الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

موطا امام مالك رواية يحييٰ کل احادیث 1852 :حدیث نمبر
موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الْحُدُودِ
کتاب: حدوں کے بیان میں
5. بَابُ الْحَدِّ فِي الْقَذْفِ وَالنَّفْيِ وَالتَّعْرِيضِ
حد قذف کا اور نفی نسب کا اور اشارے کنائے میں دوسرے کو گالی دینے کا بیان
حدیث نمبر: 1557
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال قال ابو الزناد : فسالت عبد الله بن عامر بن ربيعة عن ذلك، فقال:" ادركت عمر بن الخطاب ، وعثمان بن عفان والخلفاء هلم جرا، فما رايت احدا جلد عبدا في فرية اكثر من اربعين" قَالَ قَالَ أَبُو الزِّنَادِ : فَسَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ:" أَدْرَكْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، وَعُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ وَالْخُلَفَاءَ هَلُمَّ جَرًّا، فَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا جَلَدَ عَبْدًا فِي فِرْيَةٍ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ"
حضرت ابوزناد سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے ایک غلام کو حدِ قذف کے اسّی (80) کوڑے لگائے، تو میں نے عبداللہ بن عامر سے پوچھا، انہوں نے کہا: میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور خلفاء کو ان کے بعد دیکھا کہ کسی نے غلام کو حدِ قذف میں چالیس کوڑے سے زیادہ نہیں لگائے۔

تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17139، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 13793، 13794، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 28215، 28228، فواد عبدالباقي نمبر: 41 - كِتَابُ الْحُدُودِ-ح: 17»
حدیث نمبر: 1558
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني مالك، عن زريق بن حكيم الايلي ، ان رجلا، يقال له مصباح، استعان ابنا له، فكانه استبطاه، فلما جاءه، قال له: يا زان. قال زريق: فاستعداني عليه، فلما اردت ان اجلده، قال ابنه: والله لئن جلدته، لابوءن على نفسي بالزنا. فلما قال ذلك، اشكل علي امره، فكتبت فيه إلى عمر بن عبد العزيز وهو الوالي يومئذ اذكر له ذلك، فكتب إلي عمر: ان" اجز عفوه". قال زريق: وكتبت إلى عمر بن عبد العزيز ايضا: ارايت رجلا افتري عليه او على ابويه وقد هلكا او احدهما؟ قال: فكتب إلي عمر : " إن عفا فاجز عفوه في نفسه، وإن افتري على ابويه وقد هلكا او احدهما فخذ له بكتاب الله إلا ان يريد سترا" . حَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ زُرَيْقِ بْنِ حَكِيمٍ الْأَيْلِيِّ ، أَنَّ رَجُلًا، يُقَالُ لَهُ مِصْبَاحٌ، اسْتَعَانَ ابْنًا لَهُ، فَكَأَنَّهُ اسْتَبْطَأَهُ، فَلَمَّا جَاءَهُ، قَالَ لَهُ: يَا زَانٍ. قَالَ زُرَيْقٌ: فَاسْتَعْدَانِي عَلَيْهِ، فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَجْلِدَهُ، قَالَ ابْنُهُ: وَاللَّهِ لَئِنْ جَلَدْتَهُ، لَأَبُوءَنَّ عَلَى نَفْسِي بِالزِّنَا. فَلَمَّا قَالَ ذَلِكَ، أَشْكَلَ عَلَيَّ أَمْرُهُ، فَكَتَبْتُ فِيهِ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَهُوَ الْوَالِي يَوْمَئِذٍ أَذْكُرُ لَهُ ذَلِكَ، فَكَتَبَ إِلَيَّ عُمَرُ: أَنْ" أَجِزْ عَفْوَهُ". قَالَ زُرَيْقٌ: وَكَتَبْتُ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَيْضًا: أَرَأَيْتَ رَجُلًا افْتُرِيَ عَلَيْهِ أَوْ عَلَى أَبَوَيْهِ وَقَدْ هَلَكَا أَوْ أَحَدُهُمَا؟ قَالَ: فَكَتَبَ إِلَيَّ عُمَرُ : " إِنْ عَفَا فَأَجِزْ عَفْوَهُ فِي نَفْسِهِ، وَإِنِ افْتُرِيَ عَلَى أَبَوَيْهِ وَقَدْ هَلَكَا أَوْ أَحَدُهُمَا فَخُذْ لَهُ بِكِتَابِ اللَّهِ إِلَّا أَنْ يُرِيدَ سِتْرًا" .
حضرت زریق بن حکیم سے روایت ہے کہ ایک شخص نے جس کا نام مصباح تھا، اپنے بیٹے کو کسی کام کے واسطے بلایا، اس نے دیر کی، جب آیا تو مصباح نے کہا کہ اے زانی! کہا زریق نے: اس لڑکے نے میرے پاس فریاد کی، میں نے جب اس کے باپ کو حد مارنی چاہی تو وہ لڑکا بولا: اگر تم میرے باپ کو کوڑوں سے مارو گے تو میں زنا کا اقرار کر لوں گا، میں یہ سن کر حیران ہوا اور اس مقدمے کا فیصلہ کرنا مجھ پر دشوار ہوا تو میں نے عمر بن عبدالعزیز کو لکھا، وہ اس زمانے میں حاکم تھے مدینہ کے (سلمان بن عبدالملک کی طرف سے)۔ عمر بن عبدالعزیز نے جواب لکھا کہ لڑکے کے عفو کو جائز رکھ (یعنی بیٹے نے اگر باپ کو حد معاف کردی ہے تو عفو صحیح ہے)۔ زریق نے کہا: میں نے عمر بن عبدالعزیز کو یہ بھی لکھا تھا کہ اگر کوئی شخص دوسرے پر تہمت زنا کی لگائے، یا اس کے ماں باپ کو، اور ماں باپ اس کے مر گئے ہوں یا دونوں میں سے ایک مر گیا ہو، تو پھر کیا کرے؟ عمر بن عبدالعزیز نے جواب میں لکھا کہ جس شخص کو تہمت زنا کی لگائے، اگر وہ معاف کر دے تو عفو درست ہے، لیکن اگر اس کے والدین کو تہمت زنا کی لگائے تو اس کا عفو کر دینا درست نہیں جب کہ والدین مر گئے ہوں، یا ان دو میں سے ایک مر گیا ہو، بلکہ حد لگا اس کو موافق کتاب اللہ کے، مگر جب بیٹا اپنے والدین کا حال چھپانے کے واسطے عفو کر دے تو عفو درست ہے۔

تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 13811، 13812، 13813، 13817، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 28824، 29496، فواد عبدالباقي نمبر: 41 - كِتَابُ الْحُدُودِ-ح: 18»
حدیث نمبر: 1558ب1
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال يحيى: سمعت مالكا، يقول: وذلك ان يكون الرجل المفترى عليه يخاف إن كشف ذلك منه ان تقوم عليه بينة، فإذا كان على ما وصفت فعفا، جاز عفوهقَالَ يَحْيَى: سَمِعْتُ مَالِكًا، يَقُولُ: وَذَلِكَ أَنْ يَكُونَ الرَّجُلُ الْمُفْتَرَى عَلَيْهِ يَخَافُ إِنْ كُشِفَ ذَلِكَ مِنْهُ أَنْ تَقُومَ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ، فَإِذَا كَانَ عَلَى مَا وَصَفْتُ فَعَفَا، جَازَ عَفْوُهُ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یعنی اس کو خوف ہو اگر میں تہمت لگانے والے کو معاف نہ کروں گا تو والدین کا زنا گواہوں سے ثابت ہوجائے گا، اس وجہ سے عفو کردے تو عفو درست ہے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 41 - كِتَابُ الْحُدُودِ-ح: 18»
حدیث نمبر: 1559
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني مالك، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، انه قال في رجل قذف قوما جماعة:" انه ليس عليه إلا حد واحد" . حَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ قَالَ فِي رَجُلٍ قَذَفَ قَوْمًا جَمَاعَةً:" أَنَّهُ لَيْسَ عَلَيْهِ إِلَّا حَدٌّ وَاحِدٌ" .
حضرت عروہ بن زبیر نے کہا کہ جو شخص بہت سے آدمیوں پر ایک ہی قول میں زنا کی تہمت لگائے (مثلاً ان آدمیوں کو پکارے: اے زانیو! یا یوں کہے کہ تم زانی ہو) تو اس پر ایک ہی حد پڑے گی۔ (یعنی صرف اسّی کوڑے)۔

تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 13777، 13778، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 28787، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 410/7، فواد عبدالباقي نمبر: 41 - كِتَابُ الْحُدُودِ-ح: 19»
حدیث نمبر: 1559ب1
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مالك: وإن تفرقوا، فليس عليه إلا حد واحدقَالَ مَالِك: وَإِنْ تَفَرَّقُوا، فَلَيْسَ عَلَيْهِ إِلَّا حَدٌّ وَاحِدٌ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر وہ لوگ جدا جدا ہو جائیں جب بھی ایک ہی حد پڑے گی۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 41 - كِتَابُ الْحُدُودِ-ح: 19»
حدیث نمبر: 1560
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني حدثني مالك، عن ابي الرجال محمد بن عبد الرحمن بن حارثة بن النعمان الانصاري ثم من بني النجار، عن امه عمرة بنت عبد الرحمن ، ان رجلين استبا في زمان عمر بن الخطاب، فقال احدهما للآخر: والله ما ابي بزان ولا امي بزانية. فاستشار في ذلك عمر بن الخطاب، فقال قائل: مدح اباه وامه، وقال آخرون: قد كان لابيه وامه مدح غير هذا، نرى ان تجلده الحد، " فجلده عمر الحد ثمانين" . حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ أَبِي الرِّجَالِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَارِثَةَ بْنِ النُّعْمَانِ الْأَنْصَارِيِّ ثُمَّ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ، عَنْ أُمِّهِ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّ رَجُلَيْنِ اسْتَبَّا فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِلْآخَرِ: وَاللَّهِ مَا أَبِي بِزَانٍ وَلَا أُمِّي بِزَانِيَةٍ. فَاسْتَشَارَ فِي ذَلِكَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ قَائِلٌ: مَدَحَ أَبَاهُ وَأُمَّهُ، وَقَالَ آخَرُونَ: قَدْ كَانَ لِأَبِيهِ وَأُمِّهِ مَدْحٌ غَيْرُ هَذَا، نَرَى أَنْ تَجْلِدَهُ الْحَدَّ، " فَجَلَدَهُ عُمَرُ الْحَدَّ ثَمَانِينَ" .
حضرت عمرہ بنت عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ دو مردوں نے گالی گلوچ کی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں، ایک نے دوسرے سے کہا: قسم اللہ کی! میرا باپ تو بدکار نہ تھا نہ میری ماں بدکار تھی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس بات میں مشورہ کیا، ایک شخص بولا: اس میں کیا برائی ہے اس نے اپنے باپ اور ماں کی خوبیاں بیان کیں، اور لوگوں نے کہا: کیا اس کے باپ اور ماں کی صرف یہی خوبی تھی، ہمارے نزدیک اس کو حدِ قذف مارنی چاہیے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو حد قذف ماری۔ (80) کوڑے لگائے۔

تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17147، والدارقطني فى «سننه» برقم: 3479، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 13725، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 28965، فواد عبدالباقي نمبر: 41 - كِتَابُ الْحُدُودِ-ح: 19ق1»
حدیث نمبر: 1560ب1
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مالك: لا حد عندنا إلا في نفي او قذف او تعريض، يرى ان قائله إنما اراد بذلك نفيا او قذفا، فعلى من قال ذلك الحد تاما.قَالَ مَالِك: لَا حَدَّ عِنْدَنَا إِلَّا فِي نَفْيٍ أَوْ قَذْفٍ أَوْ تَعْرِيضٍ، يُرَى أَنَّ قَائِلَهُ إِنَّمَا أَرَادَ بِذَلِكَ نَفْيًا أَوْ قَذْفًا، فَعَلَى مَنْ قَالَ ذَلِكَ الْحَدُّ تَامًّا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک حد نہیں ہے، مگر قذف میں یا نفی میں (نفی کہتے ہیں نسب دور کرنے کو، مثلاً یہ کہنا تو اپنے باپ کا بیٹا نہیں ہے)، یا تعریض میں (یعنی اشارے کنائے میں کسی کو گالی دینا جیسے ابھی بیان ہوا)، ان سب صورتوں میں حد پوری پوری لازم آئے گی، لیکن یہ ضروری ہے کہ تعریض سے نفی یا قذف مقصود ہونا معلوم ہو جائے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 41 - كِتَابُ الْحُدُودِ-ح: 19ق1»
حدیث نمبر: 1560ب2
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مالك: الامر عندنا، انه إذا نفى رجل رجلا من ابيه، فإن عليه الحد، وإن كانت ام الذي نفي مملوكة، فإن عليه الحدقَالَ مَالِك: الْأَمْرُ عِنْدَنَا، أَنَّهُ إِذَا نَفَى رَجُلٌ رَجُلًا مِنْ أَبِيهِ، فَإِنَّ عَلَيْهِ الْحَدَّ، وَإِنْ كَانَتْ أُمُّ الَّذِي نُفِيَ مَمْلُوكَةً، فَإِنَّ عَلَيْهِ الْحَدَّ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم ہے جب کوئی کسی کو اسی کے باپ سے نفی کرے تو حد واجب ہوگی، اگرچہ اس کی ماں لونڈی ہی کیوں نہ ہو۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 41 - كِتَابُ الْحُدُودِ-ح: 19ق2»

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.