-" رفعت لي سدرة المنتهى في السماء السابعة نبقها مثل قلال هجر وورقها مثل آذان الفيلة يخرج من ساقها نهران ظاهران ونهران باطنان، فقلت: يا جبريل ما هذان؟ قال: اما الباطنان ففي الجنة واما الظاهران فالنيل والفرات".-" رفعت لي سدرة المنتهى في السماء السابعة نبقها مثل قلال هجر وورقها مثل آذان الفيلة يخرج من ساقها نهران ظاهران ونهران باطنان، فقلت: يا جبريل ما هذان؟ قال: أما الباطنان ففي الجنة وأما الظاهران فالنيل والفرات".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے لیے ساتویں آسمان میں سدرۃ المنتہیٰ کو بلند کیا گیا، اس کے پھل (کی ساخت) ہجر علاقے کے مٹکوں جتنی تھی اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح (بڑے بڑے) تھے۔ اس کے تنے سے دو ظاہری اور دو باطنی نہریں پھوٹ رہی تھیں۔ میں نے کہا: اے جبریل! یہ دونہریں کیا ہیں؟ انہوں نے کہا: باطنی نہریں جنت میں جا رہی ہیں اور ظاہری نہریں دریائے نیل اور دریائے فرات ہیں۔“
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک قسم کی ہوا بھیجی جاتی ہے، لیکن وہ کسی قوم کے لیے عذاب اور کسی کے لیے رحمت بن کر آتی ہے۔“
-" قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لجبريل عليه السلام: ما لي لم ار ميكائيل ضاحكا قط؟ قال: ما ضحك ميكائيل منذ خلقت النار".-" قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لجبريل عليه السلام: ما لي لم أر ميكائيل ضاحكا قط؟ قال: ما ضحك ميكائيل منذ خلقت النار".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا: ”کیا وجہ ہے کہ میکائیل کبھی بھی مجھے ہنستے دکھائی نہیں دئیے؟ انہوں نے کہا: جب سے (جہنم کی) آگ کو پیدا کیا گیا، اس وقت سے میکائیل نہیں ہنسے۔“
-" كان لا يفضل بعضنا على بعض في القسم من مكثه عندنا، وكان قل يوم إلا وهو يطوف علينا جميعا، فيدنو من كل امراة من غير مسيس حتى يبلغ إلى التي هو يومها، فيبيت عندها، ولقد قالت سودة بنت زمعة حين اسنت وفرقت ان يفارقها رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله يومي لعائشة، فقبل ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم منها، وفي ذلك انزل الله تعالى وفي اشباهها - اراه قال - * (وإن امراة خافت من بعلها نشوزا) *".-" كان لا يفضل بعضنا على بعض في القسم من مكثه عندنا، وكان قل يوم إلا وهو يطوف علينا جميعا، فيدنو من كل امرأة من غير مسيس حتى يبلغ إلى التي هو يومها، فيبيت عندها، ولقد قالت سودة بنت زمعة حين أسنت وفرقت أن يفارقها رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله يومي لعائشة، فقبل ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم منها، وفي ذلك أنزل الله تعالى وفي أشباهها - أراه قال - * (وإن امرأة خافت من بعلها نشوزا) *".
