سنن نسائي سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
47. باب : الجمع بين الصلاتين في الحضر
باب: دوران اقامت (حضر میں) جمع بین الصلاتین کا بیان۔
حدیث نمبر: 603
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رِزْمَةَ وَاسْمُهُ غَزْوَانُ، قال: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" يُصَلِّي بِالْمَدِينَةِ يَجْمَعُ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا مَطَرٍ، قِيلَ لَهُ: لِمَ؟ قَالَ: لِئَلَّا يَكُونَ عَلَى أُمَّتِهِ حَرَجٌ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں بغیر خوف اور بغیر بارش کے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو جمع کر کے پڑھتے تھے، ان سے پوچھا گیا: آپ ایسا کیوں کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: تاکہ آپ کی امت کے لیے کوئی پریشانی نہ ہو۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 603]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/المسافرین 6 (705)، سنن ابی داود/الصلاة 274 (1211)، سنن الترمذی/الصلاة 24 (187)، مسند احمد 1/354، (تحفة الأشراف: 5474) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ حالت قیام میں بغیر کسی خوف اور بارش کے جمع بین الصلاتین بوقت ضرورت جائز ہے، سنن ترمذی میں ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی یہ روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو دو نمازوں کو بغیر کسی عذر کے جمع کرے تو وہ بڑے گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے میں داخل ہو گیا“ ضعیف ہے، اس کی اسناد میں حنش بن قیس راوی ضعیف ہے، اس لیے یہ استدلال کے لائق نہیں، ابن الجوزی نے اسے موضوعات میں ذکر کیا ہے، اور یہ ضعیف حدیث ان صحیح روایات کی معارض نہیں ہو سکتی جن سے جمع کرنا ثابت ہوتا ہے، اور بعض لوگ جو یہ تاویل کرتے ہیں کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بیماری کی وجہ سے ایسا کیا ہو تو یہ بھی صحیح نہیں کیونکہ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہم کے اس قول کے منافی ہے کہ اس (جمع بین الصلاتین) سے مقصود یہ تھا کہ امت حرج میں نہ پڑے۔
قال الشيخ الألباني: سكت عنه الشيخ
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 587
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا مُفَضَّلٌ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قال: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ أَنْ تَزِيغَ الشَّمْسُ أَخَّرَ الظُّهْرَ إِلَى وَقْتِ الْعَصْرِ ثُمَّ نَزَلَ فَجَمَعَ بَيْنَهُمَا، فَإِنْ زَاغَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَرْتَحِلَ صَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ رَكِبَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سورج ڈھلنے سے پہلے سفر کرتے تو عصر تک ظہر کو مؤخر کر دیتے، پھر سواری سے نیچے اترتے اور جمع بین الصلاتین کرتے یعنی دونوں صلاتوں کو ایک ساتھ پڑھتے ۱؎، اور اگر سفر کرنے سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو ظہر پڑھ لیتے پھر سوار ہوتے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 587]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/تقصیرالصلاة 15 (1111)، 16 (1112)، صحیح مسلم/المسافرین 5 (704)، سنن ابی داود/الصلاة 274 (1218)، مسند احمد 3/247، 265، (تحفة الأشراف: 1515) یأتي عند المؤلف برقم: 595 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں سفر میں جمع بین الصلوٰتین کا جواز ثابت ہوتا ہے، احناف سفر اور حضر کسی میں جمع بین الصلوٰتین کے جواز کے قائل نہیں، ان کی دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہم کی روایت «من جمع بين الصلاتين من غير عذر فقد أتى باباً من أبواب الكبائر» ہے، لیکن یہ روایت حد درجہ ضعیف ہے، قطعاً استدلال کے قابل نہیں، اس کے برعکس سفر میں جمع بین الصلاتین پر جو روایتیں دلالت کرتی ہیں وہ صحیح ہیں، ان کی تخریج مسلم اور ان کے علاوہ اور بہت سے لوگوں نے کی ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
