● صحيح البخاري | 84 | عبد الله بن عباس | ذبحت قبل أن أرمي فأومأ بيده قال ولا حرج حلقت قبل أن أذبح فأومأ بيده ولا حرج |
● صحيح البخاري | 6666 | عبد الله بن عباس | لا حرج قال آخر حلقت قبل أن أذبح قال لا حرج ذبحت قبل أن أرمي قال لا حرج |
● صحيح البخاري | 1721 | عبد الله بن عباس | عمن حلق قبل أن يذبح ونحوه فقال لا حرج لا حرج |
● صحيح البخاري | 1735 | عبد الله بن عباس | لا حرج فسأله رجل فقال حلقت قبل أن أذبح قال اذبح ولا حرج رميت بعد ما أمسيت فقال لا حرج |
● صحيح البخاري | 1723 | عبد الله بن عباس | رميت بعد ما أمسيت فقال لا حرج حلقت قبل أن أنحر قال لا حرج |
● صحيح البخاري | 1734 | عبد الله بن عباس | في الذبح والحلق والرمي والتقديم والتأخير فقال لا حرج |
● صحيح مسلم | 3164 | عبد الله بن عباس | الذبح والحلق والرمي والتقديم والتأخير فقال لا حرج |
● سنن أبي داود | 1983 | عبد الله بن عباس | لا حرج فسأله رجل فقال إني حلقت قبل أن أذبح قال اذبح ولا حرج أمسيت ولم أرم قال ارم ولا حرج |
● سنن النسائى الصغرى | 3069 | عبد الله بن عباس | لا حرج حلقت قبل أن أذبح قال لا حرج رميت بعد ما أمسيت قال لا حرج |
● سنن ابن ماجه | 3050 | عبد الله بن عباس | لا حرج لا حرج حلقت قبل أن أذبح قال لا حرج قال رميت بعد ما أمسيت قال لا حرج |
● سنن ابن ماجه | 3049 | عبد الله بن عباس | ما سئل رسول الله عمن قدم شيئا قبل شيء إلا يلقي بيديه كلتيهما لا حرج |
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3069
´شام ہو جانے کے بعد رمی کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ منیٰ کے ایام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (حج کے مسائل) پوچھے جاتے تو آپ فرماتے ”کوئی حرج نہیں“، ایک شخص نے آپ سے پوچھا: میں نے قربانی کرنے سے پہلے ہی سر منڈا لیا؟ آپ نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں“، اور ایک دوسرے شخص نے کہا: شام ہو جانے کے بعد میں نے کنکریاں ماریں؟ آپ نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں۔“ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3069]
اردو حاشہ:
(1) رمی کا وقت تو دن ہے مگر دن میں رمی نہ ہو سکے تو رات کو کرنی پڑے گی، لیکن ایسا کسی مجبوری ہی کی بنا پر ہو سکتا ہے۔ یوم نحر کو چار کام بالترتیب کیے جاتے ہیں: رمی، قربانی، حجامت اور طواف وداع، البتہ اگر ترتیب میں فرق پڑ جائے تو اس روایت کی رو سے کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ ترتیب سنت ہے، فرض نہیں۔ اگرچہ جہالت یا غلطی سے ترتیب قائم نہ رہے تو وہ معذور ہے۔ اس پر کوئی تاوان نہیں۔ بعض فقہاء نے اس روایت کو گناہ کی نفی پر محمول کیا ہے اور بے ترتیبی کی صورت میں وہ جانور ذبح کرنے کے قائل ہیں، مگر کسی مرفوع روایت سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ جمہور اہل علم کسی تاوان کے قائل نہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ اگر قارن یا متمتع قربانی ذبح کرنے سے قبل حجامت بنوالے تو اسے بطور سزا جانور ذبح کرنا ہوگا۔ ﴿وَلا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ﴾ (البقرۃ:2: 196) لیکن اس سے مراد تو یہ ہے کہ عمداً ایسے نہیں کرنا چاہیے جیسا کہ وَ لَا تَحْلِقُوْا سے اشارہ ملتا ہے۔ وگرنہ سہواً یا لا علمی کی وجہ سے ایسے ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں جس طرح کہ رسول اللہﷺ کے فرمان عالی سے ظاہر ہوتا ہے۔ آپ شارع ہیں اور قرآن کی غرض کو یقینا جانتے تھے۔
(2) نبی اکرمﷺ نے کما حقہ دین کے احکام پہنچائے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس قدر اہتمام اور لگن سے سیکھے کہ سیکھنے کا حق ادا کر دیا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3069
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1723
