الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: ایمان کے بیان میں
The Book of Belief (Faith)
8. بَابُ حُبُّ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الإِيمَانِ:
8. باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنا بھی ایمان میں داخل ہے۔
(8) Chapter. To love the Messenger (Muhammad ﷺ) is a part of faith.
حدیث نمبر: 15
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثنا ابن علية، عن عبد العزيز بن صهيب، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم. ح وحدثنا آدم، قال: حدثنا شعبة، عن قتادة، عن انس، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" لا يؤمن احدكم حتى اكون احب إليه من والده وولده والناس اجمعين".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وحَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ".
ہمیں حدیث بیان کی یعقوب بن ابراہیم نے، ان کو ابن علیہ نے، وہ عبدالعزیز بن صہیب سے روایت کرتے ہیں، وہ انس رضی اللہ عنہ سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں اور ہم کو آدم بن ابی ایاس نے حدیث بیان کی، ان کو شعبہ نے، وہ قتادہ سے نقل کرتے ہیں، وہ انس رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہ ہو گا جب تک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہو جائے۔


Hamein Hadees bayan ki Ya’qoob bin Ibrahim ne, un ko Ibn-e-Ulayyah ne, woh Abdul Aziz bin Suhaib se riwayat karte hain, woh Anas Radhiallahu Anhu se woh Nabi Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam se naql karte hain aur hum ko Adam bin Abi Iyaas ne Hadees bayan ki, un ko Sho’bah ne, woh Qatadah se naql karte hain, woh Anas Radhiallahu Anhu se ke Nabi kareem Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya tum mein se koi shakhs imaandaar na hoga jab tak us ke waalid aur us ki aulaad aur tamaam logon se ziyada us ke dil mein meri mohabbat na ho jaaye.

Narrated Anas: The Prophet said "None of you will have faith till he loves me more than his father, his children and all mankind."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 2, Number 15


   صحيح البخاري15أنس بن مالكلا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من والده وولده والناس أجمعين
   صحيح مسلم168أنس بن مالكلا يؤمن عبد حتى أكون أحب إليه من أهله وماله والناس أجمعين
   صحيح مسلم169أنس بن مالكلا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من ولده ووالده والناس أجمعين
   سنن النسائى الصغرى5018أنس بن مالكلا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من ماله وأهله والناس أجمعين
   سنن النسائى الصغرى5017أنس بن مالكلا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من ولده ووالده والناس أجمعين
   سنن ابن ماجه67أنس بن مالكلا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من ولده ووالده والناس أجمعين
   مشكوة المصابيح7أنس بن مالكلا يؤمن احدكم حتى اكون احب إليه من والده وولده والناس اجمعين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 15  
´نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ایمان کا لازمی حصہ ہے`
«. . . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہ ہو گا جب تک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہو جائے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 15]

فہم الحدیث:
یہ حدیث اس بات کا ثبوت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ایمان کا لازمی حصہ ہے اور جب تک کائنات کی ہر چیز حتی کہ اپنی جان سے بھی بڑھ کر آپ سے محبت نہ کی جائے ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی۔
ایک مرتبہ عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ آپ مجھے میری جان کے سوا سب سے پیارے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں عمر! جب تک میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی پیارا نہ ہو جاؤں۔ تب عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اب آپ مجھے میری جان سے بھی پیارے ہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب بات بنی۔ [صحيح بخاري 6632]
شیخ ابن عثیمین رحمه الله نے تمام علماء کا اتفاق نقل کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ایمان کا جز ہے اور جس کے دل میں جتنی محبت کم ہو گی اس کا اتنا ہی ایمان بھی کم ہو گا۔ [القول المفيد شرح كتاب التوحيد]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 27   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 15  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اپنے نفس سے زیادہ`
«. . . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہ ہو گا جب تک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہو جائے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 15]

تشریح:
اس روایت میں دو سندیں ہیں۔ پہلی سند میں حضرت امام کے استاد یعقوب بن ابراہیم ہیں اور دوسری سند میں آدم بن ابی ایاس ہیں۔ تحویل کی صورت اس لیے اختیار نہیں کی کہ ہر دو سندیں حضرت انس رضی اللہ عنہ پر جا کر مل جاتی ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ان روایات میں جس محبت کا مطالبہ ہے وہ محبت طبعی مراد ہے کیونکہ حدیث میں والد اور ولد سے مقابلہ ہے اور ان سے انسان کو محبت طبعی ہی ہوتی ہے پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت طبعی اس درجہ میں مطلوب ہے کہ وہاں تک کسی کی بھی محبت کی رسائی نہ ہو۔ حتیٰ کہ اپنے نفس تک کی بھی محبت نہ ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 15   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 7  
´نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی علامت`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ» . . .»
. . . سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ایماندار ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ میں اس کے باپ، بیٹے اور دیگر تمام لوگوں سے زیادہ پیارا نہ ہو جاؤں . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 7]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 15]،
[صحيح مسلم 168]