حدیث نمبر: 589
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، قال: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، قال: حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ قَارَوَنْدَا، قال: سَأَلْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ صَلَاةِ أَبِيهِ فِي السَّفَرِ وَسَأَلْنَاهُ: هَلْ كَانَ يَجْمَعُ بَيْنَ شَيْءٍ مِنْ صَلَاتِهِ فِي سَفَرِهِ؟ فَذَكَرَ أَنَّ صَفِيَّةَ بِنْتَ أَبِي عُبَيْدٍ كَانَتْ تَحْتَهُ، فَكَتَبَتْ إِلَيْهِ وَهُوَ فِي زَرَّاعَةٍ لَهُ: أَنِّي فِي آخِرِ يَوْمٍ مِنْ أَيَّامِ الدُّنْيَا وَأَوَّلِ يَوْمٍ مِنَ الْآخِرَةِ فَرَكِبَ، فَأَسْرَعَ السَّيْرَ إِلَيْهَا حَتَّى إِذَا حَانَتْ صَلَاةُ الظُّهْرِ، قال لَهُ الْمُؤَذِّنُ: الصَّلَاةَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَلَمْ يَلْتَفِتْ حَتَّى إِذَا كَانَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ نَزَلَ، فَقَالَ: أَقِمْ، فَإِذَا سَلَّمْتُ فَأَقِمْ فَصَلَّى ثُمَّ رَكِبَ حَتَّى إِذَا غَابَتِ الشَّمْسُ، قال لَهُ الْمُؤَذِّنُ: الصَّلَاةَ، فَقَالَ: كَفِعْلِكَ فِي صَلَاةِ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، ثُمَّ سَارَ حَتَّى إِذَا اشْتَبَكَتِ النُّجُومُ نَزَلَ، ثُمّ قال لِلْمُؤَذِّنِ: أَقِمْ، فَإِذَا سَلَّمْتُ فَأَقِمْ فَصَلَّى، ثُمَّ انْصَرَفَ فَالْتَفَتَ إِلَيْنَا، فَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْأَمْرُ الَّذِي يَخَافُ فَوْتَهُ فَلْيُصَلِّ هَذِهِ الصَّلَاةَ".
کثیر بن قاروندا کہتے ہیں کہ میں نے سالم بن عبداللہ سے سفر میں ان کے والد (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم) کی نماز کے بارے میں پوچھا، نیز ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ سفر کے دوران کسی نماز کو جمع کرتے تھے؟ تو انہوں نے ذکر کیا کہ صفیہ بنت ابی عبید (جو ان کے عقد میں تھیں) نے انہیں لکھا، اور وہ اپنے ایک کھیت میں تھے کہ میرا دنیا کا آخری دن اور آخرت کا پہلا دن ہے (یعنی قریب المرگ ہوں آپ تشریف لائیے) تو ابن عمر رضی اللہ عنہم سوار ہوئے، اور ان تک پہنچنے کے لیے انہوں نے بڑی تیزی دکھائی یہاں تک کہ جب ظہر کا وقت ہوا تو مؤذن نے ان سے کہا: ابوعبدالرحمٰن! نماز پڑھ لیجئیے، لیکن انہوں نے اس کی بات کی طرف کوئی توجہ نہیں کی یہاں تک کہ جب دونوں نمازوں کا درمیانی وقت ہو گیا، تو سواری سے اترے اور بولے: تکبیر کہو، اور جب میں سلام پھیر لوں تو (پھر) تکبیر کہو، ۲؎ چنانچہ انہوں نے نماز پڑھی، پھر سوار ہوئے یہاں تک کہ جب سورج ڈوب گیا تو ان سے مؤذن نے کہا: نماز پڑھ لیجئیے، انہوں نے کہا: جیسے ظہر اور عصر میں کیا گیا ویسے ہی کرو، پھر چل پڑے یہاں تک کہ جب ستارے گھنے ہو گئے، تو سواری سے اترے، پھر مؤذن سے کہا: تکبیر کہو، اور جب میں سلام پھیر لوں تو پھر تکبیر کہو، تو انہوں نے نماز پڑھی، پھر پلٹے اور ہماری طرف متوجہ ہوئے، اور بولے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جب تم میں سے کسی کو ایسا معاملہ پیش آ جائے جس کے فوت ہو جانے کا اندیشہ ہو تو وہ اسی طرح (جمع کر کے) نماز پڑھے“۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 589]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 6795)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/تقصیر الصلاة 6 (1091)، العمرة 20 (1805)، الجھاد 136 (3000)، سنن ابی داود/الصلاة 274 (1207)، سنن الترمذی/الصلاة 277 (555)، مسند احمد 2/51، ویأتي عند المؤلف برقم: (598) (حسن) (متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت حسن ہے، ورنہ اس کے راوی ”کثیر بن قاروندا‘‘ لین الحدیث ہیں)»
وضاحت: ۲؎: یعنی تھوڑا سا رک کر کے جیسا کہ صحیح بخاری میں «فلما يلبث حتى يقيم العشاء» کے الفاظ وارد ہیں۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، كثير بن قاروندا مجهول الحال. والحديث الآتي (596) يغني عنه. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 324
