الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
The Book of Zakat
75. بَابُ صَاعٍ مِنْ زَبِيبٍ:
75. باب: صدقہ فطر میں منقیٰ بھی ایک صاع دینا چاہیے۔
(75) Chapter. (Sadaqat-ul-Fitr is) one Sa of raisins (dried grapes) (per head).
حدیث نمبر: 1508
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عبد الله بن منير، سمع يزيد بن ابي حكيم العدني، حدثنا سفيان، عن زيد بن اسلم، قال: حدثني عياض بن عبد الله بن ابي سرح، عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه، قال:" كنا نعطيها في زمان النبي صلى الله عليه وسلم صاعا من طعام او صاعا من تمر او صاعا من شعير او صاعا من زبيب"، فلما جاء معاوية وجاءت السمراء، قال: ارى مدا من هذا يعدل مدين.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ، سَمِعَ يَزِيدَ بْنَ أَبِي حَكِيمٍ الْعَدَنِيَّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عِيَاضُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كُنَّا نُعْطِيهَا فِي زَمَانِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ"، فَلَمَّا جَاءَ مُعَاوِيَةُ وَجَاءَتْ السَّمْرَاءُ، قَالَ: أُرَى مُدًّا مِنْ هَذَا يَعْدِلُ مُدَّيْنِ.
ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا ‘ انہوں نے یزید بن ابی حکیم عدنی سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ‘ ان سے زید بن اسلم نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے عیاض بن عبداللہ بن سعد بن ابی سرح نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صدقہ فطر ایک صاع گیہوں یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو یا ایک صاع زبیب (خشک انگور یا خشک انجیر) نکالتے تھے۔ پھر جب معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں آئے اور گیہوں کی آمدنی ہوئی تو کہنے لگے میں سمجھتا ہوں اس کا ایک مد دوسرے اناج کے دو مد کے برابر ہے۔

Narrated Abu Sa`id Al-Khudri: In the lifetime of the Prophet we used to give one Sa' of food or one Sa' of dates or one Sa' of barley or one Sa' of Raisins (dried grapes) as Sadaqat-ul-Fitr. And when Muawiya became the Caliph and the wheat was (available in abundance) he said, "I think (observe) that one Mudd (of wheat) equals two Mudds (of any of the above mentioned things).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 25, Number 584

   صحيح البخاري1508سعد بن مالكصاعا من طعام أو صاعا من تمر أو صاعا من شعير أو صاعا من زبيب
   صحيح البخاري1510سعد بن مالكنخرج في عهد رسول الله يوم الفطر صاعا من طعام
   صحيح البخاري1505سعد بن مالكنطعم الصدقة صاعا من شعير
   صحيح مسلم2285سعد بن مالكزكاة الفطر ورسول الله فينا عن كل صغير وكبير حر ومملوك من ثلاثة أصناف صاعا من تمر صاعا من أقط صاعا من شعير
   صحيح مسلم2287سعد بن مالكصاعا من تمر أو صاعا من زبيب أو صاعا من شعير أو صاعا من أقط
   صحيح مسلم2284سعد بن مالكزكاة الفطر عن كل صغير وكبير حر أو مملوك صاعا من طعام أو صاعا من أقط أو صاعا من شعير أو صاعا من تمر أو صاعا من زبيب
   جامع الترمذي673سعد بن مالكنخرج زكاة الفطر إذ كان فينا رسول الله صاعا من طعام أو صاعا من شعير أو صاعا من تمر أو صاعا من زبيب أو صاعا من أقط فلم نزل نخرجه حتى قدم معاوية المدينة فتكلم فكان فيما كلم به الناس إني لأرى مدين من سمراء الشام تعدل صاعا من تمر قال فأخذ ال
