الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
أبواب الوتر کتاب: صلاۃ وترکے ابواب 21. باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الصَّلاَةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پر صلاۃ (درود) بھیجنے کی فضیلت کا بیان۔
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن مجھ سے لوگوں میں سب سے زیادہ قریب ۱؎ وہ ہو گا جو مجھ پر سب سے زیادہ صلاۃ (درود) بھیجے گا“۔
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا ”جو مجھ پر ایک بار صلاۃ (درود) بھیجتا ہے، اللہ اس پر اس کے بدلے دس بار صلاۃ (درود) بھیجتا ہے ۲؎، اور اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں“ (یہی حدیث آگے آ رہی ہے)۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 934) (ضعیف) (سند میں موسیٰ بن یعقوب صدوق لیکن سیٔ الحفظ راوی ہیں، اور محمد بن خالد بھی صدوق ہیں لیکن روایت میں خطا کرتے ہیں (التقریب)»
وضاحت: ۱؎: سب سے زیادہ قریب اور نزدیک ہونے کا مطلب ہے: میری شفاعت کا سب سے زیادہ حقدار ہے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف، التعليق الرغيب (2 / 280)
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مجھ پر ایک بار صلاۃ (درود) بھیجے گا، اللہ اس کے بدلے اس پر دس بار صلاۃ (درود) بھیجے گا“۔
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبدالرحمٰن بن عوف، عامر بن ربیعہ، عمار، ابوطلحہ، انس اور ابی بن کعب رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- سفیان ثوری اور دیگر کئی اہل علم سے مروی ہے کہ رب کے صلاۃ (درود) سے مراد اس کی رحمت ہے اور فرشتوں کے صلاۃ (درود) سے مراد استغفار ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 17 (408)، سنن ابی داود/ الصلاة 361 (153)، سنن النسائی/السہو 55 (1297)، (تحفة الأشراف: 13974)، مسند احمد (2/373، 375، 485)، سنن الدارمی/الرقاق 58 (2814) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1369)
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ دعا آسمان اور زمین کے درمیان رکی رہتی ہے، اس میں سے ذرا سی بھی اوپر نہیں جاتی جب تک کہ تم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ (درود) نہیں بھیج لیتے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10449) (حسن) (الصحیحة 2035)»
قال الشيخ الألباني: حسن، الصحيحة (2035)
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں: ہمارے بازار میں کوئی خرید و فروخت نہ کرے جب تک کہ وہ دین میں خوب سمجھ نہ پیدا کر لے ۱؎۔
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- علاء بن عبدالرحمٰن بن یعقوب یہ باپ بیٹے اور دادا تینوں تابعی ہیں، علاء کے دادا اور یعقوب کبار تابعین میں سے ہیں، انہوں نے عمر بن خطاب رضی الله عنہ کو پایا ہے اور ان سے روایت بھی کی ہے ۲؎۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10658) (حسن الإسناد)»
وضاحت: ۱؎: یعنی معاملات کے مسائل نہ سمجھ لے۔ قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد
|