الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے احکامات اور فیصلے
The Chapters On Judgements From The Messenger of Allah
36. باب فِي الْوَقْفِ
باب: وقف کا بیان۔
حدیث نمبر: 1375
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر , انبانا إسماعيل بن إبراهيم , عن ابن عون , عن نافع , عن ابن عمر , قال: اصاب عمر ارضا بخيبر، فقال: يا رسول الله , اصبت مالا بخيبر لم اصب مالا قط , انفس عندي منه , فما تامرني , قال: " إن شئت حبست اصلها , وتصدقت بها " , فتصدق بها عمر , انها لا يباع اصلها , ولا يوهب , ولا يورث , تصدق بها في الفقراء , والقربى , والرقاب , وفي سبيل الله , وابن السبيل , والضيف , لا جناح على من وليها ان ياكل منها بالمعروف , او يطعم صديقا غير متمول فيه , قال: فذكرته لمحمد بن سيرين , فقال غير متاثل مالا , قال ابن عون: فحدثني به رجل آخر , انه قراها في قطعة اديم احمر غير متاثل مالا , قال إسماعيل , وانا قراتها عند ابن عبيد الله بن عمر , فكان فيه غير متاثل مالا , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , والعمل على هذا عند اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم , لا نعلم بين المتقدمين منهم في ذلك اختلافا في إجازة وقف الارضين وغير ذلك.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ , أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ ابْنِ عَوْنٍ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ: أَصَابَ عُمَرُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَصَبْتُ مَالًا بِخَيْبَرَ لَمْ أُصِبْ مَالًا قَطُّ , أَنْفَسَ عِنْدِي مِنْهُ , فَمَا تَأْمُرُنِي , قَالَ: " إِنْ شِئْتَ حَبَسْتَ أَصْلَهَا , وَتَصَدَّقْتَ بِهَا " , فَتَصَدَّقَ بِهَا عُمَرُ , أَنَّهَا لَا يُبَاعُ أَصْلُهَا , وَلَا يُوهَبُ , وَلَا يُورَثُ , تَصَدَّقَ بِهَا فِي الْفُقَرَاءِ , وَالْقُرْبَى , وَالرِّقَابِ , وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ , وَابْنِ السَّبِيلِ , وَالضَّيْفِ , لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ , أَوْ يُطْعِمَ صَدِيقًا غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيهِ , قَالَ: فَذَكَرْتُهُ لِمُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ , فَقَالَ غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا , قَالَ ابْنُ عَوْنٍ: فَحَدَّثَنِي بِهِ رَجُلٌ آخَرُ , أَنَّهُ قَرَأَهَا فِي قِطْعَةِ أَدِيمٍ أَحْمَرَ غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا , قَالَ إِسْمَاعِيلُ , وَأَنَا قَرَأْتُهَا عِنْدَ ابْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , فَكَانَ فِيهِ غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ , لَا نَعْلَمُ بَيْنَ الْمُتَقَدِّمِينَ مِنْهُمْ فِي ذَلِكَ اخْتِلَافًا فِي إِجَازَةِ وَقْفِ الْأَرَضِينَ وَغَيْرِ ذَلِكَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی الله عنہ کو خیبر میں (مال غنیمت سے) کچھ زمین ملی، تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! خیبر میں مجھے مال ملا ہے اس سے زیادہ عمدہ مال مجھے کبھی نہیں ملا۔ (اس کے بارے میں) آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اگر چاہو تو اس کی اصل روک لو اور اسے (پیداوار کو) صدقہ کر دو، تو عمر رضی الله عنہ نے اسے اس طرح سے صدقہ کیا کہ اصل زمین نہ بیچی جائے، نہ ہبہ کی جائے، اور نہ کسی کو وراثت میں دی جائے ۱؎، اور اسے فقیروں میں، رشتہ داروں میں، غلام آزاد کرنے میں، اللہ کے راستے (جہاد) میں، مسافروں میں اور مہمانوں میں خرچ کیا جائے۔ اور جو اس کا والی (نگراں) ہو اس کے لیے اس میں سے معروف طریقے سے کھانے اور دوست کو کھلانے میں کوئی حرج نہیں ہے، جبکہ وہ اس میں سے ذخیرہ اندوزی کرنے والا نہ ہو۔ ابن عون کہتے ہیں: میں نے اسے محمد بن سیرین سے بیان کیا تو انہوں نے «غير متمول فيه» کے بجائے «غير متأثل مالا» کہا۔ ابن عون کہتے ہیں: مجھ سے اسے ایک اور آدمی نے بیان کیا ہے کہ اس نے اس وقف نامے کو پڑھا تھا جو ایک لال چمڑے پر تحریر تھا اور اس میں بھی «غير متأثل مالا» کے الفاظ تھے۔ اسماعیل کہتے ہیں: میں نے اس وقف نامے کو عبیداللہ بن عمر کے بیٹے کے پاس پڑھا، اس میں بھی «غير متأثل مالا» کے الفاظ تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ متقدمین میں سے ہم کسی کو نہیں جانتے ہیں جس نے زمین وغیرہ کو وقف کرنے میں اختلاف کیا ہو۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشروط 19 (2737)، والوصایا 22 (2764)، و 28 (2772)، و29 (2773)، و32 (2777)، صحیح مسلم/الوصایا 4 (1632)، سنن ابی داود/ الوصایا 13 (2878)، سنن النسائی/الإحباس 2 (3627)، سنن ابن ماجہ/الصدقات 4 (2396)، (تحفة الأشراف: 7742)، و مسند احمد (2/55، 125) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ جو چیز وقف کر دی گئی ہو وہ نہ بیچی جا سکتی ہے اور نہ اسے ہبہ اور وراثت میں دیا جا سکتا ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وقف کے فروخت کو جائز سمجھتے ہیں، ان کے شاگرد امام یوسف فرماتے ہیں کہ امام صاحب کو اگر یہ حدیث مل گئی ہوتی تو وہ اپنی رائے سے رجوع فرما لیتے (دیکھئیے: فتح الباری کتاب الوصایا، باب ۲۹ (۲۷۷۳)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2396)
حدیث نمبر: 1376
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر , اخبرنا إسماعيل بن جعفر , عن العلاء بن عبد الرحمن , عن ابيه , عن ابي هريرة رضي الله عنه , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا مات الإنسان انقطع عمله إلا من ثلاث , صدقة جارية , وعلم ينتفع به , وولد صالح يدعو له ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ , أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ , عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثٍ , صَدَقَةٌ جَارِيَةٌ , وَعِلْمٌ يُنْتَفَعُ بِهِ , وَوَلَدٌ صَالِحٌ يَدْعُو لَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے: ایک صدقہ جاریہ ۱؎ ہے، دوسرا ایسا علم ہے ۲؎ جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسرا نیک و صالح اولاد ہے ۳؎ جو اس کے لیے دعا کرے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الوصایا 3 (1631)، سنن ابی داود/ الوصایا 14 (2880)، سنن النسائی/الوصایا 8 (3681)، (تحفة الأشراف: 13975)، و مسند احمد (2/316، 350، 372)، وسنن الدارمی/المقدمة 46 (578) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: صدقہ جاریہ یعنی ایسا صدقہ جس کو عوام کی بھلائی کے لیے وقف کر دیا جائے، مثلاً سرائے کی تعمیر، کنواں کھدوانا، نل لگوانا، مساجد و مدارس اور یتیم خانوں کی تعمیر کروانا، اسپتال کی تعمیر، پل اور سڑک وغیرہ بنوانا، ان میں سے جو کام بھی وہ اپنی زندگی میں کر جائے یا اس کے کرنے کا ارادہ رکھتا ہو وہ سب صدقہ جاریہ میں شمار ہوں گے۔
۲؎: علم میں لوگوں کو تعلیم دینا، طلباء کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنا، تصنیف و تالیف اور درس و تدریس دعوت و تبلیغ کا سلسلہ قائم کرنا، مدارس کی تعمیر کرنا، دینی کتب کی طباعت اور ان کی نشر و اشاعت کا بندوبست کرنا وغیرہ امور سبھی داخل ہیں۔
۳؎: نیک اولاد میں بیٹا، بیٹی پوتا، پوتی، نواسا نواسی وغیرہ کے علاوہ روحانی اولاد بھی شامل ہے جنہیں علم دین سکھایا ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.