الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
مقدمہ
حدیث نمبر: 151
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا احمد بن عبد الله بن يونس، حدثنا زهير، حدثنا إسماعيل بن ابي خالد، قال: سمعت عامرا، يقول: استفتى رجل ابي بن كعب، فقال: يا ابا المنذر، ما تقول في كذا وكذا؟، قال: يا بني، اكان الذي سالتني عنه؟، قال: لا، قال: "اما لا، فاجلني حتى يكون، فنعالج انفسنا حتى نخبرك".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَامِرًا، يَقُولُ: اسْتَفْتَى رَجُلٌ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ، فَقَالَ: يَا أَبَا الْمُنْذِرِ، مَا تَقُولُ فِي كَذَا وَكَذَا؟، قَالَ: يَا بُنَيَّ، أَكَانَ الَّذِي سَأَلْتَنِي عَنْهُ؟، قَالَ: لَا، قَالَ: "أَمَّا لَا، فَأَجِّلْنِي حَتَّى يَكُونَ، فَنُعَالِجَ أَنْفُسَنَا حَتَّى نُخْبِرَكَ".
اسماعیل بن ابی خالد نے کہا میں نے عامر (الشعبی) کو کہتے ہوئے سنا کہ ایک آدمی نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے فتویٰ پوچھتے ہوئے کہا: اے ابوالمنذر! آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: بیٹے! جس بارے میں تم فتویٰ پوچھ رہے ہو، کیا وہ وقوع پذیر ہو چکا ہے؟ عرض کیا: نہیں۔ انہوں نے جواب دیا جب نہیں تو مجھے اس وقت تک مہلت دو جب ایسا ہو جائے، پھر ہم غور کریں گے اور تمہیں فتویٰ دیں گے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه عامر الشعبي لم يدرك أبي بن كعب، [مكتبه الشامله نمبر: 151]»
یہ منقطع روایت ہے، «وانفرد به الدارمي» ، لیکن اس طرح کی متعدد روایات [باب كراهة الفتيا اثر رقم 125-128] میں بسند صحیح گزر چکی ہیں اور آگے اس کی تفصیل بھی آرہی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه عامر الشعبي لم يدرك أبي بن كعب
حدیث نمبر: 152
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا يحيى بن حماد، اخبرنا ابو عوانة، قال: اخبرنا عن فراس، عن عامر، عن مسروق، قال: كنت امشي مع ابي بن كعب رضي الله عنه، فقال فتى: ما تقول يا عماه في كذا وكذا؟، قال: يا ابن اخي، اكان هذا؟، قال: لا، قال: "فاعفنا حتى يكون".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَنْ فِرَاسٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَقَالَ فَتًى: مَا تَقُولُ يَا عَمَّاهُ فِي كَذَا وَكَذَا؟، قَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، أَكَانَ هَذَا؟، قَالَ: لَا، قَالَ: "فَأَعْفِنَا حَتَّى يَكُونَ".
مسروق نے کہا: میں سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے ہمراہ چل رہا تھا کہ ایک جوان نے کہا: چچا جان! آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ کہا بھتیجے! کیا ایسا (معاملہ) ہو چکا ہے؟ عرض کیا: نہیں، تو انہوں نے جواب دیا: اگر نہیں ہوا تو ہمیں معاف رکھو، یہاں تک کہ ایسا معاملہ وقوع پذیر ہو جائے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 152]»
یہ روایت صحیح ہے۔ دیکھئے: [العلم لأبي خيثمه 76]، [الفقيه والمتفقه 8/2]، [الإبانة 315]، [جامع بيان العلم 1604]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 153
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) حدثنا عبد الله بن سعيد، حدثنا ابو اسامة، عن الاعمش، قال: "كان إبراهيم إذا سئل عن شيء لم يجب فيه إلا جواب الذي سئل عنه".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، قَالَ: "كَانَ إِبْرَاهِيمُ إِذَا سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ لَمْ يُجِبْ فِيهِ إِلَّا جَوَابَ الَّذِي سُئِلَ عَنْهُ".
