(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن ابي إسحاق، عن زيد بن يثيع، قال: " سالنا عليا باي شيء بعثت في الحجة؟ قال: بعثت باربع: ان لا يطوف بالبيت عريان، ومن كان بينه وبين النبي صلى الله عليه وسلم عهد فهو إلى مدته، ومن لم يكن له عهد فاجله اربعة اشهر، ولا يدخل الجنة إلا نفس مؤمنة، ولا يجتمع المشركون والمسلمون بعد عامهم هذا "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح من حديث سفيان بن عيينة، عن ابي إسحاق، ورواه الثوري، عن ابي إسحاق، عن بعض اصحابه، عن علي، وفي الباب، عن ابي هريرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ زَيْدِ بْنِ يُثَيْعٍ، قَالَ: " سَأَلْنَا عَلِيًّا بِأَيِّ شَيْءٍ بُعِثْتَ فِي الْحَجَّةِ؟ قَالَ: بُعِثْتُ بِأَرْبَعٍ: أَنْ لَا يَطُوفَ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ، وَمَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدٌ فَهُوَ إِلَى مُدَّتِهِ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ عَهْدٌ فَأَجَلُهُ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ، وَلَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُؤْمِنَةٌ، وَلَا يَجْتَمِعُ الْمُشْرِكُونَ وَالْمُسْلِمُونَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، وَرَوَاهُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ، عَنْ عَلِيٍّ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
زید بن یثیع کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی الله عنہ سے پوچھا: آپ حج میں کیا پیغام لے کر بھیجے گئے تھے؟ کہا: میں چار چیزوں کا اعلان کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا (ایک یہ کہ) کوئی ننگا بیت اللہ کا طواف (آئندہ) نہیں کرے گا۔ (دوسرے) یہ کہ جس کافر اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کوئی معاہدہ ہے وہ معاہدہ مدت ختم ہونے تک قائم رہے گا اور جن کا کوئی معاہدہ نہیں ان کے لیے چار ماہ کی مدت ہو گی ۱؎(تیسرے) یہ کہ جنت میں صرف ایمان والا (مسلمان) ہی داخل ہو سکے گا۔ (چوتھے یہ کہ) اس سال کے بعد مسلم و مشرک دونوں حج نہ کر سکیں گے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث سفیان بن عیینہ کی روایت سے جسے وہ ابواسحاق سے روایت کرتے ہیں حسن صحیح ہے، ۲- اسے سفیان ثوری نے ابواسحاق کے بعض اصحاب سے روایت کی ہے اور انہوں نے علی رضی الله عنہ سے روایت کی ہے، ۳- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 871 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مسلمان ہو جائیں یا وطن چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں، یا پھر مرنے کے لیے تیار ہو جائیں، حرم ان کے ناپاک وجود سے پاک کیا جائے گا۔
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ برأۃ ابوبکر رضی الله عنہ کے ساتھ بھیجی ۱؎ پھر آپ نے انہیں بلا لیا، فرمایا: ”میرے خاندان کے کسی فرد کے سوا کسی اور کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ جا کر یہ پیغام وہاں پہنچائے (اس لیے تم اسے لے کر نہ جاؤ) پھر آپ نے علی رضی الله عنہ کو بلایا اور انہیں سورۃ برأۃ دے کر (مکہ) بھیجا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث انس بن مالک کی روایت سے حسن غریب ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن إسماعيل، حدثنا سعيد بن سليمان، حدثنا عباد بن العوام، حدثنا سفيان بن حسين، عن الحكم بن عتيبة، عن مقسم، عن ابن عباس، قال: " بعث النبي صلى الله عليه وسلم ابا بكر وامره ان ينادي بهؤلاء الكلمات، ثم اتبعه عليا، فبينا ابو بكر في بعض الطريق إذ سمع رغاء ناقة رسول الله صلى الله عليه وسلم القصواء، فخرج ابو بكر فزعا فظن انه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا هو علي فدفع إليه كتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، وامر عليا ان ينادي بهؤلاء الكلمات، فانطلقا فحجا، فقام علي ايام التشريق، فنادى ذمة الله ورسوله بريئة من كل مشرك، فسيحوا في الارض اربعة اشهر ولا يحجن بعد العام مشرك، ولا يطوفن بالبيت عريان، ولا يدخل الجنة إلا مؤمن، وكان علي ينادي فإذا عيي قام ابو بكر فنادى بها "، قال ابو عيسى: وهذا حديث حسن غريب من هذا الوجه من حديث ابن عباس.