الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حیض کے احکام و مسائل
The Book of Menses (Menstrual Periods)
5. بَابُ مُبَاشَرَةِ الْحَائِضِ:
5. باب: اس بارے میں کہ حائضہ کے ساتھ مباشرت کرنا (یعنی جماع کے علاوہ اس کے ساتھ لیٹنا بیٹھنا جائز ہے)۔
(5) Chapter. Fondling a menstruating wife.
حدیث نمبر: 302
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا إسماعيل بن خليل، قال: اخبرنا علي بن مسهر، قال: اخبرنا ابو إسحاق هو الشيباني، عن عبد الرحمن بن الاسود، عن ابيه، عن عائشة، قالت:" كانت إحدانا إذا كانت حائضا فاراد رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يباشرها امرها ان تتزر في فور حيضتها، ثم يباشرها، قالت: وايكم يملك إربه كما كان النبي صلى الله عليه وسلم يملك إربه"، تابعه خالد، وجرير، عن الشيباني.حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ خَلِيلٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ هُوَ الشَّيْبَانِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كَانَتْ إِحْدَانَا إِذَا كَانَتْ حَائِضًا فَأَرَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُبَاشِرَهَا أَمَرَهَا أَنْ تَتَّزِرَ فِي فَوْرِ حَيْضَتِهَا، ثُمَّ يُبَاشِرُهَا، قَالَتْ: وَأَيُّكُمْ يَمْلِكُ إِرْبَهُ كَمَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْلِكُ إِرْبَهُ"، تَابَعَهُ خَالِدٌ، وَجَرِيرٌ، عَنْ الشَّيْبَانِيِّ.
ہم سے اسماعیل بن خلیل نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مسہر نے، ہم سے ابواسحاق سلیمان بن فیروز شیبانی نے عبدالرحمٰن بن اسود کے واسطہ سے، وہ اپنے والد اسود بن یزید سے، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ آپ نے فرمایا ہم ازواج میں سے کوئی جب حائضہ ہوتی، اس حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر مباشرت کا ارادہ کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازار باندھنے کا حکم دے دیتے باوجود حیض کی زیادتی کے۔ پھر بدن سے بدن ملاتے، آپ نے کہا تم میں ایسا کون ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اپنی شہوت پر قابو رکھتا ہو۔ اس حدیث کی متابعت خالد اور جریر نے شیبانی کی روایت سے کی ہے۔ (یہاں بھی مباشرت سے ساتھ لیٹنا بیٹھنا مراد ہے)۔

Narrated `Abdur-Rahman bin Al-Aswad: (on the authority of his father) `Aisha said: "Whenever Allah's Apostle wanted to fondle anyone of us during her periods (menses), he used to order her to put on an Izar and start fondling her." `Aisha added, "None of you could control his sexual desires as the Prophet could."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 6, Number 299

   صحيح البخاري302عائشة بنت عبد اللهتتزر في فور حيضتها ثم يباشرها أيكم يملك إربه كما كان النبي يملك إربه
   صحيح البخاري2031عائشة بنت عبد اللهيباشرني وأنا حائض يخرج رأسه من المسجد وهو معتكف فأغسله
   صحيح مسلم679عائشة بنت عبد اللهتأتزر بإزار ثم يباشرها
   صحيح مسلم680عائشة بنت عبد اللهتأتزر في فور حيضتها ثم يباشرها
   جامع الترمذي132عائشة بنت عبد اللهأتزر ثم يباشرني
   سنن أبي داود273عائشة بنت عبد اللهنتزر ثم يباشرنا أيكم يملك إربه كما كان رسول الله يملك إربه
   سنن أبي داود268عائشة بنت عبد اللهتتزر ثم يضاجعها زوجها
   سنن النسائى الصغرى374عائشة بنت عبد اللهتتزر ثم يباشرها
   سنن النسائى الصغرى375عائشة بنت عبد اللهتتزر بإزار واسع ثم يلتزم
   سنن النسائى الصغرى373عائشة بنت عبد اللهتشد إزارها ثم يباشرها
   سنن النسائى الصغرى287عائشة بنت عبد اللهتتزر ثم يباشرها
   سنن النسائى الصغرى286عائشة بنت عبد اللهتشد إزارها ثم يباشرها
   سنن ابن ماجه636عائشة بنت عبد اللهتأتزر بإزار ثم يباشرها
   سنن ابن ماجه635عائشة بنت عبد اللهتأتزر في فور حيضتها ثم يباشرها أيكم يملك إربه كما كان رسول الله يملك إربه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 680  
´ حیض کے دوران میں کپڑوں میں ملبوس بیوی کے ساتھ لیٹنا `
«. . .، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَ إِحْدَانَا إِذَا كَانَتْ حَائِضًا، أَمَرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ تَأْتَزِرَ فِي فَوْرِ حَيْضَتِهَا، ثُمَّ يُبَاشِرُهَا، قَالَتْ: وَأَيُّكُمْ يَمْلِكُ إِرْبَهُ، كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَمْلِكُ إِرْبَهُ . . .»
. . . ‏‏‏‏ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم میں سے جب کسی عورت کو حیض آتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکم کرتے تہبند باندھنے کا، جب حیض کا خون جوش پر ہوتا پھر اس سے مباشرت کرتے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: تم میں سے کون اپنی خواہش اور ضرورت پر اس قدر اختیار رکھتا ہے جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکھتے تھے . . . [صحيح مسلم/كِتَاب الْحَيْضِ/باب مُبَاشَرَةِ الْحَائِضِ فَوْقَ الإِزَارِ: 680]

