الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: شرعی حیلوں کے بیان میں
The Book of Tricks
حدیث نمبر: 6967
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا محمد بن كثير، عن سفيان، عن هشام، عن عروة، عن زينب بنت ام سلمة، عن ام سلمة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إنما انا بشر وإنكم تختصمون إلي، ولعل بعضكم ان يكون الحن بحجته من بعض، واقضي له على نحو ما اسمع، فمن قضيت له من حق اخيه شيئا فلا ياخذ، فإنما اقطع له قطعة من النار".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، وَأَقْضِيَ لَهُ عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا فَلَا يَأْخُذْ، فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ".
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے ہشام نے، ان سے عروہ نے، ان سے زینت بنت ام سلمہ نے اور ان سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہارے ہی جیسا انسان ہوں اور بعض اوقات جب تم باہمی جھگڑا لاتے ہو تو ممکن ہے کہ تم میں سے بعض اپنے فریق مخالف کے مقابلہ میں اپنا مقدمہ پیش کرنے میں زیادہ چالاکی سے بولنے والا ہو اور اس طرح میں اس کے مطابق فیصلہ کر دوں جو میں تم سے سنتا ہوں۔ پس جس شخص کے لیے بھی اس کے بھائی کے حق میں سے، میں کسی چیز کا فیصلہ کر دوں تو وہ اسے نہ لے۔ کیونکہ اس طرح میں اسے جہنم کا ایک ٹکڑا دیتا ہوں۔

Narrated Um Salama: The Prophet said, "I am only a human being, and you people have disputes. May be some one amongst you can present his case in a more eloquent and convincing manner than the other, and I give my judgment in his favor according to what I hear. Beware! If ever I give (by error) somebody something of his brother's right then he should not take it as I have only, given him a piece of Fire." (See Hadith No. 638. Vol. 3)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 86, Number 97

   صحيح البخاري6967زينب بنت عبد اللهأنا بشر وإنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض وأقضي له على نحو ما أسمع فمن قضيت له من حق أخيه شيئا فلا يأخذ فإنما أقطع له قطعة من النار
   صحيح البخاري2458زينب بنت عبد اللهأنا بشر وإنه يأتيني الخصم فلعل بعضكم أن يكون أبلغ من بعض فأحسب أنه صدق فأقضي له بذلك فمن قضيت له بحق مسلم فإنما هي قطعة من النار فليأخذها أو فليتركها
   صحيح البخاري7185زينب بنت عبد اللهأنا بشر وإنه يأتيني الخصم فلعل بعضا أن يكون أبلغ من بعض أقضي له بذلك وأحسب أنه صادق فمن قضيت له بحق مسلم فإنما هي قطعة من النار فليأخذها أو ليدعها
   صحيح البخاري7181زينب بنت عبد اللهأنا بشر وإنه يأتيني الخصم فلعل بعضكم أن يكون أبلغ من بعض فأحسب أنه صادق فأقضي له بذلك فمن قضيت له بحق مسلم فإنما هي قطعة من النار فليأخذها أو ليتركها
   صحيح البخاري2680زينب بنت عبد اللهإنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم ألحن بحجته من بعض فمن قضيت له بحق أخيه شيئا بقوله فإنما أقطع له قطعة من النار فلا يأخذها
   صحيح البخاري7169زينب بنت عبد اللهأنا بشر وإنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض فأقضي على نحو ما أسمع فمن قضيت له من حق أخيه شيئا فلا يأخذه فإنما أقطع له قطعة من النار
   صحيح مسلم4473زينب بنت عبد اللهإنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض فأقضي له على نحو مما أسمع منه فمن قطعت له من حق أخيه شيئا فلا يأخذه فإنما أقطع له به قطعة من النار
   صحيح مسلم4475زينب بنت عبد اللهأنا بشر وإنه يأتيني الخصم فلعل بعضهم أن يكون أبلغ من بعض فأحسب أنه صادق فأقضي له فمن قضيت له بحق مسلم فإنما هي قطعة من النار فليحملها أو يذرها
   جامع الترمذي1339زينب بنت عبد اللهأنا بشر ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض فإن قضيت لأحد منكم بشيء من حق أخيه فإنما أقطع له قطعة من النار فلا يأخذ منه شيئا
   سنن النسائى الصغرى5403زينب بنت عبد اللهتختصمون إلي وإنما أنا بشر ولعل بعضكم ألحن بحجته من بعض فمن قضيت له من حق أخيه شيئا فلا يأخذه فإنما أقطعه به قطعة من النار
   سنن النسائى الصغرى5424زينب بنت عبد اللهتختصمون إلي وإنما أنا بشر ولعل بعضكم ألحن بحجته من بعض فإنما أقضي بينكما على نحو ما أسمع فمن قضيت له من حق أخيه شيئا فإنما أقطع له قطعة من النار
   سنن ابن ماجه2317زينب بنت عبد اللهأنا بشر ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض وإنما أقضي بينكم على نحو مما أسمع منكم فمن قضيت له من حق أخيه شيئا فلا يأخذه فإنما أقطع له قطعة من النار يأتي بها يوم القيامة
   بلوغ المرام1194زينب بنت عبد الله إنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض فأقضي له على نحو ما أسمع منه فمن قطعت له من حق أخيه شيئا فإنما أقطع له قطعة من النار
   مسندالحميدي298زينب بنت عبد اللهإنما أنا بشر وإنكم تختصمون إلي، ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض فأيكم قضيت له من حق أخيه بشيء فلا يأخذ به؛ فإنما أقطع له به قطعة من النار

