الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
The Book of Al-Janaiz (Funerals)
63. بَابُ أَيْنَ يَقُومُ مِنَ الْمَرْأَةِ وَالرَّجُلِ:
63. باب: اس بارے میں کہ عورت اور مرد کی نماز جنازہ میں کہاں کھڑا ہوا جائے؟
(63) Chapter. Where should the Imam stand while leading the funeral prayer of a female or a male?
حدیث نمبر: 1332
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عمران بن ميسرة، حدثنا عبد الوارث، حدثنا حسين، عن ابن بريدة، حدثنا سمرة بن جندب رضي الله عنه , قال:" صليت وراء النبي صلى الله عليه وسلم على امراة ماتت في نفاسها فقام عليها وسطها".حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ، حَدَّثَنَا سَمُرَةُ بْنُ جُنْدَبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ:" صَلَّيْتُ وَرَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ مَاتَتْ فِي نِفَاسِهَا فَقَامَ عَلَيْهَا وَسَطَهَا".
ہم سے عمران بن میسرہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا ‘ ان سے حسین نے بیان کیا اور ان سے ابن بریدہ نے کہ ہم سے سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک عورت کی نماز جنازہ پڑھی تھی جس کا زچگی کی حالت میں انتقال ہو گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بیچ میں کھڑے ہوئے۔

Narrated Samura bin Jundab: I offered the funeral prayer behind the Prophet for a woman who had died during childbirth and he stood up by the middle of the coffin.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 416

   صحيح البخاري332سمرة بن جندبصلى عليها النبي فقام وسطها
   صحيح البخاري1331سمرة بن جندبصليت وراء النبي على امرأة ماتت في نفاسها فقام عليها وسطها
   صحيح البخاري1332سمرة بن جندبصليت وراء النبي على امرأة ماتت في نفاسها فقام عليها وسطها
   صحيح مسلم2235سمرة بن جندبصليت خلف النبي وصلى على أم كعب ماتت وهي نفساء فقام رسول الله للصلاة عليها وسطها
   صحيح مسلم2237سمرة بن جندبصليت وراء رسول الله على امرأة ماتت في نفاسها فقام عليها رسول الله في الصلاة وسطها
   جامع الترمذي1035سمرة بن جندبصلى على امرأة فقام وسطها
   سنن أبي داود3195سمرة بن جندبصليت وراء النبي على امرأة ماتت في نفاسها فقام عليها للصلاة وسطها
   سنن النسائى الصغرى1978سمرة بن جندبقام رسول الله في الصلاة في وسطها
   سنن النسائى الصغرى1981سمرة بن جندبصلى على أم فلان ماتت في نفاسها فقام في وسطها
   سنن النسائى الصغرى393سمرة بن جندبقام رسول الله في الصلاة في وسطها
   سنن ابن ماجه1493سمرة بن جندبصلى على امرأة ماتت في نفاسها فقام وسطها
   بلوغ المرام451سمرة بن جندبصليت وراء النبي صلى الله عليه وآله وسلم على امراة ماتت في نفاسها فقام وسطها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 332  
´جو عورت نفاس کی حالت میں مر جائے تو اس پر جنازہ پڑھنا`
«. . . أَنَّ امْرَأَةً مَاتَتْ فِي بَطْنٍ فَصَلَّى عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ وَسَطَهَا . . .»
