الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
نماز کے احکام و مسائل
The Book of Prayers
حدیث نمبر: 997
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا يحيى بن سعيد القطان ، عن محمد بن عجلان ، حدثني بكير بن عبد الله بن الاشج ، عن بسر بن سعيد ، عن زينب امراة عبد الله، قالت: قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا شهدت إحداكن المسجد، فلا تمس طيبا ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ ، حَدَّثَنِي بُكَيْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الأَشَجِّ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَتْ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا شَهِدَتْ إِحْدَاكُنَّ الْمَسْجِدَ، فَلَا تَمَسَّ طِيبًا ".
(مخرمہ کے بجائے) محمد بن عجلان نے بکیر بن عبد اللہ بن اشج سے، انہوں نے بسر بن سعید سے، انہوں نے حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا تھا: جب تم میں سے کوئی مسجد میں جائے تو وہ خوشبو کو ہاتھ نہ لگائے۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا: جس نے تم میں سے مسجد جانا ہو تو وہ خوشبو استعمال نہ کرے۔
حدیث نمبر: 998
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن يحيى ، وإسحاق بن إبراهيم ، قال يحيى، اخبرنا عبد الله بن محمد بن عبد الله بن ابي فروة ، عن يزيد بن خصيفة ، عن بسر بن سعيد ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ايما امراة اصابت بخورا، فلا تشهد معنا العشاء الآخرة ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي فَرْوَةَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَيُّمَا امْرَأَةٍ أَصَابَتْ بَخُورًا، فَلَا تَشْهَدْ مَعَنَا الْعِشَاءَ الآخِرَةَ ".
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس عورت کو (بخور) خوشبودار دھواں لگ جائے، وہ ہمارے ساتھ عشاء کی نماز میں حاضر نہ ہو۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس عورت نے خوشبو لگائی ہو وہ ہمارے ساتھ عشاء کی نماز میں شریک نہ ہو۔
حدیث نمبر: 999
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حدثنا عبد الله بن مسلمة بن قعنب ، حدثنا سليمان يعني ابن بلال ، عن يحيى وهو ابن سعيد ، عن عمرة بنت عبد الرحمن ، انها سمعت عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، تقول: " لو ان رسول الله صلى الله عليه وسلم راى ما احدث النساء، لمنعهن المسجد، كما منعت نساء بني إسرائيل، قال: فقلت لعمرة: انساء بني إسرائيل منعن المسجد؟ قالت: نعم،حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ ، عَنْ يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَقُولُ: " لَوْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى مَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ، لَمَنَعَهُنَّ الْمَسْجِدَ، كَمَا مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ، قَالَ: فَقُلْتُ لِعَمْرَةَ: أَنِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُنِعْنَ الْمَسْجِدَ؟ قَالَتْ: نَعَمْ،
سلیمان بن بلال نے یحییٰ بن سعید سے اور انہوں نے عمرہ بنت عبد الرحمان سے روایت کی کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، وہ فرماتی تھیں کہ عورتوں نے (بناؤ سنگھار کے) جو نئے انداز نکال لیے ہیں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ لیتے تو انہیں مسجد میں آنے سے روک دیتے، جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔ میں نے عمرہ سے پوچھا: کیا بنی اسرائیل کی عورتوں کو مسجد میں آنے سے روک دیا گیا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی تھیں، آج عورتوں نے جو نئے انداز (بناؤ سنگھار کے لیے) نکال لیے ہیں، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ لیتے تو انہیں مسجد میں آنے سے روک دیتے، جیسا کہ بنواسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔ تو میں نے عمرہ سے پوچھا کیا بنواسرائیل کی عورتوں کو مسجد میں آنے سے روک دیا گیا تھا؟ اس نے کہا، ہاں۔
حدیث نمبر: 1000
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا عبد الوهاب يعني الثقفي ، قال: ح وحدثنا عمرو الناقد ، حدثنا سفيان بن عيينة ، قال: ح وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو خالد الاحمر ، قال: ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، قال: اخبرنا عيسى بن يونس كلهم، عن يحيى بن سعيد ، بهذا الإسناد مثله.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ يَعْنِي الثَّقَفِيَّ ، قَالَ: ح وحَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، قَالَ: ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، قَالَ: ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ كُلُّهُمْ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، بِهَذَا الإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
(سلیمان بن بلال کے بجائے) عبد الوہاب ثقفی، سفیان بن عیینہ، ابو خالد احمر اورعیسیٰ بن یونس سبھی نے یحییٰ بن سعید سے (باقی ماندہ) اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث روایت کی ہے
ہمیں محمد بن مثنی نے عبدالوہاب (ثقفی) سے نیز ہمیں عمرو ناقد سے سفیان بن عیینہ سے نیز ہمیں ابو بکر بن ابی شیبہ نے ابو خالد احمر سے نیز ہمیں اسحاق بن ابراہیم نے عیسیٰ بن یونس سے اور ان سب نے یحییٰ بن سعید کی اسی سند سے یہی حدیث سنائی۔
31. باب التَّوَسُّطِ فِي الْقِرَاءَةِ فِي الصَّلاَةِ الْجَهْرِيَّةِ بَيْنَ الْجَهْرِ وَالإِسْرَارِ إِذَا خَافَ مِنَ الْجَهْرِ مَفْسَدَةً:
31. باب: جب فتنہ کا اندیشہ ہو تو جہری نمازوں میں قراءت درمیانی آواز سے کرنے کا بیان۔
Chapter: Moderation When Reciting Qur'an In A Prayer When It Is To Be Recited Out Loud, And Making it Neither Too Loud Nor Too Soft, And When There Is The Fear Of Negative Consequences If It Is Recited Out Loud
حدیث نمبر: 1001
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو جعفر محمد بن الصباح ، وعمرو الناقد جميعا، عن هشيم ، قال ابن الصباح، حدثنا هشيم، اخبرنا ابو بشر ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، في قوله عز وجل: ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها سورة الإسراء آية 110، قال: نزلت ورسول الله صلى الله عليه وسلم متوار بمكة، فكان إذا صلى باصحابه، رفع صوته بالقرآن، فإذا سمع ذلك المشركون، سبوا القرآن، ومن انزله، ومن جاء به، فقال الله تعالى لنبيه صلى الله عليه وسلم: ولا تجهر بصلاتك سورة الإسراء آية 110، فيسمع المشركون قراءتك، ولا تخافت بها سورة الإسراء آية 110 عن اصحابك، اسمعهم القرآن، ولا تجهر ذلك الجهر، وابتغ بين ذلك سبيلا، يقول: بين الجهر والمخافتة.حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ جميعا، عَنْ هُشَيْمٍ ، قَالَ ابْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ وَلا تُخَافِتْ بِهَا سورة الإسراء آية 110، قَالَ: نَزَلَتْ وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم متوار بمكة، فكان إذا صلى بأصحابه، رفع صوته بالقرآن، فإذا سَمِعَ ذَلِكَ الْمُشْرِكُونَ، سَبُّوا الْقُرْآنَ، وَمَنْ أَنْزَلَهُ، وَمَنْ جَاءَ بِهِ، فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ سورة الإسراء آية 110، فَيَسْمَعَ الْمُشْرِكُونَ قِرَاءَتَكَ، وَلا تُخَافِتْ بِهَا سورة الإسراء آية 110 عَنْ أَصْحَابِكَ، أَسْمِعْهُمُ الْقُرْآنَ، وَلَا تَجْهَرْ ذَلِكَ الْجَهْرَ، وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا، يَقُولُ: بَيْنَ الْجَهْرِ وَالْمُخَافَتَةِ.
سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿ولا تجہر بصلاتک ولا تخافت بہا﴾ اور اپنی نماز نہ بلند آواز سے پڑھیں اور نہ اسے پست کریں کے بارے میں روایت کی، انہوں نے کہا: یہ آیت اس وقت اتری جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پوشیدہ (عبادت کرتے) تھے۔ جب آپ اپنے ساتھیوں کو جماعت کراتے تو قراءت بلند آواز سے کرتے تھے، مشرک جب یہ قراءت سنتے تو قرآن کو، اس کے نازل کرنے والے کو اور اس کے لانے والے کو برا بھلا کہتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کی: اپنی نماز میں (آواز کو اس قدر) بلند نہ کریں کہ آپ کی قراءت مشرکوں کو سنائی دے اور نہ اس (کی آواز) کو پست کریں اپنے ساتھیوں سے، انہیں قرآن سنائیں اور آواز اتنی زیاد اونچی نہ کریں اور ان (دونوں) کے درمیان کی راہ اختیار کریں۔ (اللہ تعالیٰ) فرماتا ہے: بلند اور آہستہ کے درمیان (میں رہیں۔)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا﴾ (الاسراء: ۱۱۰) کے بارے میں روایت ہے کہ یہ آیت اس وقت اتری، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں چھپ کر عبادت کرتے تھے، جب آپصلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو جماعت کراتے تو قرأت بلند آواز سے کرتے تھے، مشرک جب یہ قرأت سنتے تو قرآن کو، قرآن مجید نازل کرنے والے کو اور اس کو لانے والے کو برا بھلا کہتے، اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کی کہ اپنی نماز میں قرأت کو نہ اس قدر بلند کرو کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت مشرکوں کو سنائی دے اور نہ اتنا آہستہ پڑھیں کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی بھی نہ سن سکیں، انہیں قرأت سناؤ لیکن اس قدر بلند نہ کرو (کہ مشرک سنیں) اور ان کے درمیان کی راہ اختیار کرو مقصد یہ ہے کہ بلند اور آہستہ کے درمیان رہو۔
حدیث نمبر: 1002
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن يحيى ، اخبرنا يحيى بن زكرياء ، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة ، " في قوله عز وجل: ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها سورة الإسراء آية 110، قالت: انزل هذا في الدعاء،حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّاءَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، " فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ وَلا تُخَافِتْ بِهَا سورة الإسراء آية 110، قَالَتْ: أُنْزِلَ هَذَا فِي الدُّعَاءِ،
یحییٰ بن زکریا نے ہشام بن عروہ سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اللہ تعالیٰ کے اسی فرمان: نہ اپنی نماز میں (قراءت) بلند کریں اور نہ آہستہ کے بارے میں روایت کی کہ انہوں نے (عائشہ رضی اللہ عنہا) نے کہا کہ یہ آیت دعا کے بارے میں اتری ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے اللہ تعالیٰ کے فرمان: نہ اپنی قرأت کو بلند کر اور نہ آہستہ کے بارے میں روایت ہے کہ آیت دعا کے بارے میں اتری ہے۔
حدیث نمبر: 1003
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا حماد يعني ابن زيد . ح قال: وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو اسامة ووكيع . ح قال ابو كريب ، حدثنا ابو معاوية كلهم، عن هشام ، بهذا الإسناد مثله.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ . ح قَالَ: وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ وَوَكِيعٌ . ح قَالَ أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ كُلُّهُمْ، عَنْ هِشَامٍ ، بِهَذَا الإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
حماد بن زید، ابو اسامہ، وکیع اور ابو معاویہ نے اپنی اپنی سند کے ساتھ ہشام سے اسی سابقہ سند کے ساتھ یہی حدیث روایت کی ہے۔
امام صاحب اپنے اور اساتذہ سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔حدیث حاشیہ: A hadith like this has been narrated by Hisham with the same chain of transmitters.حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: حماد بن زید، ابو اسامہ، وکیع اور ابو معاویہ نے اپنی اپنی سند کے ساتھ ہشام سے اسی سابقہ سند کے ساتھ یہی حدیث روایت کی ہے۔حدیث حاشیہ: یحییٰ بن زکریا نے ہشام بن عروہ سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اللہ تعالیٰ کے اسی فرمان: نہ اپنی نماز میں (قراءت) بلند کریں اور نہ آہستہ کے بارے میں روایت کی کہ انہوں نے (عائشہ رضی اللہ عنہا) نے کہا کہ یہ آیت دعا کے بارے میں اتری ہے۔حدیث حاشیہ: حماد بن زید، ابو اسامہ، وکیع اور ابو معاویہ نے اپنی اپنی سند کے ساتھ ہشام سے اسی سابقہ سند کے ساتھ یہی حدیث روایت کی ہے۔ حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: حماد بن زید، ابو اسامہ، وکیع اور ابو معاویہ نے اپنی اپنی سند کے ساتھ ہشام سے اسی سابقہ سند کے ساتھ یہی حدیث روایت کی ہے۔