حدثنا الوليد بن مسلم ابو العباس الدمشقي بمكة إملاء، قال: حدثني عبد الرحمن بن يزيد بن جابر ، قال: حدثني يحيى بن جابر الطائي قاضي حمص، قال: حدثني عبد الرحمن بن جبير بن نفير الحضرمي ، عن ابيه ، انه سمع النواس بن سمعان الكلابي ، قال: ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم الدجال ذات غداة، فخفض فيه ورفع، حتى ظنناه في طائفة النخل، فلما رحنا إليه عرف ذلك فينا، فسالناه فقلنا: يا رسول الله، ذكرت الدجال الغداة، فخفضت فيه ورفعت، حتى ظنناه في طائفة النخل. قال: " غير الدجال اخوف مني عليكم، فإن يخرج وانا فيكم، فانا حجيجه دونكم، وإن يخرج ولست فيكم، فامرؤ حجيج نفسه، والله خليفتي على كل مسلم، إنه شاب جعد قطط، عينه طافية، وإنه يخرج خلة بين الشام، والعراق، فعاث يمينا وشمالا، يا عباد الله اثبتوا". قلنا: يا رسول الله، ما لبثه في الارض؟ قال:" اربعين يوما يوم كسنة، ويوم كشهر، ويوم كجمعة، وسائر ايامه كايامكم". قلنا: يا رسول الله، فذلك اليوم الذي هو كسنة، ايكفينا فيه صلاة يوم وليلة؟ قال:" لا اقدروا له قدره". قلنا: يا رسول الله، فما إسراعه في الارض؟ قال:" كالغيث استدبرته الريح". قال:" فيمر بالحي فيدعوهم، فيستجيبون له، فيامر السماء فتمطر، والارض فتنبت، وتروح عليهم سارحتهم وهي اطول ما كانت ذرا، وامده خواصر، واسبغه ضروعا، ويمر بالحي فيدعوهم، فيردوا عليه قوله، فتتبعه اموالهم، فيصبحون ممحلين ليس لهم من اموالهم شيء، ويمر بالخربة، فيقول لها: اخرجي كنوزك، فتتبعه كنوزها كيعاسيب النحل". قال:" ويامر برجل فيقتل، فيضربه بالسيف، فيقطعه جزلتين رمية الغرض، ثم يدعوه فيقبل إليه يتهلل وجهه:. قال:" فبينا هو على ذلك، إذ بعث الله عز وجل المسيح ابن مريم عليه السلام، فينزل عند المنارة البيضاء شرقي دمشق، بين مهرودتين، واضعا يده على اجنحة ملكين، فيتبعه فيدركه فيقتله عند باب لد الشرقي". قال:" فبينا هم كذلك إذ اوحى الله عز وجل إلى عيسى ابن مريم عليه السلام اني قد اخرجت عبادا من عبادي لا يدان لك بقتالهم، فحرز عبادي إلى الطور. فيبعث الله عز وجل ياجوج، وماجوج، وهم كما قال الله عز وجل: من كل حدب ينسلون سورة الانبياء آية 96 فيرغب عيسى واصحابه إلى الله عز وجل، فيرسل عليهم نغفا في رقابهم، فيصبحون فرسى كموت نفس واحدة، فيهبط عيسى واصحابه، فلا يجدون في الارض بيتا إلا قد ملاه زهمهم ونتنهم، فيرغب عيسى واصحابه إلى الله عز وجل، فيرسل عليهم طيرا كاعناق البخت، فتحملهم فتطرحهم حيث شاء الله عز وجل" . قال ابن جابر : فحدثني عطاء بن يزيد السكسكي ، عن كعب او غيره: قال:" فتطرحهم بالمهبل". قال ابن جابر: فقلت: يا ابا يزيد، واين المهبل؟ قال: مطلع الشمس. قال:" ويرسل الله عز وجل مطرا لا يكن منه بيت مدر ولا وبر اربعين يوما، فيغسل الارض حتى يتركها كالزلفة، ويقال للارض: انبتي ثمرتك، وردي بركتك". قال:" فيومئذ ياكل النفر من الرمانة، ويستظلون بقحفها، ويبارك في الرسل، حتى ان اللقحة من الإبل لتكفي الفئام من الناس، واللقحة من البقر تكفي الفخذ، والشاة من الغنم تكفي اهل البيت". قال:" فبينا هم على ذلك، إذ بعث الله عز وجل ريحا طيبة تحت آباطهم، فتقبض روح كل مسلم او قال: كل مؤمن ويبقى شرار الناس، يتهارجون تهارج الحمير، وعليهم او قال: وعليه تقوم الساعة".حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ أَبُو الْعَبَّاسِ الدِّمَشْقِيُّ بِمَكَّةَ إِمْلَاءً، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ جَابِرٍ الطَّائِيُّ قَاضِي حِمْصَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ الْحَضْرَمِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ الْكِلَابِيَّ ، قَالَ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّجَّالَ ذَاتَ غَدَاةٍ، فَخَفَضَ فِيهِ وَرَفَعَ، حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ، فَلَمَّا رُحْنَا إِلَيْهِ عَرَفَ ذَلِكَ فِينَا، فَسَأَلْنَاهُ فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ذَكَرْتَ الدَّجَّالَ الْغَدَاةَ، فَخَفَضْتَ فِيهِ وَرَفَعْتَ، حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ. قَالَ: " غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُ مني عَلَيْكُمْ، فَإِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيكُمْ، فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَكُمْ، وَإِنْ يَخْرُجْ وَلَسْتُ فِيكُمْ، فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ، وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ، إِنَّهُ شَابٌّ جَعْدٌ قَطَطٌ، عَيْنُهُ طَافِيَةٌ، وَإِنَّهُ يَخْرُجُ خَلَّةً بَيْنَ الشَّامِ، وَالْعِرَاقِ، فَعَاثَ يَمِينًا وَشِمَالًا، يَا عِبَادَ اللَّهِ اثْبُتُوا". قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لُبْثُهُ فِي الْأَرْضِ؟ قَالَ:" أَرْبَعِينَ يَوْمًا يَوْمٌ كَسَنَةٍ، وَيَوْمٌ كَشَهْرٍ، وَيَوْمٌ كَجُمُعَةٍ، وَسَائِرُ أَيَّامِهِ كَأَيَّامِكُمْ". قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَذَلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي هُوَ كَسَنَةٍ، أَيَكْفِينَا فِيهِ صَلَاةُ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ؟ قَالَ:" لَا اقْدُرُوا لَهُ قَدْرَهُ". قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَا إِسْرَاعُهُ فِي الْأَرْضِ؟ قَالَ:" كَالْغَيْثِ اسْتَدْبَرَتْهُ الرِّيحُ". قَالَ:" فَيَمُرُّ بِالْحَيِّ فَيَدْعُوهُمْ، فَيَسْتَجِيبُونَ لَهُ، فَيَأْمُرُ السَّمَاءَ فَتُمْطِرُ، وَالْأَرْضَ فَتُنْبِتُ، وَتَرُوحُ عَلَيْهِمْ سَارِحَتُهُمْ وَهِيَ أَطْوَلُ مَا كَانَتْ ذُرًا، وَأَمَدُّهُ خَوَاصِرَ، وَأَسْبَغُهُ ضُرُوعًا، وَيَمُرُّ بِالْحَيِّ فَيَدْعُوهُمْ، فَيَرُدُّوا عَلَيْهِ قَوْلَهُ، فَتَتْبَعُهُ أَمْوَالُهُمْ، فَيُصْبِحُونَ مُمْحِلِينَ لَيْسَ لَهُمْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ شَيْءٌ، وَيَمُرُّ بِالْخَرِبَةِ، فَيَقُولُ لَهَا: أَخْرِجِي كُنُوزَكِ، فَتَتْبَعُهُ كُنُوزُهَا كَيَعَاسِيبِ النَّحْلِ". قَالَ:" وَيَأْمُرُ بِرَجُلٍ فَيُقْتَلُ، فَيَضْرِبُهُ بِالسَّيْفِ، فَيَقْطَعُهُ جِزْلَتَيْنِ رَمْيَةَ الْغَرَضِ، ثُمَّ يَدْعُوهُ فَيُقْبِلُ إِلَيْهِ يَتَهَلَّلُ وَجْهُهُ:. قَالَ:" فَبَيْنَا هُوَ عَلَى ذَلِكَ، إِذْ بَعَثَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام، فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ، بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ، وَاضِعًا يَدَهُ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ، فَيَتْبَعُهُ فَيُدْرِكُهُ فَيَقْتُلُهُ عِنْدَ بَابِ لُدٍّ الشَّرْقِيِّ". قَالَ:" فَبَيْنَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ أَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام أَنِّي قَدْ أَخْرَجْتُ عِبَادًا مِنْ عِبَادِي لَا يَدَانِ لَكَ بِقِتَالِهِمْ، فَحَرِّزْ عِبَادِي إِلَى الطُّورِ. فَيَبْعَثُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَأْجُوجَ، وَمَأْجُوجَ، وَهُمْ كَمَا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ سورة الأنبياء آية 96 فَيَرْغَبُ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَيُرْسِلُ عَلَيْهِمْ نَغَفًا فِي رِقَابِهِمْ، فَيُصْبِحُونَ فَرْسَى كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ، فَيَهْبِطُ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ، فَلَا يَجِدُونَ فِي الْأَرْضِ بَيْتًا إِلَّا قَدْ مَلَأَهُ زَهَمُهُمْ وَنَتِنُهُمْ، فَيَرْغَبُ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَيُرْسِلُ عَلَيْهِمْ طَيْرًا كَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ، فَتَحْمِلُهُمْ فَتَطْرَحُهُمْ حَيْثُ شَاءَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ" . قَالَ ابْنُ جَابِرٍ : فَحَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ السَّكْسَكِيُّ ، عَنْ كَعْبٍ أَوْ غَيْرِهِ: قَالَ:" فَتَطْرَحُهُمْ بِالْمَهبِل". قَالَ ابْنُ جَابِرٍ: فَقُلْتُ: يَا أَبَا يَزِيدَ، وَأَيْنَ الْمَهبِلُ؟ قَالَ: مَطْلَعُ الشَّمْسِ. قَالَ:" وَيُرْسِلُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَطَرًا لَا يُكَنُّ مِنْهُ بَيْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، فَيَغْسِلُ الْأَرْضَ حَتَّى يَتْرُكَهَا كَالزَّلَفَةِ، وَيُقَالُ لِلْأَرْضِ: أَنْبِتِي ثَمَرَتَكِ، وَرُدِّي بَرَكَتَكِ". قَالَ:" فَيَوْمَئِذٍ يَأْكُلُ النَّفَرُ مِنَ الرُّمَّانَةِ، وَيَسْتَظِلُّونَ بِقِحْفِهَا، وَيُبَارَكُ فِي الرِّسْلِ، حَتَّى أَنَّ اللَّقْحَةَ مِنَ الْإِبِلِ لَتَكْفِي الْفِئَامَ مِنَ النَّاسِ، وَاللَّقْحَةَ مِنَ الْبَقَرِ تَكْفِي الْفَخِذَ، وَالشَّاةَ مِنَ الْغَنَمِ تَكْفِي أَهْلَ الْبَيْتِ". قَالَ:" فَبَيْنَا هُمْ عَلَى ذَلِكَ، إِذْ بَعَثَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ رِيحًا طَيِّبَةً تَحْتَ آبَاطِهِمْ، فَتَقْبِضُ رُوحَ كُلِّ مُسْلِمٍ أَوْ قَالَ: كُلِّ مُؤْمِنٍ وَيَبْقَى شِرَارُ النَّاسِ، يَتَهَارَجُونَ تَهَارُجَ الْحَمِيرِ، وَعَلَيْهِمْ أَوْ قَالَ: وَعَلَيْهِ تَقُومُ السَّاعَةُ".
