الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
ایمان کے احکام و مسائل
The Book of Faith
40. باب مَنْ مَاتَ لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَنْ مَاتَ مُشْرِكًا دَخَلَ النَّارَ:
40. باب: جو آدمی اللہ کے ساتھ شرک کیے بغیر مر گیا اس کے جنتی ہونے، اور جو شرک پر مرا اس کے جہنمی ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 273
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني زهير بن حرب ، واحمد بن خراش ، قالا: حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث ، حدثنا ابي ، قال: حدثني حسين المعلم ، عن ابن بريدة ، ان يحيى بن يعمر حدثه، ان ابا الاسود الديلي حدثه، ان ابا ذر حدثه، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم وهو نائم، عليه ثوب ابيض، ثم اتيته فإذا هو نائم، ثم اتيته وقد استيقظ، فجلست إليه، فقال: " ما من عبد، قال: لا إله إلا الله، ثم مات على ذلك، إلا دخل الجنة "، قلت: " وإن زنى وإن سرق، قال: وإن زنى وإن سرق، قلت: وإن زنى وإن سرق، قال: وإن زنى وإن سرق ثلاثا، ثم قال في الرابعة: على رغم انف ابي ذر، قال: فخرج ابو ذر وهو يقول: وإن رغم انف ابي ذر ".حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَأَحْمَدُ بْنُ خِرَاشٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، قَالَ: حَدَّثَنِي حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ ، أَنَّ يَحْيَى بْنَ يَعْمَرَ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَا الأَسْوَدِ الدِّيلِيَّ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَا ذَرٍّ حَدَّثَهُ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ نَائِمٌ، عَلَيْهِ ثَوْبٌ أَبْيَضُ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَإِذَا هُوَ نَائِمٌ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ وَقَدِ اسْتَيْقَظَ، فَجَلَسْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: " مَا مِنْ عَبْدٍ، قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ثُمَّ مَاتَ عَلَى ذَلِكَ، إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ "، قُلْتُ: " وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ، قَالَ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ، قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ، قَالَ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ فِي الرَّابِعَةِ: عَلَى رَغْمِ أَنْفِ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: فَخَرَجَ أَبُو ذَرٍّ وَهُوَ يَقُولُ: وَإِنْ رَغِمَ أَنْفُ أَبِي ذَرٍّ ".
ابو اسود دیلی نے بیان کیا کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے اس سے حدیث بیان کی کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ ایک سفید کپڑا اوڑھے ہوئے سو رہے تھے۔ میں پھر حاضر خدمت ہوا تو (ابھی) آپ سو رہے تھے، میں پھر (تیسری دفعہ) آیا تو آپ بیدار ہو چکے تھے۔ میں آپ کے پاس بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا: کوئی بندہ نہیں جس نے لا إلہ إلا اللہ کہا اور پھر اسی پر مرا مگر وہ جنت میں داخل ہو گا۔ میں نے پوچھا: اگرچہ اس نے زنا کیا ہواور چوری کی ہو۔ آپ نے جواب دیا: اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو۔ میں نے پھر کہا: اگرچہ اس نے زنا کیا ہواور چوری کی ہو؟ آپ نے فرمایا: اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کا ارتکاب کیا ہو۔ آپ نے تین دفعہ یہی جواب دیا، پھر چوتھی مرتبہ آپ نے فرمایا: چاہے ابو ذر کی ناک خاک آلود ہو۔ ابو اسود نے کہا: ابو ذر (آپ کی مجلس سے) نکلے تو کہتے جاتے تھے: چاہے ابو ذر کی ناک خاک آلود ہو۔
حضرت ابو ذر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس حال میں حاضر ہوا کہ آپؐ سوئے ہوئے تھے اور آپ پر ایک سفید کپڑا پڑا ہوا تھا۔ پھر میں دوبارہ حاضرِ خدمت ہوا تو آپ پھر سوئے ہوئے تھے۔ پھر میں (تیسری دفعہ) آیا تو آپ بیدار ہو چکے تھے تو میں آپ کے پاس بیٹھ گیا، اس پر آپ نے فرمایا: جس بندہ نے بھی لا الٰہ الااللہ کہا پھر اسی پر مرا وہ جنت میں داخل ہو گا۔ میں نے پوچھا: اگرچہ اس نے زنا اور چوری کی ہو؟ آپؐ نے جواب دیا: اگر چہ وہ زنا اور چوری کرے۔ میں نے پھر کہا: اگرچہ زنا کرے اور چوری کرے؟۔ آپؐ نے فرمایا: اگرچہ وہ زنا اور چوری کرے۔ میں نے تین دفعہ کہا (آپؐ نے تینوں دفعہ یہی جواب دیا) پھر آپؐ نے چوتھی دفعہ فرمایا: ابو ذر کی ناک کے خاک آلود ہونے کی صورت میں بھی۔ (یعنی اس کی خواہش اور رائے کے برعکس) تو ابوذرؓ آپؐ کی مجلس سے یہ کہتے ہوئے نکلے: اگرچہ ابو ذر کی ناک خاک آلود ہو۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 94

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في اللباس، باب: الثياب البيض برقم (5489) انظر ((التحفة)) برقم (11930)»
   صحيح البخاري3222جندب بن عبد اللهمن مات من أمتك لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة أو لم يدخل النار قال وإن زنى وإن سرق قال وإن
   صحيح البخاري5827جندب بن عبد اللهما من عبد قال لا إله إلا الله ثم مات على ذلك إلا دخل الجنة قلت وإن زنى وإن سرق قال وإن زنى وإن سرق قلت وإن زنى وإن سرق قال وإن زنى وإن سرق قلت وإن زنى وإن سرق قال وإن زنى وإن سرق
   صحيح البخاري7487جندب بن عبد اللهمن مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة قلت وإن سرق وإن زنى قال وإن سرق وإن زنى
   صحيح مسلم272جندب بن عبد اللهمن مات من أمتك لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة قلت وإن زنى وإن سرق قال وإن زنى وإن سرق
   صحيح مسلم273جندب بن عبد اللهما من عبد قال لا إله إلا الله ثم مات على ذلك إلا دخل الجنة قلت وإن زنى وإن سرق قال وإن زنى وإن سرق قلت وإن زنى وإن سرق قال وإن زنى وإن سرق ثلاثا ثم قال في الرابعة على رغم أنف أبي ذر قال فخرج أبو ذر وهو يقول وإن رغم أنف أبي ذر
   جامع الترمذي2644جندب بن عبد اللهمن مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة قلت وإن زنى وإن سرق قال نعم
   مشكوة المصابيح26جندب بن عبد اللهما من عبد قال لا إله إلا الله ثم مات على ذلك إلا دخل الجنة قلت وإن زنى وإن سرق قال وإن زنى وإن سرق قلت وإن زنى وإن سرق قال وإن زنى وإن سرق قلت وإن زنى وإن سرق قال وإن زنى وإن سرق على رغم انف ابي ذر وكان ابو ذر إذا حدث بهذا قال وإن رغم انف ابي ذر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 26  
´لا الہ الا اللہ کہنے والے کے لیے خوشخبری`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ ثَوْبٌ أَبْيَضُ وَهُوَ نَائِمٌ ثُمَّ أَتَيْتُهُ وَقَدِ اسْتَيْقَظَ فَقَالَ: «مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ثُمَّ مَاتَ عَلَى ذَلِكَ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ قُلْتُ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قَالَ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قُلْتُ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قَالَ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قُلْتُ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قَالَ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ عَلَى رَغْمِ أَنْفِ أَبِي ذَرٍّ وَكَانَ أَبُو ذَرٍّ إِذَا حَدَّثَ بِهَذَا قَالَ وَإِنْ رَغِمَ أَنْفُ أَبِي ذَر» . . .»
. . . سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن مبارک پر سفید کپڑا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوئے تھے۔ (میں سوتا ہوا دیکھ کر واپس چلا گیا) پھر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہو چکے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس بندے نے لا الہ الا اللہ کہا یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور پھر وہ اسی عقیدے پر مر گیا تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ میں نے عرض کیا: اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اس نے چوری کی ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اگرچہ اس نے زنا کیا اگرچہ اس نے چوری کی ہو۔ پھر میں نے عرض کیا اگرچہ زنا کیا اور چوری کی ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگرچہ اس نے زنا کیا اور چوری کی ہو۔ پھر میں نے عرض کیا: اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگرچہ اس نے زنا کیا اور چوری کی ہو۔ پھر میں نے عرض کیا: اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو، ابوذر کی ناک پر مٹی ہو۔ (یعنی اگرچہ تمہیں ناگوار اور برا معلوم ہو مگر ایسا شخص صرف بخشا جائے گا۔) ابوذر رضی اللہ عنہ جب یہ حدیث بیان کرتے تو «وان رغم انف ابي ذر» کہتے اگرچہ ابوذر کی ناک خاک آلود ہو۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 26]

تخریج الحدیث:
[صحیح بخاری 5827]،
[صحیح مسلم 272،273]

فقہ الحدیث
➊ معلوم ہوا کہ گناہ گار مؤمن آخر کار رب کریم کی مغفرت سے ضرور جنت میں جائے گا۔ جنت جانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ گناہ کا کوئی نقصان نہیں ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ چاہے تو گناہ معاف فرما دے اور اگر چاہے تو سزا دینے کے بعد جنت میں داخل کر دے، لہٰذا گناہ گار ابدی جہنمی نہیں ہے۔