اعمش (سلیمان بن مہران) نے کہا: امام ابراہیم النخعی رحمہ اللہ سے جب مسائل دریافت کئے جاتے تو صرف انہیں مسائل کا جواب دیتے جو پہلے آپ سے پوچھے جا چکے ہوتے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 153]»
اس اثر کی سند صحیح ہے، اور یہ [حلية الأولياء 219/4] میں موجود ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 154
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا الحسين بن منصور، حدثنا الحسين بن الوليد، عن وهيب، عن هشام، عن محمد بن سيرين"انه كان لا يفتي في الفرج بشيء فيه اختلاف".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ وُهَيْبٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ"أَنَّهُ كَانَ لَا يُفْتِي فِي الْفَرْجِ بِشَيْءٍ فِيهِ اخْتِلَافٌ".
ہشام بن حسان نے کہا: امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ شرم گاہ سے متعلق مختلف فیہ مسائل میں فتویٰ نہیں دیتے تھے۔ (یعنی نکاح و طلاق کے مختلف فیہ مسائل میں۔ واللہ اعلم)

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 154]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، لیکن اس کو امام دارمی کے علاوہ کسی نے نقل نہیں کیا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 155
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا الصلت بن راشد، قال: سالت طاوسا عن مسالة، فقال لي: كان هذا؟، قلت: نعم، قال: آلله، قلت: آلله، ثم قال: إن اصحابنا اخبرونا عن معاذ بن جبل رضي الله عنه، انه قال:"يا ايها الناس، لا تعجلوا بالبلاء قبل نزوله , فيذهب بكم ههنا وههنا، فإنكم إن لم تعجلوا بالبلاء قبل نزوله، لم ينفك المسلمون ان يكون فيهم من إذا سئل، سدد، وإذا قال , وفق".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ رَاشِدٍ، قَالَ: سَأَلْتُ طَاوُسًا عَنْ مَسْأَلَةٍ، فَقَالَ لِي: كَانَ هَذَا؟، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: آللَّهِ، قُلْتُ: آللَّهِ، ثُمّ قَالَ: إِنَّ أَصْحَابَنَا أَخْبَرُونَا عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ:"يَا أَيُّهَا النَّاسُ، لَا تَعْجَلُوا بِالْبَلَاءِ قَبْلَ نُزُولِهِ , فَيُذْهَبُ بِكُمْ هَهُنَا وَهَهُنَا، فَإِنَّكُمْ إِنْ لَمْ تَعْجَلُوا بِالْبَلَاءِ قَبْلَ نُزُولِهِ، لَمْ يَنْفَكَّ الْمُسْلِمُونَ أَنْ يَكُونَ فِيهِمْ مَنْ إِذَا سُئِلَ، سُدَّدَ، وَإِذَا قَالَ , وُفِّقَ".
صلت بن راشد نے کہا: میں نے امام طاؤوس رحمہ اللہ سے کسی مسئلہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے دریافت کیا: کیا یہ مسئلہ وقوع پذیر ہوا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، تو کہا: قسم کھاؤ ایسا ہو چکا ہے، میں نے عرض کیا: اللہ کی قسم ایسا ہو چکا ہے، پھر انہوں نے کہا: ہمارے ساتھیوں نے ہمیں سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے یہ خبر دی ہے کہ انہوں نے کہا: بلاء و مصیبت کے سلسلہ میں اس کے نزول سے پہلے جلد بازی نہ کرو، ہو سکتا ہے وہ تمہیں ادھر ادھر بھٹکا لے جائے، اگر تم مصیبت کے نزول سے پہلے جلد بازی نہ کرو گے تو اس سے بچ نہ سکو گے جب ایسے لوگ رہیں گے جن سے پوچھا جائے تو صحیح جواب دیں اور جب کہیں تو صحیح کہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 155]»
اس اثر کی سند صحیح ہے، اور اثر رقم (118) میں گزر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: [الإبانة لابن بطة 293]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 156
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا بشر بن الحكم، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن عمرو بن ميمون، عن ابيه، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: سالته عن رجل ادركه رمضانان، فقال: اكان او لم يكن؟، قال: لم يكن بعد، فقال: اترك بليته حتى تنزل، قال: فدلسنا له رجلا، فقال: قد كان، فقال "يطعم عن الاول منهما ثلاثين مسكينا، لكل يوم مسكين".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ: سَأَلْتُهُ عَنْ رَجُلٍ أَدْرَكَهُ رَمَضَانَانِ، فَقَالَ: أَكَانَ أَوْ لَمْ يَكُنْ؟، قَالَ: لَمْ يَكُنْ بَعْدُ، فَقَالَ: اتْرُكْ بَلِيَّتَهُ حَتَّى تَنْزِلَ، قَالَ: فَدَلَسْنَا لَهُ رَجُلًا، فَقَالَ: قَدْ كَانَ، فَقَالَ "يُطْعِمُ عَنْ الْأَوَّلِ مِنْهُمَا ثَلَاثِينَ مِسْكِينًا، لِكُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينٌ".
