الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
30. بَابُ غَزْوَةُ الْخَنْدَقِ وَهْيَ الأَحْزَابُ:
30. باب: غزوہ خندق کا بیان جس کا دوسرا نام غزوہ احزاب ہے۔
(30) Chapter. The Ghazwa of Al-Khandaq which is called Al-Ahzab Battle.
حدیث نمبر: 4108
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
حدثني إبراهيم بن موسى , اخبرنا هشام , عن معمر , عن الزهري , عن سالم , عن ابن عمر , قال: واخبرني ابن طاوس , عن عكرمة بن خالد , عن ابن عمر , قال: دخلت على حفصة ونوساتها تنطف , قلت: قد كان من امر الناس ما ترين فلم يجعل لي من الامر شيء , فقالت: الحق فإنهم ينتظرونك واخشى ان يكون في احتباسك عنهم فرقة , فلم تدعه حتى ذهب فلما تفرق الناس خطب معاوية , قال: من كان يريد ان يتكلم في هذا الامر فليطلع لنا قرنه فلنحن احق به منه ومن ابيه , قال حبيب بن مسلمة: فهلا اجبته , قال عبد الله: فحللت حبوتي وهممت ان اقول احق بهذا الامر منك من قاتلك واباك على الإسلام , فخشيت ان اقول كلمة تفرق بين الجمع وتسفك الدم ويحمل عني غير ذلك , فذكرت ما اعد الله في الجنان , قال حبيب: حفظت وعصمت. قال محمود: عن عبد الرزاق: ونوساتها.حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى , أَخْبَرَنَا هِشَامٌ , عَنْ مَعْمَرٍ , عَنْ الزُّهْرِيِّ , عَنْ سَالِمٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ: وَأَخْبَرَنِي ابْنُ طَاوُسٍ , عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ وَنَوْسَاتُهَا تَنْطُفُ , قُلْتُ: قَدْ كَانَ مِنْ أَمْرِ النَّاسِ مَا تَرَيْنَ فَلَمْ يُجْعَلْ لِي مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ , فَقَالَتْ: الْحَقْ فَإِنَّهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ وَأَخْشَى أَنْ يَكُونَ فِي احْتِبَاسِكَ عَنْهُمْ فُرْقَةٌ , فَلَمْ تَدَعْهُ حَتَّى ذَهَبَ فَلَمَّا تَفَرَّقَ النَّاسُ خَطَبَ مُعَاوِيَةُ , قَالَ: مَنْ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يَتَكَلَّمَ فِي هَذَا الْأَمْرِ فَلْيُطْلِعْ لَنَا قَرْنَهُ فَلَنَحْنُ أَحَقُّ بِهِ مِنْهُ وَمِنْ أَبِيهِ , قَالَ حَبِيبُ بْنُ مَسْلَمَةَ: فَهَلَّا أَجَبْتَهُ , قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَحَلَلْتُ حُبْوَتِي وَهَمَمْتُ أَنْ أَقُولَ أَحَقُّ بِهَذَا الْأَمْرِ مِنْكَ مَنْ قَاتَلَكَ وَأَبَاكَ عَلَى الْإِسْلَامِ , فَخَشِيتُ أَنْ أَقُولَ كَلِمَةً تُفَرِّقُ بَيْنَ الْجَمْعِ وَتَسْفِكُ الدَّمَ وَيُحْمَلُ عَنِّي غَيْرُ ذَلِكَ , فَذَكَرْتُ مَا أَعَدَّ اللَّهُ فِي الْجِنَانِ , قَالَ حَبِيبٌ: حُفِظْتَ وَعُصِمْتَ. قَالَ مَحْمُودٌ: عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ: وَنَوْسَاتُهَا.
مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو ہشام نے خبر دی ‘ انہیں معمر بن راشد نے ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں سالم بن عبداللہ نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا اور معمر بن راشد نے بیان کیا کہ مجھے عبداللہ بن طاؤس نے خبر دی ‘ ان سے عکرمہ بن خالد نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں حفصہ رضی اللہ عنہا کے یہاں گیا تو ان کے سر کے بالوں سے پانی کے قطرات ٹپک رہے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ تم دیکھتی ہو لوگوں نے کیا کیا اور مجھے تو کچھ بھی حکومت نہیں ملی۔ حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مسلمانوں کے مجمع میں جاؤ ‘ لوگ تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا موقع پر نہ پہنچنا مزید پھوٹ کا سبب بن جائے۔ آخر حفصہ رضی اللہ عنہا کے اصرار پر عبداللہ رضی اللہ عنہ گئے۔ پھر جب لوگ وہاں سے چلے گئے تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور کہا کہ خلافت کے مسئلہ پر جسے گفتگو کرنی ہو وہ ذرا اپنا سر تو اٹھائے۔ یقیناً ہم اس سے زیادہ خلافت کے حقدار ہیں اور اس کے باپ سے بھی زیادہ۔ حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس پر کہا کہ آپ نے وہیں اس کا جواب کیوں نہیں دیا؟ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے اسی وقت اپنے لنگی کھولی (جواب دینے کو تیار ہوا) اور ارادہ کر چکا تھا کہ ان سے کہوں کہ تم سے زیادہ خلافت کا حقدار وہ ہے جس نے تم سے اور تمہارے باپ سے اسلام کے لیے جنگ کی تھی۔ لیکن پھر میں ڈرا کہ کہیں میری اس بات سے مسلمانوں میں اختلاف بڑھ نہ جائے اور خونریزی نہ ہو جائے اور میری بات کا مطلب میری منشا کے خلاف نہ لیا جانے لگے۔ اس کے بجائے مجھے جنت کی وہ نعمتیں یاد آ گئیں جو اللہ تعالیٰ نے (صبر کرنے والوں کے لیے) جنت میں تیار کر رکھی ہیں۔ حبیب ابن ابی مسلم نے کہا کہ اچھا ہوا آپ محفوظ رہے اور بچا لیے گئے ‘ آفت میں نہیں پڑے۔ محمود نے عبدالرزاق سے ( «نسواتها‏.» کے بجائے لفظ) «ونوساتها‏.» بیان کیا (جس کے معنی چوٹی کے ہیں جو عورتیں سر پر بال گوندھتے وقت نکالتی ہیں)۔

Narrated `Ikrima bin Khalid: Ibn `Umar said, "I went to Hafsa while water was dribbling from her twined braids. I said, 'The condition of the people is as you see, and no authority has been given to me.' Hafsa said, (to me), 'Go to them, and as they (i.e. the people) are waiting for you, and I am afraid your absence from them will produce division amongst them.' " So Hafsa did not leave Ibn `Umar till we went to them. When the people differed. Muawiya addressed the people saying, "'If anybody wants to say anything in this matter of the Caliphate, he should show up and not conceal himself, for we are more rightful to be a Caliph than he and his father." On that, Habib bin Masalama said (to Ibn `Umar), "Why don't you reply to him (i.e. Muawiya)?" `Abdullah bin `Umar said, "I untied my garment that was going round my back and legs while I was sitting and was about to say, 'He who fought against you and against your father for the sake of Islam, is more rightful to be a Caliph,' but I was afraid that my statement might produce differences amongst the people and cause bloodshed, and my statement might be interpreted not as I intended. (So I kept quiet) remembering what Allah has prepared in the Gardens of Paradise (for those who are patient and prefer the Hereafter to this worldly life)." Habib said, "You did what kept you safe and secure (i.e. you were wise in doing so).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 434


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4108  
4108. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں حضرت حفصہ بنت عمر‬ ؓ ک‬ے پاس گیا تو ان کے سر کے بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ میں نے ان سے کہا: آپ نے دیکھا کہ لوگوں نے کیا کیا ہے؟ مجھے تو حکومت کا کچھ حصہ بھی نہیں ملا۔ حضرت حفصہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: لوگوں کے اجتماع میں شرکت کرو۔ وہ تمہارا انتظارکر رہے ہیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ تمہارے رک جانے سے مزید اختلاف ہو گا۔ آخر کار ان کے اصرار کرنے پر وہ اجتماع میں گئے۔ جب لوگ حضرت معاویہ ؓ کی بیعت کر کے چلے گئے تو امیر معاویہ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اس (خلافت کے) موضوع پر جس نے کوئی بات کرنی ہے وہ اپنا سر اٹھائے، یقینا ہم اس سے اور اس کے باپ سے خلافت کے زیادہ حق دار ہیں۔ حضرت حبیب بن مسلمہ ؓ نے کہا: اس وقت آپ نے اس بات کا جواب کیوں نہ دیا؟ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ میں نے تو گرہ کھول کر بات کرنے کا پختہ ارادہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4108]
حدیث حاشیہ:
حافظ صاحب فر ماتے ہیں:
مُرَادُهُ بِذَلِكَ مَا وَقَعَ بَيْنَ عَلِيٍّ وَمُعَاوِيَةَ مِنَ الْقِتَالِ فِي صِفِّينَ يَوْمَ اجْتِمَاعِ النَّاسِ عَلَى الْحُكُومَةِ بَيْنَهُمْ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ فَرَاسَلُوا بَقَايَا الصَّحَابَةِ مِنَ الْحَرَمَيْنِ وَغَيْرِهِمَا وَتَوَاعَدُوا عَلَى الِاجْتِمَاعِ لينظروا فِي ذَلِك فَشَاور بن عُمَرَ أُخْتَهُ فِي التَّوَجُّهِ إِلَيْهِمْ أَوْ عَدَمِهِ فَأَشَارَتْ عَلَيْهِ بِاللَّحَاقِ بِهِمْ خَشْيَةَ أَنْ يَنْشَأَ مِنْ غَيْبَتِهِ اخْتِلَافٌ يُفْضِي إِلَى اسْتِمْرَارِ الْفِتْنَةِ قَوْلُهُ فَلَمَّا تَفَرَّقَ النَّاسُ أَيْ بَعْدَ أَنِ اخْتَلَفَ الْحَكَمَانِ وَهُمَا أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ وَكَانَ مِنْ قِبَلِ عَلِيٍّ وَعَمْرُو بْنُ الْعَاصِ وَكَانَ مِنْ قِبَلِ مُعَاوِيَةَ (فتح)
یعنی مراد وہ حکومت کا جھگڑا ہے جو صفین کے مقام پر حضرت علی ؓ اور معاویہ ؓ کے درمیان واقع ہوا۔
اس کے لیے حرمین کے بقایا صحابہ ؓ نے باہمی مراسلت کرکے اس قضیہ نا مرضیہ کو ختم کرنے میں کوشش کرنے کے لیے ایک مجلس شوری کو بلایا جس میں شرکت کے لیے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے اپنے بہن سے مشورہ کیا۔
بہن کا مشورہ یہی ہوا کہ تم کو بھی اس مجلس میں ضرور شریک ہونا چاہیے ورنہ خطرہ ہے کہ تمہاری طرف سے لوگوں میں خواہ مخواہ بد گمانیاں پیدا ہو جائیں گی جن کا نتیجہ موجودہ فتنے کے ہمیشہ جاری رہنے کی صورت میں ظاہر ہو تو یہ اچھا نہ ہوگا۔
جب مجلس شوری ختم ہوئی تو معاملہ دونوں طرف سے ایک ایک پنچ کے انتخاب پر ختم ہوا۔
چنانچہ حضرت ابو موسی اشعری ؓ حضرت علی ؓ کی طرف سے اور حضرت عمرو بن العاص ؓ حضرت معاویہ ؓ کی طرف سے پنچ قرار پائے۔
