حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا محمد بن بشر، حدثنا هشام بن سعد، حدثنا زيد، عن عطاء بن يسار، قال: قال لنا ابن عباس: اتحبون ان اريكم كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتوضا؟" فدعا بإناء فيه ماء، فاغترف غرفة بيده اليمنى فتمضمض واستنشق، ثم اخذ اخرى فجمع بها يديه ثم غسل وجهه، ثم اخذ اخرى فغسل بها يده اليمنى ثم اخذ اخرى فغسل بها يده اليسرى، ثم قبض قبضة من الماء ثم نفض يده ثم مسح بها راسه واذنيه، ثم قبض قبضة اخرى من الماء فرش على رجله اليمنى وفيها النعل ثم مسحها بيديه يد فوق القدم ويد تحت النعل ثم صنع باليسرى مثل ذلك". حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا زَيْدٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ: قَالَ لَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ: أَتُحِبُّونَ أَنْ أُرِيَكُمْ كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ؟" فَدَعَا بِإِنَاءٍ فِيهِ مَاءٌ، فَاغْتَرَفَ غَرْفَةً بِيَدِهِ الْيُمْنَى فَتَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ، ثُمَّ أَخَذَ أُخْرَى فَجَمَعَ بِهَا يَدَيْهِ ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ، ثُمَّ أَخَذَ أُخْرَى فَغَسَلَ بِهَا يَدَهُ الْيُمْنَى ثُمَّ أَخَذَ أُخْرَى فَغَسَلَ بِهَا يَدَهُ الْيُسْرَى، ثُمَّ قَبَضَ قَبْضَةً مِنَ الْمَاءِ ثُمَّ نَفَضَ يَدَهُ ثُمَّ مَسَحَ بِهَا رَأْسَهُ وَأُذُنَيْهِ، ثُمَّ قَبَضَ قَبْضَةً أُخْرَى مِنَ الْمَاءِ فَرَشَّ عَلَى رِجْلِهِ الْيُمْنَى وَفِيهَا النَّعْلُ ثُمَّ مَسَحَهَا بِيَدَيْهِ يَدٍ فَوْقَ الْقَدَمِ وَيَدٍ تَحْتَ النَّعْلِ ثُمَّ صَنَعَ بِالْيُسْرَى مِثْلَ ذَلِكَ".
عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ہم سے کہا: کیا تم پسند کرتے ہو کہ میں تمہیں دکھاؤں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح وضو کرتے تھے؟ پھر انہوں نے ایک برتن منگوایا جس میں پانی تھا اور داہنے ہاتھ سے ایک چلو پانی لے کر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، پھر ایک اور چلو پانی لے کر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا منہ دھویا، پھر ایک چلو اور پانی لیا اس سے اپنا داہنا ہاتھ دھویا، پھر ایک چلو اور لے کر بایاں ہاتھ دھویا، پھر تھوڑا سا پانی لے کر اپنا ہاتھ جھاڑا، اور اس سے اپنے سر اور دونوں کانوں کا مسح کیا، پھر ایک مٹھی پانی لے کر داہنے پاؤں پر ڈالا جس میں جوتا پہنے ہوئے تھے، پھر اس پر اپنے دونوں ہاتھوں کو اس طرح سے پھیرا کہ ایک ہاتھ پاؤں کے اوپر اور ایک ہاتھ نعل (جوتا) کے نیچے تھا، پھر بائیں پاؤں کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 7 (140)، سنن الترمذی/الطھارة 32 (42)، سنن النسائی/الطھارة 64 (80)، سنن ابن ماجہ/الطھارة 43 (403)، 45 (411)، مسند احمد (1/333، 332، 336) سنن الدارمی/الطھارة 29 (723)، (تحفة الأشراف: 5978) (حسن)» (پاؤں پر مسح کرنے کا ذکر شاذ ہے، مؤلف کے سوا اس کا ذکر کسی اور کے یہاں نہیں ہے، بلکہ بخاری میں”دھویا“ کا لفظ ہے)
وضاحت: ۱؎: یہ روایت باب کے مطابق نہیں کیونکہ اس میں اعضاء وضو کو دو دو بار دھونے کا ذکر نہیں ہے، (ناسخ کی غلطی سے آئندہ باب کی بجائے یہاں درج ہو گئی ہے، یہ وہی حدیث ہے جو نمبر (۱۳۸) پر اگلے باب کے تحت آ رہی ہے)۔
Ata bin Yasar quoting Ibn Abbas said: Do you like that I should show you how the Messenger of Allah ﷺ performed ablution? He then called for a vessel of water and took out a handful of water with his right hand. He then rinsed his mouth and snuffed up water. He then took out another handful of water and washed his face by both his hands together. He then took out another handful of water and washed his right hand and then washed his left hand by taking out another. He then took out some water and shook off his hand and wiped his head and ears with it. He then took out a handful of water and sprinkled it over his right foot in his shoe and wiped the upper part of the foot with his one hand, and beneath the shoe with his other hand. He then did the same with his left foot.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 137
