الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: فرع و عتیرہ کے احکام و مسائل
The Book of al-Fara' and al-'Atirah
حدیث نمبر: 4228
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن المثنى، قال: حدثنا ابو داود، قال: حدثنا شعبة، قال: حدثت ابا إسحاق، عن معمر، وسفيان، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، قال احدهما:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الفرع والعتيرة". وقال الآخر:" لا فرع ولا عتيرة".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثْتُ أَبَا إِسْحَاق، عَنْ مَعْمَرٍ، وَسُفْيَانَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَحَدُهُمَا:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْفَرَعِ وَالْعَتِيرَةِ". وَقَالَ الْآخَرُ:" لَا فَرَعَ وَلَا عَتِيرَةَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرع اور عتیرہ سے منع فرمایا (دوسری روایت میں ہے کہ) آپ نے فرمایا: فرع اور عتیرہ واجب نہیں ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 13127، 13269) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی یہ دونوں اب واجب نہیں رہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري5474عبد الرحمن بن صخرلا فرع ولا عتيرة قال والفرع أول نتاج كان ينتج لهم كانوا يذبحونه لطواغيتهم والعتيرة في رجب
   صحيح البخاري5473عبد الرحمن بن صخرلا فرع ولا عتيرة
   صحيح مسلم5116عبد الرحمن بن صخرلا فرع ولا عتيرة
   جامع الترمذي1512عبد الرحمن بن صخرلا فرع ولا عتيرة والفرع أول النتاج كان ينتج لهم فيذبحونه
   سنن أبي داود2831عبد الرحمن بن صخرلا فرع ولا عتيرة
   سنن النسائى الصغرى4228عبد الرحمن بن صخرالفرع والعتيرة
   سنن النسائى الصغرى4227عبد الرحمن بن صخرلا فرع ولا عتيرة
   سنن ابن ماجه3168عبد الرحمن بن صخرلا فرعة ولا عتيرة
   مسندالحميدي1126عبد الرحمن بن صخرلا فرع ولا عتيرة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3168  
´فرعہ اور عتیرہ کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ «فرعہ» ہے اور نہ «عتیرہ» (یعنی واجب اور ضروری نہیں ہے)، ہشام کہتے ہیں: «فرعہ»: جانور کے پہلوٹے بچے کو کہتے ہیں، ۱؎ اور «عتیرہ: وہ بکری ہے جسے گھر والے رجب میں ذبح کرتے ہیں ۲؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الذبائح/حدیث: 3168]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جاہلیت میں بتوں کے نام کی مختلف قربانیاں دی جاتی تھیں۔
ان میں سے ایک فرعہ بھی ہے۔
لیکن جب قربانی کا حکم ہوا تو اس خاص صفت کا اہتمام کرتے ہوئے قربانی دینا منسوخ ہوگیا، البتہ اللہ کے نام پر حسب توفیق جانور ذبح کرکے مسکینوں کو کھلانا ایک نیکی ہے جو منسوخ نہیں، یہ بات یاد رہےکہ شریعت میں ثابت قربانی (عید الاضحی اور عقیقہ)
کے علاوہ کسی اور دن کو خاص کرکے قربانی یا صدقہ دینا درست نہیں۔

(2)
عتیرہ کی قربانی رجب کے مہینے میں دی جاتی تھی۔
اب وہ بھی منسوخ ہے لیکن دن اور جگہ کی تعین کے بغیراللہ کے نام پر حسب توفیق جانور ذبح کرنا منسوخ نہیں بلکہ مستحب ہے، صرف وجوب منسوخ ہے۔
مزید دیکھیے، حدیث: 3125 کے فوائد و مسائل۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3168   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.