الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
كتاب الزكاة
--. مؤمن میں دو چیزیں جمع نہیں ہو سکتیں
حدیث نمبر: 1872
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وعن ابي سعيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خصلتان لا تجتمعان في مؤمن: البخل وسوء الخلق. رواه الترمذي وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: خصلتان لَا تجتمعان فِي مُؤْمِنٍ: الْبُخْلُ وَسُوءُ الْخُلُقِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ
ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بخل اور بد اخلاقی جیسی خصلتیں کسی مومن میں جمع نہیں ہو سکتیں۔ ضعیف۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف، رواه الترمذي (1962 وقال: غريب.)
٭ صدقة بن موسي: ضعيف، ضعفه الجمھور.»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
--. مکار اور کنجوس جنت میں نہیں جائے گا
حدیث نمبر: 1873
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وعن ابي بكر الصديق رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يدخل الجنة خب ولا بخيل ولا منان» . رواه الترمذي وَعَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ خِبٌّ وَلَا بَخِيلٌ وَلَا منان» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: فساد و لڑائی پیداکرنے والا، بخیل اور احسان جتلانے والا شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ ضعیف۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«سنده ضعيف، رواه الترمذي (1963 وقال: حسن غريب)
٭ صدقة بن موسي و فرقد بن يعقوب السبخي ضعيفان.»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده ضعيف
--. لالچ اور بزدلی دونوں بری چیزیں ہیں
حدیث نمبر: 1874
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «شر ما في الرجل شح هالع وجبن خالع» . رواه ابو داود وسنذكر حديث ابي هريرة: «لا يجتمع الشح والإيمان» في كتاب الجهاد إن شاء الله تعالى وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «شَرُّ مَا فِي الرَّجُلِ شُحٌّ هَالِعٌ وَجُبْنٌ خَالِعٌ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَسَنَذْكُرُ حَدِيثَ أَبِي هُرَيْرَةَ: «لَا يَجْتَمِعُ الشُّحُّ وَالْإِيمَانُ» فِي كِتَابِ الْجِهَاد إِن شَاءَ الله تَعَالَى
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آدمی میں انتہائی حرص اور انتہائی بزدلی جیسی خصلتیں بری ہیں۔ صحیح، رواہ ابوداؤد۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده صحيح، رواه أبو داود (2511)
ه حديث ’’لا يجتمع الشح و الإيمان‘‘ يأتي (3828)»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
--. صدقہ و خیرات کی ایک عظیم مثال
حدیث نمبر: 1875
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
عن عائشة رضي الله عنها ان بعض ازواج النبي صلى الله عليه وسلم قلن للنبي صلى الله عليه وسلم اينا اسرع بك لحوقا؟ قال: اطولكن يدا فاخذوا قصبة يذرعونها فكانت سودة اطولهن يدا فعلمنا بعد انما كانت طول يدها الصدقة وكانت اسرعنا لحوقا به زينب وكانت تحب الصدقة. رواه البخاري. وفي رواية مسلم قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اسرعكن لحوقا بين اطولكن يدا» . قالت: فكانت اطولنا يدا زينب؟ لانها كانت تعمل بيدها وتتصدق عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ بَعْضُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّنَا أَسْرَعُ بِكَ لُحُوقًا؟ قَالَ: أَطْوَلُكُنَّ يَدًا فَأَخَذُوا قَصَبَةً يَذْرَعُونَهَا فَكَانَت سَوْدَة أَطْوَلهنَّ يدا فَعلمنَا بعد أَنما كَانَت طُولُ يَدِهَا الصَّدَقَةَ وَكَانَتْ أَسْرَعَنَا لُحُوقًا بِهِ زَيْنَبُ وَكَانَتْ تُحِبُّ الصَّدَقَةَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ. وَفِي رِوَايَةِ مُسْلِمٍ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «أَسْرَعكُنَّ لُحُوقا بَين أَطْوَلكُنَّ يَدًا» . قَالَتْ: فَكَانَتْ أَطْوَلَنَا يَدًا زَيْنَبُ؟ لِأَنَّهَا كَانَت تعْمل بِيَدِهَا وَتَتَصَدَّق
عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بعض ازواج مطہرات نے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عرض کیا، ہم میں سے سب سے پہلے آپ سے کون ملیں گی؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے جس کے ہاتھ زیادہ دراز ہیں۔ وہ لکڑی لے کر اپنے بازو ناپنے لگیں، تو سودہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ ان میں سے زیادہ دراز تھے، پھر ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ ان کے ہاتھ لمبے ہونے سے مراد، صدقہ تھی، اور ہم میں سے زینب رضی اللہ عنہ سب سے پہلے آپ سے جا ملیں، اور وہ صدقہ کرنا پسند کیا کرتی تھیں۔ بخاری اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے: عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں لمبے ہاتھ والی مجھے سب سے پہلے ملے گی۔ وہ بیان کرتی ہیں: وہ یہ جاننے کے لیے ان میں سے کس کے ہاتھ دراز ہیں وہ باہم ہاتھ ناپا کرتی تھیں، پس زینب رضی اللہ عنہ کے ہم میں سے ہاتھ زیادہ لمبے تھے، کیونکہ وہ اپنے ہاتھ سے کام کیا کرتی تھیں۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (1420) و مسلم (2452/101)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. صدقہ و خیرات کا ایک عجیب قصّہ
حدیث نمبر: 1876
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وعن ابي هريرة رضي الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: قال رجل: لاتصدقن بصدقة فخرج بصدقته فوضعها في يد سارق فاصبحوا يتحدثون تصدق على سارق فقال اللهم لك الحمد على سارق لاتصدقن بصدقة فخرج بصدقته فوضعها في يدي زانية فاصبحوا يتحدثون تصدق الليلة على زانية فقال اللهم لك الحمد على زانية لاتصدقن بصدقة فخرج بصدقته فوضعها في يدي غني فاصبحوا يتحدثون تصدق على غني فقال اللهم لك الحمد على سارق وعلى زانية وعلى غني فاتي فقيل له اما صدقتك على سارق فلعله ان يستعف عن سرقته واما الزانية فلعلها ان تستعف عن زناها واما الغني فلعله يعتبر فينفق مما اعطاه الله. متفق عليه ولفظه للبخاري وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدِ سَارِقٍ فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تصدق عَلَى سَارِقٍ فَقَالَ اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى سَارِقٍ لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدي زَانِيَةٍ فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تُصُدِّقَ اللَّيْلَةَ عَلَى زَانِيَةٍ فَقَالَ اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى زَانِيَةٍ لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدقَة فَخرج بِصَدَقَتِهِ فوضعها فِي يَدي غَنِي فَأَصْبحُوا يتحدثون تصدق عَلَى غَنِيٍّ فَقَالَ اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى سَارِق وعَلى زَانِيَة وعَلى غَنِي فَأُتِيَ فَقِيلَ لَهُ أَمَّا صَدَقَتُكَ عَلَى سَارِقٍ فَلَعَلَّهُ أَنْ يَسْتَعِفَّ عَنْ سَرِقَتِهِ وَأَمَّا