الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے احکامات اور فیصلے
The Chapters On Judgements From The Messenger of Allah
42. باب مِنَ الْمُزَارَعَةِ
42. باب: مزارعت ہی سے متعلق ایک اور باب۔
Chapter: About Share-Cropping
حدیث نمبر: 1385
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا محمود بن غيلان , اخبرنا الفضل بن موسى السيناني , اخبرنا شريك , عن شعبة , عن عمرو بن دينار , عن طاوس , عن ابن عباس , " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يحرم المزارعة , ولكن امر ان يرفق بعضهم ببعض ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , وحديث رافع فيه اضطراب , يروى هذا الحديث , عن رافع بن خديج , عن عمومته , ويروى عنه , عن ظهير بن رافع , وهو احد عمومته , وقد روى هذا الحديث عنه على روايات مختلفة , وفي الباب: عن زيد بن ثابت , وجابر رضى الله عنهما.حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بنُ غَيْلَانَ , أَخْبَرنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى السِّينَانيُّ , أَخْبَرنَا شَرِيك , عَنْ شُعْبَةَ , عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ , عَنْ طَاوُسٍ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , " أن رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يُحَرِّمْ الْمُزَارَعَةَ , وَلَكِنْ أَمَرَ أَنْ يَرفْقَ بَعْضُهُمْ بِبَعْضٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وحَدِيثٌ رَافِعٍ فِيِه اضْطِرابٌ , يُروى هَذَا الْحَدِيثٌ , عَنْ رَافِعِ بْنِ خَديِجٍ , عَنْ عُمُومَتِه , ويُروى عَنْهُ , عَنْ ظُهَيْرِ بْنِ رَافِعِ , وَهُوَ أَحَدُ عُمُومَتِه , وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثٌ عَنْه عَلَى رِوَايَاتٍ مُخْتَلِفَةٍ , وَفيِ الْبَاب: عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ , وَجَابِرٍ رَضِى اللهُ عَنْهُمَا.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزارعت کو حرام نہیں کیا، لیکن آپ نے ایک دوسرے کے ساتھ نرمی کرنے کا حکم دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- رافع کی حدیث میں (جو اوپر مذکور ہوئی) اضطراب ہے۔ کبھی یہ حدیث بواسطہ رافع بن خدیج ان کے چچاؤں سے روایت کی جاتی ہے اور کبھی بواسطہ رافع بن خدیج ظہیر بن رافع سے روایت کی جاتی ہے، یہ بھی ان کے ایک چچا ہیں،
۳- اور ان سے یہ حدیث مختلف طریقے پر روایت کی گئی ہے،
۴- اس باب میں زید بن ثابت اور جابر رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحرث 10 (2330)، و18 (2342)، والہبة 35 (2634)، صحیح مسلم/البیوع 21 (1547)، سنن ابی داود/ البیوع 3 (3389)، سنن النسائی/المزارعة 45 (3940)، سنن ابن ماجہ/الرہون 11 (2453)، (تحفة الأشراف: 5735) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 1383
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا إسحاق بن منصور , اخبرنا يحيى بن سعيد , عن عبيد الله , عن نافع , عن ابن عمر , " ان النبي صلى الله عليه وسلم عامل اهل خيبر بشطر ما يخرج منها من ثمر او زرع ". قال: وفي الباب , عن انس , وابن عباس , وزيد بن ثابت , وجابر. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , والعمل على هذا عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم , لم يروا بالمزارعة باسا على النصف والثلث والربع , واختار بعضهم ان يكون البذر من رب الارض , وهو قول: احمد , وإسحاق , وكره بعض اهل العلم المزارعة بالثلث والربع , ولم يروا بمساقاة النخيل بالثلث والربع باسا , وهو قول: مالك بن انس , والشافعي , ولم ير بعضهم ان يصح شيء من المزارعة , إلا ان يستاجر الارض بالذهب والفضة.حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ , أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَلَ أَهْلَ خَيْبَرَ بِشَطْرِ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا مِنْ ثَمَرٍ أَوْ زَرْعٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ أَنَسٍ , وَابْنِ عَبَّاسٍ , وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ , وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ , لَمْ يَرَوْا بِالْمُزَارَعَةِ بَأْسًا عَلَى النِّصْفِ وَالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ , وَاخْتَارَ بَعْضُهُمْ أَنْ يَكُونَ الْبَذْرُ مِنْ رَبِّ الْأَرْضِ , وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ , وَإِسْحَاق , وَكَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الْمُزَارَعَةَ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ , وَلَمْ يَرَوْا بِمُسَاقَاةِ النَّخِيلِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ بَأْسًا , وَهُوَ قَوْلُ: مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ , وَالشَّافِعِيِّ , وَلَمْ يَرَ بَعْضُهُمْ أَنْ يَصِحَّ شَيْءٌ مِنَ الْمُزَارَعَةِ , إِلَّا أَنْ يَسْتَأْجِرَ الْأَرْضَ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والوں کے ساتھ خیبر کی زمین سے جو بھی پھل یا غلہ حاصل ہو گا اس کے آدھے پر معاملہ کیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں انس، ابن عباس، زید بن ثابت اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ آدھے، تہائی یا چوتھائی کی شرط پر مزارعت کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے،
۴- اور بعض اہل علم نے یہ اختیار کیا ہے کہ بیج زمین والا دے گا، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے،
۵- بعض اہل علم نے تہائی یا چوتھائی کی شرط پر مزارعت کو مکروہ سمجھا ہے، لیکن وہ تہائی یا چوتھائی کی شرط پر کھجور کے درختوں کی سینچائی کرانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں۔ مالک بن انس اور شافعی کا یہی قول ہے،
۶- بعض لوگ مطلقًا مزارعت کو درست نہیں سمجھتے البتہ سونے یا چاندی (نقدی) کے عوض کرایہ پر زمین لینے کو درست سمجھتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحرث 8 (2328)، 9 (2329)، صحیح مسلم/المساقاة 1 (البیوع 22)، (1551)، سنن ابی داود/ البیوع 35 (3408)، سنن النسائی/الأیمان والمزارعة 46 (3961، 3962)، سنن ابن ماجہ/الرہون 14 (3467)، (تحفة الأشراف: 8138)، و مسند احمد (2/17، 22، 37) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کا جواز ثابت ہوتا ہے، ائمہ ثلاثہ اور دیگر علمائے سلف و خلف سوائے امام ابوحنیفہ کے جواز کے قائل ہیں، احناف نے خیبر کے معاملے کی تاویل یہ کی ہے کہ یہ لوگ آپ کے غلام تھے، لیکن یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ آپ کا ارشاد گرامی ہے «نقركم ما أقركم الله» ہم تمہیں اس وقت تک برقرار رکھیں گے جب تک اللہ تمہیں برقرار رکھے گا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپ کے غلام نہیں تھے، نیز احناف کا کہنا ہے کہ یہ معدوم یا مجہول پیداوار کے بدلے اجارہ ہے جو جائز نہیں، اس کا جواب جمہوریہ دیتے ہیں کہ اس کی مثال مضارب کی ہے کہ مضارب جس طرح نفع کی امید پر محنت کرتا ہے اور وہ نفع مجہول ہے اس کے باوجود وہ جائز ہے، اسی طرح مزارعت میں بھی یہ جائز ہو گا، رہیں وہ روایات جو مزارعت کے عدم جواز پر دلالت کرتی ہیں تو جمہور نے ان روایات کی تاویل کی ہے کہ یہ روایات