- (ما اشخص ابصاركم عني؟ قالوا: نظرنا إلى القمر، قال: فكيف بكم إذا رايتم الله جهرة؟!).- (ما أَشْخَصَ أبصاركم عني؟ قالوا: نَظرْنا إلى القمرِ، قال: فكيف بكم إذا رأيتم الله جَهْرَةً؟!).
سیدنا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو دین کی باتوں کی تعلیم دے رہے تھے کہ اچانک ان کی آنکھیں اوپر اٹھ گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کون سی چیز ہے، جس نے تمہاری آنکھوں کو اوپر اٹھا دیا ہے؟“ انہوں نے کہا: ہم نے چاند کی طرف دیکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس وقت تمہاری کیا حالت ہو گی جب تم اللہ تعالیٰ کو واضح طور پر دیکھو گے۔“
-" إن الله لا ينظر إلى [اجسادكم ولا إلى] صوركم واموالكم ولكن [إنما] ينظر إلى قلوبكم [واشار باصابعه إلى صدره] واعمالكم".-" إن الله لا ينظر إلى [أجسادكم ولا إلى] صوركم وأموالكم ولكن [إنما] ينظر إلى قلوبكم [وأشار بأصابعه إلى صدره] وأعمالكم".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں، شکلوں اور مالوں کی طرف نہیں دیکھتا، وہ تو صرف تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے۔“(دل کی بات کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا۔
- (إن الله يحب العبد التقي الغني الخفي).- (إنّ الله يحب العبد التقيَّ الغنيَّ الخفيَّ).
عامر بن سعد سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنے اونٹوں میں تھے، ان کے پاس ان کا بیٹا عمر آیا، جب سعد نے اس کو دیکھا تو کہا: میں اس سوار کے شر سے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں۔ پھر وہ اترا اور کہا: تم تو اپنے اونٹوں اور بکریوں کے ہو کر رہ گئے ہو اور لوگوں سے اس حال میں کنارہ کش ہو گئے ہو کہ وہ حکومت کے بارے میں جھگڑ رہے ہیں۔ سیدنا سعد نے اس کے سینے پر ضرب لگائی اور کہا: خاموش ہو جا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”بلاشبہ اللہ تعالیٰ پرہیزگار، بے نیاز اور گمنام بندے سے محبت کرتا ہے۔“ کثیر بن اسلمی نے یہ روایت مطلب سے، اس نے عمر بن سعد سے اور اس نے اپنے باپ سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: میرا بیٹا میرے پاس آیا، میں نے (اس کی بات پر) اس کو کہا: میرے بیٹے! کیا تو مجھے فتنے کا سردار بننے کی دعوت دیتا ہے؟ اللہ کی قسم! (اس وقت تک میں نہیں جاؤں گا کہ) جب تک مجھے ایسی تلوار نہ دی جائے کہ اگر میں کسی مسلمان پر وار کروں تو وہ نشانے پر نہ لگے اور کسی کافر پر اس کی ضرب لگاوں تو وہ اس کو قتل کر دے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا... (درج بالا حدیث ذکر کی)۔
- (اعتق عن كل واحدة منهن رقبة، قال: إني صاحب إبل؟ قال: فانحر (وفي رواية: فاهد إن شئت) عن كل واحدة بدنة).- (أعتق عن كل واحدة منهن رقبة، قال: إني صاحب إبل؟ قال: فانحر (وفي رواية: فاهد إن شئت) عن كل واحدة بدنة).