قال الشيخ الألباني: حسن لكن مسح القدم شاذ
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن هشام بن سعد: وثقه الجمهور
توضأ فغسل وجهه أخذ غرفة من ماء فمضمض بها واستنشق ثم أخذ غرفة من ماء فجعل بها هكذا أضافها إلى يده الأخرى فغسل بهما وجهه ثم أخذ غرفة من ماء فغسل بها يده اليمنى ثم أخذ غرفة من ماء فغسل بها يده اليسرى ثم مسح برأسه ثم أخذ غرفة من ماء فرش على رجله اليمنى
أصغى الإناء على يده فغسلها ثم أدخل يده اليمنى فأفرغ بها على الأخرى ثم غسل كفيه ثم تمضمض واستنثر ثم أدخل يديه في الإناء جميعا فأخذ بهما حفنة من ماء فضرب بها على وجهه ثم ألقم إبهاميه ما أقبل من أذنيه ثم الثانية ثم الثالثة مثل ذلك
اغترف غرفة بيده اليمنى فتمضمض واستنشق ثم أخذ أخرى فجمع بها يديه ثم غسل وجهه ثم أخذ أخرى فغسل بها يده اليمنى ثم أخذ أخرى فغسل بها يده اليسرى ثم قبض قبضة من الماء ثم نفض يده ثم مسح بها رأسه وأذنيه ثم قبض قبضة أخرى من الماء فرش على رجله
توضأ رسول الله فغرف غرفة فمضمض واستنشق ثم غرف غرفة فغسل وجهه ثم غرف غرفة فغسل يده اليمنى ثم غرف غرفة فغسل يده اليسرى ثم مسح برأسه وأذنيه باطنهما بالسباحتين وظاهرهما بإبهاميه ثم غرف غرفة فغسل رجله اليمنى ثم غرف غرفة فغسل رجله اليسرى
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 137
فوائد و مسائل: اس روایت میں پیروں پر پانی چھڑک کر ان پر ہاتھوں سے مسح کرنے کا ذکر ہے، تو یہ دوسری روایات کے مخالف نہیں، کیونکہ پھر آپ نے ہاتھوں سے انہیں اس طرح ملا، جیسے دھونے میں کیا جاتا ہے، اس طرح اس میں «غَسل»(دھونے) کا مفہوم آ جاتا ہے۔ صحیح بخاری کی روایت سے اس کی وضاحت ہو جاتی ہے، اس میں ہے ” آپ نے ایک چلو پانی لیا اور اسے دائیں پاؤں پر چھڑکا، یہاں تک کہ اسے دھویا۔“[صحيح بخاري، حديث: 140، عون المعبود] البتہ اس میں آخری حصہ، جس میں پاؤں کے اوپر نیچے مسح کرنے کا ذکر ہے، شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک شاذ ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 137
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 117
´چہرے کے ساتھ کانوں کو بھی اندر کی جانب سے صاف کرنا` «. . . قَالَ: دَخَلَ عَلَيَّ عَلِيٌّ يَعْنِي ابْنَ أَبِي طَالِبٍ وَقَدْ أَهْرَاقَ الْمَاءَ، فَدَعَا بِوَضُوءٍ فَأَتَيْنَاهُ بِتَوْرٍ فِيهِ مَاءٌ حَتَّى وَضَعْنَاهُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، أَلَا أُرِيكَ كَيْفَ كَانَ يَتَوَضَّأُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْتُ: بَلَى . . .» ”. . . عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ استنجاء کر کے میرے پاس آئے، اور وضو کے لیے پانی مانگا، ہم ایک پیالہ لے کر ان کے پاس آئے جس میں پانی تھا یہاں تک کہ ہم نے انہیں ان کے سامنے رکھا تو انہوں نے مجھ سے کہا: اے ابن عباس! کیا میں تمہیں دکھاؤں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح وضو کرتے تھے؟ میں نے کہا: ہاں، ضرور دکھائیے . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 117]
فوائد و مسائل: ➊ یہ وضو ہے جو ہمارے ائمہ اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے اور خود اس کے قائل و فاعل تھے اور ہم بھی اسی پر کاربند ہیں۔ «الحمد لله على ذلك» ➋ اس روایت میں تین بار چہرہ دھو کر مزید ایک بار پانی بہانے کا ذکر آیا ہے۔ یہ بیان جواز کے لیے ہے جو شاید کبھی کبھی کیا گیا۔ راجح اور افضل صرف تین بار ہی ہے۔ نیز چہرے کے ساتھ کانوں کو بھی اندر کی جانب سے صاف کیا جا سکتا ہے۔ ➌ جب جوتا کھلی چپل کی مانند ہو تو اسے اتارے بغیر پانی میں ویسے ہی مل لیا جائے تو پاؤں دھل جاتے ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 117