حضرت نواس بن سمعان کلابی سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن دجال کا بیان کیا تو اس کی ذلت بھی بیان کی (کہ وہ کانا ہے اور اللہ کے نزدیک ذلیل ہے) اور اس کی بڑائی بھی بیان کی (کہ اس کا فتنہ سخت ہے اور وہ عادت کے خلاف باتیں دکھلا دے گا) یہاں تک کہ ہم سمجھے کہ وہ ان کھجوروں میں ہے (یعنی ایسا قریب ہے گویا حاضر ہے یہ آپ کے بیان کا اثر اور صحابہ کے ایمان کا سبب تھا) جب ہم لوٹ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے (یعنی دوسرے وقت) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے ڈر کا اثر ہم میں پایا (ہمارے چہروں پر گھبراہٹ اور خوف سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تمہارا کیا حال ہے؟ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا ذکر کیا اس کی ذلت بھی بیان کی اور اس کی عظمت بھی بیان کی یہاں تک کہ ہم سمجھے کہ وہ انہی کھجور کے درختوں میں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دجال کے سوا اوروں کا مجھے زیادہ ڈر ہے تم پر اور دجال اگر میری موجودگی میں نکلا تو میں اس سے حجت کروں گا تمہاری طرف سے (تم الگ رہو گے) اور اگر اس وقت نکلے جب میں تم میں نہ ہوں (بلکہ میری وفات ہوجائے) تو ہر ایک شخص اپنی حجت آپ کرلے اور اللہ میرا خلیفہ ہے ہر مسلمان پر۔ دیکھو! دجال جوان ہے اس کے بال بہت گھنگھریالے ہیں اس کی آنکھ ابھری ہوئی ہے، دیکھو دجال خلسہ سے نکلے گا جو شام اور عراق کے درمیان (ایک راہ راہ) ہے اور فساد پھیلاتا پھرے گا دائیں طرف اور بائیں طرف ملکوں میں اے اللہ کے بندوں مضبوط رہنا ایمان پر ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کتنے دنوں تک زمین پر رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چالیس دن تک جن میں ایک دن سال بھر کا ہوگا اور ایک دن ایک مہینے کا اور ایک دن ایک ہفتے کا اور باقی دن تمہارے ان دنوں کی طرح ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ دن جو ایک برس کا ہوگا کیا اس میں ہم کو ایک دن کی (پانچ نمازیں) کافی ہوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اندازہ کر کے نماز پڑھ لو، ہم نے عرض کیا، وہ زمین میں کس قدر جلد چلے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی مثال بارش کی سی ہے جو ہوا کے بعد آتی ہے، وہ ایک قوم کے پاس آئے گا اور ان کو اپنی طرف بلائے گا وہ اس کی مان لیں گے اور اس پر ایمان لائیں گے (معاذ اللہ وہ الوہیت کا دعوی کرے گا) پھر وہ آسمان کو حکم دے گا ان پر پانی بر سے گا اور زمین کو حکم دے گا وہ اناج اگائے گی اور ان کے جانور شام کو آئیں گے (چراگاہ سے لوٹ کر) ان کی کوہان خوب اونچی یعنی خوب موٹے تازے ہو کر اور ان کے تھن خوب بھرے ہوئے دودھ والے اور ان کی کوکھیں پھولی ہوں گی پھر ایک قوم کے پاس آئے گا ان کو اپنی طرف بلائے گا وہ اس کی بات نہ مانیں گے (اس کے اللہ ہونے کو رد کردیں گے) آخر دجال ان کے پاس سے لوٹ جائے گا صبح کو ان کا مالک قحط زدہ ہوگا اور ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہے گا۔ پھر دجال ایک کھنڈر پر سے گزرے گا اور اسے کہے گا اپنے خزانے نکال، اس کھنڈر کے سب خزانے اس کے ساتھ ہولیں گے جیسے شہد کی مکھیاں بڑی مکھی یعنی یعسوب کے ساتھ ہوتی ہیں، پھر ایک شخص کو بلائے گا جو اچھا موٹا تازہ جوان ہوگا اور تلوار سے اس کو مارے گا۔ وہ دو ٹکڑے ہوجائے گا اور ہر ایک ٹکڑے کو دوسرے ٹکڑے سے تیر کے (گرنے کے) فاصلہ تک کر دے گا۔ پھر اس کا نام لے کر اس کو بلائے گا، وہ شخص زندہ ہو کر آئے گا اس کا منہ چمکتا ہوگا اور ہنستا ہوگا۔ خیر دجال اور لوگ اسی حال میں ہوں گے کہ اتنے میں اللہ حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو بھیجے گا اور وہ سفید مینار پر دمشق کے مشرق کی جانب اتریں گے۔ دو زرد کپڑے پہنے ہوئے (جو ورس یا زعفران میں رنگے ہوں گے) اور اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازو پر رکھے ہوئے، حضرت عیسیٰ چلیں گے اور دجال کو باب لد پر پائیں گے، وہاں اس مردود کو قتل کریں گے، لوگ اس حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ وحی بھیجے گا، حضرت عیسیٰ پر اے عیسیٰ میں اپنے بندوں میں سے ایسے بندوں کو نکالا ہے کہ ان سے کوئی لڑ نہیں سکتا تو میرے (مومن) بندوں کو طور پہاڑ پر لے جا اور اللہ تعالیٰ یاجوج اور ماجوج کو بھیجے گا اور جیسے اللہ نے فرمایا من کل حدب ینسلون یعنی ہر ایک ٹیلے پر سے پھسلتے ہوئے محسوس ہوں گے، حضرت عیسیٰ اور آپ کے ساتھی اللہ کی بارگاہ میں دعا کریں گے تو اللہ یاجوج ماجوج کے لوگوں پر ایک پھوڑا بھیجے گا (اس میں کیڑا ہوگا) ان کی گردنوں میں وہ دوسرے دن صبح کو سب مرے ہوئے ہوں گے جیسے ایک آدمی مرتا ہے اور حضرت عیسیٰ اور آپ کے ساتھی پہاڑ سے اتریں گے اور ایک بالشت برابر جگہ نہ پائیں گے جو ان کی چکنائی، بدبو اور خون سے خالی ہو آخر وہ پھر د
حدثنا الوليد بن مسلم ، قال: سمعت يعني ابن جابر ، يقول: حدثني بسر بن عبيد الله الحضرمي ، انه سمع ابا إدريس الخولاني ، يقول: سمعت النواس بن سمعان الكلابي ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ما من قلب إلا وهو بين إصبعين من اصابع رب العالمين، إن شاء ان يقيمه اقامه، وإن شاء ان يزيغه ازاغه. وكان يقول: يا مقلب القلوب ثبت قلوبنا على دينك. والميزان بيد الرحمن عز وجل يخفضه ويرفعه" .حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ يَعْنِي ابْنَ جَابِرٍ ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْحَضْرَمِيُّ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيَّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ الْكِلَابِيَّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَا مِنْ قَلْبٍ إِلَّا وَهُوَ بَيْنَ إِصْبَعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، إِنْ شَاءَ أَنْ يُقِيمَهُ أَقَامَهُ، وَإِنْ شَاءَ أَنْ يُزِيغَهُ أَزَاغَهُ. وَكَانَ يَقُولُ: يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قُلُوبَنَا عَلَى دِينِكَ. وَالْمِيزَانُ بِيَدِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ يَخْفِضُهُ وَيَرْفَعُهُ" .
حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جتنے بھی دل ہیں، وہ رب العالمین کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں، اگر وہ کسی دل کو سیدھا رکھنا چاہے تو سیدھا رکھتا ہے اور اگر ٹیڑھا کرنا چاہے تو ٹیرھا کردیتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعاء فرماتے تھے اے دلوں کو پلٹنے والے! ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت قدمی عطا فرما۔ اور میزان عمل رحمان کے ہاتھ میں ہے، وہ اسے اونچا نیچا کرتا ہے۔
حضرت نواس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی اور گناہ کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نیکی حسن خلق کا نام ہے اور گناہ وہ ہوتا ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور تم اس بات کو ناپسند سمجھو کہ لوگ اس سے واقف ہوں۔
حضرت نواس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی اور گناہ کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نیکی حسن خلق کا نام ہے اور گناہ وہ ہوتا ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور تم اس بات کو ناپسند سمجھو کہ لوگ اس سے واقف ہوں۔
حضرت نواس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی اور گناہ کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نیکی حسن خلق کا نام ہے اور گناہ وہ ہوتا ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور تم اس بات کو ناپسند سمجھو کہ لوگ اس سے واقف ہوں۔
حدثنا الحسن بن سوار ابو العلاء ، حدثنا ليث يعني ابن سعد ، عن معاوية بن صالح ، ان عبد الرحمن بن جبير حدثه، عن ابيه ، عن النواس بن سمعان الانصاري ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " ضرب الله مثلا صراطا مستقيما، وعلى جنبتي الصراط سوران، فيهما ابواب مفتحة، وعلى الابواب ستور مرخاة، وعلى باب الصراط داع يقول: يا ايها الناس، ادخلوا الصراط جميعا، ولا تتعرجوا، وداع يدعو من فوق الصراط، فإذا اراد يفتح شيئا من تلك الابواب، قال: ويحك لا تفتحه، فإنك إن تفتحه تلجه، والصراط الإسلام، والسوران حدود الله، والابواب المفتحة محارم الله، وذلك الداعي على راس الصراط كتاب الله عز وجل، والداعي من فوق الصراط واعظ الله في قلب كل مسلم" .حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سَوَّارٍ أَبُو الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ جُبَيْرٍ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ الْأَنْصَارِيِّ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا، وَعَلَى جَنَبَتَيْ الصِّرَاطِ سُورَانِ، فِيهِمَا أَبْوَابٌ مُفَتَّحَةٌ، وَعَلَى الْأَبْوَابِ سُتُورٌ مُرْخَاةٌ، وَعَلَى بَابِ الصِّرَاطِ دَاعٍ يَقُولُ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، ادْخُلُوا الصِّرَاطَ جَمِيعًا، وَلَا تَتَعَرَّجُوا، وَدَاعٍ يَدْعُو مِنْ فَوْقِ الصِّرَاطِ، فَإِذَا أَرَادَ يَفْتَحُ شَيْئًا مِنْ تِلْكَ الْأَبْوَابِ، قَالَ: وَيْحَكَ لَا تَفْتَحْهُ، فَإِنَّكَ إِنْ تَفْتَحْهُ تَلِجْهُ، وَالصِّرَاطُ الْإِسْلَامُ، وَالسُّورَانِ حُدُودُ اللَّهِ، وَالْأَبْوَابُ الْمُفَتَّحَةُ مَحَارِمُ اللَّهِ، وَذَلِكَ الدَّاعِي عَلَى رَأْسِ الصِّرَاطِ كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَالدَّاعِي من فَوْقَ الصِّرَاطِ وَاعِظُ اللَّهِ فِي قَلْبِ كُلِّ مُسْلِمٍ" .