   سنن أبي داود1616سعد بن مالكصاعا من طعام أو صاعا من أقط أو صاعا من شعير أو صاعا من تمر أو صاعا من زبيب
   سنن أبي داود1618سعد بن مالكنخرج على عهد رسول الله صاع تمر أو شعير أو أقط أو زبيب
   سنن ابن ماجه1829سعد بن مالكزكاة الفطر إذ كان فينا رسول الله صاعا من طعام صاعا من تمر صاعا من شعير صاعا من أقط صاعا من زبيب
   سنن النسائى الصغرى2513سعد بن مالكصدقة الفطر صاعا من شعير أو صاعا من تمر أو صاعا من أقط
   سنن النسائى الصغرى2514سعد بن مالكصاعا من طعام أو صاعا من شعير أو صاعا من تمر أو صاعا من زبيب أو صاعا من أقط
   سنن النسائى الصغرى2515سعد بن مالكصاعا من طعام أو صاعا من تمر أو صاعا من شعير أو صاعا من أقط
   سنن النسائى الصغرى2516سعد بن مالكصاعا من تمر أو صاعا من شعير أو صاعا من زبيب أو صاعا من دقيق أو صاعا من أقط أو صاعا من سلت
   سنن النسائى الصغرى2519سعد بن مالكصاعا من شعير أو تمر أو زبيب أو أقط
   سنن النسائى الصغرى2520سعد بن مالكصاعا من تمر أو صاعا من شعير أو صاعا من أقط لا نخرج غيره
   صحيح البخاري1506سعد بن مالك كنا نخرج زكاة الفطر صاعا من طعام او صاعا من شعير او صاعا من تمر او صاعا من اقط او صاعا من زبيب
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم278سعد بن مالك كنا نخرج زكاة الفطر صاعا من طعام
   بلوغ المرام506سعد بن مالكصاعا من طعام او صاعا من تمر او صاعا من شعير او صاعا من زبيب
   مسندالحميدي759سعد بن مالكما كنا نخرج على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم في زكاة الفطر إلا صاعا من تمر، أو صاعا من شعير، أو صاعا من أقط

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 278  
´صدقہ فطر کا بیان`
«. . . انه سمع ابا سعيد الخدري يقول: كنا نخرج زكاة الفطر صاعا من طعام، او صاعا من شعير، او صاعا من تمر، او صاعا من اقط، او صاعا من زبيب . . .»
. . . سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم اناج کا ایک صاع یا جَو کا ایک صاع یا کھجور کا ایک صاع یا پنیر کا ایک صاع یا خشک انگور کا صاع صدقہ فطر ادا کرتے تھے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 278]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1506، ومسلم 985، من حديث مالك به]
تفقہ:
① یہ صدقہ فطر مسلمانوں پر فرض ہے۔ دیکھئے [ح 211]
② ایک روایت میں آیا ہے کہ ہم صدقہ فطر ادا کرتے تھے۔۔۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان ہوتے تھے۔ [صحيح مسلم: 985 2284] معلوم ہوا کہ درج بالا حدیث مرفوع ہے۔
③ صاع کے وزان کے بارے میں اختلاف ہے - راجح یہی ہے کہ ڈھائی کلووزن کے مطابق صاع نکالا جائے تاکہ آدمی کسی شک میں نہ رہے
④ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے گندم کا آدھا صاع ثابت ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ وغیرہ سے پورا صاع ثابت ہے لہٰذا راجح یہی ہے کہ پورا صاع ادا کیا جائے۔
⑤ بہتر اور افضل یہی ہے کہ گندم، جو، کھجور اور انگور وغیرہ پھلوں، غلے اور کھانے سے صاع نکالا جائے لیکن اگر مجبوری یا کوئی شرعی عذر ہو تو صاع کی مروجہ رقم سے ادائیگی بھی جائز ہے۔ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے بصرہ میں عدی کی طرف حکم لکھ کر بھیجا تھا کہ اہلِ دیوان کے عطیات میں سے ہر انسان کے بدلے آدھا درہم لیا جائے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 3/174 ح10368، وسنده صحيح]
◈ ابواسحاق السبیعی فرماتے تھے کہ میں نے لوگوں کو رمضان میں صدقہ فطر میں طعام (کھانے) کے بدلے دراہم دیتے ہوئے پایا ہے [ابن ابئ شيبه ح 10371، و سنده صحيح]
