الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: سلام مصافحہ اور گھر میں داخل ہونے کے آداب و احکام
Chapters on Seeking Permission
4. باب مَا جَاءَ كَيْفَ رَدُّ السَّلاَمِ
4. باب: سلام کا جواب کس طرح دیا جائے؟
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2692
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا إسحاق بن منصور، اخبرنا عبد الله بن نمير، حدثنا عبيد الله بن عمر، عن سعيد المقبري، عن ابي هريرة، قال: دخل رجل المسجد ورسول الله صلى الله عليه وسلم جالس في ناحية المسجد فصلى، ثم جاء فسلم عليه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " وعليك، ارجع فصل فإنك لم تصل "، فذكر الحديث بطوله , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وروى يحيى بن سعيد القطان هذا عن عبيد الله بن عمر، عن سعيد المقبري فقال: عن ابيه، عن ابي هريرة، ولم يذكر فيه " فسلم عليه " , وقال: " وعليك "، قال: وحديث يحيى بن سعيد اصح.حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: دَخَلَ رَجُلٌ الْمَسْجِدَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ فَصَلَّى، ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَعَلَيْكَ، ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ "، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَرَوَى يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ هَذَا عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ فَقَالَ: عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ " فَسَلَّمَ عَلَيْهِ " , وَقَالَ: " وَعَلَيْكَ "، قَالَ: وَحَدِيثُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ أَصَحُّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں آیا (اس وقت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے ایک کونے میں تشریف فرما تھے۔ اس نے نماز پڑھی پھر آ کر آپ کو سلام عرض کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «وعليك» تم پر بھی سلام ہو، جاؤ دوبارہ نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- یحییٰ بن سعید قطان نے یہ حدیث عبیداللہ بن عمر سے اور عبیداللہ بن عمر نے سعید مقبری سے روایت کی ہے، اس میں انہوں نے «عن أبيه عن أبي هريرة» کہا ہے، اس میں «فسلم عليه وقال وعليك» اس نے آپ کو سلام کیا اور آپ نے کہا تم پر بھی سلام ہو کا ذکر نہیں کیا،
۳- یحییٰ بن سعید کی حدیث زیادہ صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 303 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1160)
حدیث نمبر: 303
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد القطان، حدثنا عبيد الله بن عمر، اخبرني سعيد بن ابي سعيد، عن ابيه، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل المسجد، فدخل رجل فصلى، ثم جاء فسلم على النبي صلى الله عليه وسلم فرد عليه السلام، فقال: " ارجع فصل فإنك لم تصل " فرجع الرجل فصلى كما كان صلى، ثم جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فسلم عليه فرد عليه السلام، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ارجع فصل فإنك لم تصل " حتى فعل ذلك ثلاث مرار، فقال له الرجل: والذي بعثك بالحق ما احسن غير هذا فعلمني، فقال: " إذا قمت إلى الصلاة فكبر ثم اقرا بما تيسر معك من القرآن ثم اركع حتى تطمئن راكعا ثم ارفع حتى تعتدل قائما ثم اسجد حتى تطمئن ساجدا ثم ارفع حتى تطمئن جالسا وافعل ذلك في صلاتك كلها ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، قال: وقد روى ابن نمير هذا الحديث، عن عبيد الله بن عمر، عن سعيد المقبري، عن ابي هريرة، ولم يذكر فيه عن ابيه، عن ابي هريرة، ورواية يحيى بن سعيد، عن عبيد الله بن عمر اصح، وسعيد المقبري قد سمع من ابي هريرة، وروى عن ابيه، عن ابي هريرة، وابو سعيد المقبري اسمه: كيسان , وسعيد المقبري يكنى ابا سعد، وكيسان عبد كان مكاتبا لبعضهم.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَدَخَلَ رَجُلٌ فَصَلَّى، ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ، فَقَالَ: " ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ " فَرَجَعَ الرَّجُلُ فَصَلَّى كَمَا كَانَ صَلَّى، ثُمَّ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ فَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ " حَتَّى فَعَلَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مِرَارٍ، فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أُحْسِنُ غَيْرَ هَذَا فَعَلِّمْنِي، فَقَالَ: " إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَكَبِّرْ ثُمَّ اقْرَأْ بِمَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَعْتَدِلَ قَائِمًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا وَافْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلَاتِكَ كُلِّهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ: وَقَدْ رَوَى ابْنُ نُمَيْرٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَرِوَايَةُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَصَحُّ، وَسَعِيدٌ الْمَقْبُرِيُّ قَدْ سَمِعَ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَرَوَى عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبُوَ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ اسْمُهُ: كَيْسَانُ , وَسَعِيدٌ الْمَقْبُرِيُّ يُكْنَى أَبَا سَعْدٍ، وَكَيْسَانُ عَبْدٌ كَانَ مُكَاتَبًا لِبَعْضِهِمْ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے اتنے میں ایک اور شخص بھی داخل ہوا، اس نے نماز پڑھی پھر آ کر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ نے اس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: تم واپس جاؤ اور پھر سے نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی، چنانچہ آدمی نے واپس جا کر نماز پڑھی، جیسے پہلے پڑھی تھی، پھر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ کو سلام کیا تو آپ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: واپس جاؤ اور پھر سے نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی، یہاں تک اس نے تین بار ایسا کیا، پھر اس آدمی نے عرض کیا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا میں اس سے بہتر نہیں پڑھ سکتا۔ لہٰذا آپ مجھے نماز پڑھنا سکھا دیجئیے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تم جب نماز کا ارادہ کرو تو «اللہ اکبر» کہو پھر جو تمہیں قرآن میں سے یاد ہو پڑھو، پھر رکوع کرو یہاں تک کہ رکوع کی حالت میں تمہیں خوب اطمینان ہو جائے، پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ اچھی طرح کھڑے ہو جاؤ، پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ خوب اطمینان سے سجدہ کر لو، پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جاؤ اور اسی طرح سے اپنی پوری نماز میں کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ابن نمیر نے عبیداللہ بن عمر سے اسی سند سے روایت کی ہے لیکن «عن أبیہ» نہیں ذکر کیا ہے،
۳- یحییٰ القطان کی روایت میں «عبداللہ بن عمر عن سعید بن أبی المقبری عن أبیہ عن أبی ہریرہ» ہے، اور یہ زیادہ صحیح۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 95 (757)، و122 (793)، والأیمان والنذور 15 (6251)، صحیح مسلم/الصلاة 11 (397)، سنن ابی داود/ الصلاة 148 (856)، سنن النسائی/الافتتاح 7 (885)، والتطبیق 15 (1052)، والسہو 67 (1312)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 72 (1060)، (تحفة الأشراف: 14304)، مسند احمد (2/437) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1060)
حدیث نمبر: 2693
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا علي بن المنذر الكوفي، حدثنا محمد بن فضيل، عن زكريا بن ابي زائدة، عن عامر الشعبي، حدثني ابو سلمة، ان عائشة حدثته، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لها: " إن جبريل يقرئك السلام "، قالت: وعليه السلام ورحمة الله وبركاته , وفي الباب عن رجل من بني نمير، عن ابيه، عن جده، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , وقد رواه الزهري ايضا، عن ابي سلمة، عن عائشة.حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا: " إِنَّ جِبْرِيلَ يُقْرِئُكِ السَّلَامَ "، قَالَتْ: وَعَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ , وَفِي الْبَابِ عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي نُمَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَقَدْ رَوَاهُ الزُّهْرِيُّ أَيْضًا، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: جبرائیل تمہیں سلام کہتے ہیں، تو انہوں نے جواب میں کہا: وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ ان پر بھی سلام اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں بنی نمیر کے ایک شخص سے بھی روایت ہے وہ اپنے باپ سے اور وہ ان کے دادا کے واسطہ سے روایت کرتے ہیں،
۳- زہری نے بھی یہ حدیث ابوسلمہ کے واسطہ سے عائشہ سے روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الخلق 6 (2217)، وفضائل الصحابة 30 (3768)، والأدب 111 (6201)، والاستئذان 16 (6249)، و19 (6253)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 13 (2447)، سنن ابی داود/ الأدب 166 (5232)، سنن النسائی/عشرة النساء 3 (9363)، سنن ابن ماجہ/الأدب 12 (3695) (تحفة الأشراف: 17727)، و مسند احمد (6/146، 150، 208، 224)، وسنن الدارمی/الاستئذان 10 (2690) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غائبانہ سلام کسی شخص کے واسطہ سے پہنچے یا کسی خط میں لکھ کر آئے تو اس کا جواب فوری طور پر دینا چاہیئے۔ اور اسی طرح دینا چاہیئے جیسے اوپر ذکر ہوا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.