الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
The Book of Tauhid (Islamic Monotheism)
24. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ} :
24. باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ قیامت میں) ارشاد ”اس دن بعض چہرے تروتازہ ہوں گے، وہ اپنے رب کو دیکھنے والے ہوں گے، یا دیکھ رہے ہوں گے“۔
(24) Chapter. The Statement of Allah: “Some faces that Day shall be Nadirah (shining and radiant). Looking at their Lord.” (V.75:22,23)
حدیث نمبر: 7439
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث بن سعد، عن خالد بن يزيد، عن سعيد بن ابي هلال، عن زيد، عن عطاء بن يسار، عن ابي سعيد الخدري، قال: قلنا: يا رسول الله، هل نرى ربنا يوم القيامة؟، قال: هل تضارون في رؤية الشمس والقمر إذا كانت صحوا، قلنا: لا، قال: فإنكم لا تضارون في رؤية ربكم يومئذ إلا كما تضارون في رؤيتهما، ثم قال: ينادي مناد ليذهب كل قوم إلى ما كانوا يعبدون، فيذهب اصحاب الصليب مع صليبهم، واصحاب الاوثان مع اوثانهم، واصحاب كل آلهة مع آلهتهم حتى يبقى من كان يعبد الله من بر، او فاجر، وغبرات من اهل الكتاب، ثم يؤتى بجهنم تعرض كانها سراب، فيقال لليهود: ما كنتم تعبدون؟، قالوا: كنا نعبد عزير ابن الله، فيقال: كذبتم لم يكن لله صاحبة ولا ولد فما تريدون؟، قالوا: نريد ان تسقينا، فيقال: اشربوا، فيتساقطون في جهنم، ثم يقال للنصارى: ما كنتم تعبدون؟، فيقولون: كنا نعبد المسيح ابن الله، فيقال: كذبتم لم يكن لله صاحبة ولا ولد، فما تريدون؟، فيقولون: نريد ان تسقينا، فيقال: اشربوا، فيتساقطون في جهنم حتى يبقى من كان يعبد الله من بر، او فاجر، فيقال: لهم ما يحبسكم وقد ذهب الناس؟، فيقولون: فارقناهم، ونحن احوج منا إليه اليوم، وإنا سمعنا مناديا ينادي ليلحق كل قوم بما كانوا يعبدون، وإنما ننتظر ربنا، قال: فياتيهم الجبار في صورة غير صورته التي راوه فيها اول مرة، فيقول: انا ربكم، فيقولون: انت ربنا، فلا يكلمه إلا الانبياء، فيقول: هل بينكم وبينه آية تعرفونه؟، فيقولون: الساق، فيكشف عن ساقه، فيسجد له كل مؤمن ويبقى من كان يسجد لله رياء وسمعة، فيذهب كيما يسجد، فيعود ظهره طبقا واحدا، ثم يؤتى بالجسر، فيجعل بين ظهري جهنم، قلنا: يا رسول الله، وما الجسر؟، قال: مدحضة مزلة عليه خطاطيف وكلاليب وحسكة مفلطحة لها شوكة عقيفاء تكون بنجد يقال لها السعدان المؤمن عليها كالطرف، وكالبرق، وكالريح، وكاجاويد الخيل والركاب، فناج مسلم وناج مخدوش ومكدوس في نار جهنم، حتى يمر آخرهم يسحب سحبا فما انتم باشد لي مناشدة في الحق قد تبين لكم من المؤمن يومئذ للجبار، وإذا راوا انهم قد نجوا في إخوانهم، يقولون: ربنا إخواننا كانوا يصلون معنا ويصومون معنا ويعملون معنا، فيقول الله تعالى: اذهبوا فمن وجدتم في قلبه مثقال دينار من إيمان فاخرجوه، ويحرم الله صورهم على النار، فياتونهم وبعضهم قد غاب في النار إلى قدمه وإلى انصاف ساقيه، فيخرجون من عرفوا، ثم يعودون، فيقول: اذهبوا فمن وجدتم في قلبه مثقال نصف دينار، فاخرجوه، فيخرجون من عرفوا، ثم يعودون، فيقول: اذهبوا فمن وجدتم في قلبه مثقال ذرة من إيمان، فاخرجوه، فيخرجون من عرفوا، قال ابو سعيد: فإن لم تصدقوني، فاقرءوا: إن الله لا يظلم مثقال ذرة وإن تك حسنة يضاعفها سورة النساء آية 40 فيشفع النبيون والملائكة والمؤمنون، فيقول الجبار: بقيت شفاعتي، فيقبض قبضة من النار، فيخرج اقواما قد امتحشوا فيلقون في نهر بافواه الجنة، يقال له: ماء الحياة، فينبتون في حافتيه كما تنبت الحبة في حميل السيل قد رايتموها إلى جانب الصخرة وإلى جانب الشجرة فما كان إلى الشمس منها كان اخضر وما كان منها إلى الظل كان ابيض، فيخرجون كانهم اللؤلؤ، فيجعل في رقابهم الخواتيم، فيدخلون الجنة: فيقول اهل الجنة: هؤلاء عتقاء الرحمن ادخلهم الجنة بغير عمل عملوه ولا خير قدموه، فيقال لهم: لكم ما رايتم ومثله معه"،
