ام فضل رضی اللہ عنہا(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چچی) کہتی ہیں کہ عرفہ کے دن لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزہ میں شک تھا تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کوئی چیز پینے کی بھیجی تو اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوش فرما لیا (تو معلوم ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے نہیں)۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے عرفہ کے دن زوال آفتاب کے بعد حجاج کے خیمے کے قریب آ کر بلند آواز دی تو حجاج باہر نکل آیا اور اس کے جسم پر کسم سے رنگی ہوئی ایک چادر تھی۔ حجاج نے (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) سے عرض کی کہ اے ابوعبدالرحمن! کیا بات ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ اگر تو سنت (کی پیروی) چاہتا ہے تو (تجھے وقوف کے لیے) چلنا چاہیے؟ حجاج نے عرض کی کیا اسی وقت؟ انہوں نے کہا ہاں۔ حجاج نے کہا کہ مجھے اتنی مہلت دیجئیے کہ میں اپنے سر پر پانی ڈال لوں پھر چلوں۔ پس سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سواری سے اتر پڑے (اور انتظار کرتے رہے) یہاں تک کہ حجاج نکلا پس وہ میرے (سالم بن عبداللہ) اور میرے والد محترم (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) کے درمیان چلنے لگا۔ (سالم بن عبداللہ کہتے ہیں) میں نے حجاج سے کہا کہ اگر تو سنت کی پیروی چاہتا ہے تو خطبہ مختصر پڑھنا اور وقوف میں عجلت کرنا تو وہ حجاج عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی طرف دیکھنے لگا جب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ دیکھا تو کہا کہ وہ (سالم) صحیح کہتے ہیں اور عبدالملک (شام کے بادشاہ) نے حجاج کو (جو گورنر تھا اور مکہ بھی اسی کے زیر اقتدار تھا) یہ لکھ بھیجا تھا کہ حج میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی مخالفت نہ کرنا۔
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ(اسلام لانے سے پہلے) عرفہ کے دن میرا ایک اونٹ کھو گیا، میں اس کو ڈھونڈھنے نکلا تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عرفات میں وقوف کرتے ہوئے دیکھا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ اللہ کہ قسم یہ تو قوم حمس (سخت قوم یعنی قریش) میں سے ہیں پھر یہاں ان کا کیا کام ہے؟
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجتہ الوداع میں عرفات سے روانہ ہوئے تو کس طرح چل رہے تھے؟ تو سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہجوم میں بھی تیز تیز چل رہے تھے اور جب میدان صاف ہوتا تو اور بھی تیز چلتے۔ راوی (ہشام بن عروہ) کہتے ہیں کہ نص (زیادہ تیز چلنا ہوتا ہے) عنق (تیز چلنے) سے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ عرفہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ (عرفات سے واپسی پر) چلے (وہ کہتے ہیں کہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے بہت زیادہ شور اور اونٹوں کو مارنے کی آواز سنی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کوڑے سے ان کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: ”اے لوگو! سکون کو قائم رکھو، کیونکہ اونٹوں کا دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے۔“
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ شب مزدلفہ میں مزدلفہ کے پاس اتریں اور نماز پڑھنے کھڑی ہو گئیں پھر تھوڑی دیر نماز پڑھ کر پوچھا کہ اے بیٹے! کیا چاند غروب ہو گیا؟ (عبداللہ نے) کہا نہیں پس وہ تھوڑی دیر نماز پڑھتی رہیں۔ اس کے بعد پوچھا کہ اے بیٹے! کیا چاند غروب ہو گیا؟ (عبداللہ نے) کہا کہ ہاں، تو کہنے لگیں کہ چلو اب چلیں۔ چنانچہ ہم کوچ کر کے چل دیے یہاں تک کہ اسماء رضی اللہ عنہا نے منیٰ پہنچ کر کنکریاں ماریں پھر صبح کی نماز اپنے مقام پر آ کر پڑھی۔ میں (عبداللہ) نے ان سے کہا کہ جناب! ہمیں ایسا خیال ہے کہ ہم نے عجلت کی۔ اسماء رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کی اے بیٹے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے لیے (اس بات کی) اجازت پہلے ہی سے دے رکھی ہے۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم مزدلفہ میں اترے تو ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی کہ لوگوں کے ہجوم سے پہلے چل دیں اور وہ ایک بھاری بھر کم بدن کی خاتون تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی اور وہ لوگوں کے ہجوم سے پہلے چل دیں اور ہم لوگ ٹھہرے رہے، یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئے (مگر مجھے اس قدر تکلیف ہوئی کہ میں تمنا کرتی تھی کہ) کاش! میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے لی ہوتی جس طرح کہ سودہ رضی اللہ عنہ نے لے لی تھی تو مجھے ہر خوشی کی بات سے زیادہ پسند ہوتا۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ سب لوگوں کے ہمراہ مزدلفہ گئے پس (وہاں) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے دو نمازیں ایک ساتھ پڑھیں (مغرب اور عشاء کی)۔ ہر نماز کے صرف فرض پڑھے، اذان و اقامت کے ساتھ اور دونوں نمازوں کے درمیان کھانا کھایا۔ اس کے بعد جب صبح کا آغاز ہوا تو فوراً فجر کی نماز پڑھ لی۔ اس وقت ایسا اندھیرا تھا کہ کوئی تو کہتا تھا کہ فجر ہو گئی اور کوئی کہتا تھا کہ ابھی فجر نہیں ہوئی۔ نماز سے فراغت پانے کے بعد سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہا کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”یہ دونوں نمازیں اس مقام یعنی مزدلفہ میں اپنے وقت سے ہٹا دی گئی ہیں مغرب اور عشاء۔ پس لوگوں کو چاہیے کہ جب تک عشاء کا وقت نہ ہو جائے مزدلفہ میں نہ آئیں اور فجر کی نماز صبح صبح اسی وقت پڑھیں۔“ پھر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما ٹھہر گئے یہاں تک کہ خوب سفیدی پھیل گئی۔ اس کے بعد کہا کہ اگر امیرالمؤمنین عثمان رضی اللہ عنہ اب منیٰ کی طرف چل دیتے تو سنت کے موافق کرتے (امیرالمؤمنین رضی اللہ عنہ نے کوچ کر دیا تو راوی عبدالرحمن کہتے ہیں کہ) میں نہیں جانتا کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کا قول پہلے ہوا یا امیرالمؤمنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا کوچ پہلے ہوا۔ پھر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما برابر تلبیہ کرتے رہے یہاں تک کہ قربانی کے دن جمرۃ العقبہ کو کنکریاں ماریں۔ (اس وقت تلیبہ موقوف کر دیا)۔
امیرالمؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فجر کی نماز مزدلفہ میں پڑھی پھر ٹھہرے رہے۔ اس کے بعد فرمایا: ”مشرک لوگ جب تک آفتاب طلوع نہ ہوتا یہاں سے کوچ نہ کرتے تھے اور کہا کرتے تھے: ”اے ثبیر! (ایک پہاڑ کا نام ہے) آفتاب کی کرنوں سے چمک جا۔“ اور بیشک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت فرمائی۔ اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آفتاب کے نکلنے سے پہلے ہی کوچ کر دیا۔