تخريج الحديث:
[168۔ البخاري فى: 6 كتاب الحيض: 5 باب مباشرة الحائض 300، مسلم 293، ابوداود 268، ترمذي 132]
«لغوي توضيح:» «الْحَیْض» بہنا، ماہواری کا خوان جاری ہونا۔ مراد وہ خون ہے جو عورت کے رحم سے بلوغت کے بعد مخصوص ایام میں خارج ہوتا ہے۔
«يُبَاشِرُ» جسم کے ساتھ جسم ملاتے (جماع کے علاوہ)۔
«فَوْر» ابتدا۔
«يَمْلِكُ» مالک ہے، قابو رکھ سکتا ہے۔
«اِرْبَهُ» اپنی خواہش و شہوت پر۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقصد یہ تھا صرف اس آدمی کے لیے اپنی حائضہ بیوی سے مباشرت (جسم کے ساتھ جسم ملانا وغیرہ) جائز ہے جو اپنی شہوت پر قابو رکھ سکتا ہو اور حرام میں مبتلا ہونے (یعنی ایام ماہواری میں جماع و ہم بستری کرنے) سے بچ سکتا ہو۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 168   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 273  
´حائضہ عورت سے جماع کے سوا آدمی سب کچھ کر سکتا ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے حیض کی شدت میں ہمیں ازار (تہبند) باندھنے کا حکم فرماتے تھے پھر ہم سے مباشرت کرتے تھے، اور تم میں سے کون اپنی خواہش پر قابو پا سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی خواہش پر قابو تھا؟ ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 273]
273۔ اردو حاشیہ:
معلوم ہوا کہ نوبیاہتا اور جوان جوڑوں کو مخصوص دنوں میں بے انتہا احتیاط واجب ہے، مگر جب عمر ڈھل جائے اور جذبات میں ٹھہراؤ آ جائے تو مذکورہ فعل جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 273   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 373  
´حائضہ کو چمٹانے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم بیویوں میں سے کسی کو جب وہ حائضہ ہوتی حکم دیتے کہ وہ اپنا ازار باندھ لے، پھر آپ اس سے چمٹتے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الحيض والاستحاضة/حدیث: 373]
373۔ اردو حاشیہ: دیکھیے، حدیث: 286 اور اس کے فوائد و مسائل۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 373   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 286  
´حائضہ کے ساتھ چمٹنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے ایک کو جب وہ حائضہ ہوتی حکم دیتے کہ وہ تہبند باندھ لے، پھر آپ اس کے ساتھ لیٹ جاتے تھے۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 286]
286۔ اردو حاشیہ: حائضہ عورت کا جسم ظاہراً پلید نہیں ہوتا، لہٰذا اگر اس کے ننگے جسم کے ساتھ خاوند کا ننگا جسم لگ جائے تو کوئی حرج نہیں، البتہ ناف سے گھٹنوں تک یا کم از کم شرم گاہ وغیرہ پر کپڑا ہونا ضروری ہے تاکہ خون کے ساتھ ساتھ جماع سے بھی بچا جا سکے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 286   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث635  
´حائضہ عورت سے مرد کس حد تک فائدہ اٹھا سکتا ہے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم (ازواج مطہرات) میں سے جب کوئی حیض سے ہوتی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے حیض کی تیزی کے دنوں میں تہبند باندھنے کا حکم دیتے، پھر اس کے ساتھ لیٹتے، اور تم میں سے کس کو اپنی خواہش نفس پر ایسا اختیار ہے جیسا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تھا؟ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 635]
اردو حاشہ:
(1)
حیض کے ایام میں عورت سے جنسی عمل حرام ہے۔