عمرو بن میمون نے اپنے والد سے انہوں نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایسے شخص کے بارے میں دریافت کیا جو دو مرتبہ رمضان کے مہینے پائے اور (روزہ نہ رکھے)، انہوں نے کہا: کیا ایسا ہو چکا ہے یا نہیں؟ میمون نے کہا: نہیں، تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ایسی نزول سے پہلی بلا کو جانے دو (یعنی جو چیز واقع نہیں ہوئی اس کے بارے میں سوال نہ کرو)، لہٰذا ہم نے ایک شخص کے بارے میں جھوٹ موٹ کہا کہ اسے یہ مسئلہ درپیش ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ پہلے رمضان کے تیس روزوں کے بدلے میں مسکینوں کو کھانا کھلائے ہر دن ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 156]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [سنن البيهقي 253/4]، [مصنف عبدالرزاق 7628]، [سنن دارقطني 196/2]، [المجموع 363/6]، [معرفة السنن والآثار 306/6]

وضاحت:
(تشریح احادیث 150 سے 156)
ان تمام آثار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلاف کرام فرضی مسائل میں نہیں الجھتے تھے اور صرف پیش آمده مسائل ہی کا جواب دیتے تھے اور اختلافی مسائل میں فتویٰ دینے سے بھی گریز کرتے تھے، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ کے نیک، راست باز، توفیق و صحیح سوجھ بوجھ والے بندے ہمیشہ موجود رہیں گے۔
( «جعلنا اللّٰه واياكم منهم.» آمین)
ایسا شخص جس نے بلا عذرِ شرعی دو بار رمضان کے روزے نہیں رکھے اس پر کفارہ اور قضا دونوں ہے، یعنی ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے اور ساٹھ دن کے روزے رکھے۔
دیکھئے: [المغني لابن قدامة 401/4] ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 157
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا عبد الله بن عمران، حدثنا إسحاق بن سليمان، حدثنا العمري، عن عبيد بن جريج، قال: كنت اجلس بمكة إلى ابن عمر يوما، وإلى ابن عباس رضي الله عنهما يوما، فما يقول ابن عمر فيما يسال "لا علم لي، اكثر مما يفتي به".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِمْرَانَ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا الْعُمَرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: كُنْتُ أَجْلِسُ بِمَكَّةَ إِلَى ابْنِ عُمَرَ يَوْمًا، وَإِلَى ابْنِ عَبَّاس رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا يَوْمًا، فَمَا يَقُولُ ابْنُ عُمَرَ فِيمَا يُسْأَلُ "لَا عِلْمَ لِي، أَكْثَرُ مِمَّا يُفْتِي بِهِ".
