وضاحت: ۱؎: ترمذی نے یہ حدیث مختصراً روایت کی ہے شیخین نے اسے «جریر عن منصور عن مجاہد» کے طریق سے مفصلاً روایت کی ہے صحیح بخاری کے الفاظ یہ ہیں «قال: دخلت أنا وعروۃ بن الزبیر المسجد فإذا عبداللہ بن عمر جالس إلی حجرۃ عائشۃ، وإذا ناس یصلون فی المسجد صلاۃ الضحیٰ، قال: فسألناہ عن صلاتہم فقال: بدعۃ، ثم قال لہ: کم اعتمر النبي صلى الله عليه وسلم قال: اربع احداہن فی رجب، فکرہنا أن نردعلیہ وقال: سمعنا استنان عائشۃ أم المؤمنین فی الحجرۃ فقال عروۃ: یا أم المؤمنین! ألاتسمعین ما یقول ابوعبدالرحمٰن؟ قالت: مایقول؟ قال: یقول: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم اعتمر أربع عمرات إحداہن فی رجب، قالت: - یرحمہ اللہ اباعبدالرحمٰن - ما اعتمر عمرۃ إلا وہو شاہد، وما اعتمرفی رجب قط» ۔ مجاہد کہتے ہیں کہ میں اور عروہ بن زبیر مسجد نبوی میں داخل ہوئے اور عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کو عائشہ رضی الله عنہا کے حجرے کے پاس بیٹھا پایا، لوگ مسجد میں نماز الضحی (چاشت کی نماز) پڑھ رہے تھے، ہم نے ابن عمر رضی الله عنہما سے ان لوگوں کی نماز کے بارے میں پوچھا، فرمایا: یہ بدعت ہے، پھر مجاہد نے ان سے پوچھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کئے تھے؟ کہا: چار عمرے ایک ماہ رجب میں تھا، ہم نے یہ ناپسند کیا کہ ان کی تردید کریں، ہم نے ام المؤمنین عائشہ کی حجرے میں آواز سنی تو عروہ نے کہا: ام المؤمنین ابوعبدالرحمٰن ابن عمر جو کہہ رہے ہیں کیا آپ اسے سن رہی ہیں؟ کہا: کیا کہہ رہے ہیں؟، کہا کہہ رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کئے ایک رجب میں تھا فرمایا: اللہ ابوعبدالرحمٰن ابن عمر پر اپنا رحم فرمائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر عمرہ میں وہ حاضر تھے (پھر بھی یہ بات کہہ رہے ہیں) آپ نے رجب میں ہرگز عمرہ نہیں کیا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ولكنه مختصر من السياق الذى قبله، وفيه انكار عائشة عمرة رجب
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 937
اردو حاشہ: 1؎: ترمذی نے یہ حدیث مختصراً روایت کی ہے شیخین نے اسے جریرعن منصورعن مجاہدکے طریق سے مفصلاً روایت کی ہے صحیح بخاری کے الفاظ یہ ہیں'قال: دخلت أنا وعروۃ بن الزبیرالمسجد فإذا عبداللہ بن عمرجالس إلی حجرۃ عائشۃ، وإذا ناس یصلون فی المسجد صلاۃ الضحیٰ، قال: فسألناہ عن صلاتہم فقال: بدعۃ، ثم قال لہ: کم اعتمرالنبیﷺ قال: اربع احداہن فی رجب، فکرہناأن نردّعلیہ وقال: سمعنااستنان عائشۃ أم المومنین فی الحجرۃ فقال عروۃ: یا أم المومنین! ألاتسمعین ما یقول ابوعبدالرحمن؟ قالت: مایقول؟ قال: یقول: أن رسول اللہﷺ اعتمر أربع عمرات إحداہن فی رجب، قالت: -یرحمہ اللہ اباعبدالرحمن- مااعتمر عمرۃ إلا وہو شاہد، وما اعتمرفی رجب قط'۔ (مجاہدکہتے ہیں کہ میں اورعروہ بن زبیرمسجدنبوی میں داخل ہوئے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کو عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کے پاس بیٹھاپایا، لوگ مسجد میں صلاۃ الضحی (چاشت کی صلاۃ) پڑھ رہے تھے، ہم نے ابن عمر رضی اللہ عنہا سے ان لوگوں کی صلاۃ کے بارے میں پوچھا، فرمایا: یہ بدعت ہے، پھرمجاہد نے ان سے پوچھانبی اکرمﷺ نے کتنے عمرے کئے تھے؟ کہا: چارعمرے ایک ماہ رجب میں تھا، ہم نے یہ ناپسند کیا کہ ان کی تردید کریں، ہم نے ام المومنین عائشہ کی حجرے میں آواز سنی تو عروہ نے کہا: ام المومنین ابوعبدالرحمن ابن عمرجوکہہ رہے ہیں کیا آپ اسے سن رہی ہیں؟ کہا: کیا کہہ رہے ہیں، کہا کہہ رہے کہ رسول اللہﷺ نے چارعمرے کئے ایک رجب میں تھافرمایا: ابوعبدالرحمن ابن عمرپراپنا رحم فرماتے، رسول اللہﷺ کے ہرعمرہ میں وہ حاضرتھے (پھر بھی یہ بات کہہ رہے ہیں) آپ نے رجب میں ہرگزعمرہ نہیں کیا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 937