حضرت نواس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ نے ایک مثال بیان فرمائی ہے کہ ایک صراط مستقیم ہے جس کی دونوں جانب دیواریں ہیں، ان دیواروں میں کھلے ہوئے دروازے ہیں، دروازوں پر پردے لٹک رہے ہیں اور راستے کے مرکزی دروازے پر ایک داعی کھڑا کہہ رہا ہے لوگو! سب کے سب اس میں داخل ہوجاؤ، دائیں بائیں منتشر نہ ہو اور ایک داعی راستے کے بیچ میں پکار رہا ہے، جب کوئی شخص ان میں سے کوئی دروازہ کھولنا چاہتا ہے تو وہ اس سے کہتا ہے کہ اسے مت کھولنا، اس لئے کہ اگر تم نے اسے کھول لیا تو اس میں داخل ہوجاؤ گے۔ صراط مستقیم سے مراد اسلام ہے، دیوار سے مراد حدود اللہ ہیں، کھلے ہوئے دروازے محارم ہیں اور راستے کے مرکزی دروازے پر جو داعی ہے، وہ قرآن کریم ہے اور راستے کے عین بیچ میں جو داعی ہے، وہ ہر مسلمان کے دل میں اللہ کا ایک واعظ ہے (جسے ضمیر کہتے ہیں)
حضرت نواس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے کوئی بات بیان کرو، وہ تمہیں سچا سمجھ رہا ہو، حالانکہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً، من أجل عمر بن هارون، وقد تابعه عليه الوليد بن مسلم، لكن دلس فيه الوليد
حدثنا حيوة بن شريح ، حدثنا بقية ، قال: حدثني بحير بن سعد ، عن خالد بن معدان ، عن جبير بن نفير ، عن النواس بن سمعان، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله عز وجل ضرب مثلا صراطا مستقيما، على كتفي الصراط سوران، فيهما ابواب مفتحة، وعلى الابواب ستور، وداع يدعو على راس الصراط، وداع يدعو من فوقه، والله يدعو إلى دار السلام، ويهدي من يشاء إلى صراط مستقيم، فالابواب التي على كتفي الصراط حدود الله، لا يقع احد في حدود الله حتى يكشف ستر الله، والذي يدعو من فوقه واعظ الله عز وجل" .حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ ضَرَبَ مَثَلًا صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا، عَلَى كَتِفَيْ الصِّرَاطِ سُورَانِ، فِيهِمَا أَبْوَابٌ مُفَتَّحَةٌ، وَعَلَى الْأَبْوَابِ سُتُورٌ، وَدَاعٍ يَدْعُو عَلَى رَأْسِ الصِّرَاطِ، وَدَاعٍ يَدْعُو مِنْ فَوْقِهِ، وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى دَارِ السَّلَامِ، وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ، فَالْأَبْوَابُ الَّتِي عَلَى كَتِفَيْ الصِّرَاطِ حُدُودُ اللَّهِ، لَا يَقَعُ أَحَدٌ فِي حُدُودِ اللَّهِ حَتَّى يَكْشِفَ سِتْرَ اللَّهِ، وَالَّذِي يَدْعُو مِنْ فَوْقِهِ وَاعِظُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" .
حضرت نواس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ نے ایک مثال بیان فرمائی ہے کہ ایک صراط مستقیم ہے جس کی دونوں جانب دیواریں ہیں، ان دیواروں میں کھلے ہوئے دروازے ہیں، دروازوں پر پردے لٹک رہے ہیں اور راستے کے مرکزی دروازے پر ایک داعی کھڑا کہہ رہا ہے اور ایک داعی اس کے اوپر سے پکار رہا ہے، اللہ سلامتی والے گھر کی دعوت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی طرف ہدایت دیتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، بقية يدلس تدليس التسوية، ولم يصرح بالسماع فى جميع طبقات السند
حضرت نواس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے دن قرآن کریم اور اہل قرآن جنہوں نے اس پر عمل بھی کیا ہو کو اس طرح لایا جائے گا کہ سورت بقرہ اور آل عمران اس کے آگے آگے ہوگی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سورتوں کی تین مثالیں بیان فرمائیں جنہیں میں اب تک بھلا نہیں پایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ دونوں سورتیں بادل کی طرح ہوں گی یا سائبان کی طرح جن کے درمیان روشنی ہو، یا پرندہ کی صف بستہ قطاروں کی طرح ہوں گی اور اپنے پڑھنے والے کی طرف سے حجت بازی کریں گی۔