الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: حج کے احکام و مناسک
The Book of Hajj
147. بَابُ : تَقْبِيلِ الْحَجَرِ
147. باب: حجر (اسود) کا بوسہ لینے کا بیان۔
Chapter: Kissing The Black Stone
حدیث نمبر: 2940
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا عيسى بن يونس، وجرير , عن الاعمش، عن إبراهيم، عن عابس بن ربيعة، قال: رايت عمر جاء إلى الحجر، فقال:" إني لاعلم انك حجر ولولا اني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبلك ما قبلتك، ثم دنا منه فقبله".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، وَجَرِيرٌ , عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ، قَالَ: رَأَيْتُ عُمَرَ جَاءَ إِلَى الْحَجَرِ، فَقَالَ:" إِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ، ثُمَّ دَنَا مِنْهُ فَقَبَّلَهُ".
عابس بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کے پاس آئے اور کہا: میں جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے اور اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ لیتا، پھر وہ اس سے قریب ہوئے، اور اسے بوسہ لیا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 50 (1597)، 57 (1605)، 60 (1610)، صحیح مسلم/الحج 41 (1270)، سنن ابی داود/الحج 47 (1873)، سنن الترمذی/الحج 37 (860)، (تحفة الأشراف: 10373)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الحج 27 (2943)، موطا امام مالک/الحج 36 (115)، مسند احمد (1/16، 26، 46)، سنن الدارمی/ المناسک 42 (1906) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري1597عابس بن ربيعةأعلم أنك حجر لا تضر ولا تنفع ولولا أني رأيت النبي يقبلك ما قبلتك
   صحيح مسلم3070عابس بن ربيعةأقبلك وأعلم أنك حجر ولولا أني رأيت رسول الله يقبلك لم أقبلك
   جامع الترمذي860عابس بن ربيعةرأيت رسول الله يقبلك لم أقبلك
   سنن أبي داود1873عابس بن ربيعةأعلم أنك حجر لا تنفع ولا تضر ولولا أني رأيت رسول الله يقبلك ما قبلتك
   المعجم الصغير للطبراني428عابس بن ربيعةأعلم أنك حجر لا تملك لي ضرا ولا نفعا ولولا أني رأيت رسول الله يقبلك ما قبلتك
   سنن النسائى الصغرى2940عابس بن ربيعةأعلم أنك حجر ولولا أني رأيت رسول الله يقبلك ما قبلتك ثم دنا منه فقبله
   بلوغ المرام616عابس بن ربيعة إني اعلم انك حجر لا تضر ولا تنفع ولولا اني رايت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقبلك ما قبلتك
   مسندالحميدي9عابس بن ربيعةوالله إني لأعلم أنك حجر لا تضر ولا تنفع، ولولا أني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبلك ما قبلتك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2940  
´حجر (اسود) کا بوسہ لینے کا بیان۔`
عابس بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کے پاس آئے اور کہا: میں جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے اور اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ لیتا، پھر وہ اس سے قریب ہوئے، اور اسے بوسہ لیا۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2940]
اردو حاشہ:
(1) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کلام کا مقصود یہ ہے کہ حجر اسود کی پوجا نہیں کرتے، نہ اسے نفع نقصان کا مالک سمجھتے ہیں۔ ہم تو رسول اللہﷺ کی پیروی میں اسے بوسہ دیتے ہیں۔ آپ نے یہ بات عوام الناس کا عقیدہ درست رکھنے کے لیے اور انھیں غلط فہمی سے بچانے کے لیے فرمائی۔ رسول اللہﷺ کا حجر اسود کو بوسہ دینا اس کے جنتی ہونے کی وجہ سے تھا اور اس وجہ سے تھا کہ وہ گناہوں کو ساقط کرنے کا سبب ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ سے ان بزرگوں کے موقف کو تائید حاصل ہوتی ہے جن کا خیال ہے کہ جن چیزوں کو رسول اللہﷺ نے بوسہ نہیں دیا، انھیں بوسہ دینے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ویسے بھی حجر اسود کے علاوہ دوسری چیزیں جنت سے نہیں آئیں۔
(2) امور دین میں شارع علیہ السلام کی اتباع واجب ہے، چاہے ہمیں اس کام کی حکمت سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔
(3) اگر عوام کا عقیدے کی خرابی میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہو تو امام یا عالم کو اپنے ایسے عمل کی وضاحت کر دینی چاہیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 2940   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 616  
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حجر اسود کو بوسہ دیا اور فرمایا کہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تو پتھر ہے کسی قسم کے نفع و نقصان کا مالک نہیں۔ اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 616]
616 فوائدومسائل:
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حجراسود کو بوسہ اسے نفع و نقصان دینے والا سمجھ کر نہیں دیا جاتا بلکہ یہ عمل تو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی پیروی میں کیا جاتا ہے۔
➋ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فرمان سے مشرکین کے اس باطل نظریے کی تردید مقصود تھی جو پتھروں کو بذات خود نفع و نقصان کا مختار و مالک سمجھتے تھے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 616   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 860  
´حجر اسود کو بوسہ لینے کا بیان۔`
عابس بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی الله عنہ کو حجر اسود کا بوسہ لیتے دیکھا، وہ کہہ رہے تھے: میں تیرا بوسہ لے رہا ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ تو ایک پتھر ہے، اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بوسہ لیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ لیتا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 860]
اردو حاشہ:
1؎:
اپنے اس قول سے عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ حجر اسود کا چومنا رسول اللہ ﷺ کے فعل کی اتباع میں ہے نہ کہ اس وجہ سے کہ یہ خود نفع و نقصان پہنچا سکتا ہے جیسا کہ جاہلیت میں بتوں کے سلسلہ میں اس طرح کا لوگ عقیدہ رکھتے تھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 860   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1873  
´حجر اسود کو چومنا۔`
عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ حجر اسود کے پاس آئے اور اسے چوما، اور کہا: میں جانتا ہوں تو ایک پتھر ہے نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان اور اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے نہ چومتا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1873]
1873. اردو حاشیہ:
➊ رسول اللہ ﷺکے طریق (یعنی سنت مطہرہ) کا اتباع ہر حال میں مشروع اور واجب ہے۔خواہ اس کے اسباب اور علل معلوم ہوں یا نہ ہوں۔اسے کسی علت یا سبب پر مبنی قرار نہیں دیا جاسکتا اگر کوئی حکمت سمجھ میں آجائے تو فبہا ورنہ اس پرعمل بہرحال لازم ہے۔
➋ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ توضیح ان نو مسلم لوگوں کےلئے تھی۔ جن کو یہ وہم ہوسکتا تھا کہ شاید یہ پتھر کوئی موثر پتھر ہے۔اس لئے اس کو چوما جارہا ہے۔
➌ یہ حدیث حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اتباع امام اعظم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر شدید حریص ہونے کی واضح دلیل ہے۔
➍ کوئی بھی پتھر شجر اور قبر وغیرہ کسی قسم کے نفع یا نقصان کاہرگز ہرگز کوئی اختیار نہیں رکھتے۔
➎ یہ حدیث دلیل ہے کہ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین اپنے ایمان اور عقیدہ توحید اور جذبہ اتباع سنت میں از حد کامل تھے۔
➏ شرعی دلیل کے بغیر کسی چیز کو احتراماً چومنا چاٹنا مکروہ ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1873   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.