بعد میں وہ ہوا جو مشہور ومعروف ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4108   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4108  
4108. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں حضرت حفصہ بنت عمر‬ ؓ ک‬ے پاس گیا تو ان کے سر کے بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ میں نے ان سے کہا: آپ نے دیکھا کہ لوگوں نے کیا کیا ہے؟ مجھے تو حکومت کا کچھ حصہ بھی نہیں ملا۔ حضرت حفصہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: لوگوں کے اجتماع میں شرکت کرو۔ وہ تمہارا انتظارکر رہے ہیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ تمہارے رک جانے سے مزید اختلاف ہو گا۔ آخر کار ان کے اصرار کرنے پر وہ اجتماع میں گئے۔ جب لوگ حضرت معاویہ ؓ کی بیعت کر کے چلے گئے تو امیر معاویہ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اس (خلافت کے) موضوع پر جس نے کوئی بات کرنی ہے وہ اپنا سر اٹھائے، یقینا ہم اس سے اور اس کے باپ سے خلافت کے زیادہ حق دار ہیں۔ حضرت حبیب بن مسلمہ ؓ نے کہا: اس وقت آپ نے اس بات کا جواب کیوں نہ دیا؟ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ میں نے تو گرہ کھول کر بات کرنے کا پختہ ارادہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4108]
حدیث حاشیہ:

غزوہ احزاب میں اگرچہ باقاعدہ جنگ کی صورت نہیں تھی لیکن کفر نے ایک متحدہ محاذ کی شکل میں اسلام اور اہل اسلام کو ختم کرنے کے لیے مدینے پر چڑھائی کی۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح و کامیابی سے ہمکنار کیا۔
انھوں نے خندق کھود کر شہر کو ان کے حملے سے محفوظ کر لیا تھا اور کفار اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہ ہو سکے اور ناکام واپس لوٹ گئے۔

امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو حضرت ابن عمر ؓ کے اس ارشاد کی بنا پر پیش کیا جو انھوں نے حضرت امیر معاویہ ؓ کے سامنے پیش کرنے کا ارادہ کیا تھا کہ تم سے زیادہ خلافت کا حق دار وہ ہے جس نے تم سے اور تمھارے باپ سے اسلام کی سر بلندی کے لیے جنگ لڑی تھی۔
یعنی غزوہ احد اور خندق کے دن معاویہ اور ان کے باپ ابو سفیان سے قتال کیا۔
اس مقابلے میں حضرت علی ؓ مہاجرین اور حاضرین خندق ؓ مراد ہیں جن میں حضرت ابن عمر ؓ بھی شامل تھے۔
اس اعتبار سے اس واقعے کو غزوہ خندق کے عنوان میں لایا گیا ہے 3۔
بنو ہاشم زہدہ وتقوی میں پیش تھے جبکہ بنو امیہ میں طاقت اور دولت تھی چنانچہ جب تک ان میں قوت رہی انھوں نے بنو ہاشم کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا۔
حضرت ابو سفیان ؓ تو آخر وقت تک مسلمانوں سے لڑتے رہے آخر فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے۔

حضرت ابن عمر ؓ کا موقف تھا کہ فاضل کی موجود گی میں مغضول کے ہاتھ پر بیعت کر لینا مسلمانوں کی خونریزی سے بہترہے اس لیے انھوں نے حضرت معاویہ ؓ اور ان کے بیٹے یزید سے بیعت کی۔

بہرحال اس حدیث کی غزوہ خندق سے یہ مناسبت ہے کہ خلفائے راشدین ؓ اور حضرت ابن عمر ؓ غزوہ خندق میں موجود تھے جبکہ ابو سفیان اور حضرت معاویہ ؓ اس وقت مخالف اسلام تھےاس مقام پر خلافت اور حکومت کے استحقاق سے بحث مقصود نہیں وہ ہم کتاب الاحکام میں بیان کریں گے۔
باذن اللہ تعالیٰ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4108   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.