حدیث حاشیہ: رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر) ١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم1025٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)447.01٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)678.01٤. ترقيم فؤاد عبد الباقي (برنامج الكتب التسعة)ترقیم فواد عبد الباقی (کتب تسعہ پروگرام)447.01٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)975٧. ترقيم دار إحیاء الکتب العربیة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)ترقیم دار احیاء الکتب العربیہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)447.01٨. ترقيم دار السلامترقیم دار السلام1003 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة تمہید باب × تمہید کتاب × انسان اشرف المخلوقات ہے، اگر اب تک میسر سائنسی معلومات کو بنیاد بنایا جائے تو انسان ہی سب سے عقلمند مخلوق ہے جس نے عناصر قدرت سے کام لے کر اپنے لیے قوت و طاقت کے بہت سے انتظامات کر لیے ہیں۔ اس کے باوجود یہ بہت ہی کمزور، بار بار مشکلات میں گھر کر بے بس ہو جانے والی مخلوق ہے جو اپنی زندگی کے اکثر معاملات میں دوسروں کی مدد کی محتاج ہے، دوسروں پر انحصار کرتی ہے، اپنے مستقبل کے حوالے سے ہر وقت خدشات کا شکار اور خوفزدہ رہتی ہے۔ ان میں سے جو انسان ایک قادر مطلق پر ایمان سے محروم ہیں، ان میں سے اکثر دوسری ایسی مخلوقات کا سہارا لیتے اور ان کو اپنا محافظ، اپنا رازق اور خالق سمجھتے اور ان سے مدد کی درخواست کرتے ہیں جو ان کی پہنچ سے دور ہوں یا جن کی اپنی کمزوریوں سے انسان بے خبر ہوں۔ مظاہر فطرت کی پوجا، بتوں کی پوجا، دیوتاؤں اور دیویوں کی پرستش حتی کہ ہاتھیوں، بندروں اور سانپوں کی عبادت کمزور انسان کی خوفزدگی اور اس کی احتیاج کی دلیل ہے۔ اللہ کے بھیجے ہوئے دین نے انسان کو یہ سکھایا کہ جنہیں تم پوجتے ہو وہ بھی تمھاری طرح بلکہ تم سے بڑھ کر کمزور اورمحتاج ہیں۔ وہ محض ایک ہی ذات ہے جس کے ساتھ کسی کی کوئی شراکت داری نہیں اور وہی ہر شے پر قادر ہے۔ ہر قوت اس کے پاس ہے۔ ہر نعمت کے خزانوں کا مالک وہی ہے۔ اس نے سبھی کو پیدا کیا۔ وہ بھی پیدا ہونے کا یا کسی بھی اور چیز کا محتاج تھانہ آیندہ بھی ہوگا۔ وہ ہماری عبادت کا بھی محتاج نہیں بلکہ ہم ہی اس کے قرب، اس کی رحمت، اس کی مہربانی اور اس کی سخاوت کے محتاج ہیں۔ اس کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہوجانے سے ہماری کمزوری طاقت میں، ہماری احتیاج فراوانی میں بدل سکتی ہے اور ہمارا خوف عمل سلاتی کے احساس میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ تمام انبیاء کا مشن یہی تھا کہ انسان اس ابدی حقیقت کو سمجھ لے اور اس قادر مطلق کا قرب حاصل کرنے کے لیے عبادت کاصحیح طریقہ اپنا لے۔ اس وقت جتنے آسمانی دین موجود ہیں ان میں سب سے مکمل، سب سے خوبصورت اور سب سے آسان طریقہ عبادت وہ ہے جو اسلام نے سکھایا ہے۔ ان اسلامی عبادات میں سے اہم ترین عبادت نماز ہے۔ نماز کا ارادہ کرتے ہی خیر، برکت اور کسب اعمال صالحہ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ طہارت اور وضو سے انسان ظاہری اور باطنی کثافت اور میل کچیل سے صاف ہو جاتا ہے اور نماز میں داخل ہونے کے ساتھ ہی وہ اللہ کے حضور بازیاب ہو جا تا ہے۔اس عبادت میں بندہ گا ہے اپنے جیسے بہت سے عبادت گزاروں کے ساتھ مل کر جذب و سرمستی میں اللہ کو پکارتا، اس سے حال دل کہتا اور اس کے سامنے زاری کرتا ہے اور گاہے تنہائی کے عالم میں اپنے رب کے سامنے ہوتا ہے اور اس کے ساتھ سرگوشی اور مناجات کرتاہے(1)صحيح مسلم،المساجد،باب النهى عن البصاق فى المسجد،حديث:1230(551) عبادت کایہ مکمل اورسب سےخوبصورت طریقہ خود الله تبارک و تعالی نے کائنات کے افضل ترین عبادت گزار (عبد) محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کو سکھایا اور انھوں نے انسانیت کو اس کی تعلیم دی۔آپ کی نمازکی کیفیتیں کیاتھیں؟ان کی تفصیل صحیح مسلم کی كتاب الصلاة،كتاب المساجد،كتاب صلاة المسافرين اورمابعدکےابواب میں بالتفصیل مذکور ہے۔ جن خوش نصیب لوگوں نےاس عبادت کاطریقہ براہ راست رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم سےسیکھا،وہ اس کی لذتوں سےصحیح طورپرآشناتھے،مثلاحضرت انس﷜ انہیں یادکرکےبےاختیارکہتےتھے:ماصليت ورآءإمام قط أخف صلاة ولاأتم صلاة من رسولصلی اللہ علیہ وسلممیں کبھی کسی امام کےپیچھےنمازنہیں پڑھی جس کی نمازرسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی نمازسےزیادہ ہلکی اورمکمل ترین ہو۔ (2)صحيح مسلم،الصلاة،باب أمرالأئمة بتخفيف الصلاةفى تمام، حديث:1054(469)یہ نمازباجماعت کی کیفیت تھی۔ رات کی تنہائیوں میں آپ کی نمازکیسی تھی، حضرت عائشہؓ بتانابھی چاہتی ہیں اوراس سےزیادہ کہہ بھی نہیں سکتیں:يٌصلى أربعافلاتسأل عن حسنهن وطولهن،ثم يصلى أربعافلاتسال عن حسنهن وطولهن آپ چاررکعتیں پڑھتےاورمت پوچھوکہ ان کی خوبصورتی کیاتھی اورطوالت کتنی تھی،پھرآپ چاررکعتیں ادافرماتے،نہ پوچھوکہ ان کاجمال کیساتھا،کتنی لمبی ہوتی تھیں۔(3) صحيح مسلم،صلاة المسافرين وقصرها، باب الصلاة الليل،حديث:1723(738)یہ لذتیں محسوس کی جاسکتی تھیں لیکن زبان ان کےبیان سےقاصرتھی۔ قرآن مجیدنےاس عبادت کاتذکرہ اس طرح کیاکہ اس مشاہدہ کرنےوالےاس کی طرف کھچےچلےآتےتھےاوراس میں مستغرق ہوجاتےہیں: ﴿وَأَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّـهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا﴾ اورجب اللہ کابندہ اس کوپکارنےکھڑاہوا،تووہ اس پرگروہ درگروہ اکٹھےہونےلگے۔ الجن19:72)محدثین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے حوالے سے وہ ساری تفصیلات انتہائی جانفشانی سے جمع کر کے یکجا کر دیں جو صحابہ کرام نے بیان کی تھیں۔ آج اگر ذوق وشوق کی کیفیتوں میں ڈوب کر ان کا مطالعہ کیا جائے تو پورا منظر سامنے آ جاتا ہے، جو حسن و جمال کا بے مثال مرقع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد فتنوں کا دور آیا۔ بے شمار انسانوں کے عقائد اور اعمال اس کی زد میں آئے منع زکاة، ارتد او،خوارج وغیرہ کے باطل عقائد اسی فتنے کی تباہ کاریوں کے چند پہلو ہیں۔ اس دور کا مطالعہ کیا جائے تو عبادات اور اعمال میں سہل انگاری، غفلت اور لاپروائی حتی کہ جہالت کی ایسی کیفیتیں سامنے آتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ بنو امیہ کے دور میں نماز جیسے اسلام کے بنیادی رکن کی کیفیت ایسی ہوگئی تھی کہ حضرت انس بنانے اس کے سبب سے باقاعدہ گریہ میں مبتلا ہوجاتے تھے۔ لوگوں اور ان کے حکمرانوں نے اس دور میں اوقات نماز تک ضائع کر دیے تھے۔ امام زہری کہتے ہیں: میں دمشق میں حضرت انس ﷜نے کے ہاں حاضر ہوا تو آپ رورہے تھے۔ میں نے پوچھا: کیا بات ہے جو آپ کو رلا رہی ہے؟ فرمایا: میں نے عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں جو کچھ دیکھا تھا اس میں نماز ہی رہ گئی تھی، اب یہ بھی نماز بھی ضائع کردی گئی ہے۔ (4) صحيح البخارى،مواقيت الصلاة،باب فى تضييع الصلاة عن وقتها، حديث:530)آپ سےنمازکےبارےمیں یہ الفاظ بھی منقول ہیں،رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کےعہدمیں جوکچھ ہوتاتھاان میں سےکوئی چیزنہیں جومیں پہچان سکوں(سب کچھ بدل گیاہے۔)کہاگیا:نماز(توہے!)فرمایاکیااس میں بھی تم نےوہ سب کچھ نہیں کردیاجوکردیاہے۔(1) صحيح البخارى،مواقيت الصلاة،باب فى تضييع الصلاة عن وقتها، حديث:529) جامع ترمذی کی روایت کےالفاظ ہیں تم نےاپنی نمازوں میں وہ سب کچھ نہیں کرڈالاجس کاتمھی کوپتہ ہے۔ (2)جامع الترمذى،صفة القيامة،باب حديث إضاعة الناس الصلاة،حديث2447)ایک اور روایت میں ہے، ثابت بنانی کہتے ہیں: ہم حضرت انس بن مالک ﷜کے ساتھ تھے کہ حجاج نے نماز میں تاخیر کر دی،حضرت انس﷜ کھڑے ہوئے، وہ اس سے بات کرنا چاہتے تھے، ان کے ساتھیوں نے حجاج سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے انھیں روک دیا تو آپ وہاں سے نکلے، سواری پر بیٹھے اور راستے میں کہا: رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کی کوئی چیز باقی نہیں رہی سوائے لا الہ الا اللہ کی شہادت کے۔ ایک آدمی نے کہا: ابوحمزه! نماز؟ تو فرمایا تم نے ظہر کی نماز مغرب میں پہنچا دی! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز یہ تھی۔ (3)فتح البارى،مواقيت الصلاه،باب تضييع الصلاة عن وقتها،حديث:529)حکمرانوں کی جہالت کی وجہ سے خرابی کا یہ سلسلہ بڑھتا گیا اور سوائے چند اہل علم کے باقی لوگ اسی ناقص اور بگاڑی ہوئی نماز کےعادی ہو گئے۔ حافظ ابن حجر﷫ نے امام عبدالرزاق کے حوالے سے مشہور تابعی عطاء کا واقعہ نقل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ولید بن عبد الملک نے جمعے میں تاخیر کی حتی کہ شام ہوگئی، میں آیا اور بیٹھنے سے پہلے ظہر ادا کر لی، پھر اس کے خطبے کے دوران میں بیٹھے ہوئے اشارے سے عصر پڑھی۔ اشارے سے اس لیے کہ عطاء کو خوف تھا کہ اگر انھوں نے کھڑے ہو کر نماز پڑھی تو انھیں قتل کردیا جائے گا۔(4) فتح البارى،مواقيت الصلاه،باب تضييع الصلاة عن وقتها،حديث:529)اکثر لوگ حکمرانوں کے اس عمل ہی کو اسلام سمجھتے تھے، ان کو اس بات کا احساس تک نہ تھا کہ یہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکی سنت کے خلاف ہے۔ عام لوگوں کی تو بات ہی کیا ہے حضرت عمر بن عبدالعزیز﷜ جیسے عالم کو بھی مدینہ کا گورنر مقرر ہونے تک اصل اوقات نماز کا علم نہ تھا۔ وہ مدینہ کے گورز ہو کر آئے تو ایک دن انھوں نے عصر کی نماز میں تاخیر کر دی۔ عروہ بن زبیر﷫ ان کے پاس آئے اور انھیں بتایا کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ ﷜نے، جب وہ عراق میں گورنر تھے، ایک دن نماز میں تاخیر کر دی تو حضرت ابو مسعود انصاری (بدری) ﷜ آپ کے پاس آئے اور فرمایا: مغیرہ یہ کیا ہے؟ کیا تمھیں معلوم نہیں کہ جبریل ﷤نے نازل ہوکر نماز پڑھائی .... .(پانچویں نماز یں، ایک دن ہر نماز کا وقت شروع ہونے پر اور دوسرے دن ہر نماز کے وقت آخر میں پڑھائیں۔) اس پر عمر بن عبدالعزیز ﷜ نے عروہ سے کہا: دیکھ لو کیا کہہ رہے ہو؟ کیا واقعی جبریل ﷤نے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نماز کے وقت کی نشاندہی کی؟ عروہ نے جواب دیا: بشیر بن ابی مسعود اپنے والد (بدری صحابی ابومسعود انصاری﷜) سے اس طرح بیان کرتے تھے۔(5) فتح البارى،مواقيت الصلاه،باب تضييع الصلاة وفضلها،حديث:521)نماز کے طریقے میں بھی اسی طرح کی تبدیلیاں پیدا ہوگئیں۔ صحابہ کرام اور ان کے شاگردوں نے اس صورت حال کی اصلاح کے لیے جہاد شروع کیا، پھر محدثین نے، جو علم حدیث میں ان ہی کے جانشیں تھے، اس جہاد کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی تمام تفصیلات پوری تحقیق اور جستجو کے بعد امت کے سامنے پیش کر دیں اور امت کو رسول اللهصلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان مبارک پر کماحقہ عمل کا موقع فراہم کیا کہ «صلوا كما رأيتموني أصلي» تم اسی طرح نماز ادا کرو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔(1)صحيح البخارى،الأذان،باب الأذان للمسافرين،حديث:631)یہ ایک فطری بات ہے کہ انسان جس صورت میں جس عمل کا عادی ہوتا ہے ہمیشہ اسی کو درست سمجھتا ہے اور ہر صورت میں اس کے دفاع کی کوشش کرتا ہے۔ محدثین کے سامنے بہت بڑا اور كٹھن مشن تھا، انھوں نے نادان حکمرانوں کی سر پرستی میں راسخ شده عادات کے خلاف اتنا مؤثر جہاد کیا کہ اب ان لوگوں کے سامنے، جو عادت کی بنا پر اصرار اور ضد کا شکار نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ اور آپ کا منور طر یق عمل روز روشن کی طرح واضح ہے۔امام مسلم نے کتاب الصلاة، کتاب المساجد، کتاب صلاة المسافرین اور بعد کے ابواب میں خوبصورت ترتیب سےصحیح اسناد کے ساتھ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی مکمل تفصیلات جمع کردی ہیں۔ محدثین کے عظیم الشان کام کے بعد امت کے فقہاء اور علماءکے استنباطات، چاہے وہ جس مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں، محدثین کی بیان کردہ اانہی احادیث کے گرد گھومتے ہیں۔ تمام فقہی اختلافات کے حوالے سے بھی آخری اور حتمی فیصلہ صرف اور صرف وہی ہوسکتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمصادر فرما دیا اور جسے محدثین نے پوری امانت داری سے امت تک پہنچا دیا ہے۔
32. باب الاِسْتِمَاعِ لِلْقِرَاءَةِ:
32. باب: قراءت سننے کا حکم۔
Chapter: Listening to the Recitation
حدیث نمبر: 1004
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا قتيبة بن سعيد ، وابو بكر بن ابي شيبة ، وإسحاق بن إبراهيم كلهم، عن جرير ، قال ابو بكر، حدثنا جرير بن عبد الحميد، عن موسى بن ابي عائشة ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، في قوله عز وجل: لا تحرك به لسانك سورة القيامة آية 16، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم، إذا نزل عليه جبريل بالوحي، كان مما يحرك به لسانه، وشفتيه، فيشتد عليه، فكان ذلك يعرف منه، فانزل الله تعالى لا تحرك به لسانك لتعجل به سورة القيامة آية 16 اخذه إن علينا جمعه وقرءانه سورة القيامة آية 17 إن علينا ان نجمعه في صدرك وقرآنه فتقرؤه فإذا قراناه فاتبع قرءانه سورة القيامة آية 18، قال: انزلناه فاستمع له إن علينا بيانه سورة القيامة آية 19، ان نبينه بلسانك، فكان إذا اتاه جبريل اطرق، فإذا ذهب قراه كما وعده الله ".وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ كلهم، عَنْ جَرِيرٍ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ سورة القيامة آية 16، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا نَزَلَ عَلَيْهِ جِبْرِيلُ بِالْوَحْيِ، كَانَ مِمَّا يُحَرِّكُ بِهِ لِسَانَهُ، وَشَفَتَيْهِ، فَيَشْتَدُّ عَلَيْهِ، فَكَانَ ذَلِكَ يُعْرَفُ مِنْهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ سورة القيامة آية 16 أَخْذَهُ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْءَانَهُ سورة القيامة آية 17 إِنَّ عَلَيْنَا أَنْ نَجْمَعَهُ فِي صَدْرِكَ وَقُرْآنَهُ فَتَقْرَؤُهُ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْءَانَهُ سورة القيامة آية 18، قَالَ: أَنْزَلْنَاهُ فَاسْتَمِعْ لَهُ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ سورة القيامة آية 19، أَنْ نُبَيِّنَهُ بِلِسَانِكَ، فَكَانَ إِذَا أَتَاهُ جِبْرِيلُ أَطْرَقَ، فَإِذَا ذَهَبَ قَرَأَهُ كَمَا وَعَدَهُ اللَّهُ ".