عبید بن جریج نے کہا کہ میں مکہ میں ایک دن سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس اور ایک دن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا تھا، میں نے دیکھا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فتوی دینے سے زیادہ اکثر مسائل میں کہتے رہے: «لاعلم لي» کہ مجھے اس بارے میں علم نہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 157]»
اس روایت کی سند حسن کے درجہ کو پہنچتی ہے۔ دیکھئے: [الفقيه والمتفقه 172/2]، اور العمری کا نام عبداللہ بن عمر بن حفص ہے۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 156)
اس حدیث سے ان دونوں جلیل القدر صحابہ کرام کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے، نیز یہ کہ مسائل اور فتویٰ دینے میں جلد بازی یا یہ ثابت کرنے سے کہ مسئول عنہ بہت ذی علم ہے گریز کرنا چاہیے، جیسا کہ اسلاف کرام کے طریق سے ثابت ہوتا ہے، اور «لا علم لي» یا «لا أعلم» کہنے سے کسی کی عزت اور اس کے مرتبے میں کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ بعض اسلاف نے یہ کہنا بھی نصف علم کہا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
حدیث نمبر: 158
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد بن يوسف، عن سفيان، عن الاعمش، عن ابي وائل، قال: قال عبد الله: "تعلموا، فإن احدكم لا يدري متى يختلف إليه".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: "تَعَلَّمُوا، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَا يَدْرِي مَتَى يُخْتَلفُ إِلَيْهِ".
ابووائل سے مروی ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: علم حاصل کرو، تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ کب اس کے پاس سوال و فتوے کے لئے لوگ آئیں گے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 158]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: حديث رقم (144)۔ نیز اس روایت کو ابن عبدالبر نے [جامع بيان العلم 510] میں، ابوخيثمہ نے [العلم 8] میں اسی سند سے ذکر کیا ہے۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 157)
اس میں علم کی اہمیت و ضرورت بیان کی گئی ہے۔
ابووائل، شقیق بن سلمہ ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
20. باب الْفُتْيَا وَمَا فِيهِ مِنَ الشِّدَّةِ:
20. فتویٰ کے خطرناک ہونے کا بیان
حدیث نمبر: 159
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا إبراهيم بن موسى، حدثنا ابن المبارك، عن سعيد بن ابي ايوب، عن عبيد الله بن ابي جعفر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "اجرؤكم على الفتيا، اجرؤكم على النار".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَجْرَؤُكُمْ عَلَى الْفُتْيَا، أَجْرَؤُكُمْ عَلَى النَّارِ".
عبیداللہ بن ابی جعفر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو فتویٰ دینے میں سب سے جری ہے، وہی سب سے زیادہ جہنم میں جانے کے لئے جرأت کرنے والا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده معضل عبيد الله بن أبي جعفر ما عرفنا له رواية عن الصحابة فيما نعلم، [مكتبه الشامله نمبر: 159]»
اس روایت کی سند سے دو راوی ساقط ہیں، لہٰذا یہ روایت معضل ہے۔ دیکھئے: [كشف الخفاء 113]، [أسنی المطالب 54]، [جامع بيان العلم 1525]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده معضل عبيد الله بن أبي جعفر ما عرفنا له رواية عن الصحابة فيما نعلم
حدیث نمبر: 160
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا ابو المغيرة، حدثنا الاوزاعي، عن عبدة بن ابي لبابة، عن ابن عباس رضي الله عنه، قال: "من احدث رايا ليس في كتاب الله، ولم تمض به سنة من رسول الله صلى الله عليه وسلم، لم يدر على ما هو منه إذا لقي الله عز وجل".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: "مَنْ أَحْدَثَ رَأْيًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَلَمْ تَمْضِ بِهِ سُنَّةٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَمْ يَدْرِ عَلَى مَا هُوَ مِنْهُ إِذَا لَقِيَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ".
سیدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جو بات کتاب اللہ میں نہیں اور کسی نے اپنی رائے سے کہی، اور وہ احادیث رسول میں سے بھی نہیں، تو اسے معلوم نہیں کہ جب وہ اللہ عزوجل سے ملاقات کرے گا تو اسے اس کا کتنا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إذا كان عبدة سمعه من ابن عباس، [مكتبه الشامله نمبر: 160]»
یہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے جس کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [البدع 94]، [الأحكام 782/6]، [المدخل 190]، [الفقيه 183/1]

وضاحت:
(تشریح احادیث 158 سے 160)
قرآن و حدیث کو دیکھے بغیر بلا دلیل کے فتویٰ دینا حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر دینے کے مترادف ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إذا كان عبدة سمعه من ابن عباس

Previous    12    13    14    15    16    17    18    19    20    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.