➋ یہ حدیث خوارج و معتزلہ کا رد ہے، کیونکہ وہ زنا اور چوری کرنے والے کو ابدی جہنمی سمجھتے ہیں۔
➌ ایک حدیث میں آیا ہے کہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب زانی زنا کرتا ہے تو وہ (اس وقت) مومن نہیں ہوتا، اور جب چوری کرتا ہے تو (اس وقت) وہ مومن نہیں ہوتا۔ الخ [صحيح البخاري: 2475، صحيح مسلم: 57/10، واضواءالمصابيح: 53]
لہٰذا ہر مومن پر لازم ہے کہ تمام کبیرہ و صغیرہ گناہوں سے ہمیشہ اجتناب کرے۔
➍ تصدیق کے لئے بات دہرانا جائز ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 26   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2644  
´امت محمدیہ کی فرقہ بندی کا بیان۔`
ابوذر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور مجھے بشارت دی کہ جو شخص اس حال میں مر گیا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا تو وہ جنت میں جائے گا، میں نے کہا: اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو؟ آپ نے فرمایا: ہاں، (اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو) ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الإيمان/حدیث: 2644]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس کی صورت یہ ہوگی کہ وہ زنا اورچوری کی اپنی سزا کاٹ کر اپنے موحد ہونے کے صلہ میں لامحالہ جنت میں جائے گا،
یا ممکن ہے رب العالمین اپنی رحمت سے اسے معاف کر دے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2644   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 273  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
عَلَى رَغْمِ أَنْف:
رَغِمَ،
رَغَام:
(مٹی،
خاک)

سے ماخوذ ہے،
جس کا ظاہری معنی ہے اس کی ناک خاک آلود ہو،
وہ ذلت و رسوائی سے دوچار ہو،
لیکن یہ عربی محاورہ ہے جس سے بد دعا دینا مقصود نہیں ہوتا،
صرف یہ مقصد ہوتا ہے کہ اس کی خواہش کے برعکس یہ کام ہو کر رہے گا۔
فوائد ومسائل:
(1)
لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ،
توحید سے کنایہ ہے اور توحید جیسا کہ ہم بیان کر آئےہیں پورے دین کا عنوان ہے۔
یعنی دین اسلام پر ایمان لانا اور اس کی پابندی کرنا،
ظاہر ہے جو انسان دین کامل کی پابندی کرے گا،
اس کےکسی حکم کی مخالفت نہیں کرے گا تو وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔
اگر اس نے توحید کے اقرار کے باوجود گناہ بھی کیے ہوں گے تو اگر وہ اپنے دوسرے اعمال حسنہ کی بنا پر معافی کا مستحق ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کرکے بغیر کسی عذاب کے اس کو جنت میں داخل کردے گا،
اور اگر وہ معافی کا حقدار نہیں ہوگا تو گناہوں کی سزا پانے کے بعد جنت میں جا سکے گا اور اس کی وجہ ہم اوپر بیان کر آئے ہیں۔
(1/40/150/92) (2)
حضرت ابو ذرؓ نے اپنا سوال بار بار دہرایا،
کیونکہ وہ زنا اور چوری کو انتہائی ناپاک گناہ تصور کرتے تھے،
اس وجہ سے انہیں تعجب ہوا کہ ایسے نازیبا اور گندے گناہ کرنے والے بھی جنت میں جاسکیں گے۔
(3)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہمیشہ ہمیشہ آگ میں نہیں رہے گا جیسا کہ خوارج اور معتزلہ کا نظریہ ہے۔
لیکن اس سے یہ بات کشید کرنا کہ جنت میں داخلہ کے لیے محض لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کا اقرار ہی کافی ہے،
نیک اعمال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ بد اعمالیوں کا کوئی نقصان ہے جیسا کہ مرجئہ کا نظریہ ہے درست نہیں ہے۔
قرآن وسنت کی نصوص کے معنی کی تشریح وتوضیح کے لیے ضروری ہے کہ اس موضوع کے بارے میں جتنی نصوص موجود ہوں،
سب کوپیش نظر رکھاجائے،
وگرنہ نصوص میں تعارض پیدا ہوگا اور ان کا صحیح معنی بھی سمجھ میں نہیں آئے گا،
اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ خوارج ومعتزلہ نے ایک قسم کی نصوص کو لے کر (جن کا تعلق ترہیب وتخویف سے تھا)
کبیرہ گناہ کے مرتکب کو ہمیشہ ہمیشہ کےلیے دوزخی قرار دیا،
اور مرجیہ نے دوسری قسم کی نصوص کر لے کر (جن کا تعلق ترغیب وتشویق اور بشارت سے تھا)
گناہوں کو بے حیثیت قرار دیا اور کہا محض لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کہہ دینا جنت کے داخلہ کےلیے کافی ہے اسی طرح دونوں گروہ حق وصواب کی راہ سے دور ہٹ گئے،
اہل سنت نے دونوں قسم کی نصوص کو جمع کیا،
جس سے تضاد بھی ختم ہوا اور راہ حق وصواب بھی مل گئی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 273   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.