حدیث نمبر: 595
أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ سَوَّادِ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَمْرٍو، قال: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قال: حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ كَانَ" إِذَا عَجِلَ بِهِ السَّيْرُ يُؤَخِّرُ الظُّهْرَ إِلَى وَقْتِ الْعَصْرِ فَيَجْمَعُ بَيْنَهُمَا وَيُؤَخِّرُ الْمَغْرِبَ حَتَّى يَجْمَعَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ الْعِشَاءِ حَتَّى يَغِيبَ الشَّفَقُ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ کو چلنے کی جلدی ہوتی تو ظہر کو عصر کے وقت تک مؤخر کرتے، پھر دونوں کو ایک ساتھ جمع کرتے، اور مغرب کو شفق کے ڈوب جانے تک مؤخر کرتے، اور پھر اسے اور عشاء کو ایک ساتھ جمع کرتے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 595]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم: 587 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 596
أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، قال: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، قال: حَدَّثَنَا ابْنُ جَابِرٍ، قال: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، قال: خَرَجْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فِي سَفَرٍ يُرِيدُ أَرْضًا فَأَتَاهُ آتٍ، فَقَالَ: إِنَّ صَفِيَّةَ بِنْتَ أَبِي عُبَيْدٍ لِمَا بِهَا، فَانْظُرْ أَنْ تُدْرِكَهَا، فَخَرَجَ مُسْرِعًا وَمَعَهُ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ يُسَايِرُهُ وَغَابَتِ الشَّمْسُ فَلَمْ يُصَلِّ الصَّلَاةَ، وَكَانَ عَهْدِي بِهِ وَهُوَ يُحَافِظُ عَلَى الصَّلَاةِ، فَلَمَّا أَبْطَأَ، قُلْتُ: الصَّلَاةَ يَرْحَمُكَ اللَّهُ، فَالْتَفَتَ إِلَيَّ وَمَضَى حَتَّى إِذَا كَانَ فِي آخِرِ الشَّفَقِ نَزَلَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ، ثُمَّ أَقَامَ الْعِشَاءَ وَقَدْ تَوَارَى الشَّفَقُ، فَصَلَّى بِنَا ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا عَجِلَ بِهِ السَّيْرُ صَنَعَ هَكَذَا".
نافع کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ ایک سفر میں نکلا، وہ اپنی زمین (کھیتی) کا ارادہ کر رہے تھے، اتنے میں ایک آنے والا آیا، اور اس نے کہا: آپ کی بیوی صفیہ بنت ابو عبید سخت بیمار ہیں تو آپ جا کر ان سے مل لیجئے، چنانچہ وہ بڑی تیز رفتاری سے چلے اور ان کے ساتھ ایک قریشی تھا وہ بھی ساتھ جا رہا تھا، آفتاب غروب ہوا تو انہوں نے نماز نہیں پڑھی، اور مجھے معلوم تھا کہ وہ نماز کی بڑی محافظت کرتے ہیں، تو جب انہوں نے تاخیر کی تو میں نے کہا: اللہ آپ پر رحم کرے! نماز پڑھ لیجئیے، تو وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور چلتے رہے یہاں تک کہ جب شفق ڈوبنے لگی تو اترے، اور مغرب پڑھی، پھر عشاء کی تکبیر کہی، اس وقت شفق غائب ہو گئی تھی، انہوں نے ہمیں (عشاء کی) نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چلنے کی جلدی ہوتی تو ایسا ہی کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 596]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الصلاة 274 (1213)، (تحفة الأشراف: 7759) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 597
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا الْعَطَّافُ، عَنْ نَافِعٍ، قال: أَقْبَلْنَا مَعَ ابْنِ عُمَرَ مِنْ مَكَّةَ، فَلَمَّا كَانَ تِلْكَ اللَّيْلَةُ سَارَ بِنَا حَتَّى أَمْسَيْنَا فَظَنَنَّا أَنَّهُ نَسِيَ الصَّلَاةَ، فَقُلْنَا لَهُ: الصَّلَاةَ، فَسَكَتَ" وَسَارَ حَتَّى كَادَ الشَّفَقُ أَنْ يَغِيبَ، ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّى، وَغَابَ الشَّفَقُ فَصَلَّى الْعِشَاءَ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا، فَقَالَ: هَكَذَا كُنَّا نَصْنَعُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَدَّ بِهِ السَّيْرُ".