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ وَأَمَرَهُ أَنْ يُنَادِيَ بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ، ثُمَّ أَتْبَعَهُ عَلِيًّا، فَبَيْنَا أَبُو بَكْرٍ فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ إِذْ سَمِعَ رُغَاءَ نَاقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقَصْوَاءِ، فَخَرَجَ أَبُو بَكْرٍ فَزِعًا فَظَنَّ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا هُوَ عَلِيٌّ فَدَفَعَ إِلَيْهِ كِتَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَمَرَ عَلِيًّا أَنْ يُنَادِيَ بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ، فَانْطَلَقَا فَحَجَّا، فَقَامَ عَلِيٌّ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ، فَنَادَى ذِمَّةُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ بَرِيئَةٌ مِنْ كُلِّ مُشْرِكٍ، فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَلَا يَحُجَّنَّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ، وَلَا يَطُوفَنَّ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ، وَلَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَكَانَ عَلِيٌّ يُنَادِي فَإِذَا عَيِيَ قَامَ أَبُو بَكْرٍ فَنَادَى بِهَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی الله عنہ کو (مکہ) بھیجا کہ وہاں پہنچ کر لوگوں میں ان کلمات (سورۃ التوبہ کی ابتدائی آیات) کی منادی کر دیں۔ پھر (ان کے بھیجنے کے فوراً بعد ہی) ان کے پیچھے آپ نے علی رضی الله عنہ کو بھیجا۔ ابوبکر رضی الله عنہ بھی کسی جگہ راستہ ہی میں تھے کہ انہوں نے اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی قصویٰ کی بلبلاہٹ سنی، گھبرا کر (خیمہ) سے باہر آئے، انہیں خیال ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا رہے ہیں، لیکن وہ آپ کے بجائے علی رضی الله عنہ تھے۔ علی رضی الله عنہ نے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا خط انہیں پکڑا دیا، اور (آپ نے) علی رضی الله عنہ کو حکم دیا کہ وہ ان کلمات کا (بزبان خود) اعلان کر دیں۔ پھر یہ دونوں حضرات ساتھ چلے، (دونوں نے حج کیا، اور علی رضی الله عنہ نے ایام تشریق میں کھڑے ہو کر اعلان کیا: اللہ اور اس کے رسول ہر مشرک و کافر سے بری الذمہ ہیں، صرف چار مہینے (سر زمین مکہ میں) گھوم پھر لو، اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے، کوئی شخص بیت اللہ کا ننگا ہو کر طواف نہ کرے، جنت میں صرف مومن ہی جائے گا، علی رضی الله عنہ اعلان کرتے رہے جب وہ تھک جاتے تو انہیں کلمات کا ابوبکر رضی الله عنہ اعلان کرنے لگتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے ابن عباس کی روایت سے حسن غریب ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن إسماعيل، حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حفص بن عمر الشني، حدثني ابي عمر بن مرة، قال: سمعت بلال بن يسار بن زيد مولى النبي صلى الله عليه وسلم، حدثني ابي، عن جدي، سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " من قال: استغفر الله العظيم الذي لا إله إلا هو الحي القيوم , واتوب إليه غفر له وإن كان فر من الزحف ". قال ابو عيسى: هذا غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ الشَّنِّيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي عُمَرُ بْنُ مُرَّةَ، قَال: سَمِعْتُ بِلَالَ بْنَ يَسَارِ بْنِ زَيْدٍ مَوْلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ قَالَ: أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ الْعَظِيمَ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيَّ الْقَيُّومَ , وَأَتُوبُ إِلَيْهِ غُفِرَ لَهُ وَإِنْ كَانَ فَرَّ مِنَ الزَّحْفِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
زید رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص کہے: «أستغفر الله العظيم الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه»”میں مغفرت مانگتا ہوں اس بزرگ و برتر اللہ سے جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، جو زندہ ہے اور ہر چیز کا نگہبان ہے اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں“، تو اس کی مغفرت کر دی جائے گی اگرچہ وہ لشکر (و فوج) سے بھاگ ہی کیوں نہ آیا ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 361 (1517) (صحیح) (سند میں بلال اور یسار بن زید دونوں باپ اور بیٹے مجہول راوی ہیں، لیکن ابن مسعود وغیرہ کی احادیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے، صحیح سنن أبی داود 1358، صحیح الترغیب والترہیب 1622، الصحیحة 2727)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، التعليق الرغيب (2 / 269)، صحيح أبي داود (1358)