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ”اور جب زندہ درگور کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا“) سے متعلقہ روایت ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا قیس بن عاصم رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: اللہ کے رسول! میں نے دور جاہلیت اپنی آٹھ بیٹیاں زندہ درگور کی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان میں سے ہر ایک کے عوض ایک غلام آزاد کرو۔“ اس نے کہا: میں تو اونٹوں والا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تو یہ چاہتا ہے تو پھر ایک کی طرف سے ایک اونٹ قربان کر۔“
- (الذي يطعن نفسه؛ إنما يطعنها في النار، والذي يتقحم فيها يتقحم في النار، والذي يخنق نفسه يخنقها في النار).- (الذِي يطعُنُ نفسه؛ إنّما يطعنها في النّارِ، والذي يتقحَّم فيها يتقحَّمُ في النّارِ، والذي يخنقُ نفسه يخنقها في النّار).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو نیزہ مار کر (خود کشی) کرتا ہے، وہ دوزخ میں بھی نیزہ مارتا رہے گا۔ جو گر کر (اپنے آپ کو مارتا) ہے، وہ جہنم میں بھی گرتا رہے گا اور جو گلا گھونٹ کر (خود کشی) کرتا ہے وہ آگ میں اپنا گلا گھونٹتا رہے گا۔“
- (كان فيمن كان قبلكم رجل به جرح فجزع، فاخذ سكينا فحز بها يده، فما رقا الدم حتى مات، قال الله تعالى: بادرني عبدي بنفسه، حرمت عليه الجنة).- (كانَ فيمن كان قبلكم رجلٌ به جَرحٌ فَجَزِعَ، فأخذ سِكِّيناً فحَزَّ بها يَدَهُ، فما رَقَأَ الدَمُ حتى مات، قال الله تعالى: بادَرَني عَبْدي بنفسِهِ، حَرَّمْتُ عليه الجنة).
سیدنا جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سے پہلے ایک آدمی تھا، وہ زخمی ہو گیا اور زخم برداشت نہ کر سکا اس نے چھری لی اور اپنا ہاتھ کاٹ دیا۔ خون بہتا رہا، یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے کہا: میرے بندے نے اپنی جان کے معاملے میں مجھ سے سبقت چاہی اس لیے میں نے اس پر جنت حرام کر دی ہے۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یقینا اللہ تعالیٰ کسی مومن پر ایک نیکی کے سلسلے میں بھی ظلم نہیں کرتا۔ مومن کو (جہاں) دنیا میں اس کی نیکی کا بدلہ دیا جاتا ہے، وہاں آخرت میں بھی جزا دی جائے گی۔ جبکہ کافر جو نیکیاں اللہ تعالیٰ کے لئے کرتا ہے، اس کو ان کا بدلہ دنیا میں ہی چکا دیا جاتا ہے۔ لہٰذا جب وہ روز قیامت اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے گا تو اس کی کوئی نیکی (باقی) نہیں ہو گی کہ جس کا اسے بدلہ دیا جائے۔“
-" افضل العمل ان تدخل على اخيك المؤمن سرورا او تقضي عنه دينا او تطعمه خبزا".-" أفضل العمل أن تدخل على أخيك المؤمن سرورا أو تقضي عنه دينا أو تطعمه خبزا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کون سا عمل افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا اپنے مسلمان بھائی کو خوش کرنا، یا اس کا قرضہ چکانا، یا اس کو کھانا کھلانا۔“
-" إن الرجل ليكون له عند الله المنزلة، فما يبلغها بعمل، فلا يزال الله يبتليه بما يكره حتى يبلغه إياها".-" إن الرجل ليكون له عند الله المنزلة، فما يبلغها بعمل، فلا يزال الله يبتليه بما يكره حتى يبلغه إياها".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک آدمی کے لیے بلند مرتبت کا فیصلہ ہو جاتا ہے، لیکن وہ اپنے عمل کے بل بوتے پر اس درجے تک پہنچ نہیں پاتا، اس لیے اللہ تعالیٰ اس کو ایسے امور کے ساتھ آزماتے رہتے ہیں، جو اسے ناپسند ہوتے ہیں، حتی کہ اس کو اس مرتبے تک پہنچا دیتے ہیں۔“
-" إن في ابن آدم مضغة إذا صلحت صلح سائر جسده وإذا فسدت فسد سائر جسده، الا وهي القلب".-" إن في ابن آدم مضغة إذا صلحت صلح سائر جسده وإذا فسدت فسد سائر جسده، ألا وهي القلب".
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک ابن آدم (کے جسم) میں ایک ایسا ٹکڑا ہے، اگر وہ صحیح ہو تو سارے جسم کی اصلاح ہو جاتی ہے اور اگر وہ بگڑ جائے تو سارا جسم فاسد ہو جاتا ہے، خبردار وہ (ٹکڑا) دل ہے۔“