(2)
ہم بستری کے علاوہ عورت سے قریب ہونا اس کے ساتھ لیٹنا معانقہ کرنا پیار کرنا سب کچھ جائز ہے۔

(3)
ان ایام میں اس جائز قربت سے بھی پرہیز کرنا بہتر ہے ایسا نہ ہو کہ مرد اپنی خواہش پر قابو نہ رکھ سکےاور مباشرت کر بیٹھے۔

(4)
جس شخص کے جذبات میں اس قدر شدت باقی نہ رہی ہو جتنی عام طور پر جوانی میں ہوتی ہے اس کے لیے مباشرت کے سوا دوسرے مبادیات کا ارتکاب جائزہے تاہم احتیاط بہتر ہے۔

(5)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ضبط نفس کمال کی مثال ہے کہ باوجود انتہائی طاقت کے اپنی ذات پر بہترین کنٹرول رکھتے تھے۔

(6)
مباشرت کے معنی ہم بستری (صحبت کرنے)
کے بھی ہیں اور بیوی کےساتھ صرف بوس وکنار کے بھی یہاں یہ لفظ اسی دوسرے معنی کے لیے استعمال ہوا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 635   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:302  
302. حضرت عائشہ‬ ؓ ہ‬ی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم ازواج میں سے جب کوئی حیض سے ہوتی اور اسی حالت میں رسول اللہ ﷺ ہمارے استراحت کا ارادہ فرماتے تو آپ ازار باندھنے کا حکم دیتے باوجودیکہ حیض جوش میں ہوتا، پھر آپ اس کے ساتھ استراحت فرماتے۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: تم میں سے ایسا کون ہے جو نبی ﷺ کی طرح اپنی خواہش پر کنٹرول کرنے والا ہو؟ اس حدیث کو شیبانی سے بیان کرنے میں خالد اور جریر نے (علی بن مسھر کی) متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:302]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے مباشرت حائض کے احکام بیان کرنے کے متعلق یہ عنوان قائم کیا ہے، اس سے مراد حائضہ کے ساتھ سونا یا اس سے بوس و کنار کرنا ہے، اس سے مراد جماع نہیں، کیونکہ وہ تو حائضہ سے کسی صورت میں جائز نہیں۔
اگرچہ ہمارے ہاں اور محاورے میں لفظ مباشرت جماع کے لیے بولا جاتا ہے، اس لیے اس کا لفظ اردو زبان میں مباشرت سے ترجمہ کرنا غلط ہے۔
بعض عاقبت نااندیش مستشرقین نے اس باب میں آنے والی احادیث کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی کو خاکم بدہن عورتوں کا رسیا ثابت کیا ہے جو حالت حیض میں بھی ان سے پرہیز نہ کرتے تھے، ان احادیث سے قطعاً یہ ثابت نہیں ہوتا۔
رسول اللہ ﷺ انتہائی نفاست پسند تھے۔
ایک عام آدمی کو بھی بحالت حیض میں عورت کے پاس جانے سے گھن آتی ہے، چہ جائیکہ رسول اللہ ﷺ کی طرف اس قسم کا فعل منسوب کیا جائے۔
﴿ سُبْحَانَكَ هَٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ ﴾ قارئین کرام کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ ضب (سانڈھے)
کو قسام ازل (اللہ تعالیٰ)
نے انتہائی شہوانی جذبات سے نوازا ہے، قابل اعتماد عینی گواہوں کا بیان ہے کہ اس کے دو ذکر ہوتے ہیں، لوگ اسے کھانے اور اس کی چربی کو طلا کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
احادیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حلال ہونے کے باوجود اسے ناپسند فرمایا۔
آپ کے دسترخوان پر دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسے کھایا، لیکن آپ نے تناول نہیں فرمایا۔
غالباً اس کی یہی وجہ تھی کہ لوگ اس بات کا چرچا کریں گے کہ آپ کے عقد میں نو بیویاں ہیں، اس لیے ضب (سانڈھے)
کو استعمال کرتے ہیں۔
آپ نے اس سے کراہت کا اظہار کیا تاکہ کسی طرف سے بھی آپ کی شخصیت پر حرف نہ آئے۔
واللہ أعلم 2۔
امام ثوری ؒ امام احمد ؒ امام اسحاق ؒ اور دیگر کئی آئمہ کے نزدیک دوران حیض میں عورت سے صرف جماع حرام ہے اور فرج (حیض والی جگہ)
کے سوا پورے جسم سے تمتع کرنا جائز ہے۔
دلائل کے اعتبار سے یہی رائے راجح معلوم ہوتی ہے، اس کی تائید سنن ابو داود کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں ہے کہ نبی ﷺ اگراپنی اہلیہ سے خواہش کرتے اور وہ حیض سے ہوتی تو اس کی شرمگاہ پر کپڑا ڈال دیتے۔
(سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 272)
ابتدائی دنوں اور بعد کے ایام کی تفریق والی وہ روایت جسے ابن حجر ؒ نے فتح الباری میں ابن ماجہ کے حوالے سے نقل کیا ہے، وہ معجم طبرانی میں ہے، لیکن ضعیف ہے۔
(السلسلة الضعیفة: 2839)
یادرہے کہ جواز اسی صورت میں ہے جب انسان اپنے آپ پر کنٹرول رکھتا ہو، ورنہ ایام حیض میں مرد عورت سے الگ رہے۔

