وحدثني حسن بن علي الحلواني ، ومحمد بن رافع ، قالا: حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج ، قال: قلت لعطاء : " كيف تقول انت في الركوع؟ قال: اما سبحانك وبحمدك، لا إله إلا انت، فاخبرني ابن ابي مليكة ، عن عائشة ، قالت: افتقدت النبي صلى الله عليه وسلم ذات ليلة، فظننت انه ذهب إلى بعض نسائه، فتحسست ثم رجعت، فإذا هو راكع، او ساجد، يقول: سبحانك وبحمدك، لا إله إلا انت، فقلت: بابي انت وامي، إني لفي شان، وإنك لفي آخر ".وحَدَّثَنِي حَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَطَاءٍ : " كَيْفَ تَقُولُ أَنْتَ فِي الرُّكُوعِ؟ قَالَ: أَمَّا سُبْحَانَكَ وَبِحَمْدِكَ، لا إله إلا أنت، فأخبرني ابن أبي مليكة ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتِ: افْتَقَدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَظَنَنْتُ أَنَّهُ ذَهَبَ إِلَى بَعْضِ نِسَائِهِ، فَتَحَسَّسْتُ ثُمَّ رَجَعْتُ، فَإِذَا هُوَ رَاكِعٌ، أَوْ سَاجِدٌ، يَقُولُ: سُبْحَانَكَ وَبِحَمْدِكَ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، فَقُلْتُ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، إِنِّي لَفِي شَأْنٍ، وَإِنَّكَ لَفِي آخَرَ ".
۔ ابن جریج نے کہا: میں نے عطاء سے پوچھا: آپ رکوع میں کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا: جہاں تک (دعا) سبحانک وبحمدک، لا إلہ إلا أنت ”تو پاک ہے (اے اللہ!) اپنی حمد کے ساتھ، کوئی معبود برحق نہیں تیرے سوا“ کا تعلق ہے تو مجھے ابن ملیکہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے خبر دی، انہوں نے کہا: ایک رات میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گم پایا تو میں نے یہ گمان کیا کہ آپ اپنی کسی (اور) بیوی کے پاس چلے گئے ہیں، میں نے تلاش کیا، پھر آپ رکوع یا سجدے میں تھے، کہہ رہے تھے: سبحانک وبحمدک، لا إلہ إلا أنت میں نے کہا: آپ پہ میرے ماں باپ قربان! میں ایک کیفیت میں تھی اور آپ ایک ہی کیفیت میں تھے۔
ابن جریج سے روایت ہے کہ میں نے عطاء سے پوچھا، آپ رکوع میں کیا کہتے ہیں؟ اس نے کہا: سُبْحَانَكَ وَبِحَمْدِكَ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، کیونکہ مجھے ابن ابی ملکیہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت سنائی، ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر پر نہ پایا، میں نے خیال کیا، شاید آپصلی اللہ علیہ وسلم کسی بیوی کے پاس چلے گئے ہیں تو میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کیا، پھر واپس آئی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم رکوع یا سجدہ میں تھے اور فرما رہے تھے: سُبْحَانَكَ وَبِحَمْدِكَ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، تو اپنی حمد کے ساتھ، پاک ہے اور تیرے سوا کوئی عبادت کا حقدار نہیں ہے۔ تو میں نے کہا میرے ماں باپ آپصلی اللہ علیہ وسلم پر قربان، میں کیا سمجھ رہی تھی اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کس حال میں ہیں۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1089
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) افْتَقَدْتُ: اورفَقَدتُ، فقدان سے ہیں اور دونوں کا معنی ہے میں نے آپﷺ کو گم پایا، آپﷺ مجھے نہ ملے۔ (2) تَحَسَّسْتُ: حس سےہے، ڈھونڈنا، تلاش کرنا، تحس الشئي کا معنی ہوتا ہے، حواس سے پتہ لگانا۔ (3) شَأْنٍ: حال، کہتے میں ما شأنك: تمہارا کیا حال ہے، یعنی میں غیرت میں مبتلا تھی اور آپﷺ دنیا سے الگ تھلگ ہو کر اللہ تعالیٰ کے ساتھ رازونیاز میں مشغول تھے۔