نافع کہتے ہیں کہ ہم لوگ ابن عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ مکہ مکرمہ سے آئے، تو جب وہ رات آئی تو وہ ہمیں لے کر چلے (اور برابر چلتے رہے) یہاں تک کہ ہم نے شام کر لی، اور ہم نے گمان کیا کہ وہ نماز بھول گئے ہیں، چنانچہ ہم نے ان سے کہا: نماز پڑھ لیجئیے، تو وہ خاموش رہے اور چلتے رہے یہاں تک کہ شفق ڈوبنے کے قریب ہو گئی ۱؎ پھر وہ اترے اور انہوں نے نماز پڑھی، اور جب شفق غائب ہو گئی تو عشاء پڑھی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے، اور کہنے لگے: جب چلنے کی جلدی ہوتی تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسا ہی کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 597]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 8231) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس روایت میں اس بات کی تصریح ہے کہ یہ جمع صوری تھی حقیقی نہیں، لیکن صحیح مسلم کی روایت میں نافع سے «جمع بین المغرب والعشاء بعدأن یغیب الشفق» کے الفاظ وارد ہیں، اور صحیح بخاری میں «حتیٰ کان بعد غروب الشفق نزل فصلی المغرب والعشاء جمعاًبینہما» اور سنن ابوداؤد میں «حتیٰ غاب الشفق وتصوبت النجوم نزل فصلی الصلاتین جمعاً» اور عبدالرزاق کی روایت میں «فاخرالمغرب بعد ذہاب الشفق حتیٰ ذہب ہوی من اللیل» کے الفاظ ہیں، ان روایتوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ اسے تعدد واقعہ پر محمول کیا جائے، نہیں تو صحیحین کی روایت راجح ہو گی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
حدیث نمبر: 598
أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، قال: حَدَّثَنَا ابْنُ شُمَيْلٍ، قال: حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ قَارَوَنْدَا، قال: سَأَلْنَا سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ الصَّلَاة فِي السِّفْر، فَقُلْنَا: أَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَجْمَعُ بَيْنَ شَيْءٍ مِنَ الصَّلَوَاتِ فِي السَّفَرِ؟ فَقَالَ: لَا، إِلَّا بِجَمْعٍ ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ: كَانَتْ عِنْدَهُ صَفِيَّةُ فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ: أَنِّي فِي آخِرِ يَوْمٍ مِنَ الدُّنْيَا وَأَوَّلِ يَوْمٍ مِنَ الْآخِرَةِ، فَرَكِبَ وَأَنَا مَعَهُ فَأَسْرَعَ السَّيْرَ حَتَّى حَانَتِ الصَّلَاةُ، فَقَالَ لَهُ الْمُؤَذِّنُ: الصَّلَاةَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَسَارَ حَتَّى إِذَا كَانَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ نَزَلَ، فَقَالَ لِلْمُؤَذِّنِ: أَقِمْ فَإِذَا سَلَّمْتُ مِنَ الظُّهْرِ فَأَقِمْ مَكَانَكَ، فَأَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ أَقَامَ مَكَانَهُ فَصَلَّى الْعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكِبَ فَأَسْرَعَ السَّيْرَ حَتَّى غَابَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ لَهُ الْمُؤَذِّنُ: الصَّلَاةَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَقَالَ: كَفِعْلِكَ الْأَوَّلِ، فَسَارَ حَتَّى إِذَا اشْتَبَكَتِ النُّجُومُ نَزَلَ، فَقَالَ: أَقِمْ فَإِذَا سَلَّمْتُ فَأَقِمْ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثَلَاثًا، ثُمَّ أَقَامَ مَكَانَهُ فَصَلَّى الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ، ثُمَّ سَلَّمَ وَاحِدَةً تِلْقَاءَ وَجْهِهِ، ثُمَّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمْ أَمْرٌ يَخْشَى فَوْتَهُ فَلْيُصَلِّ هَذِهِ الصَّلَاةَ".