. . . ایک عورت (ام کعب) زچگی میں مر گئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھی، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے (جسم کے) وسط میں کھڑے ہو گئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ: 332]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا کہ جو عورت نفاس کی حالت میں مر جائے تو اس پر جنازہ پڑھنا اور اس کا طریقہ دلیل کے طور پر حدیث پیش کرتے ہیں کہ ایک عورت نفاس کی حالت میں مر گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی (یہ عورت ام کعب انصاریہ تھیں)۔ [التوضيح لمبهات الجامع الصحيح للموفق العدين ابي ذر العجمي، ج1، ص45]
مقصود یہ ہے کہ بعض لوگ حالت نفاس والی کو نجس قرار دیتے ہیں امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر وہ عورت نفاس کے دوران ناپاک ہوتی تو اس پر نماز نہ پڑھی جاتی حالانکہ وہ نفاس میں نماز نہیں پڑھتی اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی کیوں کہ مومن زندہ ہو یا مردہ وہ پاک ہی ہوتا ہے اس حدیث کے ذیل میں صرف باب کہہ کر حدیث پیش کرتے ہیں جس میں سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ مجھ کو حیض آیا کرتا تھا نماز نہیں پڑتی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سجدہ گاہ کے برابر پاؤں دراز کر کے لیٹی رہتی حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مصلے پر نماز پڑھتے تھے جب آپ سجدہ کرتے تو آپ کے کپڑے کا کنارہ مجھ کو لگتا تھا یعنی آپ اس کپڑے کو ناپاک نہ جانتے۔ [صحيح البخاري كتاب الحيض رقم الحديث 333]
یعنی جب حائضہ کا کپڑا پاک ہوا تو جس جسم پر یہ پہنا ہوا تھا وہ بھی پاک ہے مناسبت یہیں سے نکلتی ہے۔ کہ مومن زندہ اور مردہ دونوں حالت میں پاک ہے۔
تنبیہ:
امام کرمانی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ پر یہ اعتراض کیا کہ آپ نے جو حدیث ذکر کی ہے اس میں یہ الفاظ ہیں «ماتت فى بطن» زچگی میں مر گئی۔‏‏‏‏ اس کا معنی یہ ہے کہ ولادت میں مر گئی۔‏‏‏‏ بلکہ اس کا مطلب ہے کہ وہ مبطون حالت میں مر گئی۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ یہ امام بخاری رحمہ اللہ کا وہم نہیں ہے کیونکہ ایک صریح حدیث موجود ہے کتاب الجنائز میں باب الصلاۃ علی النفساء میں جس میں یہ الفاظ ہیں «ماتت فى نفاسها» کہ وہ عورت نفاس کی حالت میں مری، لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ کا وہم نہ تھا یہ وہم امام کرمانی رحمہ اللہ کو ہوا۔ تفصیل کے لئے [فتح الباري ج1، ص469] کا مطالعہ کیجئیے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 148   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 332  
´نفاس والی عورت کا حکم پاک عورتوں کا سا ہے`
«. . . أَنَّ امْرَأَةً مَاتَتْ فِي بَطْنٍ فَصَلَّى عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ وَسَطَهَا . . .»
. . . ایک عورت (ام کعب) زچگی میں مر گئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھی، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے (جسم کے) وسط میں کھڑے ہو گئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ: 332]

تشریح:
«في بطن» سے زچگی کی حالت میں مرنا مراد ہے۔
اس سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ ثابت فرمایا ہے کہ نفاس والی عورت کا حکم پاک عورتوں کا سا ہے۔ کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر جنازہ کی نماز ادا فرمائی۔ اس سے ان لوگوں کے قول کی بھی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ موت سے آدمی نجس ہو جاتا ہے۔ یہی حدیث دوسری سند سے کتاب الجنائز میں بھی ہے۔ جس میں نفاس کی حالت میں مرنے کی صراحت موجود ہے۔ مسلم، ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 332   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1332  
