الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
The Book of Zakat
64. بَابُ صَلاَةِ الإِمَامِ وَدُعَائِهِ لِصَاحِبِ الصَّدَقَةِ:
64. باب: امام (حاکم) کی طرف سے زکوٰۃ دینے والے کے حق میں دعائے خیر و برکت کرنا۔
(64) Chapter. The invoking and supplicating Allah of the Imam for the one who gives in charity.
حدیث نمبر: Q1497
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقوله: خذ من اموالهم صدقة تطهرهم وتزكيهم بها وصل عليهم إن صلاتك سكن لهم سورة التوبة آية 103.وَقَوْلِهِ: خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ سورة التوبة آية 103.
‏‏‏‏ اللہ تعالیٰ کا (سورۃ التوبہ میں) ارشاد ہے کہ آپ ان کے مال سے خیرات لیجئے جس کے ذریعہ آپ انہیں پاک کریں۔ اور ان کا تزکیہ کریں۔ اور ان کے حق میں خیر و برکت کی دعا کریں۔ آخر آیت تک۔

حدیث نمبر: 1497
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا حفص بن عمر، حدثنا شعبة، عن عمرو، عن عبد الله بن ابي اوفى، قال:" كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا اتاه قوم بصدقتهم، قال: اللهم صل على آل فلان، فاتاه ابي بصدقته، فقال: اللهم صل على آل ابي اوفى".(مرفوع) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى، قَالَ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَتَاهُ قَوْمٌ بِصَدَقَتِهِمْ، قَالَ: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى آلِ فُلَانٍ، فَأَتَاهُ أَبِي بِصَدَقَتِهِ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى آلِ أَبِي أَوْفَى".
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے عمرو بن مرہ سے بیان کیا ‘ ان سے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب کوئی قوم اپنی زکوٰۃ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے دعا فرماتے «اللهم صل على آل فلان» اے اللہ! آل فلاں کو خیر و برکت عطا فرما ‘ میرے والد بھی اپنی زکوٰۃ لے کر حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «اللهم صل على آل أبي أوفى» اے اللہ! آل ابی اوفی کو خیر و برکت عطا فرما۔

Narrated 'Abdullah bin Abu Aufa : Whenever a person came to the Prophet with his alms, the Prophet would say, "O Allah! Send your Blessings upon so and so." My father went to the Prophet with his alms and the Prophet said, "O Allah! Send your blessings upon the offspring of Abu Aufa."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 24, Number 574


   صحيح البخاري6332عبد الله بن علقمةاللهم صل على آل أبي أوفى
   صحيح البخاري4166عبد الله بن علقمةاللهم صل على آل أبي أوفى
   صحيح البخاري6359عبد الله بن علقمةاللهم صل على آل أبي أوفى
   صحيح البخاري1497عبد الله بن علقمةاللهم صل على آل أبي أوفى
   صحيح مسلم2492عبد الله بن علقمةاللهم صل على آل أبي أوفى
   سنن أبي داود1590عبد الله بن علقمةاللهم صل على آل أبي أوفى
   سنن النسائى الصغرى2461عبد الله بن علقمةاللهم صل على آل أبي أوفى
   سنن ابن ماجه1796عبد الله بن علقمةاللهم صل على آل أبي أوفى
   بلوغ المرام492عبد الله بن علقمة‏‏‏‏اللهم صل عليهم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1796  
´زکاۃ نکالنے والے کو زکاۃ نکالنے پر کیا دعا دی جائے؟`
عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی اپنے مال کی زکاۃ لاتا تو آپ اس کے لیے دعا فرماتے، میں بھی آپ کے پاس اپنے مال کی زکاۃ لے کر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اللهم صل على آل أبي أوفى» اے اللہ! ابواوفی کی اولاد پر اپنی رحمت نازل فرما ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1796]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سونے چاندی اور نقدی (اموال باطنہ)
کی زکاۃ صاحب نصاب کو خود حاضر ہو کر ادا کرنی چاہیے۔
غلے اور مویشیوں (اموال ظاہرہ)
کی زکاۃ اسلامی حکومت کا مقرر کردہ افسر صاحب نصاب کے پاس پہنچ کر وصول کرے۔

