الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: زہد، ورع، تقوی اور پرہیز گاری
Chapters On Zuhd
11. باب مِنْهُ
باب: لایعنی بات کے برے انجام کا بیان۔
حدیث نمبر: 2316
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا سليمان بن عبد الجبار البغدادي، حدثنا عمر بن حفص بن غياث، حدثنا ابي، عن الاعمش، عن انس بن مالك، قال: توفي رجل من اصحابه، فقال يعني رجلا: ابشر بالجنة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اولا تدري فلعله تكلم فيما لا يعنيه، او بخل بما لا ينقصه "، قال: هذا حديث غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَنَسٍ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: تُوُفِّيَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ يَعْنِي رَجُلًا: أَبْشِرْ بِالْجَنَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَوَلَا تَدْرِي فَلَعَلَّهُ تَكَلَّمَ فِيمَا لَا يَعْنِيهِ، أَوْ بَخِلَ بِمَا لَا يَنْقُصُهُ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی کی وفات ہو گئی، ایک آدمی نے کہا: تجھے جنت کی بشارت ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شاید تمہیں نہیں معلوم کہ اس نے کوئی ایسی بات کہی ہو جو بےفائدہ ہو، یا ایسی چیز کے ساتھ بخل سے کام لیا ہو جس کے خرچ کرنے سے اس کا کچھ نقصان نہ ہوتا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 893) (صحیح) (امام ترمذی نے حدیث پر غریب ہونے کا حکم لگایا ہے، اور ایسے ہی تحفة الأشراف میں ہے، نیز ترمذی نے لکھا ہے کہ أعمش کا سماع انس سے نہیں ہے (تحفة الأشراف) لیکن منذری کہتے ہیں کہ اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی نے فرمایا: حديث حسن صحیح اور خود منذری نے کہا کہ سند کے رواة ثقات ہیں، دوسرے طرق اور شواہد کی بنا پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح الترغیب 2882، 2883، وتراجع الألبانی 511)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، التعليق الرغيب (4 / 11)
حدیث نمبر: 2317
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن نصر النيسابوري، وغير واحد، قالوا: حدثنا ابو مسهر، عن إسماعيل بن عبد الله بن سماعة، عن الاوزاعي، عن قرة، عن الزهري، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه "، قال: هذا حديث غريب، لا نعرفه من حديث ابي سلمة، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم إلا من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَصْرٍ النَّيْسَابُورِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَمَاعَةَ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ قُرَّةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی اور فضول باتوں کو چھوڑ دے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- ہم اس حدیث کو ابوسلمہ کی روایت سے جسے وہ ابوہریرہ رضی الله عنہ سے اور ابوہریرہ رضی الله عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الفتن 12 (3976) (تحفة الأشراف: 15234) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی جو باتیں اس سے متعلق نہیں ہیں اور نہ ہی جن سے دینی یا دنیاوی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے ان کی ٹوہ میں نہ لگا رہے بلکہ ان سے دور رہے یہی اس کے اسلام کی خوبی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3976)
حدیث نمبر: 2318
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا مالك بن انس، عن الزهري، عن علي بن حسين، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه "، قال ابو عيسى: وهكذا روى غير واحد من اصحاب الزهري، عن الزهري، عن علي بن حسين، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو حديث مالك مرسلا، وهذا عندنا اصح من حديث ابي سلمة، عن ابي هريرة، وعلي بن حسين لم يدرك علي بن ابي طالب.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكَهُ مَا لَا يَعْنِيهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ حَدِيثِ مَالِكٍ مُرْسَلًا، وَهَذَا عِنْدَنَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ لَمْ يُدْرِكْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ.
علی بن حسین (زین العابدین) کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ ایسی چیزوں کو چھوڑ دے جو اس سے غیر متعلق ہوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- زہری کے شاگردوں میں سے کئی لوگوں نے اسی طرح «عن الزهري عن علي بن حسين عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے مالک کی حدیث کی طرح مرسلا روایت کی ہے،
۲- ہمارے نزدیک یہ حدیث ابوسلمہ کی ابوہریرہ سے مروی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ۱؎،
۳- علی بن حسین (زین العابدین) کی ملاقات علی رضی الله عنہ سے ثابت نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (19134) (صحیح) (علی بن حسین زین العابدین تابعی ہیں اس لیے یہ حدیث مرسل ہے، مگر سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ صحیح لغیرہ ہے)»

وضاحت:
۱؎: اصل حدیث ثابت ہے، اس کی بحث «زهد وكيع» رقم ۳۶۴ میں دیکھئیے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح بما قبله (2317)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.