الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
The Book of As-Saum (The Fasting).
67. بَابُ الصَّوْمِ يَوْمَ النَّحْرِ:
67. باب: عیدالاضحی کے دن کا روزہ رکھنا۔
(67) Chapter. Observing Saum (fast) on the day of Nahr (i.e., first day of Eid-ul-Adha).
حدیث نمبر: 1994
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا معاذ، اخبرنا ابن عون، عن زياد بن جبير، قال: جاء رجل إلى ابن عمر رضي الله عنهما، فقال رجل: نذر ان يصوم يوما، قال: اظنه قال: الاثنين، فوافق ذلك يوم عيد، فقال ابن عمر:" امر الله بوفاء النذر، ونهى النبي صلى الله عليه وسلم عن صوم هذا اليوم".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُعَاذٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ زِيَادِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَقَالَ رَجُلٌ: نَذَرَ أَنْ يَصُومَ يَوْمًا، قَالَ: أَظُنُّهُ قَال: الِاثْنَيْنِ، فَوَافَقَ ذَلِكَ يَوْمَ عِيدٍ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ:" أَمَرَ اللَّهُ بِوَفَاءِ النَّذْرِ، وَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَوْمِ هَذَا الْيَوْمِ".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معاذ بن معاذ عنبری نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبداللہ بن عون نے خبر دی، ان سے زیاد بن جبیر نے بیان کیا کہ ایک شخص ابن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ ایک شخص نے ایک دن کے روزے کے نذر مانی۔ پھر کہا کہ میرا خیال ہے کہ وہ پیر کا دن ہے اور اتفاق سے وہی عید کا دن پڑ گیا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تو نذر پوری کرنے کا حکم دیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھنے سے (اللہ کے حکم سے) منع فرمایا ہے۔ (گویا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کوئی قطعی فیصلہ نہیں دیا)۔

Narrated Ziyad bin Jubair: A man went to Ibn `Umar I. and said, "A man vowed to fast one day (the sub-narrator thinks that he said that the day was Monday), and that day happened to be `Id day." Ibn `Umar said, "Allah orders vows to be fulfilled and the Prophet forbade the fasting on this day (i.e. Id).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 31, Number 214

   صحيح البخاري6706عبد الله بن عمرأمر الله بوفاء النذر ونهينا أن نصوم يوم النحر
   صحيح البخاري1994عبد الله بن عمرأمر الله بوفاء النذر نهى النبي عن صوم هذا اليوم
   صحيح مسلم2675عبد الله بن عمرأمر الله بوفاء النذر نهى رسول الله عن صوم هذا اليوم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1994  
1994. حضرت زیاد بن جبیر سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ایک شخص حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا: ایک شخص نے نذر مانی ہے کہ وہ ایک روزہ رکھے گا، میرا گمان ہے کہ وہ سوموار کا دن ہے اور اتفاق سے اس دن عید تھی۔ حضرت عبداللہ ؓ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے نذر کو پوراکرنے کا حکم دیا ہے اور نبی کریم ﷺ نے اس دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1994]
حدیث حاشیہ:
علامہ ابن حجر فرماتے ہیں:
لم یفسر العید في هذہ الروایة و مقتضی إدخاله هذا الحدیث في ترجمة صوم یوم النحر أن یکون المسؤل عنه یوم النحر و هو مصرح به في روایة یزید بن زریع المذکورة و لفظه فوافق یوم النحر۔
یعنی اس روایت میں عید کی وضاحت نہیں ہے کہ وہ کون سی عید تھی اور یہاں باب کا اقتضاءعیدالاضحی ہے سو اس کی تصریح یزید بن زریع کی روایت میں موجود ہے جس میں یہ ہے کہ اتفاق سے اس دن قربانی کا دن پڑگیا تھا۔
یزید بن زریع کی روایت میں یہ لفظ وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔
اور ایسا ہی احمد کی روایت میں ہے جسے انہوں نے اسماعیل بن علیہ سے، انہوں نے یونس سے نقل کیا ہے، پس ثابت ہو گیا کہ روایت میں یوم عید سے عید الاضحی یوم النحر مراد ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1994   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1994  
1994. حضرت زیاد بن جبیر سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ایک شخص حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا: ایک شخص نے نذر مانی ہے کہ وہ ایک روزہ رکھے گا، میرا گمان ہے کہ وہ سوموار کا دن ہے اور اتفاق سے اس دن عید تھی۔ حضرت عبداللہ ؓ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے نذر کو پوراکرنے کا حکم دیا ہے اور نبی کریم ﷺ نے اس دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1994]
حدیث حاشیہ:
(1)
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:
اس روایت میں وضاحت نہیں ہے کہ وہ کون سی عید تھی لیکن عنوان کا تقاضا ہے کہ اس سے مراد عید الاضحیٰ کا دن ہے، چنانچہ یزید بن زریع کی روایت میں اس کی صراحت ہے، یعنی جس دن روزہ رکھنے کی نذر مانی تھی اس دن اتفاق سے عید الاضحیٰ تھی۔
حضرت ابن عمر ؓ نے دلائل کے تعارض کے پیش نظر صراحت کے ساتھ جواب دینے سے توقف فرمایا۔
(2)
علامہ خطابی فرماتے ہیں:
اس مسئلے میں اختلاف ہے۔
بعض نے کہا ہے:
اگر کسی نے نذر مانی کہ جس دن فلاں آئے گا وہ روزہ رکھے گا، اور وہ عید کے دن آیا تو نہ روزہ رکھے اور نہ اس کی قضا ہی دے۔
بعض نے کہا کہ وہ عید کے دن روزہ نہ رکھے لیکن بعد میں اس کی قضا دے۔
بعض حضرات کا خیال ہے کہ جہاں امر اور نہی دونوں جمع ہو جائیں وہاں نہی پر عمل کیا جائے گا، لہذا اس دن روزہ نہ رکھا جائے اور نہ اس کی قضا ہی دینا ضروری ہے۔
(فتح الباري: 306/4)
ہمارے نزدیک راجح موقف یہ ہے کہ نہی کو مقدم کرتے ہوئے اس دن کا روزہ نہ رکھا جائے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کو سوار ہونے کا حکم دیا تھا جس نے پیدل چل کر حج کرنے کی نذر مانی تھی۔
اگر ایسے حالات میں نذر کا پورا کرنا ضروری ہوتا تو آپ اسے سواری استعمال کرنے کا حکم نہ دیتے۔
صورت مذکورہ میں بھی نذر کا پورا کرنا ضروری نہیں کیونکہ اس دن کا روزہ رکھنا جائز نہیں، لہذا وہ اپنی نذر کسی صورت میں پوری نہیں کرے گا۔
(فتح الباري: 307/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1994   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.