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2317  
´حاکم کا فیصلہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام نہیں کرتا۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ میرے پاس جھگڑے اور اختلافات لاتے ہو اور میں تو ایک انسان ہی ہوں، ہو سکتا ہے تم میں سے کوئی اپنی دلیل بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ چالاک ہو، اور میں اسی کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں جو تم سے سنتا ہوں، لہٰذا اگر میں کسی کو اس کے بھائی کا کوئی حق دلا دوں تو وہ اس کو نہ لے، اس لیے کہ میں اس کے لیے آگ کا ایک ٹکڑا دلاتا ہوں جس کو وہ قیامت کے دن لے کر آئے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2317]
اردو حاشہ:
فوائد  و مسائل:

(1)
قاضی کو فریقین کے دلائل گواہوں کی گواہی اور دیگر قرائن کی روشنی میں صحیح فیصلہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اس کے باوجود اگر اس سے غلط فیصلہ ہو گیا تو اسے گناہ نہیں ہوگا۔

(2)
  اگر ایک شخص کو معلوم ہے کہ اس معاملے میں میرا موقف درست نہیں لیکن قاضی اس کے حق میں فیصلے دے دیتا ہے تو اس سے اصل حقیقت میں فرق نہیں پڑتا لہٰذا اس کے لیے وہ چیز لینا جائز نہیں جسے قاضی اس کی قرار دے چکا ہے۔

(3)
  اس حدیث کی روشنی میں علمائے کرام نے یہ اصول بیان فرمایا ہے:
قاضی کا فیصلہ ظاہراً نافذ ہوتا ہے باطناً نہیں۔
اس کا یہی مطلب ہے کہ قاضی کے فیصلے سے کسی دوسرے کی چیز حلال نہیں ہو جاتی مثلاً اگر جھوٹے گواہوں کی مدد سے یہ فیصلہ لے لیا جائے کہ فلاں عورت کا نکاح ہو چکا ہے تو مرد کے لیے اس عورت کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کرنا جائز نہیں ہو گا۔
اگر وہ ایسا کرے گا تو زنا کا مرتکب ہو گا اور قیامت والے دن اسے اس کی سزا ملے گی۔
اس طرح اگر قاضی یہ فیصلہ کر دے کہ فلاں عورت کو طلاق ہو چکی ہے جبکہ حقیقت میں مرد نے طلاق نہ دی ہو تو مرد اپنی اس بیوی سے ازدواجی تعلقات قائم رکھنے پر اللہ کے ہاں مجرم نہیں ہو گا۔

(4)
  نبی اکرم ﷺ کو علم غیب حاصل نہیں تھا البتہ بعض معاملات میں وحی کے ذریعے سے آپ کو خبر دے دی جاتی تھی۔