فقہ الحدیث
➊ یہاں «لايؤمن» میں نفی کمال مراد ہے، جیسا کہ شارحین حدیث نے لکھا ہے، مثلاً بعض غلط کار اور ظالم آدمی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ «فلان ليس بإنسان» فلاں تو انسان (ہی) نہیں ہے۔ ديكهئے: [مرعاة المصابيح 49/1]
تنبیہ: «لا» اگر اسم نکرہ پر ہو اور اسے آخر میں نصب (یعنی زبر) دے تو یہ «لا» نفی جنس ہوتا ہے۔ دیکھئے: [قطرالندي وبل الصدى ص 229]، [والكافية فى النحو ص115]، [المنصوب بلاالتى لنفي الجنس]
مثلاً حدیث: «لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب» [صحيح بخاري: 756] میں «لا» نفی جنس ہے، «لا» جب نفی جنس ہو تو پوری جنس کی نفی مراد ہوتی ہے الا یہ کہ صحیح دلیل سے تخصیص و استثناء ثابت ہو جائے۔
➋ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا رکن ایمان ہے، اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ سب سے زیادہ محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے کی جائے، تب ہی ایمان مکمل ہو سکتا ہے، جیسا کہ «الأن يا عمر!» [صحيح البخاري: 6632] وغیرہ دلائل سے ثابت ہے۔
➌ والد، والدہ اور اولاد سے انسان کی محبت عام طور پر سب سے زیادہ ہوتی ہے، لہٰذا اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے تمام رشتہ داروں، دوستوں اور پیاروں سے زیادہ محبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کرنی چاہئے اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضا ہے۔
➍ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی ہیں۔ آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت دس سال کی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت آپ کی عمر بیس سال تھی، آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے 2286 حدیثیں بیان کی ہیں، جن میں 168 بخاری و مسلم میں ہیں۔
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے لئے دعا فرمائی:
«اللهم أكثر ماله وولده وبارك له فيه»
اے اللہ! اس کا مال اور اولاد زیادہ کر اور ان میں اسے برکت دے۔ [صحيح مسلم: 2481، صحيح البخاري: 6378، 6379]
یہ دعا من و عن پوری ہوئی۔ آپ کے پوتے پوتیاں سو کے قریب تھے۔ «رضي الله عنه»
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 7   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث67  
´ایمان کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی اولاد، اس کے والد، اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 67]
اردو حاشہ:
(1)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ایمان کی بنیاد ہے جس قدر محبت پختہ ہو گی، اسی قدر ایمان بھی زیادہ ہو گا۔
محبت میں کمی بیشی ایمان میں کمی بیشی کی دلیل ہے۔

(2)
محبت کا معیار زبانی دعویٰ نہیں بلکہ اطاعت ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي﴾ (آل عمران: 31)
 کہہ دیجئے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو۔

(3)
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دوسروں سے زیادہ ہونے کا پتہ تب چلتا ہے جب اولاد کی محبت، والدین کی محبت یا کسی بزرگ یا دوست کی محبت کسی ایسے کام کا تقاضا کرے جس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہو، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت زیادہ ہو گی تو دوسروں کی ناراضی کی پروا نہیں ہو گی بلکہ انسان دوسروں کو ناراض کر کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور اسوہ پر عمل کرے گا، اگر دوسروں کی محبت زیادہ ہو گی تو شریعت کی مخالفت کا ارتکاب کر کے انہیں خوش کرنے کی کوشش کی جائے گی جو ایمان کے مطلوبہ معیار کے خلاف ہے۔
اسی طرح قوم اور قبیلہ کے رسم و رواج کی بھی یہی حیثیت ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 67   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:15  
15. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:15]
حدیث حاشیہ:

محبت کی تین اقسام ہیں:
(الف)
۔
محبت تعظیم، جیسے والد اور استاد سے محبت کی جاتی ہے۔
(ب)
۔
محبت شفقت، جیسے اولاد اورشاگردوں سے کی جاتی ہے۔
(ج)
۔
محبت استحسان، جو عام انسانوں سے کی جاتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں تمام اصناف محبت کوجمع کردیا ہے کہ اس وقت تک ایمان کی تکمیل نہیں ہوگی جب تک ان تمام اقسام سے زیادہ مجھ سے محبت نہ ہو۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو انسان (اس حدیث میں مذکور محبت کی طرح)
محبت کرے گا، وہ آپ کے ساتھ جنت میں جائے گا۔
(صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6171)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس امت کے محسن اعظم ہیں، اس لیے آپ تمام مذکورہ اقسام سے محبت کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ آپ نے ہمیں دنیا میں عزت وشرف اورآخرت میں راحت ونجات کاراستہ بتایا ہے۔
(شرح الکرماني: 99/1)
۔

محبت کے چار اسباب ہیں۔
(الف)
۔
جمال، یعنی انسان خوبصورت ہو اور اس کے اعضاء میں تناسب اور اعتدال ہو۔
(ب)
۔
کمال، اسے باطنی خوبصورتی سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
اس سے مراد یہ ہے کہ انسان میں اعلیٰ درجے کے اخلاق جمع ہوں۔
بڑے بڑے سرکش بھی اس کی خوش اخلاقی کے سامنے سپرانداز ہوجاتے ہوں۔
(ج)
۔
قرابت، اس سے مراد جسمانی اور روحانی تعلق داری ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے روحانی باپ ہیں۔
(د)
احسان، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے محسن اعظم ہیں۔
اس عالم رنگ وبو میں جس قدر بھی محبت کی وجوہات ہوسکتی ہیں وہ سب آپ کی ذات میں بدرجہ اتم موجود ہیں، اس لیے آپ کے ساتھ محبت کا وہ تعلق ہونا چاہیے جو کسی اور انسان یا مخلوق کے ساتھ نہ ہو۔

ایک حدیث میں مومن کو نکیل دار سدھائے ہوئے اونٹ سے تشبیہ دی گئی ہے کہ اسے جب کھینچا جائے، چل پڑتا ہے اور جہاں بٹھایا جائے، بیٹھ جاتا ہے۔
(مسند احمد: 126/4)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے متعلق مومن کی یہی شان ہونی چاہیے کہ جہاں اللہ کا رسول اسے کھینچے، چل پڑے اور جہاں بٹھائے وہاں بیٹھ جائے۔
چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے فرستادہ ہیں، اس لیے آپ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ﴾ جس نے رسولؐ کی اطاعت کی،اس نے یقیناً اللہ کی اطاعت کی۔
(فتح الباري: 1/ 84)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 15   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.