الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
38. بَابُ غَزْوَةُ ذَاتِ الْقَرَدِ:
38. باب: ذات قرد کی لڑائی کا بیان۔
(38) Chapter. Ghazwa Dhat-Qarad.
حدیث نمبر: 4194
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا حاتم، عن يزيد بن ابي عبيد، قال: سمعت سلمة بن الاكوع، يقول: خرجت قبل ان يؤذن بالاولى، وكانت لقاح رسول الله صلى الله عليه وسلم ترعى بذي قرد، قال: فلقيني غلام لعبد الرحمن بن عوف، فقال: اخذت لقاح رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت: من اخذها؟ قال: غطفان، قال: فصرخت ثلاث صرخات: يا صباحاه، قال: فاسمعت ما بين لابتي المدينة ثم اندفعت على وجهي حتى ادركتهم , وقد اخذوا يستقون من الماء، فجعلت ارميهم بنبلي: انا ابن الاكوع واليوم يوم الرضع وكنت راميا واقول وارتجز حتى استنقذت اللقاح منهم، واستلبت منهم ثلاثين بردة، قال: وجاء النبي صلى الله عليه وسلم والناس , فقلت: يا نبي الله، قد حميت القوم الماء وهم عطاش، فابعث إليهم الساعة، فقال:" يا ابن الاكوع، ملكت فاسجح"، قال: ثم رجعنا ويردفني رسول الله صلى الله عليه وسلم على ناقته حتى دخلنا المدينة.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَلَمَةَ بْنَ الْأَكْوَعِ، يَقُولُ: خَرَجْتُ قَبْلَ أَنْ يُؤَذَّنَ بِالْأُولَى، وَكَانَتْ لِقَاحُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرْعَى بِذِي قَرَدَ، قَالَ: فَلَقِيَنِي غُلَامٌ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، فَقَالَ: أُخِذَتْ لِقَاحُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: مَنْ أَخَذَهَا؟ قَالَ: غَطَفَانُ، قَالَ: فَصَرَخْتُ ثَلَاثَ صَرَخَاتٍ: يَا صَبَاحَاهْ، قَالَ: فَأَسْمَعْتُ مَا بَيْنَ لَابَتَيْ الْمَدِينَةِ ثُمَّ انْدَفَعْتُ عَلَى وَجْهِي حَتَّى أَدْرَكْتُهُمْ , وَقَدْ أَخَذُوا يَسْتَقُونَ مِنَ الْمَاءِ، فَجَعَلْتُ أَرْمِيهِمْ بِنَبْلِي: أَنَا ابْنُ الْأَكْوَعْ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعْ وكُنْتُ راميًا وَأَقُولُ وَأَرْتَجِزُ حَتَّى اسْتَنْقَذْتُ اللِّقَاحَ مِنْهُمْ، وَاسْتَلَبْتُ مِنْهُمْ ثَلَاثِينَ بُرْدَةً، قَالَ: وَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ , فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، قَدْ حَمَيْتُ الْقَوْمَ الْمَاءَ وَهُمْ عِطَاشٌ، فَابْعَثْ إِلَيْهِمُ السَّاعَةَ، فَقَالَ:" يَا ابْنَ الْأَكْوَعِ، مَلَكْتَ فَأَسْجِحْ"، قَالَ: ثُمَّ رَجَعْنَا وَيُرْدِفُنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نَاقَتِهِ حَتَّى دَخَلْنَا الْمَدِينَةَ.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ ان سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا ‘ کہا میں نے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ وہ بیان کرتے تھے کہ میں فجر کی اذان سے پہلے (مدینہ سے باہر غابہ کی طرف نکلا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دودھ دینے والی اونٹنیاں ذات القرد میں چرا کرتی تھیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ راستے میں مجھے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے غلام ملے اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیاں پکڑ لی گئیں ہیں۔ میں پوچھا کہ کس نے پکڑا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ قبیلہ غطفان والوں نے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں نے تین مرتبہ بڑی زور زور سے پکارا ‘ یا صباحاہ! انہوں نے بیان کیا کہ اپنی آواز میں نے مدینہ کے دونوں کناروں تک پہنچا دی اور اس کے بعد میں سیدھا تیزی کے ساتھ دوڑتا ہوا آگے بڑھا اور آخر انہیں جا لیا۔ اس وقت وہ جانوروں کو پانی پلانے کے لیے اترے تھے۔ میں نے ان پر تیر برسانے شروع کر دیئے۔ میں تیر اندازی میں ماہر تھا اور یہ شعر کہتا جاتا تھا میں ابن الاکوع ہوں ‘ آج ذلیلوں کی بربادی کا دن ہے میں یہی رجز پڑھتا رہا اور آخر اونٹنیاں ان سے چھڑا لیں بلکہ تیس چادریں ان کی میرے قبضے میں آ گئیں۔ سلمہ نے بیان کیا کہ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر آ گئے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے تیر مار مار کر ان کو پانی نہیں دیا اور وہ ابھی پیاسے ہیں۔ آپ فوراً ان کے تعاقب کے لیے فوج بھیج دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابن الاکوع! جب تو کسی پر قابو پا لے تو نرمی اختیار کر۔ سلمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ پھر ہم واپس آ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنی اونٹنی پر پیچھے بٹھا کر لائے یہاں تک کہ ہم مدینہ واپس آ گئے۔