(5)
  ناجائز طور پر حاصل کیا ہوا مال قیامت کے دن سزا کا باعث بھی ہو گا اور رسوائی کا سبب بھی، جب مجرم سب لوگوں کےسامنے اپنے جرم کے ثبوت سمیت موجود ہو گا اور اسے اس کے مطابق سرعام سزا ملے گی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2317   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1194  
´(قضاء کے متعلق احادیث)`
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک تم لوگ اپنے جھگڑے میرے پاس لے کر آتے ہو اور تم میں سے بعض اپنے دلائل بڑی خوبی و چرب زبانی سے بیان کرتا ہے تو میں نے جو کچھ سنا ہوتا ہے اسی کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہوں۔ پس جسے اس کے بھائی کے حق میں سے کوئی چیز دوں تو میں اس کے لئے آگ کا ٹکرا کاٹ کر دے رہا ہوں۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1194»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأحكام، باب موعظة الإمام للخصوم، حديث:7169، ومسلم، الأقضية، باب الحكم بالظاهر واللحن بالحجة، حديث:1713.»
تشریح:
1. یہ حدیث اس پر دلیل ہے کہ ظاہر بیانات کی روشنی میں فیصلہ واجب ہے۔
2. حاکم کا فیصلہ کسی چیز کی حقیقت میں کوئی تبدیلی پیدا کر سکتا ہے نہ کسی معاملے کو بدل سکتا ہے‘ یعنی نہ حرام کو حلال کر سکتا ہے اور نہ حلال کو حرام۔
جمہور کا یہی موقف ہے مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ قاضی کا فیصلہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح نافذ ہو جاتا ہے‘ مثلاً: ایک جج جھوٹی شہادت کی بنیاد پر فیصلہ دیتا ہے کہ فلاں عورت فلاں کی بیوی ہے باوجودیکہ وہ خاتون اجنبی ہے تو وہ اس مرد کے لیے حلال ہو جائے گی۔
لیکن اس قول کی قباحت اور اس کا باطل ہونا کسی پر مخفی نہیں ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1194   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1339  
´قاضی کے فیصلے کی بنا پر دوسرے کا مال لینے پر وارد وعید کا بیان۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ اپنا مقدمہ لے کر میرے پاس آتے ہو میں ایک انسان ہی ہوں، ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کوئی آدمی اپنا دعویٰ بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ چرب زبان ہو ۱؎ تو اگر میں کسی کو اس کے مسلمان بھائی کا کوئی حق دلوا دوں تو گویا میں اسے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں، لہٰذا وہ اس میں سے کچھ بھی نہ لے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1339]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی اپنی دلیل دوسرے کے مقابلے میں زیادہ اچھے طریقے سے پیش کرسکتا ہے۔

2؎:
یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ ظاہری بیانات کی روشنی میں فیصلہ واجب ہے،
حاکم کا فیصلہ حقیقت میں کسی چیز میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرسکتا،
اورنفس الامر میں نہ حرام کو حلال کرسکتا ہے اور نہ حلال کو حرام،
جمہورکی یہی رائے ہے،
لیکن امام ابوحنیفہ ؒ کا کہنا ہے کہ قاضی کا فیصلہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح نافذ ہوجاتا ہے مثلاً ایک جج جھوٹی شہادت کی بنیادپر فیصلہ دے دیتا ہے کہ فلاں عورت فلاں کی بیوی ہے باوجودیکہ وہ اجنبی ہے تو امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک وہ اس مرد کے لیے حلال ہوجائے گی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1339   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6967  
6967. سیدہ ام سلمہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: میں ایک انسان ہوں اور بعض اوقات جب تم باہمی جھگڑا لاتے ہو تو ممکن ہے کہ تم میں کوئی دوسرا اپنے فریق مخالف کے مقابلے میں زیادہ چالاکی سے بولنے والا ہو، اس طرح میں اس کے مطابق فیصلہ کر دوں جو میں اس سے سنتا ہوں، لہذا ایسے حالات میں جس شخص کے لیے بھی اس کے بھائی کے حق میں کسی چیز کا فیصلہ کر دوں تو وہ اسے نہ لے کیونکہ اس طرح میں اسے جہنم کا ایک ٹکڑا کر دیتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6967]
حدیث حاشیہ:
وہ فقہاءاسلام غور کریں جو قاضی کا فیصلہ ظاہراً و باطناً نافذ سمجھتے ہیں۔
اگرچہ وہ کتنا ہی غلط اور ظلم و جور سے بھرپور ہو جیسے کسی کی عورت زبردستی پکڑ کر اس کا کسی قاضی کے یہاں دعویٰ کر دے، اس پر اپنی صفائی میں دو جھوٹے گواہ پیش کر دے اور قاضی مان لے تو ایسے مقدمات کے قاضی کے غلط فیصلے صحیح نہ ہوں گے خواہ کتنے ہی قاضی اسے مان لیں اور غاصب کے حق میں فیصلہ دے دیں مگر جھوٹ جھوٹ رہے گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6967   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6967  
6967. سیدہ ام سلمہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: میں ایک انسان ہوں اور بعض اوقات جب تم باہمی جھگڑا لاتے ہو تو ممکن ہے کہ تم میں کوئی دوسرا اپنے فریق مخالف کے مقابلے میں زیادہ چالاکی سے بولنے والا ہو، اس طرح میں اس کے مطابق فیصلہ کر دوں جو میں اس سے سنتا ہوں، لہذا ایسے حالات میں جس شخص کے لیے بھی اس کے بھائی کے حق میں کسی چیز کا فیصلہ کر دوں تو وہ اسے نہ لے کیونکہ اس طرح میں اسے جہنم کا ایک ٹکڑا کر دیتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6967]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کوئی عنوان قائم نہیں فرمایا، گویا یہ پہلے عنوان کے لیے فصل کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے مذکورہ حدیث کی مناسبت پہلے باب سے ہوگی جو بالکل واضح ہے کہ جھوٹ یا جھوٹے گواہوں کی بنیاد پر حاکم نے جو فیصلہ کیا ہے اگرحق لینے والا جانتا ہے کہ یہ میرا حق نہیں کہ بلکہ کسی اور کا ہے توعدالت کے فیصلے سے یہ حق اس کا نہیں ہو جائے گا بلکہ اسے وہ اپنے لیے آگ کا ٹکڑا خیال کرے کیونکہ عدالت کا فیصلہ کسی حرام کو حلال یا کسی حلال کو حرام نہیں کر سکتا۔