⑥ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ صدقۂ فطر صرف کھجور میں سے دیتے تھے سوائے ایک دفعہ کے (جب کھجوریں نہ ملیں تو) آپ نے جَو دیئے۔ [الموطأ 1/284 ح635، وسنده صحيح]
⑦ صدقۂ فطر صرف مساکین کا حق ہے۔ [ديكهئے سنن ابي داؤد: 1609، وسنده حسن]
لہٰذا اسے آٹھ قسم کے مستحقین زکوٰۃ میں تقسیم کرنا غلط ہے۔ دیکھئے زاد المعاد [2/22] اور عبادات میں بدعات اور سنت نبوی سے ان کا رد [ص212]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 176   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1829  
´صدقہ فطر کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے ہم تو صدقہ فطر میں ایک صاع گیہوں، ایک صاع کھجور، ایک صاع جو، ایک صاع پنیر، اور ایک صاع کشمش نکالتے تھے، ہم ایسے ہی برابر نکالتے رہے یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ ہمارے پاس مدینہ آئے، تو انہوں نے جو باتیں لوگوں سے کیں ان میں یہ بھی تھی کہ میں شام کے گیہوں کا دو مد تمہارے غلوں کی ایک صاع کے برابر پاتا ہوں، تو لوگوں نے اسی پر عمل شروع کر دیا۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: میں جب تک زندہ رہوں گا اسی طرح ایک صاع نکالتا رہوں گا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ می۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1829]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حضرت ابو سعید نے حضرت معاویہ سے اتفاق نہیں کیا، اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر بھی اس مسئلہ میں حضرت معاویہ سے متفق نہیں تھے جیسے کہ حدیث: 1825 میں بیان ہوا۔

(2)
گندم کا نصف صاع فی کس صدقہ فطر ادا کرنے کی ایک مرفوع حدیث جامع ترمذی میں مذکور ہے۔ (جامع الترمذي، الزکاۃ، باب ما جاء فی صدقة الفطر، حدیث: 674)
لیکن وہ ضعیف ہے کیونکہ ابن جریج نے عمرو بن شعیب سے عن کے لفظ کے ساتھ روایت کیا ہے اور ابن جریج مدلس ہے۔
ایسے راوی کی وہ روایت قبول نہیں کی جاتی جو وہ عن کے ساتھ روایت کرے، اس لیے صحیح بات یہی ہے کہ نصف صاع کا حکم نبی اکرم ﷺ کا ارشاد نہیں بلکہ صحابہ کرام ؓ کا اجتہاد ہے۔
احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے کہ گندم ہو یا کوئی اور چیز اس میں سے پورا صاع صدقہ فطر ادا کیا جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1829   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 506  
´صدقہ فطر کا بیان`
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں گندم سے ایک صاع اور کھجور سے ایک صاع اور جو سے ایک صاع اور کشمش (منقی) سے ایک صاع (فطرانہ) دیا کرتے تھے۔ (بخاری و مسلم) اور ایک روایت میں ہے کہ پنیر میں سے ایک صاع نکالا کرتے تھے۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تو ہمیشہ وہی مقدار نکالتا رہوں گا جو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نکالا کرتا تھا اور ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ میں تو ہمیشہ ایک صاع ہی نکالوں گا۔ [بلوغ المرام/حدیث: 506]
لغوی تشریح 506:
کُنَّا نُعْطِیھَا ہم صدقۂ فطر (فطرانہ) ادا کیا کرتے تھے۔
صَاعًا مِن طَعَامٍ طعام کا لفظ ما بعد مذکور چیزوں کے مقابلے میں بولا گیا ہے جو اس بات کا مقتضی ہے کہ طعام اور دوسری اجناس کے مابین فرق وتغایر ہے۔ طعام کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد گندم ہے۔ طعام بول کر اہل عرب عموماً اس سے مراد گندم لیتے ہیں۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ طعام میں اجمال ہے اور مابعد اس کی تفصیل ہے۔ اور بعض روایات میں اس کی صراحت بھی ہے، اس لیے یہی قول راجح ہے۔
