الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: زہد، ورع، تقوی اور پرہیز گاری
Chapters On Zuhd
60. باب مِنْهُ
باب: امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور ذکر الٰہی آدمی کے لیے مفید ہے۔
حدیث نمبر: 2412
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، وغير واحد , قالوا: حدثنا محمد بن يزيد بن خنيس المكي، قال: سمعت سعيد بن حسان المخزومي , قال: حدثتني ام صالح، عن صفية بنت شيبة، عن ام حبيبة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " كل كلام ابن آدم عليه لا له، إلا امر بمعروف، او نهي عن منكر، او ذكر الله " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب لا نعرفه إلا من حديث محمد بن يزيد بن خنيس.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ , قَالُوا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ خُنَيْسٍ الْمَكِّيُّ، قَال: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ حَسَّانَ الْمَخْزُومِيَّ , قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ صَالِحٍ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " كُلُّ كَلَامِ ابْنِ آدَمَ عَلَيْهِ لَا لَهُ، إِلَّا أَمْرٌ بِمَعْرُوفٍ، أَوْ نَهْيٌ عَنْ مُنْكَرٍ، أَوْ ذِكْرُ اللَّهِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ خُنَيْسٍ.
ام المؤمنین حبیبہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انسان کی ساری باتیں اس کے لیے وبال ہیں ان میں سے اسے امربالمعروف، نہی عن المنکر اور ذکر الٰہی کے سوا اسے کسی اور کا ثواب نہیں ملے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے اسے ہم صرف محمد بن یزید بن خنیس کی روایت سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الفتن 12 (3974) (تحفة الأشراف: 15877) (ضعیف) (سند میں ”محمد بن یزید بن خنیس“ لین الحدیث ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (3974) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (861)، ضعيف الجامع الصغير (4283) //
حدیث نمبر: 2413
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا جعفر بن عون، حدثنا ابو العميس، عن عون بن ابي جحيفة، عن ابيه، قال: " آخى رسول الله صلى الله عليه وسلم بين سلمان وبين ابي الدرداء فزار سلمان ابا الدرداء فراى ام الدرداء متبذلة، فقال: ما شانك متبذلة؟ قالت: إن اخاك ابا الدرداء ليس له حاجة في الدنيا، قال: فلما جاء ابو الدرداء قرب إليه طعاما، فقال: كل فإني صائم، قال: ما انا بآكل حتى تاكل، قال: فاكل، فلما كان الليل ذهب ابو الدرداء ليقوم، فقال له سلمان: نم، فنام، ثم ذهب يقوم، فقال له: نم، فنام، فلما كان عند الصبح قال له سلمان: قم الآن فقاما فصليا، فقال: " إن لنفسك عليك حقا، ولربك عليك حقا، ولضيفك عليك حقا، وإن لاهلك عليك حقا، فاعط كل ذي حق حقه " , فاتيا النبي صلى الله عليه وسلم، فذكرا ذلك فقال له: صدق سلمان , قال ابو عيسى: هذا حديث صحيح، وابو العميس اسمه: عتبة بن عبد الله، وهو اخو عبد الرحمن بن عبد الله المسعودي.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعُمَيْسِ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " آخَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ سَلْمَانَ وَبَيْنَ أَبِي الدَّرْدَاءِ فَزَارَ سَلْمَانُ أَبَا الدَّرْدَاءِ فَرَأَى أُمَّ الدَّرْدَاءِ مُتَبَذِّلَةً، فَقَالَ: مَا شَأْنُكِ مُتَبَذِّلَةً؟ قَالَتْ: إِنَّ أَخَاكَ أَبَا الدَّرْدَاءِ لَيْسَ لَهُ حَاجَةٌ فِي الدُّنْيَا، قَالَ: فَلَمَّا جَاءَ أَبُو الدَّرْدَاءِ قَرَّبَ إِلَيْهِ طَعَامًا، فَقَالَ: كُلْ فَإِنِّي صَائِمٌ، قَالَ: مَا أَنَا بِآكِلٍ حَتَّى تَأْكُلَ، قَالَ: فَأَكَلَ، فَلَمَّا كَانَ اللَّيْلُ ذَهَبَ أَبُو الدَّرْدَاءِ لِيَقُومَ، فَقَالَ لَهُ سَلْمَانُ: نَمْ، فَنَامَ، ثُمَّ ذَهَبَ يَقُومُ، فَقَالَ لَهُ: نَمْ، فَنَامَ، فَلَمَّا كَانَ عِنْدَ الصُّبْحِ قَالَ لَهُ سَلْمَانُ: قُمِ الْآنَ فَقَامَا فَصَلَّيَا، فَقَالَ: " إِنَّ لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَلِرَبِّكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَلِضَيْفِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، فَأَعْطِ كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ " , فَأَتَيَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَا ذَلِكَ فَقَالَ لَهُ: صَدَقَ سَلْمَانُ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو الْعُمَيْسِ اسْمُهُ: عُتْبَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَهُوَ أَخُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمَسْعُودِيِّ.
ابوجحیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان اور ابو الدرداء کے مابین بھائی چارہ کروایا تو ایک دن سلمان نے ابوالدرداء رضی الله عنہ کی زیارت کی، دیکھا کہ ان کی بیوی ام الدرداء معمولی کپڑے میں ملبوس ہیں، چنانچہ انہوں نے پوچھا کہ تمہاری اس حالت کی کیا وجہ ہے؟ ان کی بیوی نے جواب دیا: تمہارے بھائی ابوالدرداء رضی الله عنہ کو دنیا سے کوئی رغبت نہیں ہے کہ جب ابو الدرداء گھر آئے تو پہلے انہوں نے سلمان رضی الله عنہ کے سامنے کھانا پیش کیا اور کہا: کھاؤ میں آج روزے سے ہوں۔ سلمان رضی الله عنہ نے کہا: میں نہیں کھاؤں گا یہاں تک کہ تم بھی میرے ساتھ کھاؤ۔ چنانچہ سلمان نے بھی کھایا۔ پھر جب رات آئی تو ابوالدرداء رضی الله عنہ تہجد پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے، تو سلمان نے ان سے کہا: سو جاؤ وہ سو گئے۔ پھر تہجد پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو کہا سو جاؤ، چنانچہ وہ سو گئے، پھر جب صبح قریب ہوئی تو سلمان نے ان سے کہا: اب اٹھ جاؤ چنانچہ دونوں نے اٹھ کر نماز پڑھی۔ پھر سلمان نے ان سے کہا: تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے، تمہارے رب کا تم پر حق ہے، تمہارے مہمان کا تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، اس لیے ہر صاحب حق کو اس کا حق ادا کرو، اس کے بعد دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اس گفتگو کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: سلمان نے سچ کہا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصوم 5 (1968)، والأدب 86 (6139) (تحفة الأشراف: 11815) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث میں بہت سارے فوائد ہیں: ایک بھائی کا دوسرے بھائی کی زیارت کرنا تاکہ اس کے حالات سے آگاہی ہو، عبادت کا وہی طریقہ اپنانا چاہیئے جو مسنون ہے تاکہ دوسروں کے حقوق کی پامالی نہ ہو، زیارت کے وقت اپنے بھائی کو اچھی باتوں کی نصیحت کرنا اور اس کی کوتاہیوں سے اسے باخبر کرنا، کسی پریشان حال کی پریشانی کی بابت اس سے معلومات حاصل کرنا، رات کی عبادت کا اہتمام کرنا وغیرہ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.