نہی تنزیہی پر دلالت کرتی ہیں، یا یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب صاحب زمین کسی مخصوص حصے کی پیداوار خود لینے کی شرط کر لے «واللہ اعلم» حاصل بحث یہ ہے کہ مزارعت کی جائز شکل یہ ہے کہ مالک اور بٹائی پر لینے والے کے مابین زمین سے حاصل ہونے والے غلہ کی مقدار اس طرح متعین ہو کہ دونوں کے مابین جھگڑے کی نوبت نہ آئے اور غلہ سے متعلق نقصان اور فائدہ میں طے شدہ امر کے مطابق دونوں شریک ہوں یا روپے کے عوض زمین بٹائی پر دی جائے اور مزارعت کی وہ شکل جو شرعاً ناجائز ہے وہ حنظلہ بن قیس انصاری کی روایت میں ہے، وہ کہتے ہیں رافع بن خدیج کہتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں زمین کی بٹائی کا معاملہ اس شرط پر کرتے تھے کہ زمین کے اس مخصوص حصے کی پیداوار میں لوں گا اور باقی حصے کی تم لینا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا کیونکہ اس صورت میں کبھی بٹائی پر لینے والے کا نقصان ہوتا کبھی دینے والے کا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2467)
حدیث نمبر: 1384
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا هناد , حدثنا ابو بكر بن عياش، عن ابي حصين , عن مجاهد , عن رافع بن خديج , قال: نهانا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن امر كان لنا نافعا , إذا كانت لاحدنا ارض , ان يعطيها ببعض خراجها , او بدراهم , وقال: " إذا كانت لاحدكم ارض , فليمنحها اخاه , او ليزرعها ".حَدَّثَنَا هَنَّادٌ , حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي حُصَيْنٍ , عَنْ مُجَاهِدٍ , عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ , قَالَ: نَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَنَا نَافِعًا , إِذَا كَانَتْ لِأَحَدِنَا أَرْضٌ , أَنْ يُعْطِيَهَا بِبَعْضِ خَرَاجِهَا , أَوْ بِدَرَاهِمَ , وَقَالَ: " إِذَا كَانَتْ لِأَحَدِكُمْ أَرْضٌ , فَلْيَمْنَحْهَا أَخَاهُ , أَوْ لِيَزْرَعْهَا ".
رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک ایسے کام سے منع فرما دیا جو ہمارے لیے مفید تھا، وہ یہ کہ جب ہم میں سے کسی کے پاس زمین ہوتی تو وہ اس کو (زراعت کے لیے) کچھ پیداوار یا روپیوں کے عوض دے دیتا۔ آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کے پاس زمین ہو تو وہ اپنے بھائی کو (مفت) دیدے۔ یا خود زراعت کرے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/المزارعة 2 (3899)، (تحفة الأشراف: 3578)، (وانظر أیضا: أحادیث النسائي من الأرقام: 3893- إلی -3903) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: دیکھئیے پچھلی حدیث اور اس کا حاشیہ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح - لكن ذكر الدراهم شاذ -، الإرواء (5 / 298 - 300)، غاية المرام (355)
حدیث نمبر: 1386
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا علي بن سعيد الكندي الكوفي , اخبرنا ابن ابي زائدة , عن الحجاج , عن زيد بن جبير , وعن خشف بن مالك , قال: سمعت ابن مسعود , قال: " قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في دية الخطإ عشرين بنت مخاض , وعشرين بني مخاض ذكورا , وعشرين بنت لبون , وعشرين جذعة , وعشرين حقة ". قال: وفي الباب , عن عبد الله بن عمرو , اخبرنا ابو هشام الرفاعي , اخبرنا ابن ابي زائدة , وابو خالد الاحمر , عن الحجاج بن ارطاة نحوه. قال ابو عيسى: حديث ابن مسعود لا نعرفه مرفوعا , إلا من هذا الوجه , وقد روي عن عبد الله موقوفا , وقد ذهب بعض اهل العلم إلى هذا , وهو قول: احمد , وإسحاق , وقد اجمع اهل العلم على ان الدية تؤخذ في ثلاث سنين , في كل سنة ثلث الدية , وراوا ان دية الخطإ على العاقلة , وراى بعضهم ان العاقلة قرابة الرجل من قبل ابيه , وهو قول: مالك , والشافعي , وقال بعضهم: إنما الدية على الرجال دون النساء والصبيان من العصبة , يحمل كل رجل منهم ربع دينار , وقد قال بعضهم: إلى نصف دينار , فإن تمت الدية , وإلا نظر إلى اقرب القبائل منهم فالزموا ذلك.حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ الْكُوفِيُّ , أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ , عَنْ الْحَجَّاجِ , عَنْ زَيْدِ بْنِ جُبَيْرٍ , وعَنْ خَشْفِ بْنِ مَالِكٍ , قَال: سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ , قَالَ: " قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دِيَةِ الْخَطَإِ عِشْرِينَ بِنْتَ مَخَاضٍ , وَعِشْرِينَ بَنِي مَخَاضٍ ذُكُورًا , وَعِشْرِينَ بِنْتَ لَبُونٍ , وَعِشْرِينَ جَذَعَةً , وَعِشْرِينَ حِقَّةً ". قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , أَخْبَرَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ , أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ , وَأَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ , عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا , إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ , وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ مَوْقُوفًا , وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا , وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ , وَإِسْحَاق , وَقَدْ أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ عَلَى أَنَّ الدِّيَةَ تُؤْخَذُ فِي ثَلَاثِ سِنِينَ , فِي كُلِّ سَنَةٍ ثُلُثُ الدِّيَةِ , وَرَأَوْا أَنَّ دِيَةَ الْخَطَإِ عَلَى الْعَاقِلَةِ , وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنَّ الْعَاقِلَةَ قَرَابَةُ الرَّجُلِ مِنْ قِبَلِ أَبِيهِ , وَهُوَ قَوْلُ: مَالِكٍ , وَالشَّافِعِيِّ , وقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّمَا الدِّيَةُ عَلَى الرِّجَالِ دُونَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ مِنَ الْعَصَبَةِ , يُحَمَّلُ كُلُّ رَجُلٍ مِنْهُمْ رُبُعَ دِينَارٍ , وَقَدْ قَالَ بَعْضُهُمْ: إِلَى نِصْفِ دِينَارٍ , فَإِنْ تَمَّتِ الدِّيَةُ , وَإِلَّا نُظِرَ إِلَى أَقْرَبِ الْقَبَائِلِ مِنْهُمْ فَأُلْزِمُوا ذَلِكَ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا: قتل خطا ۱؎ کی دیت ۲؎ بیس بنت مخاض ۳؎، بیس ابن مخاض، بیس بنت لبون ۴؎، بیس جذعہ ۵؎ اور بیس حقہ ۶؎ ہے۔ ہم کو ابوہشام رفاعی نے ابن ابی زائدہ اور ابوخالد احمر سے اور انہوں نے حجاج بن ارطاۃ سے اسی طرح کی حدیث بیان کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث کو ہم صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں اور عبداللہ بن مسعود سے یہ حدیث موقوف طریقہ سے بھی آئی ہے،
۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،
۳- بعض اہل علم کا یہی مسلک ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے،
۴- اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دیت تین سال میں لی جائے گی، ہر سال دیت کا تہائی حصہ لیا جائے گا،
۵- اور ان کا خیال ہے کہ دیت خطا عصبہ پر ہے،
۶- بعض لوگوں کے نزدیک عصبہ وہ ہیں جو باپ کی جانب سے آدمی کے قرابت دار ہوں، مالک اور شافعی کا یہی قول ہے،
۷- بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ عصبہ میں سے جو مرد ہیں انہی پر دیت ہے، عورتوں اور بچوں پر نہیں، ان میں سے ہر آدمی کو چوتھائی دینار کا مکلف بنایا جائے گا،