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ زَيْدٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟، قَالَ: هَلْ تُضَارُونَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ إِذَا كَانَتْ صَحْوًا، قُلْنَا: لَا، قَالَ: فَإِنَّكُمْ لَا تُضَارُونَ فِي رُؤْيَةِ رَبِّكُمْ يَوْمَئِذٍ إِلَّا كَمَا تُضَارُونَ فِي رُؤْيَتِهِمَا، ثُمَّ قَالَ: يُنَادِي مُنَادٍ لِيَذْهَبْ كُلُّ قَوْمٍ إِلَى مَا كَانُوا يَعْبُدُونَ، فَيَذْهَبُ أَصْحَابُ الصَّلِيبِ مَعَ صَلِيبِهِمْ، وَأَصْحَابُ الْأَوْثَانِ مَعَ أَوْثَانِهِمْ، وَأَصْحَابُ كُلِّ آلِهَةٍ مَعَ آلِهَتِهِمْ حَتَّى يَبْقَى مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ مِنْ بَرٍّ، أَوْ فَاجِرٍ، وَغُبَّرَاتٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ، ثُمَّ يُؤْتَى بِجَهَنَّمَ تُعْرَضُ كَأَنَّهَا سَرَابٌ، فَيُقَالُ لِلْيَهُودِ: مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ؟، قَالُوا: كُنَّا نَعْبُدُ عُزَيْرَ ابْنَ اللَّهِ، فَيُقَالُ: كَذَبْتُمْ لَمْ يَكُنْ لِلَّهِ صَاحِبَةٌ وَلَا وَلَدٌ فَمَا تُرِيدُونَ؟، قَالُوا: نُرِيدُ أَنْ تَسْقِيَنَا، فَيُقَالُ: اشْرَبُوا، فَيَتَسَاقَطُونَ فِي جَهَنَّمَ، ثُمَّ يُقَالُ لِلنَّصَارَى: مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ؟، فَيَقُولُونَ: كُنَّا نَعْبُدُ الْمَسِيحَ ابْنَ اللَّهِ، فَيُقَالُ: كَذَبْتُمْ لَمْ يَكُنْ لِلَّهِ صَاحِبَةٌ وَلَا وَلَدٌ، فَمَا تُرِيدُونَ؟، فَيَقُولُونَ: نُرِيدُ أَنْ تَسْقِيَنَا، فَيُقَالُ: اشْرَبُوا، فَيَتَسَاقَطُونَ فِي جَهَنَّمَ حَتَّى يَبْقَى مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ مِنْ بَرٍّ، أَوْ فَاجِرٍ، فَيُقَالُ: لَهُمْ مَا يَحْبِسُكُمْ وَقَدْ ذَهَبَ النَّاسُ؟، فَيَقُولُونَ: فَارَقْنَاهُمْ، وَنَحْنُ أَحْوَجُ مِنَّا إِلَيْهِ الْيَوْمَ، وَإِنَّا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِيَلْحَقْ كُلُّ قَوْمٍ بِمَا كَانُوا يَعْبُدُونَ، وَإِنَّمَا نَنْتَظِرُ رَبَّنَا، قَالَ: فَيَأْتِيهِمُ الْجَبَّارُ فِي صُورَةٍ غَيْرِ صُورَتِهِ الَّتِي رَأَوْهُ فِيهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ، فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ رَبُّنَا، فَلَا يُكَلِّمُهُ إِلَّا الْأَنْبِيَاءُ، فَيَقُولُ: هَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ آيَةٌ تَعْرِفُونَهُ؟، فَيَقُولُونَ: السَّاقُ، فَيَكْشِفُ عَنْ سَاقِهِ، فَيَسْجُدُ لَهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ وَيَبْقَى مَنْ كَانَ يَسْجُدُ لِلَّهِ رِيَاءً وَسُمْعَةً، فَيَذْهَبُ كَيْمَا يَسْجُدَ، فَيَعُودُ ظَهْرُهُ طَبَقًا وَاحِدًا، ثُمَّ يُؤْتَى بِالْجَسْرِ، فَيُجْعَلُ بَيْنَ ظَهْرَيْ جَهَنَّمَ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا الْجَسْرُ؟، قَالَ: مَدْحَضَةٌ مَزِلَّةٌ عَلَيْهِ خَطَاطِيفُ وَكَلَالِيبُ وَحَسَكَةٌ مُفَلْطَحَةٌ لَهَا شَوْكَةٌ عُقَيْفَاءُ تَكُونُ بِنَجْدٍ يُقَالُ لَهَا السَّعْدَانُ الْمُؤْمِنُ عَلَيْهَا كَالطَّرْفِ، وَكَالْبَرْقِ، وَكَالرِّيحِ، وَكَأَجَاوِيدِ الْخَيْلِ وَالرِّكَابِ، فَنَاجٍ مُسَلَّمٌ وَنَاجٍ مَخْدُوشٌ وَمَكْدُوسٌ فِي نَارِ جَهَنَّمَ، حَتَّى يَمُرَّ آخِرُهُمْ يُسْحَبُ سَحْبًا فَمَا أَنْتُمْ بِأَشَدَّ لِي مُنَاشَدَةً فِي الْحَقِّ قَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِ يَوْمَئِذٍ لِلْجَبَّارِ، وَإِذَا رَأَوْا أَنَّهُمْ قَدْ نَجَوْا فِي إِخْوَانِهِمْ، يَقُولُونَ: رَبَّنَا إِخْوَانُنَا كَانُوا يُصَلُّونَ مَعَنَا وَيَصُومُونَ مَعَنَا وَيَعْمَلُونَ مَعَنَا، فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: اذْهَبُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ دِينَارٍ مِنْ إِيمَانٍ فَأَخْرِجُوهُ، وَيُحَرِّمُ اللَّهُ صُوَرَهُمْ عَلَى النَّارِ، فَيَأْتُونَهُمْ وَبَعْضُهُمْ قَدْ غَابَ فِي النَّارِ إِلَى قَدَمِهِ وَإِلَى أَنْصَافِ سَاقَيْهِ، فَيُخْرِجُونَ مَنْ عَرَفُوا، ثُمَّ يَعُودُونَ، فَيَقُولُ: اذْهَبُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ نِصْفِ دِينَارٍ، فَأَخْرِجُوهُ، فَيُخْرِجُونَ مَنْ عَرَفُوا، ثُمَّ يَعُودُونَ، فَيَقُولُ: اذْهَبُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ مِنْ إِيمَانٍ، فَأَخْرِجُوهُ، فَيُخْرِجُونَ مَنْ عَرَفُوا، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَإِنْ لَمْ تُصَدِّقُونِي، فَاقْرَءُوا: إِنَّ اللَّهَ لا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا سورة النساء آية 40 فَيَشْفَعُ النَّبِيُّونَ وَالْمَلَائِكَةُ وَالْمُؤْمِنُونَ، فَيَقُولُ الْجَبَّارُ: بَقِيَتْ شَفَاعَتِي، فَيَقْبِضُ قَبْضَةً مِنَ النَّارِ، فَيُخْرِجُ أَقْوَامًا قَدِ امْتُحِشُوا فَيُلْقَوْنَ فِي نَهَرٍ بِأَفْوَاهِ الْجَنَّةِ، يُقَالُ لَهُ: مَاءُ الْحَيَاةِ، فَيَنْبُتُونَ فِي حَافَتَيْهِ كَمَا تَنْبُتُ الْحِبَّةُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ قَدْ رَأَيْتُمُوهَا إِلَى جَانِبِ الصَّخْرَةِ وَإِلَى جَانِبِ الشَّجَرَةِ فَمَا كَانَ إِلَى الشَّمْسِ مِنْهَا كَانَ أَخْضَرَ وَمَا كَانَ مِنْهَا إِلَى الظِّلِّ كَانَ أَبْيَضَ، فَيَخْرُجُونَ كَأَنَّهُمُ اللُّؤْلُؤُ، فَيُجْعَلُ فِي رِقَابِهِمُ الْخَوَاتِيمُ، فَيَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ: فَيَقُولُ أَهْلُ الْجَنَّةِ: هَؤُلَاءِ عُتَقَاءُ الرَّحْمَنِ أَدْخَلَهُمُ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ عَمَلٍ عَمِلُوهُ وَلَا خَيْرٍ قَدَّمُوهُ، فَيُقَالُ لَهُمْ: لَكُمْ مَا رَأَيْتُمْ وَمِثْلَهُ مَعَهُ"،
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے، ان سے خالد بن یزید نے، ان سے سعید بن ابی ہلال نے، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نے کہا: یا رسول اللہ! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا تم کو سورج اور چاند دیکھنے میں کچھ تکلیف ہوتی ہے جب کہ آسمان بھی صاف ہو؟ ہم نے کہا کہ نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ پھر اپنے رب کے دیدار میں تمہیں کوئی تکلیف نہیں پیش آئے گی جس طرح سورج اور چاند کو دیکھنے میں نہیں پیش آتی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک آواز دینے والا آواز دے گا کہ ہر قوم اس کے ساتھ جائے جس کی وہ پوجا کیا کرتی تھی۔ چنانچہ صلیب کے پجاری اپنی صلیب کے ساتھ، بتوں کے پجاری اپنے بتوں کے ساتھ، تمام جھوٹے معبودوں کے پجاری اپنے جھوٹے معبودوں کے ساتھ چلے جائیں گے اور صرف وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو خالص اللہ کی عبادت کرنے والے تھے۔ ان میں نیک و بد دونوں قسم کے مسلمانوں ہوں گے اور اہل کتاب کے کچھ باقی ماندہ لوگ بھی ہوں گے۔ پھر دوزخ ان کے سامنے پیش کی جائے گی وہ ایسی چمکدار ہو گی جیسے میدان کا ریت ہوتا ہے۔ (جو دور سے پانی معلوم ہوتا ہے) پھر یہود سے پوچھا جائے گا کہ تم کس کے پوجا کرتے تھے۔ وہ کہیں گے کہ ہم عزیر ابن اللہ کی پوجا کیا کرتے تھے۔ انہیں جواب ملے گا کہ تم جھوٹے ہو اللہ کے نہ کوئی بیوی ہے اور نہ کوئی لڑکا۔ تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے کہ ہم پانی پینا چاہتے ہیں کہ ہمیں اس سے سیراب کیا جائے۔ ان سے کہا جائے گا کہ پیو وہ اس چمکتی ریت کی طرف پانی جان کر چلیں گے اور پھر وہ جہنم میں ڈال دئیے جائیں گے۔ پھر نصاریٰ سے کہا جائے گا کہ تم کس کی پوجا کرتے تھے؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم مسیح ابن اللہ کی پوجا کرتے تھے۔ ان سے کہا جائے گا کہ تم جھوٹے ہو۔ اللہ کے نہ بیوی تھی اور نہ کوئی بچہ، اب تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے کہ ہم چاہتے ہیں کہ پانی سے سیراب کئے جائیں۔ ان سے کہا جائے گا کہ پیو (ان کو بھی اس چمکتی ریت کی طرف چلایا جائے گا) اور انہیں بھی جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ یہاں تک کہ وہی باقی رہ جائیں گے جو خالص اللہ کی عبادت کرتے تھے، نیک و بد دونوں قسم کے مسلمان، ان سے کہا جائے گا کہ تم لوگ کیوں رکے ہوئے ہو جب کہ سب لوگ جا چکے ہیں؟ وہ کہیں گے ہم دنیا میں ان سے ایسے وقت جدا ہوئے کہ ہمیں ان کی دنیاوی فائدوں کے لیے بہت زیادہ ضرورت تھی اور ہم نے ایک آواز دینے والے کو سنا ہے کہ ہر قوم اس کے ساتھ ہو جائے جس کی وہ عبادت کرتی تھی اور ہم اپنے رب کے منتظر ہیں۔ بیان کیا کہ پھر اللہ جبار ان کے سامنے اس صورت کے علاوہ دوسری صورت میں آئے گا جس میں انہوں نے اسے پہلی مرتبہ دیکھا ہو گا اور کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں! لوگ کہیں گے کہ تو ہی ہمارا رب ہے اور اس دن انبیاء کے سوا اور کوئی بات نہیں کرے گا۔ پھر پوچھے گا: کیا تمہیں اس کی کوئی نشانی معلوم ہے؟ وہ کہیں گے کہ «ساق‏.‏» پنڈلی، پھر اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا اور ہر مومن اس کے لیے سجدہ میں گر جائے گا۔ صرف وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو دکھاوے اور شہرت کے لیے اسے سجدہ کرتے تھے، وہ بھی سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی پیٹھ تختہ کی طرح ہو کر رہ جائے گی۔ پھر انہیں پل پر لایا جائے گا۔ ہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! پل کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا , وہ ایک پھسلواں گرنے کا مقام ہے اس پر سنسنیاں ہیں، آنکڑے ہیں، چوڑے چوڑے کانٹے ہیں، ان کے سر خمدار سعدان کے کانٹوں کی طرح ہیں جو نجد کے ملک میں ہوتے ہیں۔ مومن اس پر پلک مارنے کی طرح، بجلی کی طرح، ہوا کی طرح، تیز رفتار گھوڑے اور سواری کی طرح گزر جائیں گے۔ ان میں بعض تو صحیح سلامت نجات پانے والے ہوں گے اور بعض جہنم کی آگ سے جھلس کر بچ نکلنے والے ہوں گے یہاں تک کہ آخری شخص اس پر سے گھسٹتے ہوئے گزرے گا تم لوگ آج کے دن اپنا حق لینے کے لیے جتنا تقاضا اور مطالبہ مجھ سے کرتے ہو اس سے زیادہ مسلمان لوگ اللہ سے تقاضا اور مطالبہ کریں گے اور جب وہ دیکھیں گے کہ اپنے بھائیوں میں سے انہیں نجات ملی ہے تو وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہمارے بھائی بھی ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور ہمارے ساتھ دوسرے (نیک) اعمال کرتے تھے (ان کو بھی دوزخ سے نجات فرما) چنانچہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جاؤ اور جس کے دل میں ایک اشرفی کے برابر بھی ایمان پاؤ اسے دوزخ سے نکال لو اور اللہ ان کے چہروں کو دوزخ پر حرام کر دے گا۔ چنانچہ وہ آئیں گے اور دیکھیں گے کہ بعض کا تو جہنم میں قدم اور آدھی پنڈلی جلی ہوئی ہے۔ چنانچہ جنہیں وہ پہچانیں گے انہیں دوزخ سے نکالیں گے، پھر واپس آئیں گے اور اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ جاؤ اور جس کے دل میں آدھی اشرفی کے برابر بھی ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ۔ چنانچہ جن کو وہ پہچانتے ہوں گے ان کو نکالیں گے۔ پھر وہ واپس آئیں گے اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جاؤ اور جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ۔ چنانچہ پہچانے جانے والوں کو نکالیں گے۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ اگر تم میری تصدیق نہیں کرتے تو یہ آیت پڑھو «إن الله لا يظلم مثقال ذرة وإن تك حسنة يضاعفها‏» اللہ تعالیٰ ذرہ برابر بھی کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ اگر نیکی ہے تو اسے بڑھاتا ہے۔ پھر انبیاء اور مومنین اور فرشتے شفاعت کریں گے اور پروردگار کا ارشاد ہو گا کہ اب خاص میری شفاعت باقی رہ گئی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ دوزخ سے ایک مٹھی بھر لے گا اور ایسے لوگوں کو نکالے گا جو کوئلہ ہو گئے ہوں گے۔ پھر وہ جنت کے سرے پر ایک نہر میں ڈال دئیے جائیں گے جسے نہر آب حیات کہا جاتا ہے اور یہ لوگ اس کے کنارے سے اس طرح ابھریں گے جس طرح سیلاب کے کوڑے کرکٹ سے سبزہ ابھر آتا ہے۔ تم نے یہ منظر کسی چٹان کے یا کسی درخت کے کنارے دیکھا ہو گا تو جس پر دھوپ پڑتی رہتی ہے وہ سبزا بھرتا ہے اور جس پر سایہ ہوتا ہے وہ سفید ابھرتا ہے۔ پھر وہ اس طرح نکلیں گے جیسے موتی چمکتا ہے۔ اس کے بعد ان کی گردنوں پر مہر کر دی جائیں گے (کہ یہ اللہ کے آزاد کردہ غلام ہیں) اور انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا۔ اہل جنت انہیں «عتقاء الرحمن» کہیں گے۔ انہیں اللہ نے بلا عمل کے جو انہوں نے کیا ہو اور بلا خیر کے جو ان سے صادر ہوئی ہو جنت میں داخل کیا ہے۔ اور ان سے کہا جائے گا کہ تمہیں وہ سب کچھ ملے گا جو تم دیکھتے ہو اور اتنا ہی اور بھی ملے گا۔

Narrated Abu Sa'id Al-Khudri: We said, "O Allah's Apostle! Shall we see our Lord on the Day of Resurrection?" He said, "Do you have any difficulty in seeing the sun and the moon when the sky is clear?" We said, "No." He said, "So you will have no difficulty in seeing your Lord on that Day as you have no difficulty in seeing the sun and the moon (in a clear sky)." The Prophet then said, "Somebody will then announce, 'Let every nation follow what they used to worship.' So the companions of the cross will go with their cross, and the idolators (will go) with their idols, and the companions of every god (false deities) (will go) with their god, till there remain those who used to worship Allah, both the obedient ones and the mischievous ones, and some of the people of the Scripture. Then Hell will be presented to them as if it were a mirage. Then it will be said to the Jews, "What did you use to worship?' They will reply, 'We used to worship Ezra, the son of Allah.' It will be said to them, 'You are liars, for Allah has neither a wife nor a son. What do you want (now)?' They will reply, 'We want You to provide us with water.' Then it will be said to them 'Drink,' and they will fall down in Hell (instead). Then it will be said to the Christians, 'What did you use to worship?' They will reply, 'We used to worship Messiah, the son of Allah.' It will be said, 'You are liars, for Allah has neither a wife nor a son. What: do you want (now)?' They will say, 'We want You to provide us with water.' It will be said to them, 'Drink,' and they will fall down in Hell (instead). When there remain only those who used to worship Allah (Alone), both the obedient ones and the mischievous ones, it will be said to them, 'What keeps you here when all the people have gone?' They will say, 'We parted with them (in the world) when we were in greater need of them than we are today, we heard the call of one proclaiming, 'Let every nation follow what they used to worship,' and now we are waiting for our Lord.' Then the Almighty will come to them in a shape other than the one which they saw the first time, and He will say, 'I am your Lord,' and they will say, 'You are not our Lord.' And none will speak: to Him then but the Prophets, and then it will be said to them, 'Do you know any sign by which you can recognize Him?' They will say. 