حدثنا هناد، حدثنا ابو الاحوص، عن ابي إسحاق، عن الحارث، عن علي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " للمسلم على المسلم ست بالمعروف: يسلم عليه إذا لقيه، ويجيبه إذا دعاه، ويشمته إذا عطس، ويعوده إذا مرض، ويتبع جنازته إذا مات، ويحب له ما يحب لنفسه "، وفي الباب، عن ابي هريرة، وابي ايوب، والبراء، وابي مسعود، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وقد روي من غير وجه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وقد تكلم بعضهم في الحارث الاعور.حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِلْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ بِالْمَعْرُوفِ: يُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِذَا لَقِيَهُ، وَيُجِيبُهُ إِذَا دَعَاهُ، وَيُشَمِّتُهُ إِذَا عَطَسَ، وَيَعُودُهُ إِذَا مَرِضَ، وَيَتْبَعُ جَنَازَتَهُ إِذَا مَاتَ، وَيُحِبُّ لَهُ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ "، وَفِي الْبَابِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي أَيُّوبَ، وَالْبَرَاءِ، وَأَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُهُمْ فِي الْحَارِثِ الْأَعْوَرِ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر حسن سلوک کے چھ عمومی حقوق ہیں، (۱) جب اس سے ملاقات ہو تو اسے سلام کرے، (۲) جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت کو قبول کرے، (۳) جب اسے چھینک آئے (اور وہ «الحمد لله» کہے) تو «يرحمك الله» کہہ کر اس کی چھینک کا جواب دے، (۴) جب وہ بیمار پڑ جائے تو اس کی عیادت کرے، (۵) جب وہ مر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ (قبرستان) جائے، (۶) اور اس کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہو“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- یہ حدیث متعدد سندوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے، ۳- بعض محدثین نے حارث اعور سے متعلق کلام کیا ہے، ۴- اور اس باب میں ابوہریرہ، ابوایوب، براء اور ابن مسعود رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجنائز 1 (1433) (تحفة الأشراف: 10044)، و مسند احمد (1/89)، وسنن الدارمی/الاستئذان 5 (2675) (صحیح) (حارث بن عبداللہ أعور ضعیف راوی ہے، اور ابواسحاق سبیعی مدلس اور مختلط راوی ہیں، مؤلف نے حارث بن عبداللہ أعور کی تضعیف کا ذکر کیا ہے، اور شواہد کا بھی ذکر ہے، اور اسی لیے حدیث کی تحسین کی ہے، اور صحیح لغیرہ ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحة 1832، اور دیکھئے اگلی حدیث)»
وضاحت: ۱؎: یہ حقوق ایسے ہیں کہ ان پر عمل کرنے سے باہمی اخوت و محبت کی رسی مضبوط ہوتی ہے، حدیث میں بیان کردہ حقوق بظاہر بڑے نہیں ہیں لیکن انجام اور نتیجے کے اعتبار سے بہت بڑے ہیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1433) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (301)، المشكاة (4643)، الصحيحة (73) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2736) إسناده ضعيف / جه 1433 الحارث الأعور ضعيف (تقدم:282) و حديث مسلم (2162) يغني عنه
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2736
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یہ حقوق ایسے ہیں کہ ان پرعمل کرنے سے باہمی اخوت ومحبت کی رسی مضبوط ہوتی ہے، حدیث میں بیان کردہ حقوق بظاہر بڑے نہیں ہیں لیکن انجام اور نتیجے کے اعتبارسے بہت بڑے ہیں۔
نوٹ:
(حارث بن عبداللہ أعور ضعیف راوی ہے، اور ابواسحاق سبیعی مدلس اور مختلط راوی ہیں۔
مؤلف نے حارث بن عبداللہ أعور کی تضعیف کا ذکر کیا ہے، اورشواہد کا بھی ذکر ہے، اور اسی لیے حدیث کی تحسین کی ہے، اور صحیح لغیرہ ہے، ملاحظہ ہو: (الصحیحة 1832، ) اوردیکھئے اگلی حدیث)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2736
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1433
´مریض کی عیادت کا بیان۔` علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کی مسلمان پر حسن سلوک کے چھ حقوق ہیں: ۱۔ جب اس سے ملاقات ہو تو اسے سلام کرے، ۲۔ جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کرے، ۳۔ جب وہ چھینکے اور «الحمد لله» کہے تو جواب میں «يرحمك الله» کہے، ۴۔ جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت (بیمار پرسی) کرے، ۵۔ جب اس کا انتقال ہو جائے تو اس کے جنازہ کے ساتھ جائے، ۶۔ اور اس کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1433]