الزَّانِيَةُ فَلَعَلَّهَا أَنْ تَسْتَعِفَّ عَنْ زِنَاهَا وَأَمَّا الْغَنِيُّ فَلَعَلَّهُ يَعْتَبِرُ فَيُنْفِقَ مِمَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَلَفظه للْبُخَارِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کسی آدمی نے کہا: میں صدقہ کروں گا، وہ اپنا صدقہ لے کر باہر نکلا تو اس نے اسے کسی چور کے ہاتھ میں تھما دیا، صبح ہوئی تو باتیں ہونے لگیں کہ رات کسی چور پر صدقہ کر دیا گیا، تو اس آدمی نے کہا: اے اللہ! ہر قسم کی حمد تیرے ہی لیے ہے، کسی چور پر (صدقہ کر دیا گیا)، میں ضرور صدقہ کروں گا، وہ صدقہ لے کر نکلا اور اسے کسی زانیہ کے ہاتھ پر رکھ دیا، صبح ہوئی تو باتیں ہونے لگیں کہ رات کسی زانیہ پر صدقہ کر دیا گیا، پھر اس آدمی نے کہا: اے اللہ! ہر قسم کی حمد تیرے ہی لیے ہے، (میں نے) کسی زانیہ پر (صدقہ کر دیا)، میں ضرور صدقہ کروں گا، وہ صدقہ لے کر نکلا اور اور کسی مال دار شخص کے ہاتھ میں دے دیا، صبح ہوئی تو لوگ بڑے تعجب سے باتیں کرنے لگے کہ رات کسی مال دار پر صدقہ کر دیا گیا، اس نے کہا: اے اللہ! ہر قسم کی حمد تیرے ہی لیے ہے، (میں نے) چور، زانیہ اور مال دار شخص پر (صدقہ کر دیا) اسے خواب میں بتایا گیا، تم نے جو چور پر صدقہ کیا تو ممکن ہے کہ وہ چوری کرنے سے باز آ جائے، رہی زانیہ تو ممکن ہے کہ وہ زنا کاری سے باز آ جائے، اور رہا مال دار شخص تو شاید کہ وہ عبرت حاصل کرے اور اللہ کے عطا کردہ مال میں سے خرچ کرے۔ بخاری، مسلم، اور الفاظ حدیث امام بخاری کے ہیں۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (1421) و مسلم (1022/78)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. انفاق فی سبیل اللہ کے فوائد
حدیث نمبر: 1877
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وعن ابي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «بينا رجل بفلاة من الارض فسمع صوتا في سحابة اسق حديقة فلان فتنحى ذلك السحاب فافرغ ماءه في حرة فإذا شرجة من تلك الشراج قد استوعبت ذلك الماء كله فتتبع الماء فإذا رجل قائم في حديقته يحول الماء بمسحاته فقال له يا عبد الله ما اسمك فقال له يا عبد الله لم تسالني عن اسمي فقال إني سمعت صوتا في السحاب الذي هذا ماؤه يقول اسق حديقة فلان لاسمك فما تص ع فيها قال اما إذ قلت هذا فإني انظر إلى ما يخرج منها فاتصدق بثلثه وآكل انا وعيالي ثلثا وارد فيها ثلثه» . رواه مسلم وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «بَيْنَا رَجُلٌ بِفَلَاةٍ مِنَ الْأَرْضِ فَسَمِعَ صَوْتًا فِي سَحَابَةٍ اسْقِ حَدِيقَةَ فُلَانٍ فَتَنَحَّى ذَلِكَ السَّحَابُ فَأَفْرَغَ مَاءَهُ فِي حَرَّةٍ فَإِذَا شَرْجَةٌ مِنْ تِلْكَ الشِّرَاجِ قَدِ اسْتَوْعَبَتْ ذَلِكَ الْمَاءَ كُلَّهُ فَتَتَبَّعَ الْمَاءَ فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ فِي حَدِيقَتِهِ يُحَوِّلُ الْمَاءَ بِمِسْحَاتِهِ فَقَالَ لَهُ يَا عَبْدَ اللَّهِ مَا اسْمُكَ فَقَالَ لَهُ يَا عَبْدَ اللَّهِ لِمَ تَسْأَلُنِي عَنِ اسْمِي فَقَالَ إِنِّي سَمِعْتُ صَوْتًا فِي السَّحَابِ الَّذِي هَذَا مَاؤُهُ يَقُول اسْقِ حَدِيقَةَ فُلَانٍ لِاسْمِكَ فَمَا تَصْ َعُ فِيهَا قَالَ أما إِذْ قُلْتَ هَذَا فَإِنِّي أَنْظُرُ إِلَى مَا يَخْرُجُ مِنْهَا فَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثِهِ وَآكُلُ أَنَا وَعِيَالِي ثُلُثًا وأرد فِيهَا ثلثه» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس اثنا میں ایک آدمی صحرا میں تھا کہ اس نے بادلوں میں ایک آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کو