أَقِط ہمزہ پر فتحہ اور قاف کے نیچے کسرہ ہے، پنیر کو کہتے ہیں۔ یہ دراصل دودھ ہوتا ہے جو خشک کر کے جمایا جاتا ہے اور پتھر کی طرح سخت ہو جاتا ہے۔
فَلَا أَزَالُ أُخْرِجُہُ اور میں ہمیشہ ایک صاع کی مقدار ہی فطرانے میں نکالتا رہوں گا، خواہ کوئی جنس ہو، گندم ہو یا دوسری اجناس۔ اور ایک صاع پانچ رطل اور تہائی رطل کا ہوتا ہے اور یہ وزن چار مد کے مساوی ہوتا ہے۔ جدید حساب کے مطابق ایک صاع کا وزن تقریباً ڈھائی کلو گرام کا ہوتا ہے۔

فائدہ 506:
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین میں گندم کے سوا باقی تمام اجناس میں سے احادیث کی روشنی میں ایک ایک صاع فطرانے کے طور پر دینے کا اتفاق تھا، صرف گندم میں اختلاف تھا۔ حضرت معاویۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی راے کے پیش نظر گندم کا آدھا صاع نکالنے کا مشورہ دیا۔ گندم چونکہ مہنگی بھی تھی اور قلیل بھی تو ان کی اس راے سے بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اتفاق کر لیا، دیکھیے: (صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ، حدیث: 1508، وصحیح مسلم، الزکاۃ، حدیث: (18) -985) امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے اس مذکورہ بالا اختلاف کی طرف اشارہ کرتے ہوے فرمایا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے بعض اہل علم کا مؤقف یہ بھی ہے کہ ہر چیز کا ایک صاع دیا جائے سوائے گندم کے کہ اس کا فطرانے میں نصف صاع بھی کفایت کر جاتا ہے۔ (جامع الترمذی، الزکاۃ، حدیث: 673) اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ حضرت معاویۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اجتھاد ہی ہے یا سنت سے اس کی دلیل بھی ملتی ہے؟ ہاں، اس بارے میں مرفوع احادیث بھی آتی ہیں جنھیں کچھ علماء نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن راجح بات یہی ہے کہ آدھے صاع گندم کی حدیث کے بہت سے شواہد ہیں جیسا کہ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں «وَ لِلحَدِيْثِ شَوَاهِدٌ كَثِيرَةٌ» (الصحیحۃ: 171، 3) اور وہ حدیث یہ ہے کہ أُدُّو صَاعًا مِّن بَرٍ أو قُمْح بَینَ اثْنَینِ۔۔۔۔۔۔ گندم کا ایک صاع دو افراد کو ادا کرو۔ اس حدیث سے واضح ہوا کہ نصف صاع ایک فرد کو دیا جاسکتا ہے۔ اس کی تائید جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صحیح امر سے بھی ہوتی ہے، فرماتے ہیں: ((صَدَقَۃُ الْفِطرِ عَلٰی کُلِّ مُسلِمٍ صَغِیرٍ وَ کَبِیرٍ، عَبدٍ أو حُرٍّ مُدَّانِ مِن قُمحٍ۔۔۔)) فطرانہ ہر مسلمان پر (ضروری ہے)، خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، غلام ہو یا آزاد، گندم کے دو مد (آدھا صاع)۔ (سنن دارقطنی: 2 346) اس بحث سے معلوم ہوا کہ یہ صرف حضرت حضرت معاویۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کی راے نہ تھی بلکہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین بھی ان کی راے سے متفق تھے اور ان کی اس راے کی تائید مرفوع صحیح حدیث سے بھی ہوتی ہے، اس لیے اگر کوئی شخص ایک صاع گندم کے بجائے آدھا صاع گندم بھی فطرانے میں دے دیتا ہے تو ان شاء اللہ یہ بھی جائز ہو گا۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (سنن ابی داؤد (مفصل) للألبانی: 324/5) لیکن افضل اور اولٰی گندم کا پورا صاع دینا ہی ہے جیسا کہ عمومی احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 506   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 673  
