سیدنا یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں دکھا دیجئیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہو رہی ہو تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اچھا۔ یعلیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس حالت میں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مقام جعرانہ میں تھے کہ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ اس شخص کے بارے میں کیا حکم دیتے ہیں جس نے عمرہ کا احرام باندھا ہو حالانکہ وہ خوشبو سے تر ہو؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دیر سکوت فرمایا: ”پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونے لگی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یعلیٰ رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کیا تو وہ آئے اور اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر ایک کپڑا تنا ہوا تھا اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کیا گیا تھا تو یعلیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنا سر اس کپڑے کے اندر ڈالا تو کیا دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک سرخ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خراٹے لے رہے ہیں پھر وہ حالت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زائل ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص کہاں ہے جس نے عمرہ کی بابت سوال کیا تھا: ”وہ شخص لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو خوشبو تجھے لگی ہو گی اس کو تین مرتبہ دھو ڈالو اور اپنا جبہ اپنے جسم سے اتار دو اور عمرہ میں بھی اسی طرح اعمال کرو جس طرح اپنے حج میں کرتے ہو۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی) کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احرام باندھتے وقت خوشبو لگاتی، اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرام کھولتے طواف زیارت سے پہلے (تو اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو لگا دیتی تھی)۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالوں کو جمائے ہوئے لبیک پکار رہے تھے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھ کر تلبیہ (یعنی لبیک) نہیں پکارا مگر مسجد کے پاس سے یعنی ذوالحلیفہ کی مسجد (کے قریب) سے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عرفہ سے مزدلفہ تک سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ سے منیٰ تک فضل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو ہمرکاب کر لیا تھا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ دونوں (صحابیوں) نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم برابر لبیک کہتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرۃ العقبہ کی رمی کی۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ، کنگھی کرنے اور تیل ڈالنے اور چادر اوڑھنے اور تہہ بند پہننے کے بعد مدینہ سے چلے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی قسم کی چادر اور تہہ بند کے پہننے سے منع نہیں فرمایا سوائے زعفران سے رنگے ہوئے کپڑے کے جس سے بدن پر زعفران جھڑے۔ پھر صبح کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ میں اپنی سواری پر سوار ہوئے یہاں تک کہ جب (مقام) بیداء میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے لبیک کہا اور اپنے قربانی کے جانوروں کے گلے میں ہار ڈالنے اور اس وقت ذیقعدہ مہینے کے پانچ دن باقی تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چوتھی ذی الحجہ کو مکہ پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کا طواف کیا اور صفا مروہ کے درمیان سعی کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قربانی کے جانوروں کی وجہ سے احرام سے باہر نہیں ہوئے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گلے میں ہار ڈال چکے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بلندی پر (مقام) حجون کے پاس اترے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم حج کا احرام باندھے ہوئے تھے، طواف کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے قریب بھی نہ گئے یہاں تک کہ عرفہ سے لوٹ آئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ کعبہ کا اور صفا مروہ کا طواف کریں، اس کے بعد اپنے بال کتروا ڈالیں اور احرام کھول دیں۔ مگر یہ حکم اسی شخص کے لیے تھا جس کے ہمراہ قربانی کا جانور ہو اور نہ اس نے اس جانور کے گلے میں ہار ڈالا ہو اور بال کتروانے کے بعد جس کے ہمراہ اس کی بیوی ہو اس سے صحبت کرنا، خوشبو لگانا اور کپڑے پہننا سب جائز ہو گیا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ یہ تھا: ”اے اللہ! میں تیرے دروازہ پر باربار حاضر ہوں اور تیرے بلانے کا جواب دیتا ہوں تیرا کوئی شریک نہیں، ہر طرح کی تعریف اور احسان تیرا ہی ہے اور بادشاہی تیری ہی ہے کوئی تیرا شریک نہیں۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں اور ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے اور عصر کی ذوالحلیفہ میں پہنچ کر دو رکعتیں پڑھیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر ذوالحلیفہ میں رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری بیداء میں پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد بیان کی اور تسبیح پڑھی اور تکبیر کہی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ دونوں کی لبیک پکاری اور لوگوں نے بھی حج و عمرہ دونوں کی لبیک کہی پھر جب ہم لوگ (مکہ میں) پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو (احرام کھولنے کا) حکم دیا چنانچہ وہ احرام سے باہر ہو گئے یہاں تک کہ ترویہ کا دن آیا تو لوگوں نے حج کا احرام باندھا۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی اونٹ، کھڑے ہو کر اپنے ہاتھ سے نحر (قربان) کیے اور مدینہ میں سینگوں والے دو مینڈھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربان کیے تھے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ذوالحلیفہ سے تلبیہ (لبیک) کہنا شروع کر دیتے اور حرم میں پہنچ کر رک جاتے، ذی طویٰ مقام پر پہنچ کر صبح ہونے تک رات بسر کرتے، پھر جب نماز فجر پڑھ لیتے تو غسل فرماتے اور کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح کرتے تھے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: ”گویا میں (اس وقت) ان کو دیکھ رہا ہوں جب کہ وہ نشیب میں لبیک کہتے ہوئے اتر رہے تھے۔“