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 140
´ایک ہی چلو سے کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا` «. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ تَوَضَّأَ فَغَسَلَ وَجْهَهُ، أَخَذَ غَرْفَةً مِنْ مَاءٍ فَمَضْمَضَ بِهَا وَاسْتَنْشَقَ . . . .» ”. . . انہوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا کہ (ایک مرتبہ) انہوں نے (یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہما نے) وضو کیا تو اپنا چہرہ دھویا (اس طرح کہ پہلے) پانی کے ایک چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی دیا . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ غَسْلِ الْوَجْهِ بِالْيَدَيْنِ مِنْ غَرْفَةٍ وَاحِدَةٍ:: 140]
� تشریح: «وفي هذاالحديث دليل الجمع بين المضمضة والاستنشاق بغرفة واحدة» یعنی اس حدیث میں ایک ہی چلو سے کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا ثابت ہوا۔ (قسطلانی رحمہ اللہ)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 140
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 157
´وضو میں ہر عضو کو ایک ایک دفعہ دھونا بھی ثابت ہے` «. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّةً مَرَّةً . . . .» ”. . . وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو میں ہر عضو کو ایک ایک مرتبہ دھویا . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ الْوُضُوءِ مَرَّةً مَرَّةً:: 157]
� تشریح: معلوم ہوا کہ اگر ایک ایک بار اعضاءکو دھو لیا جائے تو وضو ہو جاتا ہے۔ اگرچہ وہ ثواب نہیں ملتا جو تین تین دفعہ دھونے سے ملتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 157
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 101
´کان کے مسح کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے وضو کیا، تو اپنے دونوں ہاتھ دھوئے، پھر ایک ہی چلو سے کلی کی، اور ناک میں پانی ڈالا ۱؎، اور اپنا چہرہ دھویا، اور اپنے دونوں ہاتھ ایک ایک بار دھوئے، اور اپنے سر اور اپنے دونوں کانوں کا ایک بار مسح کیا۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 101]
101۔ اردو حاشیہ: ➊ «مِنْ غَرْفَةٍ وَاحِدَةٍ»”ایک چلو سے“۔ اس سے وصل ثابت ہوتا ہے جو کہ مسنون ہے، اگرچہ احناف اسے سنت نہیں سمجھتے۔ جس کی تفصیل حدیث: 93 کے فوائد میں گزر چکی ہے۔ ➋ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر اعضائے وضو کو ایک ایک مرتبہ دھویا جائے تو بھی وضو مکمل ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 101
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث403
´ایک چلو سے کلی کرنے اور ناک میں پانی چڑھانے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی چلو سے کلی کی، اور ناک میں پانی چڑھایا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 403]
اردو حاشہ: (1) حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ہاتھ میں پانی لیکر کچھ پانی سے کلی کرلی جائےاور باقی پانی ناک میں ڈال کر ناک صاف کی جائے۔ ناک کے لیے الگ سے پانی نہ لیا جائے۔ امام ترمذی ؒ نے فرمایا ہے کہ بعض علماء نے اس طریقے کو بہتر قرار دیا ہے بعض نے دوسرے کو۔ امام شافعی ؒ نے فرمایا اگر دونوں کام ایک ہی چلو سے کرلے تو جائز ہے۔ لیکن ہمیں الگ الگ پانی لینا زیادہ پسند ہے۔ (جامع الترمذي، الطهارة، باب المضمضة والاستنشاق من كف واحد، حديث: 28) حديث کی رو سے زیادہ بہتر یہی ہے کہ ایک ہی چلو سے کلی کی جائےاور ناک میں پانی ڈالا جائے کیونکہ ایک چلو سے کلی اور ناک صاف کرنے والی روایات سند کے لحاظ سے زیادہ قوی اور مستند ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 403
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث408
