الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
كتاب الصدقات
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
The Chapters on Charity
20. بَابُ: أَدَاءِ الدَّيْنِ عَنِ الْمَيِّتِ
باب: میت کی طرف سے قرض ادا کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2433
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرني عبد الملك ابو جعفر ، عن ابي نضرة ، عن سعد بن الاطول ، ان اخاه مات وترك ثلاث مائة درهم وترك عيالا فاردت ان انفقها على عياله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" إن اخاك محتبس بدينه، فاقض عنه"، فقال: يا رسول الله قد اديت عنه إلا دينارين، ادعتهما امراة وليس لها بينة، قال:" فاعطها فإنها محقة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ أَبُو جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ الْأَطْوَلِ ، أَنَّ أَخَاهُ مَاتَ وَتَرَكَ ثَلَاثَ مِائَةِ دِرْهَمٍ وَتَرَكَ عِيَالًا فَأَرَدْتُ أَنْ أُنْفِقَهَا عَلَى عِيَالِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أَخَاكَ مُحْتَبَسٌ بِدَيْنِهِ، فَاقْضِ عَنْهُ"، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ أَدَّيْتُ عَنْهُ إِلَّا دِينَارَيْنِ، ادَّعَتْهُمَا امْرَأَةٌ وَلَيْسَ لَهَا بَيِّنَةٌ، قَالَ:" فَأَعْطِهَا فَإِنَّهَا مُحِقَّةٌ".
سعد بن اطول رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان کے بھائی وفات پا گئے، اور (ترکہ میں) تین سو درہم اور بال بچے چھوڑے، میں نے چاہا کہ ان درہموں کو ان کے بال بچوں پر صرف کروں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا بھائی اپنے قرض کے بدلے قید ہے، اس کا قرض ادا کرو، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے ان کی طرف سے سارے قرض ادا کر دئیے ہیں، سوائے ان دو درہموں کے جن کا دعویٰ ایک عورت نے کیا ہے، اور اس کے پاس کوئی گواہ نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو بھی ادا کر دو اس لیے کہ وہ اپنے دعویٰ میں سچی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3823، ومصباح الزجاجة: 856)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/136، 5/7) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2434
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن إبراهيم الدمشقي ، حدثنا شعيب بن إسحاق ، حدثنا هشام بن عروة ، عن وهب بن كيسان ، عن جابر بن عبد الله ، ان اباه توفي وترك عليه ثلاثين وسقا لرجل من اليهود، فاستنظره جابر بن عبد الله، فابى ان ينظره فكلم جابر رسول الله صلى الله عليه وسلم ليشفع له إليه، فجاءه رسول الله صلى الله عليه وسلم فكلم اليهودي لياخذ ثمر نخله بالذي له عليه، فابى عليه، فكلمه رسول الله صلى الله عليه وسلم فابى ان ينظره، فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم النخل فمشى فيها، ثم قال لجابر:" جد له فاوفه الذي له"، فجد له بعد ما رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثين وسقا، وفضل له اثنا عشر وسقا، فجاء جابر رسول الله صلى الله عليه وسلم ليخبره بالذي كان، فوجد رسول الله صلى الله عليه وسلم غائبا، فلما انصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم جاءه فاخبره انه قد اوفاه واخبره بالفضل الذي فضل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اخبر بذلك عمر بن الخطاب"، فذهب جابر إلى عمر فاخبره، فقال له عمر: لقد علمت حين مشى فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم، ليباركن الله فيها.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاق ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ أَبَاهُ تُوُفِّيَ وَتَرَكَ عَلَيْهِ ثَلَاثِينَ وَسْقًا لِرَجُلٍ مِنَ الْيَهُودِ، فَاسْتَنْظَرَهُ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، فَأَبَى أَنْ يُنْظِرَهُ فَكَلَّمَ جَابِرٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَشْفَعَ لَهُ إِلَيْهِ، فَجَاءَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَلَّمَ الْيَهُودِيَّ لِيَأْخُذَ ثَمَرَ نَخْلِهِ بِالَّذِي لَهُ عَلَيْهِ، فَأَبَى عَلَيْهِ، فَكَلَّمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَبَى أَنْ يُنْظِرَهُ، فَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّخْلَ فَمَشَى فِيهَا، ثُمَّ قَالَ لِجَابِرٍ:" جُدَّ لَهُ فَأَوْفِهِ الَّذِي لَهُ"، فَجَدَّ لَهُ بَعْدَ مَا رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثِينَ وَسْقًا، وَفَضَلَ لَهُ اثْنَا عَشَرَ وَسْقًا، فَجَاءَ جَابِرٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُخْبِرَهُ بِالَّذِي كَانَ، فَوَجَدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَائِبًا، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَهُ فَأَخْبَرَهُ أَنَّهُ قَدْ أَوْفَاهُ وَأَخْبَرَهُ بِالْفَضْلِ الَّذِي فَضَلَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَخْبِرْ بِذَلِكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ"، فَذَهَبَ جَابِرٌ إِلَى عُمَرَ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: لَقَدْ عَلِمْتُ حِينَ مَشَى فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَيُبَارِكَنَّ اللَّهُ فِيهَا.