جریر بن عبد الحمید نے موسیٰ بن ابی عائشہ سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿ولا تحرک بہ لسانک لتعجل بہ﴾ آپ اس کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دیں تاکہ اسے جلدی حاصل کر لیں۔ کے بارے میں روایت بیان کی کہا: جب جبرائیل رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی لے کر آتے تو آپ (اس کو پڑھنے کے لیے ساتھ ساتھ) اپنی زبان اور اپنے ہونٹوں کو حرکت دیتے تھے، ایسا کرنا آپ پر گراں گزرتا تھا اور یہ آپ (کے چہرے) سے معلوم ہو جاتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات اتاریں: آپ اس (وحی کے پڑھنے) کے لیے اپنی زبان کو نہ ہلائیں کہ آپ اسے جلد سیکھ لیں۔ بے شک اس کو (آپ کے دل میں) سمیٹ رکھنا اور (آپ کی زبان سے) اس کی قراءت ہمارا ذمہ ہے۔ یعنی ہمارا ذمہ ہے کہ ہم اسے آپ کو سینۂ مبارک میں جمع کریں اور اس کی قراءت (بھی ہمارے ذمے ہے) تاکہ آپ قراءت کریں۔ پھر جب ہم اسے پڑھیں (فرشتہ ہماری طرف سے تلاوت کرے) تو آپ اس کے پڑھنے کی اتباع کریں۔ فرمایا: یعنی ہم اس کو نازل کریں تو آپ اس کو غور سے سنیں۔ اس کا واضح کر دینا بھی یقیناً ہمارے ذمے ہے کہ آ پ کی زبان س (لوگوں کے سامنے) بیان کر دیں، پھر جب جبرائیل رضی اللہ عنہ آپ کے پاس (وحی لے کر) آتے تو آپ سر جھکا کر غور سے سنتے اور جب وہ چلے جاتے تو اللہ کے وعدے کے مطابق آپ اس کی قراءت فرماتے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ﴾ (القیامة: ۱۶) کے بارے میں روایت ہے کہ جب جبریل عَلیہِ السَّلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کے پاس وحی لے کر آتے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی زبان اور ہونٹوں کو ہلایا کرتے تھے، اور آپصلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بہت سخت گزرتا اور یہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے معلوم ہو جاتا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات اتاریں: آپ اس کو جلدی جلدی لینے کے لیے اپنی زبان کو نہ ہلائیں، بے شک اس کا جمع کردینا اور اس کا پڑھوانا ہمارے ذمہ ہے۔ یعنی قرآن آپ کے سینے میں جمع کر دینا اور اس کو پڑھوانا کہ آپ پڑھ سکیں ہمارے ذمہ ہے، پس جب ہم اس کو پڑھیں تو آپ اس کے پیچھے پڑھیں، یعنی جب ہم اس کو نازل کریں تو آپ اس کو غور سے سنیں، پھر اس کا بیان کر دینا بھی ہمارے ذمہ ہے، یعنی یہ بھی ہمارے ذمہ ہے کہ ہم اسے آپ کی زبان سے (لوگوں کے سامنے) بیان کرا دیں، اس لیے جب جبریل عَلیہِ السَّلام وحی لے کر آتے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم گردن جھکا کر بیٹھ جاتے، اور جب وہ چلے جاتے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے وعدہ کے مطابق پڑھنا شروع کر دیتے۔
حدیث نمبر: 1005
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ابو عوانة ، عن موسى بن ابي عائشة ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، في قوله: لا تحرك به لسانك لتعجل به سورة القيامة آية 16، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم، يعالج من التنزيل شدة، كان يحرك شفتيه، فقال لي ابن عباس: انا احركهما، كما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحركهما، فقال سعيد: انا احركهما، كما كان ابن عباس يحركهما، فحرك شفتيه، فانزل الله تعالى: لا تحرك به لسانك لتعجل به {16} إن علينا جمعه وقرءانه {17} سورة القيامة آية 16-17، قال: جمعه في صدرك، ثم تقرؤه فإذا قراناه فاتبع قرءانه سورة القيامة آية 18، قال: فاستمع، وانصت، ثم إن علينا ان تقراه، قال: فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذا اتاه جبريل استمع، فإذا انطلق جبريل، قراه النبي صلى الله عليه وسلم، كما اقراه ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، فِي قَوْله: لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ سورة القيامة آية 16، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُعَالِجُ مِنَ التَّنْزِيلِ شِدَّةً، كَانَ يُحَرِّكُ شَفَتَيْهِ، فَقَالَ لِي ابْنُ عَبَّاسٍ: أَنَا أُحَرِّكُهُمَا، كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَرِّكُهُمَا، فَقَالَ سَعِيدٌ: أَنَا أُحَرِّكُهُمَا، كَمَا كَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يُحَرِّكُهُمَا، فَحَرَّكَ شَفَتَيْهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ {16} إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْءَانَهُ {17} سورة القيامة آية 16-17، قَالَ: جَمْعَهُ فِي صَدْرِكَ، ثُمَّ تَقْرَؤُهُ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْءَانَهُ سورة القيامة آية 18، قَالَ: فَاسْتَمِعْ، وَأَنْصِتْ، ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا أَنْ تَقْرَأَهُ، قَالَ: فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا أَتَاهُ جِبْرِيلُ اسْتَمَعَ، فَإِذَا انْطَلَقَ جِبْرِيلُ، قَرَأَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَمَا أَقْرَأَهُ ".