1723. حضرت ابن عباس ؓ سے ایک اور روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ سے دریافت کیا گیا: کسی نے کہا: میں نے غروب آفتاب کے بعد کنکریاں ماری ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں۔“ اس نے عرض کیا: میں نے قربانی کرنے سے پہلے سر منڈوادیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1723]
حدیث حاشیہ:
قسطلانی نے کہا رمی کرنے کا افضل وقت زوال تک ہے اور غروب آفتاب سے قبل تک بھی عمدہ ہے اور اس کے بعد بھی جائز ہے اور حلق اور قصر اور طواف الزیارۃ کا وقت معین نہیں، لیکن یو م النحر سے ان کی تاخیر کرنا مکروہ ہے اور ایام تشرقی سے تاخیر کرنا سخت مکروہ ہے۔
غرض یوم النحر کے دن حاجی کو چار کام کرنے ہوتے ہیں رمی اور قربانی اور حلق یا قصر، ان چاروں میں ترتیب سنت ہے، لیکن فرض نہیں، اگر کوئی کام دوسرے سے آگے پیچھے ہو جائے تو کوئی حرج نہیں جیسے کہ ان حدیثوں سے نکلتا ہے۔
امام مالک اور شافعی اور اسحاق اور ہمارے امام احمد بن حنبل سب کا یہی قول ہے اور امام ابوحنيفہ کہتے ہیں کہ اس پر دم لازم آئے گا اور اگر قارن ہے تو دو دم لازم آئیں گے۔
(وحیدی)
جب شارع ؑ نے خود ایسی حالتوں میں لا حرج فرما دیا تو ایسے مواقع پر ایک یا دو دم لازم کرنا صحیح نہیں ہے آج کل معلمین حاجیوں کو ان بہانوں سے جس قدر پریشان کرتے ہیں اور ان سے روپیہ اینٹھتے ہیں یہ سب حرکتیں سخت ناپسندیدہ ہیں۔
فی الواقع کوئی شرعی کوتاہی قابل دم ہو تو وہ تو اپنی جگہ پر ٹھیک ہے مگر خواہ مخواہ ایسی چیزیں از خود پیدا کرنا بہت ہی معیوب ہے۔
اس حدیث سے مفتیان اسلام کو بھی سبق ملتا ہے، جہاں تک ممکن ہو فتوی دریافت کرنے والوں کے لیے کتاب و سنت کی روشنی میں آسانی و نرمی کا پہلو اختیار کریں مگر حدود شرعیہ میں کوئی بھی نرمی نہ ہونی چاہئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1723
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1735
1735. حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سے قربانی کے دن منیٰ کے میدان میں (تقدیم و تاخیر کے متعلق) دریافت کیا جاتا تو آپ فرماتے: ”کوئی حرج نہیں۔“ چنانچہ ایک شخص نے آپ سے دریافت کیا کہ میں نے قربانی کرنے سے قبل سر منڈوالیا ہے؟آپ نے فرمایا: ”اب ذبح کردو۔ کوئی حرج نہیں۔“ پھر اس نے کہا: میں نے شام ہونے کے بعد رمی کی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1735]
حدیث حاشیہ:
آپ ﷺ نے ان صورتوں میں نہ کوئی گناہ لازم کیا نہ فدیہ۔
اہل حدیث کا یہی مذہب ہے اور شافعیہ اور حنابلہ کا یہی مذہب ہے اور مالکیہ اور حنفیہ کا قول ہے کہ ان میں ترتیب واجب ہے اور اس کا خلاف کرنے والوں پر دم لازم ہوگا، ظاہر ہے کہ ان حضرات کا یہ قول حدیث ہذا کے خلاف ہونے کی وجہ سے قابل توجہ نہیں کیوں کہ ہوتے ہوئے مصطفی کی گفتار مت دیکھ کسی کا قول و کردار
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1735
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6666
6666. حضرت اابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سے کہا: میں رمی سے پہلے طواف زیارت کر لیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں“ ایک دوسرے نے کہا: میں نے قربانی ذبح کرنے سے پہلے اپنا سر منڈوا دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں“ تیسرے نے کہا: میں نے رمی کرنے سے پہلےاپنی قربانی کو ذبح کر ڈالا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6666]
حدیث حاشیہ:
یہ حجۃ الوداع کی باتیں ہیں۔
ان سے دین کی آسان ہونے کی طرف اشارہ ہے اور ان علماء کرام کے لیے قابل توجہ ہے جو ذرا ذرا سی باتوں میں نہ صرف لوگوں سے گرفت کرتے بلکہ فسق اور کفر کے تیر چلانے لگ جاتے ہیں۔
آج کے دور نازک میں بہت دور رس نگاہوں کی ضرورت ہے۔
اللہ پاک علماء اسلام کو یہ مرتبہ عطاء کرے۔