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کے والد وفات پا گئے، اور اپنے اوپر ایک یہودی کے تیس وسق کھجور قرض چھوڑ گئے، جابر رضی اللہ عنہ نے اس یہودی سے مہلت مانگی لیکن اس نے انہیں مہلت دینے سے انکار کر دیا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ اس سے اس کی سفارش کر دیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس گئے اور آپ نے اس سے بات کی کہ وہ ان کھجوروں کو جو ان کے درخت پر ہیں اپنے قرض کے بدلہ لے لے، لیکن وہ نہیں مانا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے مہلت مانگی، لیکن وہ انہیں مہلت دینے پر بھی راضی نہ ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان درختوں کے پاس تشریف لے گئے، اور ان کے درمیان چلے پھر جابر رضی اللہ عنہ سے کہا: ان کھجوروں کو توڑ کر اس کا جو قرض ہے اسے پورا پورا ادا کر دو، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے واپس چلے جانے کے بعد جابر رضی اللہ عنہ نے تیس وسق کھجور توڑی (جس سے جابر رضی اللہ عنہ نے اس کا قرض چکایا) اور بارہ وسق کھجور بچ بھی گئی، جابر رضی اللہ عنہ نے یہ صورت حال دیکھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتانے آئے، لیکن آپ کو موجود نہیں پایا، جب آپ واپس تشریف لائے تو وہ پھر دوبارہ حاضر ہوئے، اور آپ کو بتایا کہ اس کا قرض پورا پورا ادا کر دیا ہے، اور جو زائد کھجور بچ گئی تھی اس کی بھی خبر دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ اسے عمر بن خطاب کو بھی بتا دو، چنانچہ جابر رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، اور انہیں بھی اس کی خبر دی، یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ بولے: میں اسی وقت سمجھ گیا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان درختوں کے درمیان چلے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان میں ضرور برکت دے گا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 51 (2127)، الاستقراض 8 (2395)، 9 (2396)، 18 (2405)، الھبة 21 (2601)، الصلح 13 (2709)، الوصایا 36 (2781)، المناقب 25 (3580)، المغازي 18 (4053)، سنن ابی داود/الوصایا 17 (2884)، سنن النسائی/الوصایا 4 (3670)، (تحفة الأشراف: 3126) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یہ نبی کریم ﷺ کا ایک کھلا معجزہ تھا، عربوں کو کھجور کے تخمینہ میں بڑا تجربہ ہوتا ہے، اگر وہ کھجور تیس وسق سے زیادہ بلکہ تیس وسق بھی ہوتی تو جابر رضی اللہ عنہ اتنا نہ گھبراتے، نہ نبی کریم ﷺ سے اس یہودی کے پاس سفارش کراتے، نہ وہ یہودی سارے باغ کی کھجور اپنے قرضہ کے عوض میں لینے سے انکار کرتا، وہ کھجوریں تیس وسق سے بہت کم تھیں، نبی کریم ﷺ کی دعا سے اس میں ایسی برکت ہوئی کہ سارا قرض ادا ہو گیا اور بارہ وسق کھجور بھی مزید بچ گئی، اس قسم کے معجزات نبی کریم ﷺ کی دعا سے کئی مقامات پر ظاہر ہوئے ہیں کہ تھوڑا سا کھانا یا پانی بہت سے آدمیوں کے لیے کافی ہو گیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.