1. بَابُ مَا جَاءَ فِي إِجَازَةِ خَبَرِ الْوَاحِدِ الصَّدُوقِ فِي الأَذَانِ وَالصَّلاَةِ وَالصَّوْمِ وَالْفَرَائِضِ وَالأَحْكَامِ:
1. باب: ایک سچے شخص کی خبر پر اذان، نماز، روزے فرائض سارے احکام میں عمل ہونا۔
(1) Chapter. What is said regarding the acceptance of the information given by one truthful person concerning Adhan, Salat (prayer), Saum (fasting), and all other obligations and laws prescribed by Allah.
Narrated Al-Bara': When Allah's Apostle arrived at Medina, he prayed facing Jerusalem for sixteen or seventeen months but he wished that he would be ordered to face the Ka`ba. So Allah revealed: -- 'Verily! We have seen the turning of your face towards the heaven; surely we shall turn you to a prayer direction (Qibla) that shall please you.' (2.144) Thus he was directed towards the Ka`ba. A man prayed the `Asr prayer with the Prophet and then went out, and passing by some people from the Ansar, he said, "I testify. that I have prayed with the Prophet and he (the Prophet) has prayed facing the Ka`ba." Thereupon they, who were bowing in the `Asr prayer, turned towards the Ka`ba.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 91, Number 358
● صحيح البخاري | 4486 | براء بن عازب | صلى إلى بيت المقدس ستة عشر شهرا أو سبعة عشر شهرا وكان يعجبه أن تكون قبلته قبل البيت وأنه صلى أو صلاها صلاة العصر وصلى معه قوم فخرج رجل ممن كان صلى معه فمر على أهل المسجد وهم راكعون قال أشهد بالله لقد صليت مع النبي قبل مكة فداروا كما هم |
● صحيح البخاري | 4492 | براء بن عازب | صلينا مع النبي نحو بيت المقدس ستة عشر أو سبعة عشر شهرا ثم صرفه نحو القبلة |
● صحيح البخاري | 399 | براء بن عازب | صلى نحو بيت المقدس ستة عشر أو سبعة عشر شهرا وكان رسول الله يحب أن يوجه إلى الكعبة فأنزل الله قد نرى تقلب وجهك في السماء |
● صحيح البخاري | 7252 | براء بن عازب | صلى نحو بيت المقدس ستة عشر أو سبعة عشر شهرا وكان يحب أن يوجه إلى الكعبة فأنزل الله قد نرى تقلب وجهك في السماء فلنولينك قبلة ترضاها |
● صحيح البخاري | 40 | براء بن عازب | صلى قبل بيت المقدس ستة عشر شهرا أو سبعة عشر شهرا وكان يعجبه أن تكون قبلته قبل البيت وأنه صلى أول صلاة صلاها صلاة العصر وصلى معه قوم فخرج رجل ممن صلى معه فمر على أهل مسجد وهم راكعون فقال أشهد بالله لقد صليت مع رسول الله قبل مكة فداروا كم |
● صحيح مسلم | 1177 | براء بن عازب | صلينا مع رسول الله نحو بيت المقدس ستة عشر شهرا أو سبعة عشر شهرا ثم صرفنا نحو الكعبة |
● صحيح مسلم | 1176 | براء بن عازب | صليت مع النبي إلى بيت المقدس ستة عشر شهرا حتى نزلت الآية التي في البقرة وحيث ما كنتم فولوا وجوهكم شطره |
● جامع الترمذي | 2962 | براء بن عازب | صلى نحو بيت المقدس ستة أو سبعة عشر شهرا وكان رسول الله يحب أن يوجه إلى الكعبة فأنزل الله قد نرى تقلب وجهك في السماء فلنولينك قبلة ترضاها فول وجهك شطر المسجد الحرام |
● سنن النسائى الصغرى | 489 | براء بن عازب | صلينا مع النبي نحو بيت المقدس ستة عشر شهرا أو سبعة عشر شهرا وصرف إلى القبلة |
● سنن النسائى الصغرى | 743 | براء بن عازب | قدم رسول الله المدينة فصلى نحو بيت المقدس ستة عشر شهرا ثم وجه إلى الكعبة فمر رجل قد كان صلى مع النبي على قوم من الأنصار فقال أشهد أن رسول الله قد وجه إلى الكعبة فانحرفوا إلى الكعبة |
● سنن النسائى الصغرى | 490 | براء بن عازب | فصلى نحو بيت المقدس ستة عشر شهرا ثم إنه وجه إلى الكعبة فمر رجل قد كان صلى مع النبي على قوم من الأنصار فقال أشهد أن رسول الله قد وجه إلى الكعبة فانحرفوا إلى الكعبة |
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 489