عروہ کہتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے کہا: میرے بھانجے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم (امہات المؤمنین) کے لیے دنوں کی تقسیم میں کسی کو دوسری پر فضیلت نہیں دیتے تھے، تقریباً ہر روز تمام بیویوں کے پاس جاتے تھے اور ہر بیوی کے قریب ہوتے تھے، لیکن جماع نہیں کرتے تھے، حتیٰ کہ اس کے پاس پہنچ جاتے جس کو وہ دن ہوتا تھا اور اس کے پاس رات گزارتے تھے۔ جب سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا عمر رسیدہ ہو گئیں اور انہیں یہ خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں داغ مفارقت نہ دے دیں، تو انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میری باری کا دن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ پیشکش قبول کر لی، اسی قسم کے مسائل کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی: «وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا»”اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی بےپرواہی کا خوف ہو تو وہ۔۔۔“(۴-النساء:۱۲۸)
-" كان في بني إسرائيل امراة قصيرة، فصنعت رجلين من خشب، فكانت تسير بين امراتين قصيرتين واتخذت خاتما من ذهب وحشت تحت فصه اطيب الطيب: المسك فكانت إذا مرت بالمجلس حركته فنفنخ ريحه (وفي رواية): وجعلت له غلقا فإذا مرت بالملا او بالمجلس قالت به ففتحته، ففاح ريحه".-" كان في بني إسرائيل امرأة قصيرة، فصنعت رجلين من خشب، فكانت تسير بين امرأتين قصيرتين واتخذت خاتما من ذهب وحشت تحت فصه أطيب الطيب: المسك فكانت إذا مرت بالمجلس حركته فنفنخ ريحه (وفي رواية): وجعلت له غلقا فإذا مرت بالملأ أو بالمجلس قالت به ففتحته، ففاح ريحه".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنو اسرائیل میں ایک کوتاہ قد عورت تھی، اس نے کھڑاؤں (لکڑی کے جوتے) بنوا لیے۔ اب وہ دو پست قد عورتوں کے درمیان چلتی تھی اور سونے کی ایسی انگوٹھی پہنتی تھی، جس کے نگینے میں بہترین خوشبو کستوری بھر لیتی تھی۔ جب کسی مجلس کے پاس سے گزرتی تو نگینے کو حرکت دیتی، سو خوشبو پھیل جاتی تھی۔“ اور ایک روایت میں ہے: ”اس نے نگینے کا ایک ڈھکن بنوایا تھا، جب کسی گروہ یا مجلس کے پاس سے گزرتی تو اسے کھول دیتی تھی اور خوشبو پھیل جاتی تھی۔“
-" كان فيمن كان قبلكم رجل به جرح، فجزع فاخذ سكينا، فحز بها يده فما رقا الدم حتى مات، قال الله عز وجل: بادرني عبدي بنفسه فحرمت عليه الجنة".-" كان فيمن كان قبلكم رجل به جرح، فجزع فأخذ سكينا، فحز بها يده فما رقأ الدم حتى مات، قال الله عز وجل: بادرني عبدي بنفسه فحرمت عليه الجنة".
سیدنا جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سے پہلے والے لوگوں میں ایک آدمی زخمی ہو گیا، اس نے بےتابی کا اظہار کرتے ہوئے چھری سے اپنا ہاتھ کاٹ دیا اور خون نہ رکنے کہ وجہ سے وہ فوت ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرا بندہ مجھ سے سبقت لے گیا ہے، (یعنی میری تقدیر پر راضی نہ ہوا اور خود فیصلہ کر دیا) لہٰذا میں نے اس پر جنت حرام کر دی ہے۔ ”
-" كما يضاعف لنا الاجر، كذلك يضاعف علينا البلاء".-" كما يضاعف لنا الأجر، كذلك يضاعف علينا البلاء".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: سیدہ ام بشر بن برا بن معرور رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مرض الموت میں تشریف لائیں، اس حال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بخار تھا۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوا اور کہا: جو ( شدید) بخار آپ کو ہے، اتنا بخار تو میری نظر میں کسی کو نہیں ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جیسے ہمارے لیے اجر و ثواب کئی گنا بڑھایا جاتا ہے، اس طرح آزمائشیں بھی کئی گنا ہوتی ہیں۔ “
- (لم يبعث الله نبيا إلا بلغة قومه).- (لم يبعث الله نبياً إلا بلغة قومه).
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کو معبوث نہیں فرمایا، مگر اس کی قوم کی زبان میں۔“
-" لما لقي موسى الخضر عليهما السلام جاء طير، فالقى منقاره في الماء، فقال الخضر لموسى: تدري ما يقول هذا الطير؟ قال: وما يقول؟ قال: يقول: ما علمك وعلم موسى في علم الله إلا كما اخذ منقاري من الماء".-" لما لقي موسى الخضر عليهما السلام جاء طير، فألقى منقاره في الماء، فقال الخضر لموسى: تدري ما يقول هذا الطير؟ قال: وما يقول؟ قال: يقول: ما علمك وعلم موسى في علم الله إلا كما أخذ منقاري من الماء".
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب موسی علیہ السلام کی خضر علیہ السلام سے ملاقت ہوئی تو ایک پرندہ آیا اور اس نے پانی سے اپنی چونچ بھر لی۔ خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا: کیا تجھے علم ہے کہ یہ پرندہ کیا کہنا چاہتا ہے؟ انہوں نے کہا: یہ کیا کہنا چاہتا ہے؟ خضر علیہ السلام نے کہا: یہ مجھے کہہ رہا ہے کہ تیرا اور موسیٰ کا علم اللہ تعالیٰ کے علم کے مقابلے اتنا ہی ہے جتنا کہ (سمندر کے مقابلے میں) میری چونچ میں پانی ہے۔“