´صدقہ فطر کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں ہم لوگ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود تھے - صدقہ فطر ۱؎ میں ایک صاع گیہوں ۲؎ یا ایک صاع جو، یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع کشمش یا ایک صاع پنیر نکالتے تھے۔ تو ہم اسی طرح برابر صدقہ فطر نکالتے رہے یہاں تک کہ معاویہ رضی الله عنہ مدینہ آئے، تو انہوں نے لوگوں سے خطاب کیا، اس خطاب میں یہ بات بھی تھی کہ میں شام کے دو مد گیہوں کو ایک صاع کھجور کے برابر سمجھتا ہوں۔ تو لوگوں نے اسی کو اختیار کر لیا یعنی لوگ دو مد آدھا صاع گیہوں دینے لگے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 673]
اردو حاشہ:
1؎:
صدقہ فطر کی فرضیت رمضان کے آغاز کے بعد عید سے صرف دو روز پہلے 2ھ میں ہوئی،
اس کی ادائیگی کا حکم بھی نماز عید سے پہلے پہلے ہے تاکہ معاشرے کے ضرورت مند حضرات اس روز مانگنے سے بے نیاز ہو کر عام مسلمانوں کے ساتھ عید کی خوشی میں شریک ہو سکیں،
اس کی مقدار ایک صاع ہے خواہ کوئی بھی جنس ہو،
صدقہء فطر کے لیے صاحب نصاب ہونا ضروری نہیں۔
اور صاع ڈھائی کلو گرام کے برابر ہوتا ہے۔

2؎: ((صَاعاً مِنْ طَعَامِِ)) میں طعام سے مراد حنطۃ (گیہوں) ہے کیونکہ طعام کا لفظ مطلقاً گیہوں کے معنی میں بولا جاتا تھا جب کہا جاتا ہے:
إِذْهَبْ إِلى سُوْقِ الطَّعَامِ تو اس سے سوق الحنطۃ (گیہوں کا بازار) ہی سمجھا جاتا تھا،
اور بعض لوگوں نے کہا ((مِنْ طَعَامِِ)) مجمل ہے اور آگے اس کی تفسیرہے،
یہ عَطْفُ الْخَاصِ عَلَی الْعَامِ ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 673   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1616  
´صدقہ فطر کتنا دیا جائے؟`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان باحیات تھے، ہم لوگ صدقہ فطر ہر چھوٹے اور بڑے، آزاد اور غلام کی طرف سے غلہ یا پنیر یا جو یا کھجور یا کشمش سے ایک صاع نکالتے تھے، پھر ہم اسی طرح نکالتے رہے یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ حج یا عمرہ کرنے آئے تو انہوں نے منبر پر چڑھ کر لوگوں سے کچھ باتیں کیں، ان میں ان کی یہ بات بھی شامل تھی: میری رائے میں اس گیہوں کے جو شام سے آتا ہے دو مد ایک صاع کھجور کے برابر ہیں، پھر لوگوں نے یہی اختیار کر لیا، اور ابوسعید نے کہا: لیکن میں جب تک زندہ رہوں گا برابر ایک ہی صاع نکالتا رہوں گا۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں: اسے ابن علیہ اور عبدہ وغیرہ نے ابن اسحاق سے، ابی اسحاق نے عبداللہ بن عبداللہ بن عثمان بن حکیم بن حزام سے، عبداللہ بن عبداللہ نے عیاض سے اور عیاض نے ابوسعید سے اسی مفہوم کے ساتھ نقل کیا ہے، ایک شخص نے ابن علیہ سے «أو صاعًا من حنطة» بھی نقل کیا ہے لیکن یہ غیر محفوظ ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1616]
1616. اردو حاشیہ:
➊ جب صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کی آراء میں اختلا ف ہو تو بلاشبہ وہی قول اور عمل حق اور راحج ہوگا۔جس پر دوررسالت ﷺ میں عمل ہوتا رہا۔ صدقہ فطر کے معاملے میں کچھ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے پر عمل کرتے ہوئے آدھا صاع گندم دینا شروع کردیا تھا۔مگر کچھ نے اسے قبول نہیں کیا۔تو ان کی رائے حجت نہ ہوئی۔
➋ لفظ طعام اگرچہ عام ہے۔مگر کچھ علماء اس طرف گئے ہیں کہ اس کا اطلاق گندم پر بالخصوص ہوتا ہے۔(خطابی)اس لئے گندم سے صدقہ فطر دینا ہو تو بھی ایک صاع دیاجائے۔