سیراب کرو، وہ بادل (وہاں سے) الگ ہوا اور اس نے اپنا پانی سنگریزوں والی زمین پر برسایا، تو ان نالیوں میں سے ایک نالی نے وہ سارا پانی سمیٹ لیا، پھر وہ آدمی پانی کے پیچھے پیچھے گیا تو دیکھا کہ ایک آدمی اپنے باغ میں کھڑا اپنی کسّی کے ذریعے پانی کے (بہاؤ کے) رخ بدل رہا ہے، اس آدمی نے اس سے دریافت کیا: اللہ کے بندے! تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے کہا: فلاں، اس نے بالکل وہی نام بتایا جو اس نے بادلوں میں سنا تھا، اس آدمی نے کہا: اللہ کے بندے! تم نے میرا نام کیوں پوچھا ہے؟ اس نے کہا: میں نے اس بادل میں، جس کا یہ پانی ہے، ایک آواز سنی کہ وہ تمہارا نام لے کر کہہ رہا تھا، فلاں شخص کے باغ کو سیراب کرو، تم اس میں کیا کرتے ہو؟ اس نے کہا: جو تم نے کہہ دیا، تو اب سنو، میں اس کی پیداوار کا تہائی حصہ صدقہ کرتا ہوں، تہائی حصہ میں اور میرے اہل و عیال کھاتے ہیں اور اس کا تہائی حصہ اس (باغ) پر خرچ کر دیتا ہوں۔ رواہ مسلم۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (2984/45)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. اندھے، کوڑھے اور گنجے کا قصّہ
حدیث نمبر: 1878
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وعن ابي هريرة انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إن ثلاثة في بني إسرائيل ابرص واقرع واعمى فاراد الله ان يبتليهم فبعث إليهم ملكا فاتى الابرص فقال اي شيء احب إليك قال لون حسن وجلد حسن ويذهب عني الذي قد قذرني الناس» قال: «فمسحه فذهب عنه قذره واعطي لونا حسنا وجلدا حسنا قال فاي المال احب إليك قال الإبل-او قال البقر شك إسحق-إلا ان الابرص او الاقرع قال احدهما الإبل وقال الآخر البقر قال فاعطي ناقة عشراء فقال بارك الله لك فيها» قال: «فاتى الاقرع فقال اي شيء احب إليك قال شعر حسن ويذهب عني هذا الذي قد قذرني الناس» . قال: فمسحه فذهب عنه واعطي شعرا حسنا قال فاي المال احب إليك قال البقر فاعطي بقرة حاملا قال: «بارك الله لك فيها» قال: «فاتى الاعمى فقال اي شيء احب إليك قال ان يرد الله إلي بصري فابصر به الناس» . قال: «فمسحه فرد الله إليه بصره قال فاي المال احب إليك قال الغنم فاعطي شاة والدا فانتج هذان وولد هذا قال فكان لهذا واد من الإبل ولهذا واد من البقر ولهذا واد من الغنم» . قال: «ثم إنه اتى الابرص في صورته وهيئته فقال رجل مسكين قد انقطعت بي الحبال في سفري فلا بلاغ لي اليوم إلا بالله ثم بك اسالك بالذي اعطاك اللون الحسن والجلد الحسن والمال بعيرا اتبلغ عليه في سفري فقال الحقوق كثيرة فقال له كاني اعرفك الم تكن ابرص يقذرك الناس فقيرا فاعطاك الله مالا فقال إنما ورثت هذا المال كابرا عن كابر فقال إن كنت كاذبا فصيرك الله إلى ما كنت» . قال: «واتى الاقرع في صورته فقال له مثل ما قال لهذا ورد عليه مثل ما رد على هذا فقال إن كنت كاذبا فصيرك الله إلى ما كنت» . قال: «واتى الاعمى في صورته وهيئته فقال رجل مسكين وابن سبيل انقطعت بي الحبال في سفري فلا بلاغ لي اليوم إلا بالله ثم بك اسالك بالذي رد عليك بصرك شاة اتبلغ بها في سفري فقال قد كنت اعمى فرد الله إلي بصري فخذ ما شئت ودع ما شئت فوالله لا اجهدك اليوم شيئا اخذته لله فقال امسك مالك فإنما ابتليتم فقد رضي عنك وسخط على صاحبيك» وَعَن أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ ثَلَاثَة فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ أَبْرَصَ وَأَقْرَعَ وَأَعْمَى فَأَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَبْتَلِيَهُمْ فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ مَلَكًا فَأَتَى الْأَبْرَصَ فَقَالَ أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ لَوْنٌ حَسَنٌ وَجِلْدٌ حَسَنٌ وَيَذْهَبُ عَنِّي الَّذِي قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ» قَالَ: «فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ عَنْهُ قَذَرُهُ وَأُعْطِيَ لَوْنًا حَسَنًا وَجِلْدًا حَسَنًا قَالَ فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ الْإِبِلُ-أَوْ قَالَ الْبَقر شكّ إِسْحَق-إِلَّا أَنَّ الْأَبْرَصَ أَوِ الْأَقْرَعَ قَالَ أَحَدُهُمَا الْإِبِلُ وَقَالَ الْآخَرُ الْبَقَرُ قَالَ فَأُعْطِيَ نَاقَةً عُشَرَاءَ فَقَالَ بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِيهَا» قَالَ: «فَأتى الْأَقْرَع فَقَالَ أَي شَيْء أحب إِلَيْك قَالَ شَعَرٌ حَسَنٌ وَيَذْهَبُ عَنِّي هَذَا الَّذِي قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ» . قَالَ: فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ عَنْهُ وَأُعْطِيَ شَعَرًا حَسَنًا قَالَ فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ الْبَقَرُ فَأُعْطِيَ بَقَرَةً حَامِلًا قَالَ: «بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِيهَا» قَالَ: «فَأَتَى الْأَعْمَى فَقَالَ أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ أَنْ يَرُدَّ اللَّهُ إِلَيَّ بَصَرِي فَأُبْصِرَ بِهِ النَّاسَ» . قَالَ: «فَمَسَحَهُ فَرَدَّ اللَّهُ إِلَيْهِ بَصَرَهُ قَالَ فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ الْغَنَمُ فَأُعْطِيَ شَاة والدا فأنتج هَذَانِ وَولد هَذَا قَالَ فَكَانَ لِهَذَا وَادٍ مِنِ الْإِبِلِ وَلِهَذَا وَادٍ مِنَ الْبَقَرِ وَلِهَذَا وَادٍ مِنَ الْغَنَمِ» . قَالَ: «ثُمَّ إِنَّهُ أَتَى الْأَبْرَصَ فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ فَقَالَ رَجُلٌ مِسْكِينٌ قَدِ انْقَطَعَتْ بِيَ الْحِبَالُ فِي سَفَرِي فَلَا بَلَاغَ لِيَ الْيَوْمَ إِلَّا بِاللَّهِ ثُمَّ بِكَ أَسْأَلُكَ بِالَّذِي أَعْطَاكَ اللَّوْنَ الْحسن وَالْجَلد الْحسن وَالْمَال بَعِيرًا أتبلغ عَلَيْهِ فِي سَفَرِي فَقَالَ الْحُقُوق كَثِيرَة فَقَالَ لَهُ كَأَنِّي أَعْرِفُكَ أَلَمْ تَكُنْ أَبْرَصَ يَقْذَرُكَ النَّاسُ فَقِيرًا فَأَعْطَاكَ اللَّهُ مَالًا فَقَالَ إِنَّمَا وَرِثْتُ هَذَا الْمَالَ كَابِرًا عَنْ كَابِرٍ فَقَالَ إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَصَيَّرَكَ اللَّهُ إِلَى مَا كُنْتَ» . قَالَ: «وَأَتَى الْأَقْرَعَ فِي صُورَتِهِ فَقَالَ لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ لِهَذَا وَرَدَّ عَلَيْهِ مِثْلَ مَا رَدَّ عَلَى هَذَا فَقَالَ إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَصَيَّرَكَ اللَّهُ إِلَى مَا كُنْتَ» . قَالَ: «وَأَتَى الْأَعْمَى فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ فَقَالَ رَجُلٌ مِسْكِينٌ وَابْنُ سَبِيلٍ انْقَطَعَتْ بِيَ الْحِبَالُ فِي سَفَرِي فَلَا بَلَاغَ لِيَ الْيَوْمَ إِلَّا بِاللَّهِ ثُمَّ بِكَ أَسْأَلُكَ بِالَّذِي رَدَّ عَلَيْكَ بَصَرَكَ شَاةً أَتَبَلَّغُ بِهَا فِي سَفَرِي فَقَالَ قَدْ كُنْتُ أَعْمَى فَرَدَّ اللَّهُ إِلَيَّ بَصَرِي فَخُذْ مَا شِئْتَ وَدَعْ مَا شِئْتَ فَوَاللَّهِ لَا أجهدك الْيَوْم شَيْئا أَخَذْتَهُ لِلَّهِ فَقَالَ أَمْسِكْ مَالَكَ فَإِنَّمَا ابْتُلِيتُمْ فقد رَضِي عَنْك وَسخط على صاحبيك»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: بنی اسرائیل کے تین آدمی تھے، برص میں مبتلا شخص، گنجا اور اندھا، اللہ نے انہیں آزمانے کا ارادہ فرمایا تو ان کی طرف ایک فرشتہ بھیجا، وہ برص کے مریض شخص کے پاس آیا تو کہا تمہیں کون سی چیز زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا: اچھا رنگ اور خوبصورت جلد، اور یہ بیماری مجھ سے ہٹا دی جائے، جس کی وجہ سے لوگ مجھے نا پسند کرتے ہیں، راوی بیان کرتے ہیں، اس نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اس کا مرض جاتا رہا، اور اسے بہترین رنگت اور بہترین جلد عطا کر دی گئی، اس (فرشتے) نے پوچھا: تمہیں کون سا مال زیادہ محبوب ہے؟ اس نے کہا: اونٹ یا اس نے کہا گائے۔ اسحاق راوی کو شک ہوا کہ برص کے مریض اور گنجے ان دونوں میں سے ایک نے اونٹ کہا اور دوسرے نے گائے کہا، فرمایا: اسے دس ماہ کی حاملہ اونٹنی دے دی گئی تو اس (فرشتے) نے کہا: اللہ ان کے بارے میں تمہیں برکت عطا فرمائے۔ راوی بیان کرتے ہیں: پھر وہ گنجے کے پاس گیا تو اس نے کہا: تمہیں کون سی چیز زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا: خوبصورت زلفیں اور مجھ سے یہ تکلیف دور کر دی جائے جس کی وجہ سے لوگ مجھے نا پسند کرتے ہیں۔ راوی نے کہا: اس نے اس پر ہاتھ پھیرا تو وہ تکلیف جاتی رہی، اسے خوبصورت زلفیں عطا کر دی گئیں، پھر اس نے پوچھا: تمہیں کون سا مال زیادہ محبوب ہے؟ اس نے کہا: گائے، اسے ایک حاملہ گائے دے دی گئی اور فرشتے نے کہا: اللہ اس میں تمہیں برکت عطا فرمائے، راوی نے کہا: پھر وہ نابینے شخص کے پاس گیا تو کہا: تمہیں کون سی چیز زیادہ محبوب ہے؟ اس نے کہا: اللہ مجھے میری بصارت لوٹا دے تاکہ میں اس کے ذریعے لوگوں کو دیکھ سکوں۔ راوی نے کہا: اس نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اللہ نے اسے اس کی بصارت لوٹا دی، پھر اس نے پوچھا: تمہیں کون سا مال زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا بکریاں، پھر اسے حاملہ بکری دے دی گئی، پھر اونٹ، گائے اور بکری نے بچے دیے، تو اس (برص والے) کے ہاں وادی بھر اونٹ ہو گئے، اس کے ہاں وادی بھر گائے ہو گئیں اور اس (نابینے) کے ہاں وادی بھر بکریاں ہو گئی۔ راوی بیان کرتے ہیں: پھر وہ (فرشتہ) اسی صورت و ہیئت میں برص میں مبتلا شخص کے پاس آیا تو اس نے کہا: مسکین آدمی ہوں، دوران سفر اسباب ختم ہو چکے ہیں، آج مجھے صرف اللہ کا سہارا ہے یا پھر میں تم سے اس ذات کے واسطے سے سوال کرتا ہوں، جس نے تجھے بہترین رنگت اور بہترین جلد اور مال عطا کیا، کہ تم مجھے ایک اونٹ دے دو جس کے ذریعے میں اپنی منزل پر پہنچ جاؤں گا، اس شخص نے کہا: حقوق بہت زیادہ ہیں، (کس کس کو دوں)، اس (فرشتے) نے کہا: ایسے لگتا ہے کہ میں تمہیں پہچانتا ہوں، کیا تم برص میں مبتلا نہیں تھے، لوگ تجھے نا پسند کرتے تھے اور تم فقیر تھے، اللہ نے تمہیں مال عطا کیا، اس شخص نے کہا: یہ مال تو مجھے آباؤو اجداد سے ملا ہے، اس فرشتے نے کہا: اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تمہیں پہلے کی طرح کر دے گا۔ راوی بیان کرتے ہیں: پھر وہ اپنی اسی صورت میں گنجے شخص کے پاس گیا تو اس نے اسے بھی وہی بات کہی جو اس نے اس (برص والے) سے کہی تھی، اور اس نے ویسے ہی جواب دیا جیسے اس شخص نے جواب دیا تھا، فرشتے نے کہا: اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تمہیں پھر پہلے کی طرح کر دے۔ راوی بیان کرتے ہیں: پھر وہ اپنی اسی صورت و ہیئت میں نابینے شخص کے پاس گیا تو کہا: مسکین آدمی اور مسافر ہوں، میرے دوران سفر اسباب منقطع ہو گئے ہیں، آج منزل تک پہنچنے کے لیے مجھے اللہ کا سہارا ہے، اور پھر میں تم سے اس ذات کا وسیلہ بنا کر سوال کرتا ہوں جس نے تمہاری بینائی لوٹائی کہ تم ایک بکری دے دو، جس کے ذریعے میں اپنی منزل پر پہنچ جاؤں گا، اس شخص نے کہا: یقیناً میں ایک نابینا شخص تھا، اللہ نے میری بینائی لوٹا دی، جو چاہو لے جاؤ اور چاہو چھوڑ جاؤ، اللہ کی قسم! آج جو کچھ تم اللہ کی خاطر اٹھاؤ گے اس پر میں تم پر کوئی سختی نہیں کروں گا، اس (فرشتے) نے کہا: اپنا مال اپنے پاس رکھو، تمہاری تو آزمائش کی گئی تھی، اللہ تعالیٰ تم پر راضی ہو گیا اور تیرے دو ساتھیوں پر ناراض ہو گیا۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (3464) و مسلم (2961/6)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. مانگنے والے کو خالی ہاتھ نہ لوٹائے
حدیث نمبر: 1879
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وعن ام بجيد قالت: قلت يا رسول الله إن المسكين ليقف على بابي حتى استحيي فلا اجد في بيتي ما ادفع في يده. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ادفعي في يده ولو ظلفا محرقا» . رواه احمد وابو داود والترمذي وَعَن أم بجيد قَالَتْ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ الْمِسْكِينَ لِيَقِفُ عَلَى بَابِي حَتَّى أَسْتَحْيِيَ فَلَا أَجِدُ فِي بَيْتِي مَا أَدْفَعُ فِي يَدِهِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ادْفَعِي فِي يَدِهِ وَلَوْ ظِلْفًا مُحْرَقًا» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُد وَالتِّرْمِذِيّ
ام بجید رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! مسکین میرے دروازے پر کھڑا ہو جاتا ہے حتیٰ کہ مجھے حیا آتی ہے کہ میں اس کے ہاتھ پر رکھنے کے لیے گھر میں کوئی چیز نہیں پاتی، تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے ہاتھ پر کچھ نہ کچھ رکھ دیا کرو خواہ جلا ہوا کھر ہی کیوں نہ ہو۔ احمد، ترمذی، ابوداؤد، اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ صحیح، رواہ احمد و ابوداؤد و الترمذی۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده صحيح، رواه أحمد (382/6. 383 ح 27689. 27691) و أبو داود (1667) والترمذي (665)»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
--. مانگنے والے کو کچھ دینا چاہئے
حدیث نمبر: 1880
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وعن مولى لعثمان رضي الله عنه قال: اهدي لام سلمة بضعة من لحم وكان النبي صلى الله عليه وسلم يعجبه اللحم فقالت للخادم: ضعيه في البيت لعل النبي صلى الله عليه وسلم ياكله فوضعته في كوة البيت. وجاء سائل فقام على الباب فقال: تصدقوا بارك الله فيكم. فقالوا: بارك الله فيك. فذهب السائل فدخل النبي صلى الله عليه وسلم فقال: «يا ام سلمة هل عندكم شيء اطعمه؟» . فقالت: نعم. قالت للخادم: اذهبي فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم بذلك اللحم. فذهبت فلم تجد في الكوة إلا قطعة مروة فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «فإن ذلك اللحم عاد مروة لما لم تعطوه السائل» . رواه البيهقي في دلائل النبوة وَعَن مولى لعُثْمَان رَضِي الله عَنهُ قَالَ: أُهْدِيَ لِأُمِّ سَلَمَةَ بُضْعَةٌ مِنْ لَحْمٍ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْجِبُهُ اللَّحْمُ فَقَالَتْ لِلْخَادِمِ: ضَعِيهِ فِي الْبَيْتِ لَعَلَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُهُ فَوَضَعَتْهُ فِي كَوَّةِ الْبَيْتِ. وَجَاءَ سَائِلٌ فَقَامَ عَلَى الْبَابِ فَقَالَ: تَصَدَّقُوا بَارَكَ اللَّهُ فِيكُمْ. فَقَالُوا: بَارَكَ اللَّهُ فِيكَ. فَذَهَبَ السَّائِلُ فَدَخَلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «يَا أَمَّ سَلَمَةَ هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ أَطْعَمُهُ؟» . فَقَالَتْ: نَعَمْ. قَالَتْ لِلْخَادِمِ: اذْهَبِي فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكِ اللَّحْمِ. فَذَهَبَتْ فَلَمْ تَجِدْ فِي الْكَوَّةِ إِلَّا قِطْعَةَ مَرْوَةٍ فَقَالَ النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: «فَإِن ذَلِك اللَّحْمَ عَادَ مَرْوَةً لِمَا لَمْ تُعْطُوهُ السَّائِلَ» . رَوَاهُ الْبَيْهَقِيّ فِي دَلَائِل النُّبُوَّة
عثمان رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام بیان کرتے ہیں، ام سلمہ رضی اللہ عنہ کو گوشت کا ایک ٹکڑا بطور ہدیہ پیش کیا گیا جبکہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو گوشت پسند تھا، تو انہوں نے خادمہ سے فرمایا: اسے گھر میں رکھو شاید کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسے تناول فرمائیں، اس نے اسے گھر کے طاق میں رکھا، اور اتنے میں سائل دروازے پر آ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا: اللہ تمہیں برکت عطا فرمائے، صدقہ کرو۔ اہل خانہ نے بھی کہا: اللہ تمہیں برکت عطا فرمائے (یعنی تمہارا بھلا ہو)، وہ سائل چلا گیا، تو نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لے آئے، آپ نے فرمایا: ام سلمہ! کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے کہ میں اسے کھا لوں؟ انہوں نے عرض کیا، جی ہاں، اور خادمہ سے فرمایا: جاؤ اور رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے وہ گوشت لاؤ، وہ گئی تو وہاں طاق میں (گوشت کے بجائے) صرف ایک سفید پتھر پڑا ہوا تھا، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ گوشت، سفید پتھر بن گیا، تم نے اسے سائل کو کیوں نہ دیا؟ ضعیف۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف، رواه البيھقي في دلائل النبوة (300/6)
٭ مولي لعثمان: مجھول، والجريري اختلط و علي بن عاصم: ضعيف، و من دونه نظر و له شاھد ضعيف جدًا عند البيھقي في الدلائل (297/6) فيه خارجة بن مصعب: متروک و حديث (1860) يغني عنه.»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
--. سب سے بدتر انسان
حدیث نمبر: 1881
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وعن ابن عباس رضي الله عنهما قالت: قال النبي صلى الله عليه وسلم: الا اخبركم بشر الناس منزلا؟ قيل: نعم قال: الذي يسال بالله ولا يعطي به. رواه احمد وَعَن ابْن عَبَّاس رَضِي الله عَنْهُمَا قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِشَرِّ النَّاسِ مَنْزِلًا؟ قِيلَ: نَعَمْ قَالَ: الَّذِي يُسْأَلُ بِاللَّهِ وَلَا يُعْطِي بِهِ. رَوَاهُ أَحْمد
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں مقام و مرتبہ کے لحاظ سے بدترین شخص کے بارے میں نہ بتاؤں؟ عرض کیا گیا، جی ہاں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس سے اللہ کے نام پر سوال کیا جائے اور وہ نہ دے۔ اسنادہ حسن، رواہ احمد۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده حسن، رواه أحمد (319 ح 2931. 2932) [والترمذي (1652 وقال: حسن غريب.) والنسائي (83/5. 84 ح 2570) و له شاھد عند أحمد (226/1، 311)]»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

Previous    7    8    9    10    11    12    13    14    15    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.