رسول اللہ ﷺ اپنی خواہشات پر انتہائی قابو یافتہ تھے۔
اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ اپنے جذبات پر پوری طرح قابو یافتہ تھے اور نا ممکن تھا کہ ازار کے بغیر بھی اگر وہ کسی بیوی کے ساتھ استراحت کرنا چاہیں تو ان سے کوئی خلاف شرع فعل صادر ہو سکے، مگر اس قدر کنٹرول کے باوجود آپ پہلے ازار پہنانے کا اہتمام کرتے، پھر اس کے ساتھ محو استراحت ہوتے۔
ازار کے بعد بھی وفور جذبات میں بہہ جانے کا اندیشہ باقی رہتا ہے، اس لیے ازار استعمال کرانے کے باوجود احتیاط کی ضرورت ہے، لہذا ایام حیض میں بیوی کے ساتھ لیٹنے والے کے بارے میں تفصیل ہے کہ اگر اسے اپنی ذات پر پورا اعتماد ہو اور کسی غلط روی کا اندیشہ نہ ہو تو اس کی اجازت دی جائے گی، بصورت دیگر اسے منع کر دیا جائے گا۔

حدیث عائشہ ؓ (رقم 302)
کو ابو اسحاق شیبانی سےبیان کرنے میں خالد بن عبد اللہ الواسطی اور جریر بن عبدالحمید نے علی بن مسہر کی متابعت کی ہے، خالد کی متابعت کو ابو القاسم التنوخی نے اپنے فوائد میں موصولاً بیان کیا ہے، جبکہ جریر کی متابعت کو ابو داؤد نے اپنی سنن اور امام حاکم نے اپنی مستدرک میں موصولاً بیان کیا ہے۔
منصور بن ابی الاسود نے بھی شیبانی سے اس روایت کو بیان کیا ہے جسے ابو عوانہ نے اپنی مسند میں موصولاًبیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 5261)

دور حاضرکے منکرین حدیث کی کوشش ہے کہ قرآن و حدیث میں تضاد اورٹکراؤ پیدا کر کے انکار حدیث کا راستہ ہموار کیا جائے۔
اس طرح جب حدیث کا قرآن فہمی میں کوئی کردار نہیں ہوگا تو قرآن کریم کی من مانی تاویلات کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی، اس حدیث کے متعلق بھی انھوں نے کہا کہ اس میں بحالت حیض بیوی سے مباشرت کرنے کا ذکر ہے، جبکہ قرآن کریم میں اس کے متعلق حکم امتناعی ہے، لہٰذا یہ حدیث قرآن کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل تسلیم ہے۔
قارئین کرام کو خبردار کرنے کے لیے ہم نے ان کا ذکر کردیا ہے۔
حدیث اپنے مفہوم کے اعتبار سے واضح ہے کہ مباشرت سے مراد جماع نہیں، بلکہ اپنی بیوی کے ساتھ لیٹنا اور اس سے بوس وکنار کرنا ہے، اگر قرآن و حدیث میں بظاہر تعارض نظر آئے تو انکار کے بجائے اس کی توجیہ کرنی چاہیے۔
قرآن کریم کی متعدد آیات میں بظاہر تعارض نظر آتا ہے، لیکن مفسرین اس کی توجیہ کرتے ہیں، یہ نہیں ہوتا کہ جہاں معمولی سا تعارض نظر آیا اس کا سرے سے انکار کردیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 302   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.