الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے احکامات اور فیصلے
The Chapters On Judgements From The Messenger of Allah
32. باب مَا جَاءَ فِي الشُّفْعَةِ لِلْغَائِبِ
باب: غائب (جو شخص موجود نہ ہو) کے شفعہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 1369
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة , حدثنا خالد بن عبد الله الواسطي , عن عبد الملك بن ابي سليمان , عن عطاء , عن جابر , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الجار احق بشفعته ينتظر به وإن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب , ولا نعلم احدا روى هذا الحديث غير عبد الملك بن ابي سليمان , عن عطاء , عن جابر , وقد تكلم شعبة في عبد الملك بن ابي سليمان , من اجل هذا الحديث , وعبد الملك: هو ثقة مامون عند اهل الحديث , ولا نعلم احدا تكلم فيه غير شعبة , من اجل هذا الحديث , وقد روى وكيع , عن شعبة , عن عبد الملك بن ابي سليمان , هذا الحديث , وروي عن ابن المبارك , عن سفيان الثوري , قال عبد الملك بن ابي سليمان: ميزان يعني: في العلم والعمل على هذا الحديث عند اهل العلم ان الرجل احق بشفعته , وإن كان غائبا فإذا قدم فله الشفعة وإن تطاول ذلك.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْوَاسِطِيُّ , عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ , عَنْ عَطَاءٍ , عَنْ جَابِرٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْجَارُ أَحَقُّ بِشُفْعَتِهِ يُنْتَظَرُ بِهِ وَإِنْ كَانَ غَائِبًا إِذَا كَانَ طَرِيقُهُمَا وَاحِدًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ , وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ غَيْرَ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ , عَنْ عَطَاءٍ , عَنْ جَابِرٍ , وَقَدْ تَكَلَّمَ شُعْبَةُ فِي عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ , مِنْ أَجْلِ هَذَا الْحَدِيثِ , وَعَبْدُ الْمَلِكِ: هُوَ ثِقَةٌ مَأْمُونٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ , وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا تَكَلَّمَ فِيهِ غَيْرَ شُعْبَةَ , مِنْ أَجْلِ هَذَا الْحَدِيثِ , وَقَدْ رَوَى وَكِيعٌ , عَنْ شُعْبَةَ , عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ , هَذَا الْحَدِيثَ , وَرُوِي عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ , عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ , قَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ: مِيزَانٌ يَعْنِي: فِي الْعِلْمِ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الرَّجُلَ أَحَقُّ بِشُفْعَتِهِ , وَإِنْ كَانَ غَائِبًا فَإِذَا قَدِمَ فَلَهُ الشُّفْعَةُ وَإِنْ تَطَاوَلَ ذَلِكَ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پڑوسی اپنے پڑوسی (ساجھی) کے شفعہ کا زیادہ حقدار ہے، جب دونوں کا راستہ ایک ہو تو اس کا انتظار کیا جائے گا ۱؎ اگرچہ وہ موجود نہ ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم عبدالملک بن سلیمان کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے ہیں جس نے اس حدیث کو عطاء سے اور عطاء نے جابر سے روایت کی ہو،
۲- شعبہ نے عبدالملک بن سلیمان پر اسی حدیث کی وجہ سے کلام کیا ہے۔ محدثین کے نزدیک عبدالملک ثقہ اور مامون ہیں، شعبہ کے علاوہ ہم کسی کو نہیں جانتے ہیں جس نے عبدالملک پر کلام کیا ہو، شعبہ نے بھی صرف اسی حدیث کی وجہ سے کلام کیا ہے۔ اور وکیع نے بھی یہ حدیث شعبہ سے اور شعبہ نے عبدالملک بن ابی سلیمان سے روایت کی ہے۔ اور ابن مبارک نے سفیان ثوری سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: عبدالملک بن سفیان میزان ہیں یعنی علم میں،
۲- اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے کہ آدمی اپنے شفعہ کا زیادہ حقدار ہے اگرچہ وہ غائب ہی کیوں نہ ہو، جب وہ (سفر وغیرہ) سے واپس آئے گا تو اس کو شفعہ ملے گا گرچہ اس پر لمبی مدت گزر چکی ہو۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 75 (3518)، سنن ابن ماجہ/الشفعة 2 (2494)، (تحفة الأشراف: 2234)، و مسند احمد (3/303) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ غیر حاضر شخص کا شفعہ باطل نہیں ہوتا، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شفعہ کے لیے مجرد ہمسائیگی ہی کافی نہیں بلکہ اس کے لیے راستے میں اشتراک بھی ضروری ہے، اس کی تائید ذیل کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے کہ جب حد بندی ہو جائے اور راستے جدا جدا ہو جائیں تو پھر شفعہ کا استحقاق نہیں رہتا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2494)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.