۔ (جریر بن عبد الحمید کے بجائے) ابو عوانہ نے موسیٰ بن ابی عائشہ سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے اور انہوں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اللہ کے فرمان: آپ اس (وحی کو پڑھنے) کے لیے اپنی زبان کو نہ ہلائیں کہ آپ اسے جلد سیکھ لیں کے بارے میں روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے نزول کی وجہ سے بہت مشقت برداشت کرتے، آپ (ساتھ ساتھ) اپنے ہونٹ ہلاتے تھے (ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مجھے کہا: میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ہونٹ ہلا کر دکھاتا ہوں، تو انہوں نے اپنے ہونٹوں کو حرکت دی اور سعید بن جبیر نے (اپنے شاگرد سے) کہا: میں اپنے ہونٹوں کو اسی طرح ہلاتا ہوں جس طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ انہیں ہلاتے تھے، پھر اپنے ہونٹ ہلائے) اس پر اللہ تعالیٰ یہ آیت اتاری: آپ اس (وحی کو پڑھنے) کے لیے اپنی زبان کو نہ ہلائیں کہ آپ اسے جلد سیکھ لیں۔ بےشک ہمارا ذمہ ہے اس کو (آپ کے دل میں) سمیٹ کر رکھنا اور (آپ کی زبان سے) اس کی قراءت۔ کہا: آپ کے سینے میں اسے جمع کرنا، پھر یہ کہ آپ اسے پڑھیں۔ پھر جب ہم پڑھیں (فرشتہ ہماری طرف سے تلاوت کرے) تو آپ اس کے پڑھنے کی اتباع کریں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: یعنی اس کو غور سےسنیں اور خاموش رہیں، پھر ہمارے ذمے ہے کہ آپ اس کی قراءت کریں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اس کے بعد جب آپ کے پاس جبرائیل رضی اللہ عنہ (وحی لے کر) آتے تو آپ غور سے سنتے اور جب جبرائیل رضی اللہ عنہ چلے جاتے تواسے آپ اسی طرح پڑھتے جس طرح انہوں نے آپ کو پڑھایا ہوتا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے اللہ تعالیٰ کے فرمان: اس کو جلدی جلدی لینے کے لیے اپنی زبان نہ ہلائیں۔ کے بارے میں روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے نزول سے بہت مشقت برداشت کرتے تھے، آپصلی اللہ علیہ وسلم (وحی کے اخذ کے لیے) اپنے ہونٹ ہلاتے تھے، ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے مجھے کہا، میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ہونٹ ہلا کر دکھاتا ہوں، اور سعید نے اپنے شاگرد کو کہا، میں اپنے ہونٹوں کو ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی طرح تمہیں ہلا کر دکھاتا ہوں، پھر اپنے ہونٹ ہلائے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات اتاریں، اس کو جلدی جلدی لینے کے لیے اپنی زبان کو نہ ہلائیں، بے شک اس کو جمع کردینا اور اس کا پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ یعنی اس کو آپصلی اللہ علیہ وسلم کے سینے میں جما دینا، اور پڑھا دینا ہمارے ذمہ ہے پھر جب ہم اس کو (جبریل عَلیہِ السَّلام کی زبان سے) پڑھیں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم اس کو اس کے پیچھے پڑھیں یعنی اس کو غور سے سنیں اور خاموش رہیں، پھر اس کو آپ کو پڑھانا ہمارے ذمہ ہے۔ (اس کے بعد) جب آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبریل عَلیہِ السَّلام وحی لے کر آتے آپصلی اللہ علیہ وسلم غور سے سنتے اور جب جبریل عَلیہِ السَّلام چلے جاتے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم اس کی قرأت پڑھتے۔
33. باب الْجَهْرِ بِالْقِرَاءَةِ فِي الصُّبْحِ وَالْقِرَاءَةِ عَلَى الْجِنِّ:
33. باب: نماز فجر میں جہری قرأت اور جنات کے سامنے قرأت کا بیان۔
Chapter: Reciting Out Aloud In As-Subh And Reciting To The Jinn
حدیث نمبر: 1006
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا ابو عوانة ، عن ابي بشر ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، قال: " ما قرا رسول الله صلى الله عليه وسلم على الجن، وما رآهم، انطلق رسول الله صلى الله عليه وسلم في طائفة من اصحابه، عامدين إلى سوق، عكاظ وقد حيل بين الشياطين، وبين خبر السماء، وارسلت عليهم الشهب، فرجعت الشياطين إلى قومهم، فقالوا: ما لكم؟ قالوا: حيل بيننا وبين خبر السماء، وارسلت علينا الشهب، قالوا: ما ذاك، إلا من شيء حدث، فاضربوا مشارق الارض ومغاربها، فانظروا ما هذا الذي حال بيننا وبين خبر السماء، فانطلقوا يضربون مشارق الارض ومغاربها، فمر النفر الذين اخذوا نحو تهامة، وهو بنخل عامدين إلى سوق عكاظ، وهو يصلي باصحابه صلاة الفجر، فلما سمعوا القرآن، استمعوا له، وقالوا: هذا الذي حال بيننا وبين خبر السماء، فرجعوا إلى قومهم، فقالوا: يا قومنا، إنا سمعنا قرءانا عجبا {1} يهدي إلى الرشد فآمنا به ولن نشرك بربنا احدا {2} سورة الجن آية 1-2، فانزل الله عز وجل على نبيه محمد صلى الله عليه وسلم قل اوحي إلي انه استمع نفر من الجن سورة الجن آية 1 ".حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " مَا قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْجِنِّ، وَمَا رَآهُمْ، انْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي طَائِفَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، عَامِدِينَ إِلَى سُوقِ، عُكَاظٍ وَقَدْ حِيلَ بَيْنَ الشَّيَاطِينِ، وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، وَأُرْسِلَتْ عَلَيْهِمُ الشُّهُبُ، فَرَجَعَتِ الشَّيَاطِينُ إِلَى قَوْمِهِمْ، فَقَالُوا: مَا لَكُمْ؟ قَالُوا: حِيلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، وَأُرْسِلَتْ عَلَيْنَا الشُّهُبُ، قَالُوا: مَا ذَاكَ، إِلَّا مِنْ شَيْءٍ حَدَثَ، فَاضْرِبُوا مَشَارِقَ الأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا، فَانْظُرُوا مَا هَذَا الَّذِي حَالَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، فَانْطَلَقُوا يَضْرِبُونَ مَشَارِقَ الأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا، فَمَرَّ النَّفَرُ الَّذِينَ أَخَذُوا نَحْوَ تِهَامَةَ، وَهُوَ بِنَخْلٍ عَامِدِينَ إِلَى سُوقِ عُكَاظٍ، وَهُوَ يُصَلِّي بِأَصْحَابِهِ صَلَاةَ الْفَجْرِ، فَلَمَّا سَمِعُوا الْقُرْآنَ، اسْتَمَعُوا لَهُ، وَقَالُوا: هَذَا الَّذِي حَالَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، فَرَجَعُوا إِلَى قَوْمِهِمْ، فَقَالُوا: يَا قَوْمَنَا، إِنَّا سَمِعْنَا قُرْءَانًا عَجَبًا {1} يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ وَلَنْ نُشْرِكَ بِرَبِّنَا أَحَدًا {2} سورة الجن آية 1-2، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى نَبِيِّهِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِنَ الْجِنِّ سورة الجن آية 1 ".