´ناک میں پانی چڑھانے اور ناک جھاڑنے میں مبالغہ کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو بار یا تین بار اچھی طرح ناک میں پانی چڑھا کر جھاڑو۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 408]
اردو حاشہ: (إِسْتِنْثَار) کا مطلب ہے کہ ناک سے پانی وغیرہ اس طرح نکالا جائے جس طرح سانس کے دوران میں ہوا ناک سے نکالی جاتی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 408
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث439
´کانوں کے مسح کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں کان کے اندرونی حصے کا مسح شہادت کی انگلیوں سے کیا، اور ان کے مقابل اپنے دونوں انگوٹھوں کو کانوں کے اوپری حصے پر پھیرا، اس طرح کان کے اندرونی اور اوپری دونوں حصوں کا مسح کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 439]
اردو حاشہ: (1) اس سے معلوم ہواکہ سر کے مسح کے ساتھ کانوں کا مسح بھی کرنا ہے۔
(2) کانوں کی اندرونی طرف سے وہ حصہ مراد ہےجو چہرے سے متصل ہونے کی وجہ سے دیکھنے والے کو نظر آتاہے۔ اور بیرونی طرف سے وہ حصہ مراد ہے جو سر سے متصل ہونے کی وجہ سے سامنے سے دیکھنے پر نظر نہیں آتا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 439
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 36
´دونوں کانوں کے بالائی اور اندرونی حصوں کے مسح کرنے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے سر کا اور اپنے دونوں کانوں کے بالائی اور اندرونی حصوں کا مسح کیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 36]
اردو حاشہ: 1؎: اس باب اور حدیث سے مؤلف کا مقصد اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ کانوں کے اندرونی حصے کو چہرہ کے ساتھ دھونے اور بیرونی حصے کو سر کے ساتھ مسح کرنے کے قائلین کا رد کریں، اس قول کے قائلین کی دلیل والی حدیث ضعیف ہے، اور نص کے مقابلہ میں قیاس جائز نہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 36
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 39
´انگلیوں کے (درمیان) خلال کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم وضو کرو تو اپنے ہاتھوں اور پیروں کی انگلیوں کے بیچ خلال کرو۔“[سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 39]
اردو حاشہ: نوٹ: (سند میں صالح مولی التوامہ مختلط راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 39
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 42
´اعضائے وضو کو ایک ایک بار دھونے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اعضائے وضو ایک ایک بار دھوئے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 42]
اردو حاشہ: 1؎: یہ فرض تعداد ہے نبی اکرم ﷺ کبھی کبھی بیان جواز کے لیے ایسا کرتے تھے، ورنہ سنت دو مرتبہ اور تین مرتبہ دھونا ہے۔
2؎: یعنی اعضائے وضو کو دھونے کے بارے میں زید بن اسلم کے طریق سے جو روایت آتی ہے، اس کے بارے میں صحیح بات یہی ہے کہ وہ مذکورہ سند سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مسند سے ہے، نہ کہ عمر رضی اللہ عنہ کی مسند سے، رشدین بن سعد ضعیف راوی ہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 42
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:140
140. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے وضو کیا اور اپنا منہ دھویا۔ اس طرح کہ پانی کا ایک چلو لے کر اس سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، پھر ایک اور چلو پانی لیا، ہاتھ ملا کر اس سے منہ دھویا، پھر ایک چلو پانی سے اپنا دایاں ہاتھ دھویا، پھر ایک اور چلو پانی لیا اور اس سے اپنا بایاں ہاتھ دھویا، پھر اپنے سر کا مسح کیا۔ بعد ازں ایک چلو پانی اپنے دائیں پاؤں پر ڈالا اور اسے دھویا، پھر دوسرا چلو پانی لے کر اپنا بایاں پاؤں دھویا۔ اس کے بعد کہنے لگے: میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:140]