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1774
1774. حضرت عکرمہ بن خالد سے روایت ہے، انھوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے دریافت کیا کہ حج سے پہلے عمرہ کیا جاسکتا ہے؟انھوں نے فرمایا: کوئی حرج نہیں ہے۔ عکرمہ نے کہا کہ حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حج کرنے سے پہلے عمرہ کیاتھا۔ محمد بن اسحاق بھی حضرت عکرمہ بن خالد سے اسی طرح بیان کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1774]
حدیث حاشیہ: حضرت عبداللہ بن مبارک مروزی ہیں۔ بنی حنظلہ کے آزاد کردہ ہیں، ہشام بن عروہ، امام مالک، ثوری، شعبہ اور اوزاعی اور ان کے ماسوا بہت سے لوگوں سے حدیث کو سنا اور ان سے سفیان بن عیینہ اور یحییٰ بن سعید اور یحییٰ بن معین وغیرہ روایت کرتے ہیں، ان علماءمیں سے ہیں جن کو قرآن مجید میں علماءربانین سے یاد کیا گیا ہے، اپنے زمانہ کے امام اور پختہ کار فقیہ اور حافظ حدیث تھے، ساتھ ہی زاہد کامل اور قابل فخر سخی اور اخلاق فاضلہ کے مجسمہ تھے۔ اسماعیل بن عیاش نے کہا کہ روئے زمین پر ان کے زمانہ میں کوئی ان جیسا باخدا عالم مسلمانوں میں نہ تھا۔ خیر کی کوئی ایسی خصلت نہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کو نہ بخشی ہو، ان کے شاگردوں کی بھی کثیر تعداد ہے۔ عرصہ تک بغداد میں درس حدیث دیا۔ ان کا سال پیدائش118ھ ہے اور181ھ میں وفات پائی، اللہ پاک فردوس بریں میں آپ کے بہترین مقامات میں اضافہ فرمائے اور ہم کو ایسے بزرگوں کے ساتھ محشور کرے، آمین۔ صد افسوس کہ آج ایسے بزرگوں اور باخدا حضرات سے امت محروم ہے، کاش! اللہ پاک پھر ایسے بزرگ پیدا کرے اور امت کو پھر ایسے بزرگوں کے علوم سے نور ایقان عطا کرے۔ آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1774
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1774
1774. حضرت عکرمہ بن خالد سے روایت ہے، انھوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے دریافت کیا کہ حج سے پہلے عمرہ کیا جاسکتا ہے؟انھوں نے فرمایا: کوئی حرج نہیں ہے۔ عکرمہ نے کہا کہ حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حج کرنے سے پہلے عمرہ کیاتھا۔ محمد بن اسحاق بھی حضرت عکرمہ بن خالد سے اسی طرح بیان کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1774]
حدیث حاشیہ: (1) اس روایت سے معلوم ہوا کہ حج کرنے سے پہلے عمرہ ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ مسند احمد میں اس کی تفصیل ہے: حضرت عکرمہ بن خالد کہتے ہیں: میں اہل مکہ کے ایک گروہ کے ساتھ مدینے آیا تو میں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے ملاقات کی۔ میں نے کہا: ہم نے کبھی حج نہیں کیا، آیا ہم مدینہ منورہ سے عمرے کا احرام باندھ لیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے بھی حج ادا کرنے سے پہلے عمرہ ادا کیا تھا۔ حضرت عکرمہ کہتے ہیں کہ ہم نے مدینے سے عمرے کا احرام باندھا اور اس کی تکمیل کی۔ (مسندأحمد: 158/2)(2) ان روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عمرہ کرنے سے پہلے رسول اللہ ﷺ پر حج فرض ہو چکا تھا۔ اسی صورت میں استدلال صحیح ہو سکے گا۔ (فتح الباري: 756/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1774