269. حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انهوں نے فرمایا: مجھے مذی بکثرت آتی تھی۔ چونکہ میرے گھر میں نبی ﷺ کی صاجزادی تھیں، اس لیے میں نے ایک شخص سے کہا کہ وہ آپ سے اس کے متعلق سوال کرے۔ انهوں نے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”وضو کر لو اور اپنے عضو مخصوص کو دھو لو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:269]
حدیث حاشیہ: 1۔
مذی اس رطوبت کوکہتے ہیں جو بیوی سے ملاعبت اور بوس وکنار کے وقت خارج ہوتی ہے۔
اس میں اور منی میں کئی لحاظ سے فرق ہے:
*۔
منی گاڑھی لیس دار ہوتی ہے، جبکہ مذی ایک رقیق لیس دار مادہ ہے۔
*۔
منی بھر پور شہوت سے خارج ہوتی ہے، جبکہ مذی میں شہوت کمزور ہوتی ہے۔
*۔
منی کے خروج سے غسل واجب ہوتا ہے، جبکہ مذی سے صرف وضو کرنا ضروری ہے۔
*۔
منی کی طہارت کھرچنے سے بھی ہوسکتی ہے، جبکہ مذی کو دھونا ضروری ہے۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی ؓ نے خود بھی سوال کیا تھا، لیکن مذکورہ حدیث میں ہے کہ حضرت علی ؓ رسول اللہ ﷺ سے تعلق دامادی کی بنا پر براہ راست خود اس قسم کا سوال کرنے سے شرماتے تھے۔
محدثین نے تطبیق کی یہ صورت نکالی ہے کہ پہلے آپ نے حضرت عمار ؓ اور حضرت مقداد ؓ سے سوال کرنے کے متعلق کہا، جب ان کے دریافت کرنے پر جواب مل گیا تو مزید اطمینان کے لیے کسی موقع پر خود بھی دریافت کر لیا ہو گا۔
صحیح اور صریح احادیث کے پیش نظر تینوں کی طرف سوال کی نسبت حقیقی ہے۔
(عمدۃ القاري: 44/3) 2۔
علامہ عینی ؒ نے اس حدیث سے مندرجہ ذیل مسائل کا استنباط کیا ہے:
۔
مسئلہ پوچھنے میں دوسروں کو وکیل بنایا جا سکتا ہے۔
۔
خبر مقطوع پر قدرت کے باوجود خبر مظنون پر اعتماد درست ہے۔
۔
دامادی اور سسرالی رشتوں کی رعایت کرنا ایک اچھااقدام ہے۔
۔
شوہر کو خاص طورپر نسوانی تعلق کی باتیں اپنے قریبی
(سسرالی) رشتے داروں کے سامنے نہیں کہنی چائیں۔
۔
مذی کے خروج سے صرف وضو واجب ہوتا ہے، غسل کی ضرورت نہیں۔
۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو رسول اللہ ﷺ کی انتہائی تعظیم وتوقیر ملحوظ ہوا کرتی تھی۔
۔
شرم وحیا کی بات براہ راست نہ کرنے میں ادب واحترام کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔
(عمدة القاري: 45/3)