(آمین)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6666
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:84
84. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی ﷺ سے پوچھا گیا: میں نے رمی سے پہلے ذبح کر لیا ہے؟ آپ نے ہاتھ سے اشارہ فرمایا: ”کوئی گناہ نہیں۔“ پھر کسی نے کہا: میں نے ذبح سے پہلے اپنا سر منڈوا لیا ہے؟ آپ نے ہاتھ سے اشارہ فرمایا: ”کوئی گناہ نہیں ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:84]
حدیث حاشیہ:
تعلیم وتبلیغ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ خوب کھول کھول کر ارشاد فرماتے تاکہ حاضرین کو سمجھنےمیں کوئی دقت پیش نہ آئے۔
ہاتھ کے اشارے میں وہ صراحت نہیں ہوتی، نہ ہر انسان اسے سمجھ ہی سکتا ہے۔
ان تمام اشتباہات کے پیش نظر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بوقت ضرورت ہی اس کا جواز ثابت کیا ہے، عام حالات میں نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 84
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1723
1723. حضرت ابن عباس ؓ سے ایک اور روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ سے دریافت کیا گیا: کسی نے کہا: میں نے غروب آفتاب کے بعد کنکریاں ماری ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں۔“ اس نے عرض کیا: میں نے قربانی کرنے سے پہلے سر منڈوادیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1723]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے مذکورہ حدیث کو چھ طرق سے بیان کیا، کچھ متن کے ساتھ اور کچھ متن کے بغیر۔
چھ طرق اس طرح ہیں:
(1)
عبدالعزيز بن رفيع، عن عطاء، عن ابن عباس۔
(2)
قيس بن سعد، عن عطاء، عن جابر۔
(3)
ابن خثيم، عن عطاء، عن ابن عباس۔
(4)
عباد بن منصور، عن عطاء، عن جابر۔
(5)
ابن خثيم، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس۔
(6)
عكرمة، عن ابن عباس۔
تیسرے طریق سے یہ روایت معلق بیان ہوئی ہے جسے علامہ اسماعیلی نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔
چوتھے طریق کی معلق روایت کو امام احمد نے اپنی مسند میں بیان کیا ہے۔
پانچویں طریق کی معلق روایت کو سنن نسائی میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔
(عمدةالقاري: 335/7)
مذکورہ تمام روایات حجۃ الوداع سے متعلق ہیں۔
اس سال لوگوں کی کثیر تعداد حج میں شامل ہوئی۔
بعض نے ناواقفیت کی وجہ سے دسویں ذوالحجہ کے کام آگے پیچھے کر لیے کیونکہ اس دن پہلے رمی کی جاتی ہے، پھر قربانی ذبح کرنی ہوتی ہے، اس کے بعد حجامت بنوانا، پھر آخر میں طواف زیارت کرنا ہوتا ہے، نیز اس دن رمی بھی غروب آفتاب سے پہلے کرنی ہوتی ہے لیکن ناواقفیت کی وجہ سے اگر ان افعال کو آگے پیچھے کر لیا جائے تو کوئی حرج نہیں جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ دسویں ذوالحجہ کو منیٰ میں لوگوں کے لیے تشریف لائے، ایک آدمی آیا اور اس نے عرض کی:
اللہ کے رسول! میں نے لاعلمی کی بنا پر قربانی سے قبل اپنا سر منڈوا دیا ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
”اب ذبح کر دے کوئی حرج نہیں۔
“ دوسرے نے عرض کی:
اللہ کے رسول! ناواقفیت کی وجہ سے میں نے رمی کرنے سے پہلے قربانی کر دی ہے۔
آپ نے فرمایا:
”اب رمی کر لو کوئی حرج نہیں۔
“ اس دن آپ سے اس تقدیم و تاخیر کے متعلق جو بھی سوال ہوا تو آپ نے یہی جواب دیا کہ جاؤ اب کر لو اس میں کوئی حرج نہیں۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3156(1306)
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے قربانی کرنے، سر منڈوانے، کنکریاں مارنے اور ان میں تقدیم و تاخیر کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
”کوئی حرج نہیں“ (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1734) (2)