1332. حضرت سمرہ بن جندب ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:میں نے نبی ﷺ کے پیچھے ایک عورت کی نماز جنازہ پڑھی جو بحالت نفاس فوت ہو گئی تھی۔ آپ اس کے وسط میں کھڑے ہوئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1332]
حدیث حاشیہ:
مسنون یہی ہے کہ امام عورت کی کمر کے مقابل کھڑا ہو اور مرد کے سرکے مقابل۔
سنن ابوداؤد میں حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور بتلایا کہ آنحضرت ﷺ بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
مگر امام بخاری ؒ نے غالباً ابوداؤد والی روایت کو ضعیف سمجھا اور ترجیح اس کو دی کہ امام مرد اور عورت دونوں کی کمر کے مقابل کھڑا ہو۔
اگرچہ اس حدیث میں صرف عورت کے وسط میں کھڑا ہونے کا ذکر ہے اور یہی مسنون بھی ہے۔
مگر حضرت امام ؒ نے باب میں عورت اور مرد دونوں کو یکساں قرار دیا ہے۔
امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں:
(وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا)
أَيْ إِلَى أَنَّ الْإِمَامَ يَقُومُ حِذَاءَ رَأْسِ الرَّجُلِ وَحِذَاءَ عَجِيزَةِ الْمَرْأَةِ (وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ)
وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَهُوَ الْحَقُّ وَهُوَ رِوَايَةٌ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ قَالَ فِي الْهِدَايَةِ وَعَنْ أَبِي حَنِيفَةَ أَنَّهُ يَقُومُ مِنَ الرَّجُلِ بِحِذَاءِ رَأْسِهِ وَمِنَ الْمَرْأَةِ بِحِذَاءِ وَسَطِهَا لِأَنَّ أَنَسًا فَعَلَ كَذَلِكَ وَقَالَ هُوَ السُّنَّةُ۔
(تحفة الأحوذي)
یعنی بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں کہ جنازہ کی نماز میں امام مرد میت کے سر کے پاس کھڑا ہو اور عورت کے بدن کے وسط میں کمر کے پاس۔
امام احمد ؒ اور اسحق ؒ اور امام شافعی ؒ کا یہی قول ہے اور یہی حق ہے اور ہدایہ میں حضرت امام ابوحنیفہ ؒ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ امام مرد میت کے سرکے پاس اور عورت کے وسط میں کھڑا ہو اس لیے کہ حضرت انس ؓ نے ایسا ہی کیا تھا اور فرمایا تھا کہ سنت یہی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1332   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 393  
´نفاس والی عورتوں کی نماز جنازہ کا بیان۔`
سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ام کعب رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ پڑھی جو اپنی نفاس میں وفات پا گئی تھیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلاۃ میں ان کے بیچ میں (کمر کے پاس) کھڑے ہوئے۔ [سنن نسائي/كتاب الحيض والاستحاضة/حدیث: 393]
393۔ اردو حاشیہ:
➊ باب کا مقصد یہ ہے کہ نفاس کی حالت میں اگرچہ عورت خود نماز نہیں پڑھ سکتی مگر وہ فوت ہو جائے تو اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ اس کا نفاس جنازے سے مانع نہیں، نیز وہ ظاہراً پلید نہیں، لہٰذا نمازی کے آگے رکھنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ مومن کا جسم ظاہراً پلید نہیں ہوتا، نہ جنابت سے، نہ حیض و نفاس سے اور نہ موت سے۔ نفاس سے جسم کی ناپاکی معنوی پلیدی ہے۔
➋ عورت کے جنازے میں امام چارپائی کے وسط کے برابر کھڑا ہو گا جیسا کہ بعض روایات میں صراحت ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1332، و صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 964]
اس میں نفاس کا کوئی دخل نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 393   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 451  
´میت اگر عورت ہو تو امام میت کے درمیان کھڑا ہو کر نماز جنازہ پڑھائے`
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک ایسی عورت کی نماز جنازہ پڑھی جو حالت نفاس میں فوت ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے درمیان میں کھڑے ہوئے تھے۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 451]
لغوی تشریح:
«فِي نِفَسِهَا» بچے کی پیدائش کے ایام میں۔ یہ خاتون ام کعب انصاریہ رضی اللہ عنہ تھیں۔
