عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”کسی مالدار کے لیے مانگنا جائز نہیں اور نہ کسی طاقتور اور صحیح سالم شخص کے لیے مانگنا جائز ہے
“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عبداللہ بن عمرو کی حدیث حسن ہے،
۲- اور شعبہ نے بھی یہ حدیث اسی سند سے سعد بن ابراہیم سے روایت کی ہے، لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے،
۳- اس باب میں ابوہریرہ، حبشی بن جنادہ اور قبیصہ بن مخارق رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- اور اس حدیث کے علاوہ میں نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ
”کسی مالدار کے لیے مانگنا جائز نہیں اور نہ کسی ہٹے کٹے کے لیے مانگنا جائز ہے
“ اور جب آدمی طاقتور و توانا ہو لیکن محتاج ہو اور اس کے پاس کچھ نہ ہو اور اسے صدقہ دیا جائے تو اہل علم کے نزدیک اس دینے والے کی زکاۃ ادا ہو جائے گی۔ بعض اہل علم نے اس حدیث کی توجیہ یہ کی ہے کہ
«لا تحل له الصدقة» کا مطلب ہے کہ اس کے لیے مانگنا درست نہیں ہے
۲؎۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1634
´زکاۃ کسے دی جائے؟ اور غنی (مالداری) کسے کہتے ہیں؟`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صدقہ مالدار کے لیے حلال نہیں اور نہ طاقتور اور مضبوط آدمی کے لیے (حلال ہے)۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے سفیان نے سعد بن ابراہیم سے ایسے ہی روایت کیا ہے جیسے ابراہیم نے کہا ہے نیز اسے شعبہ نے سعد سے روایت کیا ہے، اس میں «لذي مرة سوي» کے بجائے «لذي مرة قوي» کے الفاظ ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی بعض روایات میں «لذي مرة قوي» اور بعض میں «لذي مرة سوي» کے الفاظ ہیں۔ عطا بن زہیر کہتے ہیں: عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا: «إن الصدقة لا تحل لقوي ولا لذي مرة سوي» ۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1634]
1634. اردو حاشیہ: (قوی) سے مراد جسمانی طاقت (مرۃ) مراد کمانے کی طاقت اور (سوی) سے مراد صحیح الاعضاء ہونا ہے۔ اور ایسے افراد کو بغیرشرعی استحقاق کے سوال کرنا حرام اور بغیر شرعی جواز کے صدقہ دینا ناناجائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1634