سعید نے جبیر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنوں کو قرآن سنایا نہ ان کو دیکھا۔ (اصل واقعہ یہ ہے کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند ساتھیوں کو ساتھ عکاظ کے بازار کی طرف جانے کے ارادے سے چلے (ان دنوں) آسمانی خبر اور شیطانوں کے درمیان رکاوٹ پیدا کر دی گئی تھی (شیطان آسمانی خبریں نہ سن سکتے تھے) اور ان پر انگارے پھینکے جانے لگے تھے تو شیاطین (خبریں حاصل کیے بغیر) اپنی قوم کے پاس واپس آئے۔ اس پر انہوں نے پوچھا: تمہارے ساتھ کیا ہوا؟ انہوں (واپس آنے والوں) نے کہا: ہمیں آسمان کی خبریں لینے سے روک دیا گیا اور ہم پر انگارے پھینکے گئے۔ انہوں نے کہا: اس کے سوا یہ کسی اور سبب سے نہیں ہوا کہ کوئی نئی بات ظہور پذیر ہوئی ہے، اس لیے تم زمین کے مشر ق ومغرب میں پھیل جاؤ اور دیکھو کہ ہمارے آسمانی خبر کے درمیان حائل ہونے والی چیز (کی حقیقت) کیا ہے؟ وہ نکل کر زمین کے مشرق اور مغرب میں پہنچے۔ وہ نفری جس نے تہامہ کا رخ کیا تھا، گزری، تو آپ عکاظ کی طرف جاتے ہوئے کجھوروں (والے مقام نخلہ) میں تھے، اپنے ساتھیوں کو صبح کی نماز پڑھا رہے تھے، جب جنوں نے قرآن سنا تو اس پر کان لگا دیے اور کہنے لگے: یہ ہے جو ہمارے اور آسمانوں کی خبر کے درمیان حائل ہو گیا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی قوم کی طرف لوٹے اور کہا: اے ہماری قوم! ہم نے عجیب قرآن سنا ہے جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے، اس لیے ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں اور ہم اپنے رب کے ساتھ ہرگز کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل فرمائی: کہہ دیجیئے: میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے کان لگا کر سنا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ جنوں کو قرآن سنایا اور نہ ان کو دیکھا، (اصل واقعہ یہ ہے) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ عکاظ کے بازار کی طرف گئے، ان دنوں آسمانی خبر اور شیطانوں کے درمیان رکاوٹ پیدا ہو چکی تھی (شیطان آسمانی خبریں نہیں سن سکتے تھے) اور ان پر انگارے (شہاب ثاقب) پھینکے جانے لگے تھے تو شیاطین اپنی قوم کے پاس واپس آئے، انہوں نے پوچھا، کیا بات ہوئی؟ انہوں نے کہا، ہمیں آسمانی خبریں لینے سے روک دیا گیا ہے، اور ہم پر انگارے پھینکے جاتے ہیں، انہوں نے کہا، تمہارے اور آسمانی خبر کے درمیان کوئی نئی چیز حائل ہوئی ہے، اس لیے تم زمین کے مشرق اور مغرب میں پھیل جاؤ، اور دیکھو یہ ہمارے اور آسمانی خبر کے درمیان حائل ہونے والی چیز کیا ہے؟ (کس سبب اور وجہ سے ہمیں آسمانی خبریں سننے سے روک دیا گیا ہے) اس پر وہ نکل کر زمین کے مشرق اور مغرب میں پھیل گئے تو جس گروہ نے تہامہ کا رخ کیا تھا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نخل نامی جگہ میں عکاظ کے بازار کی طرف جاتے ہوئے، اپنے ساتھیوں کو صبح کی نماز پڑھا رہے تھے تو جب جنوں نے قرآن سنا اس پر کان لگا دئیے اور کہنے لگے یہی وہ چیز ہے جو ہمارے اور آسمانی خبروں کے درمیان حائل ہو چکی ہے اس کے بعد وہ اپنی قوم کے پاس واپس آ گئے اور کہنے لگے، اے ہماری قوم! ہم نے حیرت انگیز قرآن سنا ہے، جو سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے، اس لیے ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں، اور ہم اپنے رب کے ساتھ ہرگز کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے، اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیات اتاری، فرما دیجیئے! مجھ پر یہ وحی اتاری گئی ہے، واقعہ یہ ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن سنا۔ (الجن: ۴)

Previous    13    14    15    16    17    18    19    20    21    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.