الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
1. بَابُ قَوْلِهِ: {فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ} :
1. باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ”جو کوئی ذرہ بھر بھی نیکی کرے گا اسے بھی وہ دیکھ لے گا“۔
(1) Chapter. The Statement of Allah: "So whosoever does good equal to the weight of an atom (or a small ant), shall see it." (V.99:7)
حدیث نمبر: Q4962
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
يقال: اوحى لها اوحى إليها ووحى لها ووحى إليها واحد.يُقَالُ: أَوْحَى لَهَا أَوْحَى إِلَيْهَا وَوَحَى لَهَا وَوَحَى إِلَيْهَا وَاحِدٌ.
‏‏‏‏ «أوحى لها أوحى إليها» اور «وحى لها» اور «وحى إليها» سب کا ایک ہی معنی ہے۔

حدیث نمبر: 4962
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسماعيل بن عبد الله، حدثنا مالك، عن زيد بن اسلم، عن ابي صالح السمان، عن ابي هريرة رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" الخيل لثلاثة: لرجل اجر، ولرجل ستر، وعلى رجل وزر، فاما الذي له اجر، فرجل ربطها في سبيل الله، فاطال لها في مرج او روضة، فما اصابت في طيلها ذلك في المرج والروضة كان له حسنات، ولو انها قطعت طيلها فاستنت شرفا او شرفين كانت آثارها وارواثها حسنات له، ولو انها مرت بنهر فشربت منه، ولم يرد ان يسقي به كان ذلك حسنات له، فهي لذلك الرجل اجر، ورجل ربطها تغنيا وتعففا ولم ينس حق الله في رقابها ولا ظهورها، فهي له ستر، ورجل ربطها فخرا ورئاء ونواء، فهي على ذلك وزر، فسئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الحمر، قال:" ما انزل الله علي فيها إلا هذه الآية الفاذة الجامعة فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره {7} ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره {8} سورة الزلزلة آية 7-8".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" الْخَيْلُ لِثَلَاثَةٍ: لِرَجُلٍ أَجْرٌ، وَلِرَجُلٍ سِتْرٌ، وَعَلَى رَجُلٍ وِزْرٌ، فَأَمَّا الَّذِي لَهُ أَجْرٌ، فَرَجُلٌ رَبَطَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَأَطَالَ لَهَا فِي مَرْجٍ أَوْ رَوْضَةٍ، فَمَا أَصَابَتْ فِي طِيَلِهَا ذَلِكَ فِي الْمَرْجِ وَالرَّوْضَةِ كَانَ لَهُ حَسَنَاتٍ، وَلَوْ أَنَّهَا قَطَعَتْ طِيَلَهَا فَاسْتَنَّتْ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ كَانَتْ آثَارُهَا وَأَرْوَاثُهَا حَسَنَاتٍ لَهُ، وَلَوْ أَنَّهَا مَرَّتْ بِنَهَرٍ فَشَرِبَتْ مِنْهُ، وَلَمْ يُرِدْ أَنْ يَسْقِيَ بِهِ كَانَ ذَلِكَ حَسَنَاتٍ لَهُ، فَهِيَ لِذَلِكَ الرَّجُلِ أَجْرٌ، وَرَجُلٌ رَبَطَهَا تَغَنِّيًا وَتَعَفُّفًا وَلَمْ يَنْسَ حَقَّ اللَّهِ فِي رِقَابِهَا وَلَا ظُهُورِهَا، فَهِيَ لَهُ سِتْرٌ، وَرَجُلٌ رَبَطَهَا فَخْرًا وَرِئَاءً وَنِوَاءً، فَهِيَ عَلَى ذَلِكَ وِزْرٌ، فَسُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحُمُرِ، قَالَ:" مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيَّ فِيهَا إِلَّا هَذِهِ الْآيَةَ الْفَاذَّةَ الْجَامِعَةَ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ {7} وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ {8} سورة الزلزلة آية 7-8".