Narrated Salama bin Al-Akwa`: Once I went (from Medina) towards (Al-Ghaba) before the first Adhan of the Fajr Prayer. The shecamels of Allah's Apostle used to graze at a place called Dhi-Qarad. A slave of `Abdur-Rahman bin `Auf met me (on the way) and said, "The she-camels of Allah's Apostle had been taken away by force." I asked, "Who had taken them?" He replied "(The people of) Ghatafan." I made three loud cries (to the people of Medina) saying, "O Sabahah!" I made the people between the two mountains of Medina hear me. Then I rushed onward and caught up with the robbers while they were watering the camels. I started throwing arrows at them as I was a good archer and I was saying, "I am the son of Al-Akwa`, and today will perish the wicked people." I kept on saying like that till I restored the shecamels (of the Prophet), I also snatched thirty Burda (i.e. garments) from them. Then the Prophet and the other people came there, and I said, "O Allah's Prophet! I have stopped the people (of Ghatafan) from taking water and they are thirsty now. So send (some people) after them now." On that the Prophet said, "O the son of Al-Akwa`! You have over-powered them, so forgive them." Then we all came back and Allah's Apostle seated me behind him on his she-camel till we entered Medina.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 507

حدیث نمبر: 3041
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا المكي بن إبراهيم، اخبرنا يزيد بن ابي عبيد، عن سلمة، انه اخبره قال: خرجت من المدينة ذاهبا نحو الغابة حتى إذا كنت، بثنية الغابة لقيني غلام لعبد الرحمن بن عوف، قلت: ويحك ما بك، قال: اخذت لقاح النبي صلى الله عليه وسلم، قلت: من اخذها، قال: غطفان وفزارة فصرخت ثلاث صرخات اسمعت ما بين لابتيها يا صباحاه يا صباحاه، ثم اندفعت حتى القاهم وقد اخذوها فجعلت ارميهم، واقول انا ابن الاكوع واليوم يوم الرضع فاستنقذتها منهم قبل ان يشربوا فاقبلت بها اسوقها، فلقيني النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إن القوم عطاش وإني اعجلتهم ان يشربوا سقيهم فابعث في إثرهم، فقال:" يا ابن الاكوع ملكت فاسجح إن القوم يقرون في قومهم".حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ قَالَ: خَرَجْتُ مِنْ الْمَدِينَةِ ذَاهِبًا نَحْوَ الْغَابَةِ حَتَّى إِذَا كُنْتُ، بِثَنِيَّةِ الْغَابَةِ لَقِيَنِي غُلَامٌ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قُلْتُ: وَيْحَكَ مَا بِكَ، قَالَ: أُخِذَتْ لِقَاحُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: مَنْ أَخَذَهَا، قَالَ: غَطَفَانُ وَفَزَارَةُ فَصَرَخْتُ ثَلَاثَ صَرَخَاتٍ أَسْمَعْتُ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا يَا صَبَاحَاهْ يَا صَبَاحَاهْ، ثُمَّ انْدَفَعْتُ حَتَّى أَلْقَاهُمْ وَقَدْ أَخَذُوهَا فَجَعَلْتُ أَرْمِيهِمْ، وَأَقُولُ أَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعْ فَاسْتَنْقَذْتُهَا مِنْهُمْ قَبْلَ أَنْ يَشْرَبُوا فَأَقْبَلْتُ بِهَا أَسُوقُهَا، فَلَقِيَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الْقَوْمَ عِطَاشٌ وَإِنِّي أَعْجَلْتُهُمْ أَنْ يَشْرَبُوا سِقْيَهُمْ فَابْعَثْ فِي إِثْرِهِمْ، فَقَالَ:" يَا ابْنَ الْأَكْوَعِ مَلَكْتَ فَأَسْجِحْ إِنَّ الْقَوْمَ يُقْرَوْنَ فِي قَوْمِهِمْ".