'The Shin,' and so Allah will then uncover His Shin whereupon every believer will prostrate before Him and there will remain those who used to prostrate before Him just for showing off and for gaining good reputation. These people will try to prostrate but their backs will be rigid like one piece of a wood (and they will not be able to prostrate). Then the bridge will be laid across Hell." We, the companions of the Prophet said, "O Allah's Apostle! What is the bridge?' He said, "It is a slippery (bridge) on which there are clamps and (Hooks like) a thorny seed that is wide at one side and narrow at the other and has thorns with bent ends. Such a thorny seed is found in Najd and is called As-Sa'dan. Some of the believers will cross the bridge as quickly as the wink of an eye, some others as quick as lightning, a strong wind, fast horses or she-camels. So some will be safe without any harm; some will be safe after receiving some scratches, and some will fall down into Hell (Fire). The last person will cross by being dragged (over the bridge)." The Prophet said, "You (Muslims) cannot be more pressing in claiming from me a right that has been clearly proved to be yours than the believers in interceding with Almighty for their (Muslim) brothers on that Day, when they see themselves safe. They will say, 'O Allah! (Save) our brothers (for they) used to pray with us, fast with us and also do good deeds with us.' Allah will say, 'Go and take out (of Hell) anyone in whose heart you find faith equal to the weight of one (gold) Dinar.' Allah will forbid the Fire to burn the faces of those sinners. They will go to them and find some of them in Hell (Fire) up to their feet, and some up to the middle of their legs. So they will take out those whom they will recognize and then they will return, and Allah will say (to them), 'Go and take out (of Hell) anyone in whose heart you find faith equal to the weight of one half Dinar.' They will take out whomever they will recognize and return, and then Allah will say, 'Go and take out (of Hell) anyone in whose heart you find faith equal to the weight of an atom (or a smallest ant), and so they will take out all those whom they will recognize." Abu Sa'id said: If you do not believe me then read the Holy Verse:-- 'Surely! Allah wrongs not even of the weight of an atom (or a smallest ant) but if there is any good (done) He doubles it.' (4.40) The Prophet added, "Then the prophets and Angels and the believers will intercede, and (last of all) the Almighty (Allah) will say, 'Now remains My Intercession. He will then hold a handful of the Fire from which He will take out some people whose bodies have been burnt, and they will be thrown into a river at the entrance of Paradise, called the water of life. They will grow on its banks, as a seed carried by the torrent grows. You have noticed how it grows beside a rock or beside a tree, and how the side facing the sun is usually green while the side facing the shade is white. Those people will come out (of the River of Life) like pearls, and they will have (golden) necklaces, and then they will enter Paradise whereupon the people of Paradise will say, 'These are the people emancipated by the Beneficent. He has admitted them into Paradise without them having done any good deeds and without sending forth any good (for themselves).' Then it will be said to them, 'For you is what you have seen and its equivalent as well.'"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 532