دراصل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حیلہ سازوں کے سہاروں کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے اس کی بنیاد ایک مشہور اختلافی مسئلے پر ہے کہ جھوٹے گواہوں کی بنیاد پر عدالت جو فیصلہ کرتی ہے وہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح سے نافذ ہوتا ہے یا وہ صرف ظاہری اعتبار سے ہے باطنی لحاظ سے اس کی کوئی حیثیت نہیں۔
ظاہری اعتبار کا مطلب یہ ہے کہ وہ فیصلہ صرف دنیوی جھگڑا ختم کرنے کے لیے کارگر ہوتا ہے لیکن اخروی حلت اس سے ثابت نہیں ہوتی، قانونی حیثیت سے مدعی کو اس سے فائدہ ضرور ہوگا لیکن آخرت میں اس سے ضرور باز پر س ہوگی کیونکہ اس نے جانتے بوجھتے ہوئے غیر کا حق مارا ہے۔
جمہور اہل علم اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف ہے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔

باطنی اعتبار کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی وہ چیزمدعی کے لیے حلال ہو جائے گی اور اسے کسی قسم کا گناہ نہیں ہوگا اور نہ آخرت ہی میں اس سے کوئی باز پرس ہوگی، اہل کوفہ کا یہی موقف ہے۔
اس موقف کو محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہ نے سختی سے مسترد کیا ہے۔
ان میں سرفہرست امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔
انھوں نے مذکورہ بالا حدیث سے ثابت کیا ہے کہ عدالت کا فیصلہ تو بہت دور کی بات ہے، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ بھی ایسے حالات میں اسے اخروی باز پرس سے نہیں بچا سکتا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ اپنی چرب زبانی سے جو کوئی مجھ سے اپنے حق میں فیصلہ لے لےتو وہ غیر کا حق کسی صورت میں اس کے لیے حلال نہ ہوگا بلکہ میں اس کے لیے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دیتا ہوں۔

ہم اس مناسبت سے ان فقہائے کرام کو دعوت فکر دیتے ہیں۔
جو جھوٹے گواہوں کی بنیاد پر عدالت کا فیصلہ ظاہری اور باطنی لحاظ سے نافذ سمجھتے ہیں اگرچہ وہ کتنا ہی غلط اور ظلم وزیادتی سے بھر پور ہو۔
ذرا چشم تصور کھول کر سوچیں اگر کوئی بدفطرت حیلہ ساز کسی کی معصوم بیٹی زبردستی چھین کر عدالت میں دعویٰ کر دے کہ یہ میری بیوی ہے اور اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے لیے دو جھوٹے گواہ پیش کر دے، عدالت ان گواہوں پر اعتبار کر کے اس کے حق میں فیصلہ کر دے تو کیا واقعی وہ معصوم لڑکی اس کی بیوی بن جائے گی اور اس سے اپنی شہوت پوری کرنا اس کے لیے جائز ہو جائے گا؟ بہرحال اس قسم کے مقدمات میں عدالت کے فیصلے صحیح نہ ہوں گے، خواہ دنیا جہان کی ساری عدالتیں اسے تسلیم کرلیں اور غاصب کے حق میں فیصلہ دے دیں مگر جھوٹ جھوٹ ہی رہے گا۔
اس مسئلے کی مزید وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔
بإذن اللہ تعالیٰ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6967   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.