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے ابوصالح سمان نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گھوڑا تین طرح کے لوگ تین قسم کے پالتے ہیں۔ ایک شخص کے لیے وہ اجر ہوتا ہے دوسرے کے لیے وہ معافی ہے، تیسرے کے لیے عذاب ہے۔ جس کے لیے وہ اجر و ثواب ہے وہ شخص ہے جو اسے اللہ کے راستہ میں جہاد کی نیت سے پالتا ہے۔ چراگاہ یا اس کے بجائے راوی نے یہ کہا باغ میں اس کی رسی کو دراز کر دیتا ہے اور وہ گھوڑا چراگاہ یا باغ میں اپنی رسی تڑا لے اور ایک دو کوڑے (پھینکنے کی دوری) تک اپنی حد سے آگے بڑھ گیا تو اس کے نشانات قدم اور اس کی لید بھی مالک کے لیے ثواب بن جاتی ہے اور اگر کسی نہر سے گزرتے ہوئے اس میں مالک کے ارادہ کے بغیر خود ہی اس نے پانی پی لیا تو یہ بھی مالک کے لیے باعث ثواب بن جاتا ہے۔ دوسرا شخص جس کے لیے اس کا گھوڑا باعث معافی، پردہ بنتا ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس نے لوگوں سے بےپرواہ رہنے اور لوگوں (کے سامنے سوال کرنے سے) بچنے کے لیے اسے پالا اور اس گھوڑے کی گردن پر جو اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور اس کی پیٹھ کو جو حق ہے اسے بھی وہ ادا کرتا رہتا ہے۔ تو گھوڑا اس کے لیے باعث معافی، پردہ بن جاتا ہے اور جو شخص گھوڑا اپنے دروازے پر فخر اور دکھاوے اور اسلام دشمنی کی غرض سے باندھتا ہے، وہ اس کے لیے وبال ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گدھوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق مجھ پر خاص آیت سوا اس اکیلی عام اور جامع آیت کے نازل نہیں کی «فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره * ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره‏» الخ یعنی جو کوئی ذرہ بھر نیکی کرے گا وہ اسے بھی لے گا دیکھ لے گا اور جو کوئی ذرہ بھر برائی کرے گا وہ اسے بھی دیکھ لے گا۔

Narrated Abu Huraira: Allah's Messenger said, " Horses are kept for one of three purposes: A man may keep them (for Allah's Cause) to receive a reward in the Hereafter; another may keep them as a means of protection; and a third may keep them to be a burden for him. As for the man for whom the horse is a source of reward, he is the one who ties it for Allah's Cause, and he ties it with a long rope in a pasture or a garden, then, whatever it eats or drinks in that pasture or garden will be added to his good deeds. And if it breaks its rope and jumps over one or two hills, then, for all its footsteps and its manure, good deeds will be written for him. And if it passes by a river and drinks of its water though its owner had no intention to water it from that river, even then he will have good deeds written for him. So that horse will be (a source of) reward for such a man. If a man ties a horse for earning his livelihood and abstaining from asking others for help and he does not forget Allah's right, i.e. pays its Zakat and gives it to be used in Allah's Cause, then that horse will be a means of protection for him. But if a man ties it out of pride and to show off and to excite others, then that horse will be a burden (of sins) for him." Then Allah's Messenger was asked regarding donkeys. He replied, "Nothing has been revealed to me except this comprehensive Verse which includes everything: 'So whoever does good equal to the weight of an atom (or a smallest ant) shall see it; and whoever does evil equal to the weight of an atom (or a smallest ant) shall see it.' (99.7-8)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 486


