پہنچی تو انہیں بھی وہ حدیث سنائی اور اپنا زیور لے کر آنے لگی کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب حاصل کروں اور امید یہ تھی کہ اللہ مجھے اہل جہنم میں شمار نہیں فرمائے گا تو مجھ سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہنے لگے یہ مجھ پر اور میرے بچے پر صدقہ کردو کیونکہ ہم اس کے مستحق ہیں میں نے ان سے کہا کہ پہلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لوں گی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم یہ ان پر صدقہ کردو کیونکہ وہ واقعی اس کے مستحق ہیں۔ پھر وہ کہنے لگیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو بتائیے کہ جب آپ ہمارے پاس آکر کھڑے ہوئے تھے تو میں نے ایک بات اور بھی سنی تھی کہ میں نے بڑے بڑے عقلمندوں کے دلوں پر قبضہ کرنے والی ناقص العقل والدین کوئی مخلوق تم سے بڑھ کر نہیں دیکھی تو یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے دین اور عقل میں نقصان سے کیا مراد ہے؟ فرمایا تمہیں اپنے دین کا نقصان یاد نہیں ہے کہ وہ ایام جو تمہیں پیش آتے ہیں اور جب تک اللہ کی مرضی ہوتی ہے تم رکی رہتی ہو نماز روزہ نہیں کرسکتی ہو یہ تو دین کا نقصان ہے اور جہاں تک عقل کے ناقص ہونے کی بات ہے تو وہ تمہاری گواہی ہے کہ عورت کی گواہی مرد کی گواہی سے نصف ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده جيد، م: 80


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.