اردو حاشہ: (1) مسلمان معاشرے میں امن قائم رکھنے کےلئے ضروری ہے کہ تمام مسلمان ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں۔ مسلمانوں کے تعلقات کوصحیح رکھنے کےلئے رسول اللہ ﷺ نے بہت سی چیزیں بتائی ہیں۔ جن میں یہ چیزیں بھی شامل ہیں۔ ان کی اہمیت کی وجہ سے انھیں مسلمان کا حق قرار دیا گیا ہے۔ تاکہ ہرمسلمان دوسرے بھائی کے بارے میں ان امور کا خیال رکھے جس کے نتیجے میں باہمی محبت قائم ہوگی۔ اور لڑایئاں جھگڑے ختم ہوکر امن قائم ہوجائے گا۔
(2) سلام ایک دعا ہے جب مسلمان اپنے بھائی سے ملتا ہے تو اسے سلامتی کی دُعا دیتا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے۔ کہ اس کے دل میں اس بھائی کے لئے نفرت یا بغض نہیں ہے۔ یعنی مسلمان کا فرض ہے۔ کہ وہ دوسرے مسلمان کےلئے بُرا نہ سوچے۔ تبھی وہ سلام کا حق ادا کرسکے گا۔ جس کوسلام کیاجائے۔ اس کا بھی فرض ہے۔ کہ انہی جذبات کے ساتھ سلام کا جواب دے۔ دیکھئے: (حدیث: 1435)
(3) سلام کے آداب میں یہ بھی ہے۔ کہ چھوٹا بڑے کو، سوار پیدل کو، چلنے والا بیٹھنے والے کو اور چھوٹی جماعت بڑی جماعت کوسلام کہے۔ دیکھئے: (صحیح البخاري، الإستئذان، باب تسلیم القلیل علی الکثیر، حدیث: 6231، وباب یسلم الراکب علی الماشي، حدیث: 6232)
(4) دعوت سے مُراد کھانے کی دعوت ہے۔ یہ دعوت کسی امیر آدمی کی طرف سے دی جائے۔ یا غریب آدمی کی طرف سے اسے قبول کرنا چاہیے۔ خواہ وہ معمولی کھانا ہی پیش کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ اگر مجھے بکری کے ایک پائے کی دعوت دی جائے۔ تو میں اس (دعوت) کو قبول کروں گا۔ اور اگر مجھے تحفہ کے طور پربکری کا ایک پایا دیا جائے تو اسے قبول کروں گا (صحیح البخاري، النکاح، باب من أجاب إلی کراع، حدیث: 5178)
(5)(ويجيبه اذا دعاه) کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے۔ کہ جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو پُکارے تو وہ اس کی بات سے یعنی سنی ان سنی نہ کردے۔ ممکن ہے اسے کسی مدد یا مشورے کی ضرورت ہو۔ اگر مدد کرنا یا مشورہ دینا ممکن ہوا تواس کا بھلا ہوجائے گا۔ اور مدد کرنے یا مشورہ دینے والے کو ثواب مل جائے گا۔
(6) چھینک پر دعا دینے کا مطلب یہ ہے کہ جسے چھینک آئے وہ (الحمدللہ) کہے تو دوسرے کو چاہیے کہ ضرور (یرحمک اللہ) کہے یعنی اللہ تجھ پر رحمت فرمائے۔ یہ مسلمان کی مسلمان کے لئے دعا ہے۔ جب (یرحمک اللہ) کہا جائے تو چھینکنے والے کو چاہیےکہ یوں کہے۔ (يَهْدِيْكُمُ اللهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُم) اللہ تمہاری رہنمائی فرمائے۔ اور تمہارے کام سنوارے۔ (صحیح البخاري، الأدب، باب إذا عطس کیف یشمِّتُ؟، حدیث: 6224) اگر چھینکنے والا (الحمد للہ) نہ کہے۔ تو اسے (یرحمک اللہ) نہ کہا جائے۔ دیکھئے: (صحیح مسلم، الزھد والرقائق، باب تشمیت العاطس وکراھة التناوب، حدیث: 2991)
(8) بیمار کی خیریت معلوم کرنے کے لئے جانا بھی بیمار مسلمان کا دوسروں پر حق ہے۔ اس موقع پرمریض کو تسلی تشفی دینا اور اس کےلئے دعا کرنا مسنون ہے مثلاً یہ کہنا (لاَبَأسَ طهُورٌ إِنْ شَاءَ الله تَعاليٰ) کوئی حرج نہیں۔ اللہ نے چاہا تو (یہ بیماری گناہوں سے) پاک کرنے والی ہے۔ (صحیح البخاري، المرض، باب عيادۃ الأعراب، حدیث: 5656) اور یہ دعا بھی دینی چاہیے۔ (أَذْهِبِ البَاسَ رَبَّ النَّاسِ، اشْفِ وَأَنْتَ الشَّافِي، لاَ شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لاَ يُغَادِرُ سَقَمًا) اے انسانوں کے رب!بیماری دور فرما دے۔ شفا دے تو ہی شفا دینے والا ہے تیری شفا کے سوا کوئی شفا نہیں ایسی شفا دے جو بیماری کو بالکل باقی نہ چھوڑے۔ (صحیح البخاري، المرض، باب دعاء العائد للمریض، حدیث: 5675)
(9) میت کے ساتھ جانا اور اس کا جنازہ پڑھنا بھی لازمی حق ہے۔ جنازہ پڑھ کر واپس آ جانا جائز ہے۔ لیکن قبر تیار کرنے اور دفن کرنے میں مدد دینا اوردفن سے فارغ ہوکر آنا دگنے ثواب کا باعث ہے۔ دیکھئے: (سنن ابن ماجة، حدیث: 1539)
(10) مومن کے لئے اچھی چیز چاہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی خیر خواہی کرے۔ اور اس سے اس قسم کا سلوک کرے جس قسم کے سلوک کی وہ خود دوسروں سےتوقع رکھتا ہے مثلاً جس طرح ایک آدمی کی یہ خواہش ہوتی ہے۔ کہ اس کا احترام کیا جائے۔ اور بے عزتی نہ کی جائے۔ اسی طرح اسے دوسروں کا احترام کرنا اوردوسروں کی بے عزتی کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ جس طرح وہ چاہتا ہے کہ مشکل میں دوسرے اس کی مدد کریں۔ اسے چاہیے کہ خود بھی دوسروں کی مدد کرے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1433