(2)
اسلامی معاشرے میں عوام اور حکومت کے مابین محبت اور احترام کا تعلق ہوتا ہے۔
زکاۃ وصول کرنے والے کو چاہیے کہ زکاۃ ادا کرنے والے کا شکریہ ادا کرے اور اسے دعا دے۔

(3)
آل کے لفظ میں وہ شخص خود بھی داخل ہوتا ہے جس کی آل کا ذکر کیا جاتا ہے اس کے علاوہ اس کی اولاد اور وہ افراد جو اس کے زیردست ہیں اور وہ ان کا سردار سمجھا جاتا ہے، وہ بھی آل میں شامل ہوسکتے ہیں۔
بعض اوقات آل سے متبعین اور پیروکار بھی مراد لیے جاتے ہیں، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْ‌عَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ (المومن، 40: 4)
اور جس دن قیامت قائم ہوگی (ہم کہیں گے)
فرعون کی آل کو شدید ترین عذاب میں داخل کردو۔
اس آیت میں آل سے اولاد مراد نہیں کیونکہ فرعون لاولد تھا۔
اور اس کی بیوی (حضرت آسیہ علیہا السلام)
مسلمان تھیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1796   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 492  
´عاملین زکاۃ کے لیے خیر و برکت اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی دعا`
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب لوگ زکوٰۃ لے کر حاضر ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے یوں دعا فرماتے «اللهم صل عليهم» یا اللہ! ان پر رحم و کرم فرما۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 492]
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خود حاضر ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں زکاۃ پیش کرتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے خیر و برکت اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی دعا کرتے۔
➋ نماز اور روزے کی طرح زکاۃ بھی فرض ہے، جس طرح نماز اور روزے کو خود ادا کر کے فریضے کی ادائیگی ہوتی ہے، اسی طرح زکاۃ بھی خود ادا کر کے اس فریضے سے اپنے آپ کو جلدی بری کرنا چاہیے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 492   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1590  
´زکاۃ وصول کرنے والا زکاۃ دینے والوں کے لیے دعا کرے۔`
عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے والد (ابواوفی) اصحاب شجرہ ۱؎ میں سے تھے، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی قوم اپنے مال کی زکاۃ لے کر آتی تو آپ فرماتے: اے اللہ! آل فلاں پر رحمت نازل فرما، میرے والد اپنی زکاۃ لے کر آپ کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! ابواوفی کی اولاد پر رحمت نازل فرما ۲؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1590]
1590. اردو حاشیہ: رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا گیا تھا کہ اہل صدقات کے لیے خاص دعا فرمایا کریں۔ سورہ توبہ میں ہے: ﴿خُذ مِن أَمو‌ٰلِهِم صَدَقَةً تُطَهِّرُ‌هُم وَتُزَكّيهِم بِها وَصَلِّ عَلَيهِم ۖ إِنَّ صَلو‌ٰتَكَ سَكَنٌ لَهُم ﴾ [التوبة:130) آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کردیں اور ان کے لیے دعا کیجئے، بلاشبہ آپ کی دعا ان کے لیے موجب اطمینان ہے۔ لہذا امام اور عاملین کو چاہیے کہ اصحاب زکوۃ کے لیے عمومی دعا ضرور کیا کریں۔ یہ آیت کریمہ دلیل ہے کہ زکوۃ و صدقات انسان کے اخلاق و کردار کی طہارت و پاکیزگی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ اور زکوۃ کی وصولی اما م وقت کی ذمہ داری ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1590   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1497  