۸- کچھ لوگ کہتے ہیں: آدھے دینار کا مکلف بنایا جائے گا،
۹- اگر دیت مکمل ہو جائے گی تو ٹھیک ہے ورنہ سب سے قریبی قبیلہ کو دیکھا جائے گا اور ان کو اس کا مکلف بنایا جائے گا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الدیات 18 (4545)، سنن النسائی/القسامة 34 (4806)، سنن ابن ماجہ/الدیات 6 (2631)، (تحفة الأشراف: 198)، و مسند احمد (1/450) (ضعیف) (سند میں حجاج بن ارطاة مدلس اور کثیر الوہم ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز خشف بن مالک کی ثقاہت میں بھی بہت کلام ہے، ملاحظہ ہو: الضعیفة رقم: 4020)»

وضاحت:
۱؎: قتل کی تین قسمیں ہیں: ۱- قتل عمد: یعنی جان بوجھ کر ایسے ہتھیار کا استعمال کرنا جن سے عام طور سے قتل واقع ہوتا ہے، اس میں قاتل سے قصاص لیا جاتا ہے، ۲- قتل خطا،: یعنی غلطی سے قتل کا ہو جانا، اوپر کی حدیث میں اسی قتل کی دیت بیان ہوئی ہے۔ ۳- قتل شبہ عمد: یہ وہ قتل ہے جس میں ایسی چیزوں کا استعمال ہوتا ہے جن سے عام طور سے قتل واقع نہیں ہوتا جیسے لاٹھی اور کوڑا وغیرہ، اس میں دیت مغلظہ لی جاتی ہے اور یہ سو اونٹ ہے ان میں چالیس حاملہ اونٹنیاں ہوں گی۔
۲؎: کسی نفس کے قتل یا جسم کے کسی عضو کے ضائع کرنے کے بدلے میں جو مال دیا جاتا ہے اسے دیت کہتے ہیں۔
۳؎: وہ اونٹنی جو ایک سال کی ہو چکی ہو ۴؎، وہ اونٹنی جو دو سال کی ہو چکی ہو۔ ۵؎؎ وہ اونٹ جو چار سال کی ہو چکا ہو ۶؎؎، وہ اونٹ جو تین سال کا ہو چکا ہو۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2631)

قال الشيخ زبير على زئي: (1386) إسناده ضعيف / د 4545، ن 4806، جه 2631
حدیث نمبر: 1387
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا احمد بن سعيد الدارمي , اخبرنا حبان وهو ابن هلال , حدثنا محمد بن راشد , اخبرنا سليمان بن موسى , عن عمرو بن شعيب , عن ابيه , عن جده , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " من قتل مؤمنا متعمدا دفع إلى اولياء المقتول , فإن شاءوا قتلوا , وإن شاءوا اخذوا الدية , وهي ثلاثون حقة , وثلاثون جذعة , واربعون خلفة , وما صالحوا عليه فهو لهم , وذلك لتشديد العقل ". قال ابو عيسى: حديث عبد الله بن عمرو حديث حسن غريب.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ , أَخْبَرَنَا حَبَّانُ وَهُوَ ابْنُ هِلَالٍ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ , أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى , عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا دُفِعَ إِلَى أَوْلِيَاءِ الْمَقْتُولِ , فَإِنْ شَاءُوا قَتَلُوا , وَإِنْ شَاءُوا أَخَذُوا الدِّيَةَ , وَهِيَ ثَلَاثُونَ حِقَّةً , وَثَلَاثُونَ جَذَعَةً , وَأَرْبَعُونَ خَلِفَةً , وَمَا صَالَحُوا عَلَيْهِ فَهُوَ لَهُمْ , وَذَلِكَ لِتَشْدِيدِ الْعَقْلِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کیا اسے مقتول کے وارثوں کے حوالے کیا جائے گا، اگر وہ چاہیں تو اسے قتل کر دیں اور چاہیں تو اس سے دیت لیں، دیت کی مقدار تیس حقہ، تیس جذعہ اور چالیس خلفہ ۱؎ ہے اور جس چیز پر وارث مصالحت کر لیں وہ ان کے لیے ہے اور یہ دیت کے سلسلہ میں سختی کی وجہ سے ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
عبداللہ بن عمرو کی حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الدیات 4 (4506)، سنن ابن ماجہ/الدیات 21 (2659)، (تحفة الأشراف: 8708) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: حاملہ اونٹنی اس کی جمع خلفات و خلائف آتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (2626)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.