   صحيح البخاري2860عبد الرحمن بن صخرالخيل لثلاثة لرجل أجر ولرجل ستر وعلى رجل وزر فأما الذي له أجر فرجل ربطها في سبيل الله فأطال في مرج أو روضة فما أصابت في طيلها ذلك من المرج أو الروضة كانت له حسنات ولو أنها قطعت طيلها فاستنت شرفا أو شرفين كانت أرواثها وآثارها حسنات له ولو أنها مرت بنهر فشر
   صحيح البخاري3646عبد الرحمن بن صخرالخيل لثلاثة لرجل أجر ولرجل ستر وعلى رجل وزر فأما الذي له أجر فرجل ربطها في سبيل الله فأطال لها في مرج أو روضة وما أصابت في طيلها من المرج أو الروضة كانت له حسنات ولو أنها قطعت طيلها فاستنت شرفا أو شرفين كانت أرواثها حسنات له ولو أنها مرت بنهر فشربت ولم ي
   صحيح البخاري7356عبد الرحمن بن صخرالخيل لثلاثة لرجل أجر ولرجل ستر وعلى رجل وزر فأما الذي له أجر فرجل ربطها في سبيل الله فأطال لها في مرج فما أصابت في طيلها ذلك من المرج كان له حسنات ولو أنها قطعت طيلها فاستنت شرفا كانت آثارها وأرواثها حسنات له ولو أنها مرت بنهر فشربت منه ولم يرد أن يسقي ب
   صحيح البخاري2371عبد الرحمن بن صخرالخيل لرجل أجر ولرجل ستر وعلى رجل وزر فأما الذي له أجر فرجل ربطها في سبيل الله فأطال بها في مرج أو روضة فما أصابت في طيلها ذلك من المرج أو الروضة كانت له حسنات ولو أنه انقطع طيلها فاستنت شرفا أو شرفين كانت آثارها وأرواثها حسنات له ولو أنها مرت بنهر فشربت
   صحيح البخاري4962عبد الرحمن بن صخرالخيل لثلاثة لرجل أجر ولرجل ستر وعلى رجل وزر فأما الذي له أجر فرجل ربطها في سبيل الله فأطال لها في مرج فما أصابت في طيلها ذلك في المرج والروضة كان له حسنات ولو أنها قطعت طيلها فاستنت شرفا كانت آثارها وأرواثها حسنات له ولو أنها مرت بنهر فشربت منه ولم يرد أ
   صحيح البخاري4963عبد الرحمن بن صخرلم ينزل علي فيها شيء إلا هذه الآية الجامعة الفاذة فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره
   سنن النسائى الصغرى3593عبد الرحمن بن صخرالخيل لرجل أجر ولرجل ستر وعلى رجل وزر فأما الذي هي له أجر فرجل ربطها في سبيل الله فأطال لها في مرج أو روضة فما أصابت في طيلها ذلك في المرج أو الروضة كان له حسنات ولو أنها قطعت طيلها ذلك فاستنت شرفا أو شرفين كانت آثارها وأرواثها حسنات له ولو أنها مرت بنهر
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم560عبد الرحمن بن صخرالخيل لرجل اجر ولرجل ستر وعلى رجل وزر. فاما الذى هي له اجر فرجل ربطها فى سبيل الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 560  
´جہاد کے لئے گھوڑا تیار کرنے کی فضیلت`
«. . . عن ابى هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: الخيل لرجل اجر ولرجل ستر وعلى رجل وزر . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بعض) گھوڑے آدمی کے لئے اجر (کا باعث) ہوتے ہیں اور بعض اس کا پردہ ہیں اور بعض آدمی پر بوجھ (گناہ) ہوتے ہیں۔ باعث اجر وہ گھوڑے ہیں جنہیں آدمی اللہ کے راستے میں (جہاد کے لئے) تیار کرتا ہے. . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 560]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2860، من حديث مالك به]
تفقه:
① اگر کسی مسئلے میں خاص دلیل نہ ہو تو عام دلیل سے استدلال کرنا بالکل جائز ہے۔
② نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دین میں بغیر وحی کے اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کہتے تھے سوائے بعض حالتوں میں اجتہاد فرمانے کے۔ آپ کا اجتہاد بھی شرعی حجت ہے سوائے اس کے جس کی تخصیص ثابت ہے یا جس کے خلاف وحی نازل ہوئی ہے۔
③ اگر کوئی مسئلہ کتاب و سنت اور اجماع میں نہ ملے تو آثار سلف صالحین کی روشنی میں اجتہاد کرنا جائز ہے۔
④ جہاد فی سبیل اللہ میں بہت بڑا اجر ہے۔
⑤ اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے۔