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے ثابت ہوتا کہ میت اگر عورت ہو تو امام میت کے درمیان کھڑا ہو کر نماز جنازہ پڑھائے۔
➋ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے، ابوداود اور ترمذی وغیرہ میں ہے کہ میت اگر مرد ہو تو امام کو اس کے سر کے برابر کھڑا ہو کر نماز جنازہ پڑھانی چاہیے۔ [سنن ابي داود، الجنائز، حديث: 3194 وجامع الترمذي، الجنائز، حديث: 1034]
امام شافعی رحمہ الله کا یہی قول ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ الله سے بھی ایک قول اسی طرح منقول ہے جیسا کہ ہدایہ میں ہے۔ اس کے برعکس علمائے احناف عموماً بِلا فرق مرد و عورت کے دل کے برابر کھڑے ہو کر نماز جنازہ پڑھاتے ہیں مگر اس کی کوئی شرعی دلیل نہیں بلکہ نصِ صریح کے مقابلے میں محض قیاس پر عمل کرتے ہیں کہ دل منبع ایمان ہے، اس لیے دل کے برابر کھڑا ہونا چاہیے لیکن یہ حقیقتاً حدیث کے خلاف ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 451   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1035  
´مرد اور عورت دونوں ہوں تو امام نماز جنازہ پڑھاتے وقت کہاں کھڑا ہو؟`
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت ۱؎ کی نماز جنازہ پڑھائی، تو آپ اس کے بیچ میں یعنی اس کی کمر کے پاس کھڑے ہوئے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1035]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎:
اس عورت کا نام ام کعب ہے جیساکہ نسائی کی روایت میں اس کی تصریح آئی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1035   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3195  
´جنازہ پڑھاتے ہوئے امام میت کے مقابل کہاں کھڑا ہو؟`
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک ایسی عورت کی نماز جنازہ پڑھی جو حالت نفاس میں مر گئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے اس کے درمیان میں کھڑے ہوئے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3195]
فوائد ومسائل:
مسلمان عورت اپنے ایام حیض اور نفاس کے دنوں میں فوت ہو تب بھی اس کا جنازہ پڑھا جائے گا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3195   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1332  
1332. حضرت سمرہ بن جندب ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:میں نے نبی ﷺ کے پیچھے ایک عورت کی نماز جنازہ پڑھی جو بحالت نفاس فوت ہو گئی تھی۔ آپ اس کے وسط میں کھڑے ہوئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1332]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کی پیش کردہ حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز جنازہ میں عورت کے درمیان میں کھڑا ہونا چاہیے مگر مرد کے متعلق شاید امام بخاری ؒ کو اپنی شرط کے مطابق کوئی حدیث نہیں ملی۔
ممکن ہے کہ ان کے نزدیک مرد اور عورت کا ایک ہی حکم ہو، لیکن حضرت انس بن مالک ؒ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک شخص کی نماز جنازہ پڑھائی تو اس کے سر کے پاس کھڑے ہوئے۔
جب اسے اٹھا لیا گیا تو ایک عورت کا جنازہ لایا گیا، انہوں نے اس کی بھی نماز جنازہ پڑھائی تو اس کے درمیان میں کھڑے ہوئے۔
کسی نے دریافت کیا کہ مرد اور عورت کے جنازے کے لیے جہاں آپ کھڑے ہوئے ہیں رسول اللہ ﷺ بھی اسی طرح کھڑے ہوتے تھے؟ انہوں نے فرمایا:
ہاں۔
(سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3194) (2)
علامہ البانی ؒ لکھتے ہیں کہ جنازہ پڑھتے وقت امام مرد کے سر کے برابر اور عورت کے درمیان میں کھڑا ہو۔
(أحکام الجنائز،ص: 138)
جو حضرات مرد اور عورت دونوں کے لیے دل کے برابر کھڑے ہونے کے قائل ہیں، ان کا موقف محض قیاس پر مبنی ہے اور صریح دلائل کے خلاف ہے۔
والله أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1332   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.