من كتاب الوصايا وصیت کے مسائل 17. باب مَنْ أَحَبَّ الْوَصِيَّةَ وَمَنْ كَرِهَ: جس کو وصیت کرنا پسند ہو یا ناپسند ہو اس کا بیان
یزید بن عبداللہ بن قسيط نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کو اپنے مال کی ایک تہائی میں حق ہے کہ جہاں چاہے خرچ کرے۔“
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير انه مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 3268]»
اس حدیث کی سند یزید بن عبداللہ کی وجہ سے متکلم فیہ ہے، بعض محدثین نے ان کو ثقہ اور بعض نے صالح کہا ہے۔ نیز وہ صحابی نہیں ہیں اس لئے یہ حدیث مرسل ہے۔ اس کا شاہد [مجمع الزوائد 7187، 7188] میں ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير انه مرسل
ابوحبیبہ نے کہا: میں نے سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ایک آدمی نے اپنے روپئے پیسے فی سبیل اللہ وقف کر دیئے ہوں اس کا کیا حکم ہے؟ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عنہ نے فرمایا: ”جو آدمی اپنی موت کے وقت صدقہ کرتا ہے، یا آزادی دیتا ہے، اس کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جو شکم سیر ہونے کے بعد ہدیہ دیتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 3269]»
اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3968]، [ترمذي 2123]، [نسائي 3644]، [ابن حبان 3336]، [موارد الظمآن 1219]، [عبدالرزاق 16740] وضاحت:
(تشریح احادیث 3255 سے 3258) ان احادیث میں صدقہ و خیرات کرنے کی ترغیب ہے۔ صحیح متفق علیہ حدیث میں ہے: ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: کون سا صدقہ اجر کے اعتبار سے بڑا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرا صدقہ کرنا جب کہ تو تندرست و توانا ہو، مال کی حرص دل میں ہو، تجھے فقر کا اندیشہ ہو، تونگری کی امید ہو، اور تو صدقہ کرنے میں تأخیر نہ کر، یہاں تک کہ جب روح گلے تک پہنچ جائے تو کہے: فلاں کے لئے اتنا، فلاں کے لئے اتنا، جب کہ وہ فلاں (وارث) کے لئے ہو چکا۔ [بخاري: 1419] و [مسلم: 1032] ۔ معلوم ہوا صدقہ وہی افضل ہے جو انسان صحت کی حالت میں کرے، موت کے آثار شروع ہونے کے بعد صدقہ کرنا ویسے ہی ہے جیسا کہ اوپر مذکور ہوا: پیٹ بھرنے کے بعد باقی ماندہ کھانا کوئی خیرات کرے۔ نیز یہ کہ موت کے وقت آدمی ایک تہائی مال سے زیادہ صدقہ کر ہی نہیں سکتا کیوں کہ اس وقت مال وارثوں کا حق بن جاتا ہے، جسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کیا جا سکتا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے حد مقرر فرما دی کہ موت کے وقت کوئی اپنا مال صدقہ کرے تو وہ ایک تہائی سے زیادہ نہ ہو، اس لئے آدمی کو صدقہ کرنے میں تأخیر نہیں کرنی چاہیے۔ (حافظ صلاح الدین یوسف)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
|