´قبلہ کی فرضیت کا بیان۔`
براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سولہ یا سترہ مہینہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی، یہ شک سفیان کی طرف سے ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ (خانہ کعبہ) کی طرف پھیر دئیے گئے۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 489]
489 ۔ اردو حاشیہ: حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما انصاری صحابی ہیں۔ ظاہر ہے انہوں نے ہجرت تک کے بعد ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازیں پڑھیں۔ تو حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ ہجرت سے سولہ سترہ ماہ بعد تک قبلہ بیت القدس ہی رہا۔ 15رجب یا شعبان 2ہجری میں بیت اللہ کو قبلہ مقرر کیا گیا۔ قبلے سے متعلق تفصیلی احکام و مسائل کے لیے کتاب القبلۃ کا ابتدائی ملاحظہ فرمائیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 489
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 490
´قبلہ کی فرضیت کا بیان۔`
براء بن عازب رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو آپ نے سولہ مہینہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کی طرف پھیر دئیے گئے، تو ایک آدمی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ چکا تھا، انصار کے کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا تو اس نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کی طرف پھیر دئیے گئے ہیں، (لوگوں نے یہ سنا) تو وہ بھی قبلہ کی طرف پھر گئے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 490]
490 ۔ اردو حاشیہ:
➊انصار کے اس قبیلے کا نام بنوحارثہ تھا۔
➋انصار کا نماز ہی میں بیت اللہ کی طرف رخ کرنا تمام نمازیوں کے لیے کچھ نہ کچھ حرکات کا باعث بنا کیونکہ بیت اللہ، بیت المقدس سے بالکل مخالف جانب ہے۔ ظاہر ہے امام کو صفیں چیر کر دوسری جانب آنا پڑا اور مقتدیوں کو بھی صفیں بدلنی پڑیں۔ معلوم ہوا کہ نماز کی اصلاح کے لیے جو بھی حرکت کرنی پڑے، وہ نماز کے فساد کا موجب نہیں، قلیل ہو یا کثیر۔
➌ثابت ہوا کہ خبرواحد حجت ہے۔
➍کسی حکم کے علم سے قبل اس حکم کا اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ تبدیلی قبلہ کا حکم تو اس قبیلے کے نماز شروع کرنے سے قبل آچکا تھا مگر چونکہ ان کو علم نماز کے دوران میں ہوا، لہٰذا پہلے سے پڑھی ہوئی نماز جو دوسرے قبلے کی طرف تھی، فاسد نہیں ہوئی۔
➎یہ بات اختلافی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنا وحی سے تھا یا اہل کتاب سے موافقت کی بنا پر۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 490
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 743
´قبلہ رخ ہونے کا بیان۔`
براء بن عازب رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے سولہ ماہ تک بیت المقدس کی جانب نماز پڑھی، پھر آپ خانہ کعبہ کی طرف پھیر دیئے گئے، ایک شخص جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ چکا تھا، انصار کے کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا تو اس نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ کعبہ کی طرف کر دیا گیا ہے، وہ لوگ (یہ سنتے ہی نماز کی حالت میں) کعبہ کی طرف پھر گئے۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 743]
743 ۔ اردو حاشیہ: دیکھیے سنن نسائی حدیث: 489، 490۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 743
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2962
´سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ تشریف لے آئے تو سولہ یا سترہ مہینے تک آپ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے، حالانکہ آپ کی خواہش یہی تھی کہ قبلہ کعبہ کی طرف کر دیا جائے، تو اللہ نے آپ کی اس خواہش کے مطابق «قد نرى تقلب وجهك في السماء فلنولينك قبلة ترضاها فول وجهك شطر المسجد الحرام» ”ہم آپ کے چہرے کو باربار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، اب ہم آپ کو اس قبلہ کی جانب پھیر دیں گے جس سے آپ خوش ہو جائیں، آپ اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف پھیر لیں“ (البقرہ: ۱۴۴)، پھر آپ کعبہ کی طرف پھیر ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2962]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ہم آپﷺ کے چہرے کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں،
اب ہم آپﷺ کو اس قبلہ کی جانب پھیر دیں گے جس سے آپ خوش ہو جائیں،
آپ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں (البقرۃ: 144)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2962
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7252
7252. سیدنا براء ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے لیکن آپ کی خواہش تھی کہ بیت اللہ کی طرف منہ کریں، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”یقیناً ہم آپ کے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھتے ہیں، ہم آپ کو اس قبیلے کی طرف ضرور پھیر دیں گے جسے آپ پسند کرتے ہیں۔“ چنانچہ آپ کا رخ کعبے کی طرف پھیر دیا گیا۔ آپ کے ساتھ ایک آدمی نے عصر کی نماز پڑھی، پھر وہ انصار کی ایک جماعت کے پاس گزرا تو کہا: وہ گواہی دیتا ہے کہ اس نے نبی ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھی ہے اور آپ کے کعبے کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ یہ سن کر وہ لوگ کعبہ رخ ہوگئے حالانکہ وہ نماز عصر کے رکوع میں تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7252]
حدیث حاشیہ:
یہ واقعہ تحویل کے پہلے دن مسجد نبوی بنی حارث یعنی مسجد قبلتین کا ہے۔
بعض روایتوں میں ظہر کی نماز مذکور ہے اور اگلی حدیث کا واقعہ دوسرے روز کا مسجد قبا کا ہے تو دونوں روایتوں میں اختلاف نہیں رہا۔
باب کی مطابقت ظاہر ہے کہ خبر واحد کو تسلیم کر کے اس پر جمہور صحابہ نے عمل کیا۔
جو لوگ خبر واحد کے منکر ہیں وہ جمہور صحابہ کے طرز عمل سے منکر ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7252
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7252
7252. سیدنا براء ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے لیکن آپ کی خواہش تھی کہ بیت اللہ کی طرف منہ کریں، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”یقیناً ہم آپ کے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھتے ہیں، ہم آپ کو اس قبیلے کی طرف ضرور پھیر دیں گے جسے آپ پسند کرتے ہیں۔“ چنانچہ آپ کا رخ کعبے کی طرف پھیر دیا گیا۔ آپ کے ساتھ ایک آدمی نے عصر کی نماز پڑھی، پھر وہ انصار کی ایک جماعت کے پاس گزرا تو کہا: وہ گواہی دیتا ہے کہ اس نے نبی ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھی ہے اور آپ کے کعبے کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ یہ سن کر وہ لوگ کعبہ رخ ہوگئے حالانکہ وہ نماز عصر کے رکوع میں تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7252]
حدیث حاشیہ:
یہ واقعہ تحویل قبلہ کے پہلے دن کا ہے انصارکے قبیلے بنو حارث کی مسجد "قبلتین" آج بھی موجود ہے۔
ایک شخص کی خبر سن کر جمہور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے حالت نماز میں اپنا رخ کعبے کی طرف کر لیا۔
اس بنا پر خبر واحد حجت ہے اور جو لوگ اس کی حجیت کے منکر ہیں وہ گویا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے طرز عمل کے منکر ہیں ان حضرات کے پاس اس کے متعلق کوئی دلیل نہیں۔
یہ لوگ صرف محض ظن و تخمین کی پیروی کرتے ہیں جس سے قرآن کریم نے منع کیا ہے۔
واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7252