امام بخاری ان احادیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ قربانی سر منڈوانے سے پہلے کرنی چاہیے کیونکہ سائل کے سوال کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے اس بات کا علم تھا کہ قربانی حلق سے پہلے ہے لیکن اس نے اس کے برعکس کر لیا تھا۔
امام بخاری ؒ کے استدلال کی یہی بنیاد ہے، چنانچہ حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سر منڈوانے سے پہلے قربانی کی اور اپنے صحابہ کرام کو بھی اس کا حکم دیا۔
(صحیح البخاري، المحصر، حدیث: 1811)
اگرچہ مذکورہ ترتیب عمرۂ حدیبیہ کے موقع کی ہے، تاہم حج میں بھی مسنون ترتیب یہی ہے جیسا کہ علامہ البانی ؒ نے اسے ثابت کیا ہے۔
(حجةالنبي صلی اللہ علیه وسلم للألباني،ص: 85)
الغرض یہ ترتیب مسنون ہے، فرض نہیں۔
اگر کوئی کام آگے پیچھے ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1723
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1735
1735. حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سے قربانی کے دن منیٰ کے میدان میں (تقدیم و تاخیر کے متعلق) دریافت کیا جاتا تو آپ فرماتے: ”کوئی حرج نہیں۔“ چنانچہ ایک شخص نے آپ سے دریافت کیا کہ میں نے قربانی کرنے سے قبل سر منڈوالیا ہے؟آپ نے فرمایا: ”اب ذبح کردو۔ کوئی حرج نہیں۔“ پھر اس نے کہا: میں نے شام ہونے کے بعد رمی کی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1735]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ واقعہ حجۃ الوداع کا ہے۔
لوگ مکہ اور اس کے مضافات حجاز کے اطراف و اکناف سے آئے تھے اور احکام حج سے پوری طرح واقف نہ تھے۔
جب دسویں تاریخ کو مناسک حج ادا کرنے میں تقدیم و تاخیر ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لاعلمی اور بھول کی وجہ سے تقدیم و تاخیر میں کوئی گناہ نہیں اور نہ اس سے کوئی فدیہ ہی لازم آتا ہے۔
(2)
اس روایت میں بھول کر یا جہالت کی بنا پر کوئی کام کرنے کا ذکر نہیں ہے، تاہم اسی روایت کے بعض طرق میں بھول اور جہالت کی صراحت ہے، چنانچہ امام بخاری ؒ نے خود اس روایت کو بیان کیا ہے جس میں نسیان اور لاعلمی کا ذکر ہے۔
دیکھیے:
(حدیث: 1736) (3)
بعض حضرات کے نزدیک دسویں تاریخ کے مناسک میں ترتیب واجب ہے اور اس کے برعکس کرنے پر دم واجب ہو گا لیکن یہ موقف صحیح اور صریح احادیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے قابل التفات نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1735
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6666
6666. حضرت اابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سے کہا: میں رمی سے پہلے طواف زیارت کر لیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں“ ایک دوسرے نے کہا: میں نے قربانی ذبح کرنے سے پہلے اپنا سر منڈوا دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں“ تیسرے نے کہا: میں نے رمی کرنے سے پہلےاپنی قربانی کو ذبح کر ڈالا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6666]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ تمام واقعات حجۃ الوداع کے موقع پر پیش آئے۔
ان سے دین اسلام کے آسان ہونے کی طرف اشارہ ہے۔
اس نازک دور میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح بہت دوررس نگاہوں کی ضرورت ہے۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خطا کرنے والے اور نسیان کا شکار ہونے والے پر کوئی مؤاخذہ نہیں حتی کہ فرض ادا کرنے میں اگر بھول چوک سے تقصیر ہو جائے تو وہ بھی قابل مؤاخذہ نہیں ہے، اس لیے اگر بھول کی بنا پر قسم ٹوٹ جائے تو اس پر کوئی کفارہ لازم نہیں ہو گا۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی مقصد کے لیے یہ حدیث پیش کی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6666