الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
जंगों और लड़ाइयों के बारे में

مختصر صحيح بخاري کل احادیث 2230 :حدیث نمبر
مختصر صحيح بخاري
غزوات کے بیان میں
जंगों और लड़ाइयों के बारे में
فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا کہاں کھڑا کیا؟
حدیث نمبر: 1662
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے سال روانہ ہوئے تو یہ خبر قریش کو پہنچی۔ ابوسفیان بن حرب اور حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں خبر لینے کو نکلے۔ چلتے چلتے جب موضع مرالظہران میں (جو مکہ کے قریب ہے) پہنچے تو وہ کیا دیکھتے ہیں کہ آگ بکثرت روشن ہے جیسا کہ عرفہ میں ہوتی ہے۔ ابوسفیان نے کہا کہ یہ کیسی آگ ہے، یہ جگہ جگہ آگ تو میدان عرفات کا منظر پیش کر رہی ہے۔ بدیل بن ورقاء نے کہا بنی عمرو (خزاعہ) کی آگ ہو گی۔ ابوسفیان نے کہا بنی عمرو کے اتنے آدمی نہیں ہیں۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چوکیداروں نے انھیں دیکھ لیا اور انھیں پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔ ابوسفیان مسلمان ہو گیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے تو سیدنا عباس بن عبداالمطلب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ابوسفیان کو پہاڑ کی گھاٹی پر کھڑا کرو تاکہ وہ مسلمانوں کی فوج دیکھ لے۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے اسے کھڑا کر دیا، اب جو قبیلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے گزرنا شروع ہوئے، وہ قبیلہ قبیلہ ہو کر ابوسفیان کے پاس سے گزرے، ایک لشکر گزرا تو ابوسفیان بولا اے عباس! یہ کون لوگ ہیں؟ وہ بولے کہ یہ قبیلہ غفار ہے۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میری اور غفار کی لڑائی تو نہ تھی (پھر یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مجھ پر کیوں چڑھ آئے ہیں؟) پھر قبیلہ جہینہ گزرا تو ابوسفیان نے مثل اول گفتگو کی۔ پھر قبیلہ سعد بن ہزیم گزرا تو بھی ابوسفیان نے ایسا ہی کہا اور قبیلہ سلیم گزرا تو بھی ابوسفیان نے یہی بات کی پھر ایک ایسا قبیلہ گزرا کہ اس جیسا، ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے نہیں دیکھا تھا تو اس نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہ انصار ہیں، ان کے امیر سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ہیں، انہی کے پاس جھنڈا ہے، پھر سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے ابوسفیان! آج کا دن کفار کے قتل کا دن ہے، آج کے دن کعبہ حلال ہو جائے گا۔ (یعنی کفار کا قتل اس میں جائز ہو جائے گا)۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے عباس! اچھا تباہی کا دن آیا ہے۔ پھر ایک لشکر آیا جو سب لشکروں سے چھوٹا تھا انہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے پاس تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے تو ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں معلوم کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کیا کہا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اس نے کیا کہا؟ ابوسفیان رضی اللہ عنہ بولے کہ اس نے ایسا ایسا کہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سعد نے غلط کہا ہے، بلکہ یہ دن وہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کعبہ کو بزرگی دے گا اور وہ دن ہے کہ کعبہ کو غلاف پہنایا جائے گا۔ (عروہ) کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موضع حجون میں جھنڈا گاڑنے کا حکم دیا۔ پس سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اے ابوعبداللہ! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں اس جگہ جھنڈا گاڑنے کا حکم دیا تھا؟ (سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ کداء (کاف کی زبر کے ساتھ) بلندی مکہ کی جانب سے جانا اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کداء (کاف کی پیش کے ساتھ) (نشیبی علاقے) کی طرف سے تشریف لائے۔ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کی فوج میں سے دو سوار حبیش بن اشعر اور کرز بن جابر فہری رضی اللہ عنہما اس دن شہید ہوئے۔
حدیث نمبر: 1663
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اونٹنی پر سوار دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ الفتح خوش الحانی سے پڑھ رہے تھے۔ (سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کے شاگرد معاویہ بن قرۃ) کہتے ہیں کہ اگر مجھے ڈر نہ ہوتا کہ لوگ میرے گرد جمع ہو جائیں گے تو میں اسی طرح خوش الحانی سے پڑھتا جیسے سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے پڑھ کر سنایا تھا۔
حدیث نمبر: 1664
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن مکہ میں گئے اور اس وقت خانہ کعبہ کے گرد تین سو ساٹھ بت تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ کی لکڑی سے ان بتوں کو مارتے اور یہ فرماتے جاتے تھے: حق آیا اور باطل چلا گیا۔ حق آیا، اب باطل نہ نیا ہو گا اور نہ دوبارہ آئے گا۔

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.