⑥ گھوڑوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا ہے تو وہ وحی میں سے ہے۔ معلوم ہوا کہ حدیث بھی وحی ہے۔
⑦ ریاکار کا عمل مردود ہوتا ہے۔ نیز دیکھئے ح345، 346
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 178   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4962  
4962. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: گھوڑا تین طرح کے لوگ پالتے ہیں: ایک شخص کے لیے باعث اجر و ثواب ہے، دوسرے کے لیے باعث پردہ ہے اور تیسرے کے لیے وبال جان ہے۔ جس شخص کے لیے وہ باعث اجر و ثواب ہے، وہ ہے جس نے اسے اللہ کی راہ میں جہاد کی نیت سے باندھا ہے۔ وہ چرا گاہ یا باغ میں اس کی رسی کو دراز کر دیتا ہے، جس قدر وہ چراگاہ یا باغ میں چارا کھائے گا وہ اس کے لیے نیکیاں ہوں گی۔ اور اگر اس کی رسی ٹوٹ جائے اور وہ ایک یا دو بلندیاں (ٹیلے) دوڑ جائے تو اس کے نشانات قدم اور اس کی لید بھی مالک کے لیے ثواب بن جاتی ہے۔ اور اگر وہ کسی نہر کے پاس سے گزرے اور اس سے پانی پیے، حالانکہ اس کا پانی پلانے کا ارادہ نہیں تھا، یہ بھی اس کی نیکیاں ہوں گی۔ یہ گھوڑا اس کے لیے باعث اجر و ثواب ہے۔ اور جس شخص نے مالداری اور لوگوں سے سوال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4962]
حدیث حاشیہ:
پہلا شخص جس کے لئے گھوڑا باعث اجر و ثواب ہے وہ جس نے اسے فی سبیل اللہ کے تصور سے رکھا۔
دوسرا وہ جس کے لئے وہ معافی ہے اپنی ذاتی ضروریات کے لئے پالنے والا نہ بطور فخر و ریا کے۔
تیسرا محض ریا و نمود، فخر و غرور کے لئے پالنے والا۔
آج کل کی جملہ برقی سواریاں بھی سب اسی ذیل میں ہیں۔
گردن کا جس کا اوپر ذکر ہوا ہے کہ اگر وہ تجارتی ہیں تو ان کی زکوٰۃ ادا کرے۔
پشت کا حق یہ کہ تھکے ماندے مسافر مانگنے والے کو عاریتاً سواری کے لئے دیدے۔
آج کل برقی سواریاں بھی سب اسی ذیل میں آ کر باعث عذاب و ثواب بن سکتی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4962   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4962  
4962. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: گھوڑا تین طرح کے لوگ پالتے ہیں: ایک شخص کے لیے باعث اجر و ثواب ہے، دوسرے کے لیے باعث پردہ ہے اور تیسرے کے لیے وبال جان ہے۔ جس شخص کے لیے وہ باعث اجر و ثواب ہے، وہ ہے جس نے اسے اللہ کی راہ میں جہاد کی نیت سے باندھا ہے۔ وہ چرا گاہ یا باغ میں اس کی رسی کو دراز کر دیتا ہے، جس قدر وہ چراگاہ یا باغ میں چارا کھائے گا وہ اس کے لیے نیکیاں ہوں گی۔ اور اگر اس کی رسی ٹوٹ جائے اور وہ ایک یا دو بلندیاں (ٹیلے) دوڑ جائے تو اس کے نشانات قدم اور اس کی لید بھی مالک کے لیے ثواب بن جاتی ہے۔ اور اگر وہ کسی نہر کے پاس سے گزرے اور اس سے پانی پیے، حالانکہ اس کا پانی پلانے کا ارادہ نہیں تھا، یہ بھی اس کی نیکیاں ہوں گی۔ یہ گھوڑا اس کے لیے باعث اجر و ثواب ہے۔ اور جس شخص نے مالداری اور لوگوں سے سوال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4962]
حدیث حاشیہ:

پہلا شخص جس نے فی سبیل اللہ کی نیت سے پالا وہ گھوڑا باعث اجر و ثواب ہے اور جس نے اپنی ضروریات کے لیے گھوڑا رکھا۔
لیکن فخر اور ریا کاری مقصود نہیں وہ قابل معافی ہے اور جس نے محض نمود و نمائش، دکھلاوے اور فخر و غرور کے لیے گھوڑا رکھا وہ باعث عذاب اور وبال جان ہے۔
آج کل دیگر تمام سواریاں بھی اسی ذیل میں آکر باعث ثواب یا موجب عذاب بن سکتی ہیں۔

سواری کی گردن میں اللہ کا حق یہ ہے کہ اگر وہ تجارتی کام میں استعمال ہوتی ہے تو اس کی زکاۃ ادا کی جائے اور پشت کا حق یہ ہے کہ کسی تھکے ماندے مسافر کو ساتھ بٹھا لیا جائے یا کسی کو بوقت ضرورت عاریتاً دے دی جائے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4962   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.