➌ اس حدیث میں یہ دلیل بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مختلف قیمتوں کی حامل مختلف اجناس کی تعین فرمائی اور صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین بھی یہی اجناس دیتے تھے۔کہیں بھی قیمت ادا کرنے کا ارشاد نہیں ہے۔لہذا جنس کی صورت میں ادایئگی زیادہ افضل اور راحج ہے۔تینوں آئمہ اسی طرف گئے ہیں۔صرف امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جواز قیمت کے قائل ہیں۔اور امام بخار ی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی (باب العرض فی الذکاۃ) میں یہی ثابت کیا ہے۔کہ فرض زکواۃ میں بدل جائز ہے۔اور حضرت معاز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اہل یمن سے کہا تھا۔کہ جو اور مکئی کی بجائے کپڑے پیش کردو یہ تم پر آسان ہے۔اور یہ مدینہ میں اصحاب نبی رضوان اللہ عنہم اجمعین کے لئے مفید تر ہیں۔(صحیح بخاری کتاب الزکاۃ باب 33)علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ الیل الجرار میں عذر کی بنا پرقیمت کی ادایئگی کو جائز بتاتے ہیں۔(اور مقصد اورفائدہ کی نظر سے قیمت کونظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا) راحج بہرحال جنس ہی ہے۔(مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ لمصابیح حدیث 1833]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1616   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1508  
1508. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم نبی ﷺ کے عہد مبارک میں خوراک یا کھجور یا جو یا منقی کا ایک صاع بطور صدقہ فطر دیتے تھے جب حضرت معاویہ ؓ کا دورآیا اور(شام سے) گندم آئی تو انھوں نے کہا کہ میرے خیال کے مطابق گندم کا ایک مد دیگر اجناس کے دو مد کے برابر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1508]
حدیث حاشیہ:
(1)
ابوداود میں اس روایت کی تفصیل ہے، حضرت ابو سعید خدری ؓ نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں ہر چھوٹے بڑے آزاد اور غلام کی طرف سے خوراک، پنیر، جو، کھجور اور منقی کا ایک صاع بطور فطرانہ دیا کرتے تھے۔
لمبا عرصہ ہمارا یہی معمول رہا حتی کہ حضرت امیر معاویہ ؓ حج یا عمرہ کرنے کے لیے آئے تو انہوں نے منبر پر لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
میرے خیال کے مطابق ملک شام کی گندم کے دو مد ہمارے ہاں کھجور کے ایک صاع کے مساوی ہیں۔
لوگوں نے ان کی بات پر عمل کرنا شروع کر دیا، لیکن میں تو جب تک زندہ رہوں گا وہی صدقہ دیتا رہوں گا (جو رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں دیتا تھا۔
)
(سنن أبي داود، الزکاة، حدیث: 1616)
امام بخاری ؒ نے خوراک، جو، کھجور اور منقی کے متعلق الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں کہ ان سے صدقہ فطر ادا کیا جا سکتا ہے لیکن پنیر کے متعلق مستقل عنوان قائم نہیں کیا۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ کے نزدیک پنیر سے صدقہ فطر اس وقت ادا کیا جائے جب دوسری اشیاء دستیاب نہ ہوں یا ان سے صدقہ فطر دینے کی ہمت نہ ہو۔
(فتح الباري: 469/3)
ان روایات کا تقاضا ہے کہ ہر فرد کی طرف سے فطرانہ ایک صاع ادا کیا جائے، البتہ گندم سے نصف صاع ادا کرنے کی روایات بھی منقول ہیں جن کی ہم حدیث: 1512 کے تحت شرح کریں گے۔
إن شاءاللہ
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1508   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.