1497. حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:نبی کریم ﷺ کی عادت تھی کہ جب کوئی آپ کے پاس صدقہ لاتا تو آپ اس کے لیے یوں دعا کرتے: اے اللہ!فلاں پر مہربانی فرما۔ چنانچہ میرے والد گرامی آپ کے پاس صدقہ لے کر آئے تو آپ نے دعا فرمائی: اے اللہ!ابو اوفیٰ کی آل اولاد پر مہربانی فرما۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1497]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ نے ثابت فرمایا کہ رسول کریم ﷺ کے بعد بھی خلفائے اسلام کے لیے مناسب ہے کہ وہ زکوٰۃ ادا کرنے والوں کے حق میں خیروبرکت کی دعائیں کریں۔
لفظ امام سے ایسے ہی خلیفہ اسلام مراد ہیں جو فی الواقع مسلمانوں کے لیے إِنمَا الإمَامُ جُنة یُقاتَلُ مِن وَرائهِ الخ۔
(امام لوگوں کے لیے ڈھال ہے جس کے پیچھے ہوکر لڑائی کی جاتی ہے)
کے مصداق ہوں۔
زکوٰۃ اسلامی اسٹیٹ کے لیے اور اس کے بیت المال کے لیے ایک اہم ذریعہ آمدنی ہے جس کے وجود پذیر ہونے سے ملت کے کتنے ہی مسائل ہوتے ہیں۔
عہد رسالت اور پھر عہد خلافت راشدہ کے تجربات اس پر شاہد عادل ہیں۔
مگر صد افسوس کہ اب نہ تو کہیں وہ صحیح اسلامی نظام ہے اور نہ وہ حقیقی بیت المال۔
اس لیے خود مالداروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی دیانت کے پیش نظر زکوٰۃ نکالیں اور جو مصارف ہیں ان میں دیانت کے ساتھ خرچ کریں۔
دور حاضرہ میں کسی مولوی یا مسجد کے پیش امام یا کسی مدرسہ کے مدرس کو امام وقت خلیفہ اسلام تصور کرکے اور یہ سمجھ کر کہ ان کو دئیے بغیر زکوٰۃ ادا نہ ہوگی‘ زکوٰۃ ان کے حوالہ کرنا بڑی نادانی بلکہ اپنی زکوٰۃ کو غیر مصرف میں خرچ کرنا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1497   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1497  
1497. حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:نبی کریم ﷺ کی عادت تھی کہ جب کوئی آپ کے پاس صدقہ لاتا تو آپ اس کے لیے یوں دعا کرتے: اے اللہ!فلاں پر مہربانی فرما۔ چنانچہ میرے والد گرامی آپ کے پاس صدقہ لے کر آئے تو آپ نے دعا فرمائی: اے اللہ!ابو اوفیٰ کی آل اولاد پر مہربانی فرما۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1497]
حدیث حاشیہ:
(1)
صدقہ دینے والوں پر کسی بھی لفظ سے دعا کی جا سکتی ہے، امت نے بعض الفاظ اللہ کے لیے اور کچھ رسول اللہ ﷺ کے لیے مخصوص کیے ہیں، انہیں دوسروں کے لیے استعمال کرنا خلاف ادب ہے، مثلا:
اللہ کے لیے عزوجل کے الفاظ ہیں، رسول اللہ ﷺ کے لیے یہ الفاظ نہیں استعمال کیے جا سکتے، مثلا:
کہا جائے کہ محمد عزوجل، حالانکہ آپ عزیز و جلیل ہیں، اسی طرح صلاۃ کے کچھ الفاظ رسول اللہ ﷺ کے لیے خاص ہیں، محمد ﷺ کہا جاتا ہے، ابوبکر صلی اللہ علیہ وسلم نہیں کہا جائے گا اگرچہ ان کے معنی صحیح ہیں۔
(2)
رسول اللہ ﷺ کا خاصا تھا کہ آپ دوسروں پر صلاۃ بھیجنے کے مجاز تھے لیکن ہمارے لیے ایسا کرنا مکروہ ہے کیونکہ آپ نے زکاۃ فراہم کرنے والوں کو یہ ہدایت نہیں فرمائی کہ وہ زکاۃ دینے والوں پر صلاۃ بھیجیں، لیکن امام بخاری ؒ کے نزدیک اس کا جواز معلوم ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:
کیا غیر نبی پر صلاۃ پڑھنا جائز ہے؟ (صحیح البخاري، الدعوات، باب: 33)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1497   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.