الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
كتاب الصدقات
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
The Chapters on Charity
9. بَابُ: الْكَفَالَةِ
باب: ضمانت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2405
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، والحسن بن عرفة ، قالا: حدثنا إسماعيل بن عياش ، حدثني شرحبيل بن مسلم الخولاني ، قال: سمعت ابا امامة الباهلي ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" الزعيم غارم والدين مقضي".
(مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ ، حَدَّثَنِي شُرَحْبِيلُ بْنُ مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ الْبَاهِلِيَّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" الزَّعِيمُ غَارِمٌ وَالدَّيْنُ مَقْضِيٌّ".
ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: (قرض کا) ضامن و کفیل (اس کی ادائیگی کا) ذمہ دار ہے، اور قرض کی ادائیگی انتہائی ضروری ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/البیوع 90 (3565)، سنن الترمذی/البیوع 39 (1265)، (تحفة الأشراف: 4884) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2406
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن الصباح ، حدثنا عبد العزيز بن محمد الداروردي ، عن عمرو بن ابي عمرو ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، ان رجلا لزم غريما له بعشرة دنانير على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: ما عندي شيء اعطيكه، فقال: لا والله لا افارقك حتى تقضيني او تاتيني بحميل فجره إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" كم تستنظره؟"، فقال: شهرا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فانا احمل له"، فجاءه في الوقت الذي قال النبي صلى الله عليه وسلم، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" من اين اصبت هذا" قال: من معدن. قال:" لا خير فيها" وقضاها عنه".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ الدَّارَوَرْدِيُّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ رَجُلًا لَزِمَ غَرِيمًا لَهُ بِعَشَرَةِ دَنَانِيرَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا عِنْدِي شَيْءٌ أُعْطِيكَهُ، فَقَالَ: لَا وَاللَّهِ لَا أُفَارِقُكَ حَتَّى تَقْضِيَنِي أَوْ تَأْتِيَنِي بِحَمِيلٍ فَجَرَّهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَمْ تَسْتَنْظِرُهُ؟"، فَقَالَ: شَهْرًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَأَنَا أَحْمِلُ لَهُ"، فَجَاءَهُ فِي الْوَقْتِ الَّذِي قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مِنْ أَيْنَ أَصَبْتَ هَذَا" قَالَ: مِنْ مَعْدِنٍ. قَالَ:" لَا خَيْرَ فِيهَا" وَقَضَاهَا عَنْهُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک شخص ایک قرض دار کے پیچھے لگا رہا جس پر اس کا دس دینار قرض تھا، وہ کہہ رہا تھا: میرے پاس کچھ نہیں جو میں تجھے دوں، اور قرض خواہ کہہ رہا تھا: جب تک تم میرا قرض نہیں ادا کرو گے یا کوئی ضامن نہیں لاؤ گے میں تمہیں نہیں چھوڑ سکتا، چنانچہ وہ اسے کھینچ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض خواہ سے پوچھا: تم اس کو کتنی مہلت دے سکتے ہو؟ اس نے کہا: ایک مہینہ کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو میں اس کا ضامن ہوتا ہوں، پھر قرض دار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دئیے ہوئے مقررہ وقت پر اپنا قرضہ لے کر آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: تجھے یہ کہاں سے ملا؟ اس نے عرض کیا: ایک کان سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس میں بہتری نہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی جانب سے ادا کر دیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/البیوع 2 (3328)، (تحفة الأشراف: 6178) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: کیونکہ احتمال ہے کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کا ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2407
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا ابو عامر ، حدثنا شعبة ، عن عثمان بن عبد الله بن موهب ، قال: سمعت عبد الله بن ابي قتادة ، عن ابيه ، ان النبي صلى الله عليه وسلم: اتي بجنازة ليصلي عليها فقال:" صلوا على صاحبكم فإن عليه دينا"، فقال ابو قتادة: انا اتكفل به، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" بالوفاء"، قال: بالوفاء وكان الذي عليه ثمانية عشر او تسعة عشر درهما.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُتِيَ بِجَنَازَةٍ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهَا فَقَالَ:" صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ فَإِنَّ عَلَيْهِ دَيْنًا"، فَقَالَ أَبُو قَتَادَةَ: أَنَا أَتَكَفَّلُ بِهِ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بِالْوَفَاءِ"، قَالَ: بِالْوَفَاءِ وَكَانَ الَّذِي عَلَيْهِ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ أَوْ تِسْعَةَ عَشَرَ دِرْهَمًا.
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جنازہ لایا گیا، تاکہ آپ اس کی نماز جنازہ پڑھ لیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو (میں نہیں پڑھوں گا) اس لیے کہ وہ قرض دار ہے، ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں اس کے قرض کی ضمانت لیتا ہوں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پورا ادا کرنا ہو گا، انہوں نے کہا: جی ہاں، پورا ادا کروں گا، اس پر اٹھارہ یا انیس درہم قرض تھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الجنائز 69 (1069)، سنن النسائی/الجنائز 67 (1962)، البیوع 100 (4696)، (تحفة الأشراف: 12103)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/302، 311)، سنن الدارمی/البیوع 53 (2635) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: معلوم ہوا کہ قرض بری بلا ہے، نبی کریم ﷺ نے اس کی وجہ سے نماز جنازہ پڑھنے میں تامل کیا، بعضوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے تنبیہ کے لئے ایسا کیا تاکہ دوسرے لوگ قرض کی ادائیگی کا پورا پورا خیال رکھیں، قرض وہ بلا ہے کہ شہید کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں پر قرض معاف نہیں ہوتا، وہ حقوق العباد ہے، بعض علماء نے کہا ہے کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ امام کو جائز ہے کہ بعض مردوں پر جن سے گناہ سرزد ہوا ہو نماز جنازہ نہ پڑھے، دوسرے لوگوں کو ڈرانے کے لئے، لیکن دوسرے لوگ نماز جنازہ پڑھ لیں، حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کہ میت کی طرف سے ضمانت درست ہے اگرچہ اس نے قرض کے موافق مال نہ چھوڑا ہو، اکثر اہل علم کا یہی قول ہے اور امام ابوحنیفہ کہتے ہیں: اگر قرض کے موافق اس نے مال نہ چھوڑا ہو تو ضمانت درست نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.