   صحيح البخاري7439هل تضارون في رؤية الشمس والقمر إذا كانت صحوا قلنا لا قال فإنكم لا تضارون في رؤية ربكم يومئذ إلا كما تضارون في رؤيتهما ثم قال ينادي مناد ليذهب كل قوم إلى ما كانوا يعبدون فيذهب أصحاب الصليب مع صليبهم وأصحاب الأوثان مع أوثانهم وأصحاب كل آلهة مع آلهتهم حتى

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7439  
7439. سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھیں گے؟ آپ نے فرمایا: مطلع صاف ہونے کی صورت میں کیا تمہیں سورج اور چاند دیکھنے میں کوئی دقت محسوس ہوتی ہے؟ ہم نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: پھر یقیناً تمہیں اپنے رب کے دیدار میں کوئی تکلیف پیش نہیں آئے گی جیسے تمہیں سورج اور چاند دیکھنے میں کوئی مشقت نہیں ہوتی۔ پھر فرمایا: ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا: ہر قوم اس کے ساتھ جائے جس کی وہ پوجا کیا کرتی تھی۔ تب صلیب کے پجاری اپنی صلیب کے ساتھ بتوں کے پجاری اپنے بتوں کے ساتھ اور تمام معبود ان باطلہ کی پوجا پاٹ کرنے والے معبودوں کے ساتھ چلے جائیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے نیک وبدر اور بچے کھچے اہل کتاب باقی رہ جائیں گے۔ اس کے بعد جہنم ان کے سامنے لائی جائے گی جو سراب کی طرح ہوگی۔ پھر یہود سے پچھا جائے گا: تم کس کی عبادت کرتے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7439]
حدیث حاشیہ:
عتقاء الرحمن،، یعنی رحم کرنےوالے اللہ کے آزاد کردہ بندے یہ اس امت کے گنہگار بےعمل لوگ ہوں گے اللهم اعفرلجميع المسلمين والمسلمات –(آمين)
جھوٹے معبدوں کے پجاریوں کی طرح قبروں کو پوچنے والے ان قبروں کےساتھ اور تعزیےعلم وغیرہ کے بچاری ان کےساتھ چلے جائیں گے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7439   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7439  
7439. سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھیں گے؟ آپ نے فرمایا: مطلع صاف ہونے کی صورت میں کیا تمہیں سورج اور چاند دیکھنے میں کوئی دقت محسوس ہوتی ہے؟ ہم نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: پھر یقیناً تمہیں اپنے رب کے دیدار میں کوئی تکلیف پیش نہیں آئے گی جیسے تمہیں سورج اور چاند دیکھنے میں کوئی مشقت نہیں ہوتی۔ پھر فرمایا: ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا: ہر قوم اس کے ساتھ جائے جس کی وہ پوجا کیا کرتی تھی۔ تب صلیب کے پجاری اپنی صلیب کے ساتھ بتوں کے پجاری اپنے بتوں کے ساتھ اور تمام معبود ان باطلہ کی پوجا پاٹ کرنے والے معبودوں کے ساتھ چلے جائیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے نیک وبدر اور بچے کھچے اہل کتاب باقی رہ جائیں گے۔ اس کے بعد جہنم ان کے سامنے لائی جائے گی جو سراب کی طرح ہوگی۔ پھر یہود سے پچھا جائے گا: تم کس کی عبادت کرتے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7439]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کے آغاز ہی سے قیامت کے دن دیدار الٰہی کا ثبوت ملتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے سوال کیا کہ قیامت کے دن ہم اپنے رب کا دیدار کر سکیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی وضاحت سے مثال دے کر فرمایا کہ کسی قسم کی دکت یا رکاوٹ کے بغیر تم اپنے رب کو دیکھو گے جبکہ معتزلہ نے اس دیدار کا انکار کیا ہے اورقرآن وحدیث کی ظاہر نصوص کے متعلق تاویل کا سہارا لیا ہے۔

ہمارے نزدیک قیامت کے دن اہل ایمان اپنی آنکھوں سے اپنے رب کا دیدار کریں گے اور اہل جنت کے لیے دیدار الٰہی سے بڑی نعمت ہوگی جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب اہل جنت،جنت میں نعمتوں سے لطف اندوز ہورہے ہوں گے تو اچانک ان کے سامنے ایک عظیم روشنی ظاہر ہوگی۔
وہ اپنے سر اٹھائیں گے تو دیکھیں گے کہ ان کے اوپر اللہ رب العزت جلوہ افروز ہوگا۔
اللہ تعالیٰ اہل جنت سے فرمائے گا:
اے جنت میں رہنے والو! السلام علیکم۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے ثابت ہے:
(سَلَامٌ قَوْلًا مِّن رَّبٍّ رَّحِيمٍ)
مہربان رب کی طرف سے سلام کہا جائےگا۔
(یٰس 58/36)
پھر اللہ تعالیٰ اہل جنت کی طرف دیکھے گا اور اہل جنت اپنے رب سے محودیدار ہوں گے۔
اہل جنت اللہ تعالیٰ کے دیدارمیں اس قدر ڈوب چکے ہوں گے کہ وہ کسی اور نعمت کی طرف توجہ ہی نہیں کریں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے ہٹ جائے گا، البتہ اس نور کے اثرات اور برکات ان پر ان کے گھروں میں باقی رہیں گے۔
(سنن ابن ماجة، السنة، رقم الحدیث: 184)

حضرت ابوزرین عقیلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا ہم سب قیامت کے دن الگ الگ اپنے رب کو دیکھ سکیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کیوں نہیں! میں نے دریافت کیا:
مخلوق میں اس کی کوئی علامت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ابوزرین! کیا تم چودھویں رات کے چاند کو تنہائی میں نہیں دیکھتے ہو؟ ابوزرین نے عرض کی:
کیوں نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بلاشبہ چاند تو اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہے اور اللہ تعالیٰ تو بہت بلند اور عظمت والا ہے۔
(سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4731)

اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی پنڈلی کا بھی ذکر ہے جسے دیکھ کر اہل ایمان اپنے رب کو پہچان لیں گے، گویا یہ پنڈلی ایک شاختی علامت ہے۔
اسے ہم ظاہر پر محمول کرتے ہوئے مبنی برحقیقت تسلیم کرتے ہیں۔
اس حدیث میں درج ذیل آیت کی بھی وضاحت ہو جاتی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
جس دن پنڈلی کھولی جائے گی اور انھیں سجدے کی طرف بلایا جائے گا تو وہ طاقت نہیں رکھیں گے۔
(القلم۔
68/42)


بعض حضرات نے اس آیت کا ترجمہ ان الفاظ میں کیا ہے:
جس دن حقائق سے پردہ اٹھا دیا جائے گا اگرچہ اہل عرب ان الفاظ کو محاورے کے طور پر اس معنی میں استعمال کرتے ہیں لیکن ارشاد نبوی کے مقابلے میں ایسے محاورے کو ترجیح نہیں دی جا سکتی۔
رہی یہ بات کہ اللہ تعالیٰ کی پنڈلی کیسی ہے؟ کیا یہ انسانوں کی پنڈلی کی طرح ہے یا اس کی کوئی اور صورت ہے؟ تو ہم ایسی باتوں کو معلوم کرنے کا مکلف نہیں ہیں۔
ہمارا کام صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پنڈلی کا ذکر کیا ہے تو ہمیں اسے مبنی برحقیقت تسلیم کرنا چاہیے۔
اس کے آگے اس پنڈلی کی کیفیت معلوم کرنا یہ ہمارے بس کی بات نہیں اور نہ ہم اس کے پابند ہی ہیں۔
اس حدیث میں پل صراط کا بھی ذکر ہے کہ اس پر آنکڑے، چوڑے چوڑے کانٹے ہوں گے۔
ایک حدیث میں ہے:
وہ بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہو گا۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 455(183)
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
سب لوگ دوزخ پر پہنچیں گے، پھر اپنے اپنے اعمال کے لحاظ سے واپس ہوں گے۔
پہلا گروہ بجلی کی چمک کی طرح نکل جائے گا۔
دوسرا ہوا کی طرح، تیسرا گھوڑ سوار کی طرح، چوتھا اونٹ سوار کی طرح، پانچواں دوڑنے والے کی طرح اور چھٹا جیسے پیدل آدمی چلتا ہو۔
(جامع الترمذي، التفسیر، حدیث: 3159)
البتہ صحیح بخاری کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پل صراط کے اوپر سے گزرنے والوں کی چار قسمیں ہوں گی:
۔
وہاں سے صحیح سالم گزرنے والے، پھر یہ لوگ تیزی سے گزرنے کے اعتبار سے چند قسموں پر مشتمل ہوں گے:
۔
زخمی حالت میں اسے عبور کرنے والے۔
بعض کو ہلکے زخم آئیں گے اور کچھ چھل چھلا کر اسے پار کریں گے۔
۔
کچھ لوگ زخموں کی تاب نہ لاکر جہنم میں گرپڑیں گے، بعد میں انھیں ایمانی، درجات کے پیش نظر نکالا جائے گا۔
۔
کچھ لوگ ایسے ہوں گے جنھیں ان کے اعمال اٹھا نہیں سکیں گے بلکہ وہ گھسٹ گھسٹ کر اسے عبور کریں گے۔
(شرح کتاب التوحید للغنیمان: 126/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7439   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.