حدیث حاشیہ: 1۔ ا س سے معلوم ہوا کہ وضو کے لیے دونوں ہاتھوں سے چلو بھرنا ضروری نہیں، نیز ان روایات کے ضعف کی طرف اشارہ ہے جن میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی ہاتھ سے اپنے چہرے کو دھوتے تھے۔ اگرچہ بعض حضرات نے ان احادیث کو جمع کرنے کی ایک صورت پیدا کی ہے لیکن سیاق وسباق سے اس جمع کی تائید نہیں ہوتی، اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پانی کا ایک چلو لے کرآدھے پانی سے کلی کی جائے اور آدھا چلو ناک صاف کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ (فتح الباري: 317/1) دراصل وضو کرنے کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں، ان تمام میں وضو کی ایک شکل نہیں ہو گی، مثلاً: بعض اوقات حوض یا ندی کے کنارے بیٹھ کر وضو کرنا ہوتا ہے اور بعض اوقات کسی برتن سے پانی لے کر وضو کیا جاتا ہے اور کبھی مسجد میں ٹونٹی وغیرہ سے وضو کرنے کی نوبت آ سکتی ہے، بہرحال پانی کے استعمال میں اسراف نہیں ہونا چاہیے۔ 2۔ عربی زبان میں ایک ہاتھ سے پانی لینے کو (غُرفَة) اور دونوں ہاتھوں سے پانی لینے کو (حَفنَه) کہا جاتا ہے۔ اردو میں ان د ونوں کے لیے علی الترتیب چلو اور لَپ کے الفاظ مستعمل ہیں۔ اس وضاحت کے بعد معلوم ہونا چاہیے کہ عنوان کے دو جز ہیں: (الف) ۔ منہ دھوتے وقت دونوں ہاتھوں کا استعمال۔ (ب) ۔ پانی ایک چلو سے لیا جائے۔ اس سے مسنون طریقے کی طرف اشارہ ہے کہ منہ دھونے کے لیے چلو بھر پانی کو دونوں ہاتھوں سے استعمال کرنا چاہیے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 140
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:157
157. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے وضو میں اعضاء کو ایک ایک بار دھویا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:157]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وضو کے آغاز میں اللہ کا نام لینے کے لیے بطور ثبوت جماع کے وقت دعا پڑھنے کا ذکر کیا تھا۔ چونکہ جماع کے بعد استنجاء کیا جاتا ہے، اس لیے استطراد کے طور پر قضائے حاجت کے آداب شروع کر دیے۔ ان سے فراغت کے بعد دوبارہ اصل مقصود یعنی آداب وضو کی طرف رجوع فرمایا: وضو کے متعلق یہ مضمون کہ اعضائے وضو کو ایک ایک مرتبہ دھویا جائے آغاز میں سند کے بغیر بیان ہوچکا ہے یعنی ایک ایک مرتبہ اعضاء دھونے سے فرض کی ادائیگی ہو جاتی ہے چونکہ ایک مسلمان کے لیے ہر وقت باوضو رہنا مطلوب اور پسندیدہ عمل ہے اس لیے استنجا کرنے کے بعد وضو کرتے وقت اعضائے وضو کے ایک ایک مرتبہ دھونے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ عام حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے وضو کرتے وقت اعضاء کو تین تین مرتبہ دھوتے تھے۔ ایک ایک مرتبہ دھونے کی تین صورتیں ممکن ہیں۔ 1۔ بیان جواز کے لیے۔ 2۔ پانی کم ہونے کے پیش نظر۔ 3۔ ہنگامی حالات کے وقت، بہرحال یہ بات ثابت شدہ ہے کہ نماز کی ادائیگی کے لیے وضو کرتے وقت اعضائے وضو کو کم ازکم ایک ایک مرتبہ دھونا ضروری ہے نیز یہ روایت مجمل ہے۔ تفصیلی روایت پہلے بیان ہو چکی ہے۔ (صحیح البخاري، الطهارة، حدیث: 140) اس وضاحت کے بعد ”امام تدبر“کی بھی سنیے جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر اعتراض کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ گویا امام صاحب کی مخالفت پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ ”قضائے حاجت کے مضمون کو طہارت اور وضو کے تحت بیان مناسب نہیں تھا۔ امام صاحب کو چاہیے تھا کہ اس مقصد کے لیے الگ عنوان قائم کرتے۔ “(تدبر حدیث: 259/1) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ”امام تدبر“کے نزدیک آداب قضائے حاجت کا طہارت اور وضو سے کوئی تعلق نہیں۔ دراصل مزعومہ تدبر کی آڑ میں حدیث اور اصحاب الحدیث کا استخفاف مقصود ہے جو ان حضرات کی تالیفات میں بکثرت موجود ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 157