کثیر بن قاروندا کہتے ہیں کہ ہم نے سالم بن عبداللہ سے سفر کی نماز کے بارے میں پوچھا، ہم نے کہا: کیا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سفر میں جمع بین الصلاتین کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: نہیں، سوائے مزدلفہ کے، پھر چونکے اور کہنے لگے: ان کے نکاح میں صفیہ تھیں، انہوں نے انہیں کہلوا بھیجا کہ میں دنیا کے آخری اور آخرت کے پہلے دن میں ہوں ۱؎ (اس لیے آپ آ کر آخری ملاقات کر لیجئے)، تو وہ سوار ہوئے، اور میں اس ان کے ساتھ تھا، وہ تیز رفتاری سے چلتے رہے یہاں تک کہ نماز کا وقت آ گیا، تو ان سے مؤذن نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! نماز پڑھ لیجئے، لیکن وہ چلتے رہے یہاں تک کہ دونوں نمازوں کا درمیانی وقت آ گیا، تو اترے اور مؤذن سے کہا: اقامت کہو، اور جب میں ظہر پڑھ لوں تو اپنی جگہ پر (دوبارہ) اقامت کہنا، چنانچہ اس نے اقامت کہی، تو انہوں نے ظہر کی دو رکعت پڑھائی، پھر سلام پھیرا، پھر تو (مؤذن نے) اپنی اسی جگہ پر پھر اقامت کہی، تو انہوں نے عصر کی دو رکعت پڑھائی، پھر سوار ہوئے اور تیزی سے چلتے رہے یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا، تو مؤذن نے ان سے کہا: ابوعبدالرحمٰن نماز پڑھ لیجئے، تو انہوں نے کہا جیسے پہلے کیا تھا، اسی طرح کرو اور تیزی سے چلتے رہے یہاں تک کہ جب ستارے گھنے ہو گئے تو اترے، اور کہنے لگے: اقامت کہو، اور جب سلام پھیر چکوں تو دوبارہ اقامت کہنا، پھر انہوں نے مغرب کی تین رکعت پڑھائی، پھر اپنی اسی جگہ پر اس نے پھر تکبیر کہی تو انہوں نے عشاء پڑھائی، اور اپنے چہرہ کے سامنے ایک ہی سلام پھیرا، اور کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو کوئی ایسا معاملہ درپیش ہو جس کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو اسی طرح نماز پڑھے“۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 598]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم: 589 (حسن)»
وضاحت: ۱؎: یعنی میری موت کا وقت قریب آ گیا ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، انظر الحديث السابق (589) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 324
حدیث نمبر: 599
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" إِذَا جَدَّ بِهِ السَّيْرُ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب چلنے کی جلدی ہوتی تو مغرب اور عشاء کو جمع کر کے پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 599]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/المسافرین 5 (703)، موطا امام مالک/السفر 1 (3)، مسند احمد 2/7، 63، (تحفة الأشراف: 8383) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
حدیث نمبر: 600
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قال: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قال:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَدَّ بِهِ السَّيْرُ أَوْ حَزَبَهُ أَمْرٌ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب چلنے کی جلدی ہوتی یا کوئی معاملہ درپیش ہوتا، تو آپ مغرب اور عشاء کو جمع کر کے پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 600]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 8505)، مسند احمد 2/80 (صحیح الإسناد) (لیکن ’’أوحز بہ أمر‘‘ کا جملہ شاذ ہے کیونکہ نافع کے طریق سے مروی کسی بھی روایت میں یہ موجود نہیں ہے، نیز اس کے محرف ہونے کا بھی امکان ہے، اور مصنف عبدالرزاق (2/ 547) کی سند سے ان الفاظ کے ساتھ مذکور ہے، ’’أو أجد بہ المسیر‘‘)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد لكن قوله أو حزبه أمر شاذ لعدم وروده في سائر الطرق عن نافع وغيره ويمكن أن يكون محرفا ففي مصنف عبدالرزاق / بإسناده هذا أو أجد به المسير والله أعلم
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح يه حديث غريب هے
حدیث نمبر: 602
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قال:" صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ جَمِيعًا مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا سَفَرٍ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر خوف اور بغیر سفر کے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو جمع کر کے پڑھی ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 602]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/المسافرین 6 (705)، سنن ابی داود/الصلاة 274 (1210)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/السفر 1 (4)، (تحفة الأشراف: 5608)، مسند احمد 1/283، 349 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شدید ضرورت کے وقت مقیم بھی جمع بین الصلاتین کر سکتا ہے لیکن یہ عادت نہ بنا لی جائے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