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو یزید بن ابی عبید نے خبر دی ‘ انہیں سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے خبر دی ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں مدینہ منورہ سے غابہ (شام کے راستے میں ایک مقام) جا رہا تھا ‘ غابہ کی پہاڑی پر ابھی میں پہنچا تھا کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کا ایک غلام (رباح) مجھے ملا۔ میں نے کہا ‘ کیا بات پیش آئی؟ کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دودہیل اونٹنیاں (دودھ دینے والیاں) چھین لی گئیں ہیں۔ میں نے پوچھا کس نے چھینا ہے؟ بتایا کہ قبیلہ غطفان اور قبیلہ فزارہ کے لوگوں نے۔ پھر میں نے تین مرتبہ بہت زور سے چیخ کر یا صباحاہ ‘ یا صباحاہ کہا۔ اتنی زور سے کہ مدینہ کے چاروں طرف میری آواز پہنچ گئی۔ اس کے بعد میں بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھا ‘ اور ڈاکوؤں کو جا لیا ‘ اونٹنیاں ان کے ساتھ تھیں ‘ میں نے ان پر تیر برسانا شروع کر دیا ‘ اور کہنے لگا ‘ میں اکوع کا بیٹا سلمہ ہوں اور آج کا دن کمینوں کی ہلاکت کا دن ہے۔ آخر اونٹنیاں میں نے ان سے چھڑا لیں ‘ ابھی وہ لوگ پانی نہ پینے پائے تھے اور انہیں ہانک کر واپس لا رہا تھا کہ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مجھ کو مل گئے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ڈاکو پیاسے ہیں اور میں نے مارے تیروں کے پانی بھی نہیں پینے دیا۔ اس لیے ان کے پیچھے کچھ لوگوں کو بھیج دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اے ابن الاکوع! تو ان پر غالب ہو چکا اب جانے دے ‘ درگزر کر وہ تو اپنی قوم میں پہنچ گئے جہاں ان کی مہمانی ہو رہی ہے۔

Narrated Salama: I went out of Medina towards Al-Ghaba. When I reached the mountain path of Al-Ghaba, a slave of `Abdur-Rahman bin `Auf met me. I said to him, "Woe to you! What brought you here?" He replied, "The she-camels of the Prophet have been taken away." I said, "Who took them?" He said, "Ghatafan and Fazara." So, I sent three cries, "O Sabaha-h ! O Sabahah !" so loudly that made the people in between its (i.e. Medina's) two mountains hear me. Then I rushed till I met them after they had taken the camels away. I started throwing arrows at them saying, "I am the son of Al-Akwa`"; and today perish the mean people!" So, I saved the she-camels from them before they (i.e. the robbers) could drink water. When I returned driving the camels, the Prophet met me, I said, "O Allah's Apostle Those people are thirsty and I have prevented them from drinking water, so send some people to chase them." The Prophet said, "O son of Al-Akwa`, you have gained power (over your enemy), so forgive (them). (Besides) those people are now being entertained by their folk."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 278


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.