الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: جہاد کے احکام و مسائل
The Book on Jihad
17. باب مَا جَاءَ فِي الدِّرْعِ
17. باب: زرہ کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1692
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا ابو سعيد الاشج، حدثنا يونس بن بكير، عن محمد بن إسحاق، عن يحيى بن عباد بن عبد الله بن الزبير، عن ابيه، عن جده عبد الله بن الزبير، عن الزبير بن العوام، قال: " كان على النبي صلى الله عليه وسلم درعان يوم احد، فنهض إلى الصخرة فلم يستطع، فاقعد طلحة تحته، فصعد النبي صلى الله عليه وسلم عليه حتى استوى على الصخرة "، فقال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " اوجب طلحة "، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن صفوان بن امية، والسائب بن يزيد، وهذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث محمد بن إسحاق.حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ، قَالَ: " كَانَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِرْعَانِ يَوْمَ أُحُدٍ، فَنَهَضَ إِلَى الصَّخْرَةِ فَلَمْ يَسْتَطِعْ، فَأَقْعَدَ طَلْحَةَ تَحْتَهُ، فَصَعِدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ حَتَّى اسْتَوَى عَلَى الصَّخْرَةِ "، فَقَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " أَوْجَبَ طَلْحَةُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ، وَالسَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق.
زبیر بن عوام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ احد کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر دو زرہیں تھیں ۱؎، آپ چٹان پر چڑھنے لگے، لیکن نہیں چڑھ سکے، آپ نے طلحہ بن عبیداللہ کو اپنے نیچے بٹھایا، پھر آپ ان پر چڑھ گئے یہاں تک کہ چٹان پر سیدھے کھڑے ہو گئے، زبیر کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: طلحہ نے (اپنے عمل سے جنت) واجب کر لی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف محمد بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں،
۲- اس باب میں صفوان بن امیہ اور سائب بن یزید رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف وأعادہ في المناقب برقم 3738 (تحفة الأشراف: 3628) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دو زرہیں پہننا توکل اور تسلیم و رضا کے منافی نہیں ہے، بلکہ اسباب و وسائل کو اپنانا توکل ورضاء الٰہی کے عین مطابق ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (6112)، مختصر الشمائل (89)، صحيح أبي داود (2332)
حدیث نمبر: 1691
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا وهب بن جرير بن حازم، حدثنا ابي، عن قتادة، عن انس، قال: " كانت قبيعة سيف رسول الله صلى الله عليه وسلم من فضة "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وهكذا روي عن همام، عن قتادة، عن انس، وقد روى بعضهم عن قتادة، عن سعيد بن ابي الحسن، قال: " كانت قبيعة سيف رسول الله صلى الله عليه وسلم من فضة ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: " كَانَتْ قَبِيعَةُ سَيْفِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ فِضَّةٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ، قَالَ: " كَانَتْ قَبِيعَةُ سَيْفِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ فِضَّةٍ ".
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار کے قبضہ کی گرہ چاندی کی تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- اسی طرح اس حدیث کو ہمام، قتادہ سے اور قتادہ، انس سے روایت کرتے ہیں، بعض لوگوں نے قتادہ کے واسطہ سے، سعید بن ابی الحسن سے بھی روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار کے قبضہ کی گرہ چاندی کی تھی۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجہاد 71 (2583، 2584)، سنن النسائی/الزینة 120 (5386)، (تحفة الأشراف: 1146)، سنن الدارمی/السیر 21 (2501) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2326 - 2328)، الإرواء (822)، مختصر الشمائل (85 و 86)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.