الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
حدود کے مسائل
1. باب: «رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلاَثَةٍ» .
1. تین آدمی مرفوع القلم ہیں
حدیث نمبر: 2333
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عفان، حدثنا حماد بن سلمة، حدثنا حماد، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال: "رفع القلم عن ثلاثة: عن النائم حتى يستيقظ، وعن الصغير حتى يحتلم، وعن المجنون حتى يعقل". وقد قال حماد ايضا:"وعن المعتوه حتى يعقل".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ: عَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، وَعَنِ الصَّغِيرِ حَتَّى يَحْتَلِمَ، وَعَنِ الْمَجْنُونِ حَتَّى يَعْقِلَ". وَقَدْ قَالَ حَمَّادٌ أَيْضًا:"وَعَنْ الْمَعْتُوهِ حَتَّى يَعْقِلَ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین اشخاص سے قلم اٹھا دی گئی ہے (یعنی ان کی نیکی بدی پر مواخذہ نہیں) سونے والے سے جاگنے تک، بچے سے بالغ ہونے تک، اور دیوانے سے جب تک اس کو عقل نہ آئے۔
حماد نے دوسری روایت میں مجنوں کے بجائے معتوہ کہا ہے، معنی دونوں کا ایک ہے، یعنی پاگل یا دیوانہ، یہاں تک کہ اس کو عقل آ جائے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2342]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4398]، [نسائي 3432]، [ابن ماجه 2041]، [أبويعلی 4400]، [ابن حبان 4331]، [الموارد 1496]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2332)
حدود سے مراد وہ سزائیں ہیں جو معلوم گناہوں پر متعین و مقرر ہیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ان تین اشخاص سے جو بھی بھلا برا کام سرزد ہو وہ لکھا نہیں جاتا ہے اور الله تعالیٰ کے یہاں اس کا حساب و کتاب نہیں، اس واسطے نہ ان پر حد جاری کی جائے گی اور نہ طلاق و بیع واقع ہوگی، پس جو شخص سونے میں یا جنون کی حالت میں طلاق یا عتاق دے یا اور کوئی نیک یا بد کام کر ڈالے تو اس کا مواخذہ اس سے نہ ہوگا۔
امام دارمی رحمہ اللہ نے کتاب الحدود میں یہ حدیث نقل کر کے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ ان تینوں اشخاص پر حد بھی جاری نہ ہوگی۔
اور ان کے برعکس اشخاص یعنی جاگنے والا، بالغ اور صحیح العقل اگر کوئی گناہ کرے تو مواخذہ ہوگا اور حد جاری کی جائے گی، اگر طلاق دی ہے یا آزادی کا حکم کیا ہے تو وہ نافذ العمل ہوگا۔
طلاق بھی پڑ جائے گی اور غلام آزاد بھی ہوگا، اور حد سے مراد وہ گناہ ہیں جن کی سزا دنیا میں مقرر کردی گئی ہے جیسے زنا، چوری، ڈاکہ زنی، ارتداد، قتل، تہمت، شراب نوشی وغیرہ، ان سب کا بیان آگے آ رہا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
2. باب مَا يَحِلُّ بِهِ دَمُ الْمُسْلِمِ:
2. جن چیزوں سے مسلمان کا قتل کرنا جائز ہو جاتا ہے
حدیث نمبر: 2334
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، عن يحيى بن سعيد، عن ابي امامة بن سهل بن حنيف، عن عثمان، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: "لا يحل دم امرئ مسلم إلا بإحدى ثلاث: بكفر بعد إيمان، او بزنى بعد إحصان، او يقتل نفسا بغير نفس فيقتل".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، عَنْ عُثْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: بِكُفْرٍ بَعْدَ إِيمَانٍ، أَوْ بِزِنًى بَعْدَ إِحْصَانٍ، أَوْ يَقْتُلُ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ فَيُقْتَلُ".
امیر المومنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے: مسلمان کا خون کرنا درست نہیں مگر تین باتوں میں سے ایک کے سبب، ایک تو ایمان کے بعد کفر کے سبب (یعنی مسلمان ہونے کے بعد پھر کافر ہو جائے)، یا شادی کے بعد زنا کرے (اس کو سنگسار کیا جائے گا)، یا وہ شخص جو ناحق کسی کو قتل کرے وہ قصاص میں قتل کیا جائے گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2343]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4502]، [ترمذي 2158]، [نسائي 4031]، [ابن ماجه 2533]، [ابن الجارود 836، وغيرهم]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2335
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى، حدثنا الاعمش، عن عبد الله بن مرة، عن مسروق، عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا يحل دم رجل يشهد ان لا إله إلا الله، واني رسول الله إلا احد ثلاثة نفر: النفس بالنفس، والثيب الزاني، والتارك لدينه، المفارق للجماعة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَحِلُّ دَمُ رَجُلٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَّا أَحَدُ ثَلَاثَةِ نَفَرٍ: النَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالتَّارِكُ لِدِينِهِ، الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی بھی آدمی کا خون حلال نہیں ہے جو شہادت دیتا ہو کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور میں الله کا رسول ہوں مگر تین شخص (چاہے وہ مسلمان ہوں تب بھی) اس سے مستثنی ہیں۔ جان کے بدلے جان، شادی شدہ زنا کار، اور اپنے دین کو چھوڑ کر مسلمانوں کی جماعت سے جدا ہونے والا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2344]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6878]، [مسلم 1676]، [أبوداؤد 4352]، [ترمذي 1402]، [نسائي 4027]، [ابن ماجه 2534]، [أبويعلی 5202]، [ابن حبان 4407]، [الحميدي 119، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2333 سے 2335)
ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ جو بھی مسلمان ان کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرے گا وہ حلال الدم ہے اور اس کو سزا دی جائے گی، کوئی مسلمان کسی بھی مسلمان کو جان بوجھ کر اگر قتل کرے گا تو بدلے میں اس کا بھی سر قلم کر دیا جائے گا، اسی طرح مسلمان بہن بیٹیوں کی عزت و آبرو کو تار تار کرنے والا شادی شدہ ہے تو اس کا خون حلال ہے اسے سنگسار کر دیا جائے گا، اور غیر شادی شدہ کو سو (100) کوڑے لگائے جائیں گے، اسی طرح جو مسلمان مرتد ہو جائے تو اس کا خون بہانا جائز و درست ہے اور ایسا شخص کافر اور مسلمانوں کی جماعت سے خارج ہے اسے قتل کر دیا جائے گا، معلوم ہوا کہ قتل، زنا اور کفر اتنے سنگین جرائم ہیں کہ ان کا ارتکاب کرنے والا چاہے لا الٰہ الا الله محمد رسول اللہ کا قائل ہو پھر بھی قتل کر دیا جائے گا۔
سعودی عرب میں ان امور پر عمل ہوتا ہے اور شریعت کے مطابق ان گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا دی جاتی ہے جس کی برکت سے یہاں امن و امان قائم اور جان و مال قدرے محفوظ ہیں۔
«أدام اللّٰه هذه البركات فى هذه البلاد الطاهرة.» آمین۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
3. باب السَّارِقِ يُوهَبُ مِنْهُ السَّرِقَةُ بَعْدَ مَا سَرَقَ:
3. چوری کا مال برآمد کرنے کے بعد چور کو چھوڑ دیا جائے؟
حدیث نمبر: 2336
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سعد بن حفص، حدثنا شيبان، عن اشعث، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: كان صفوان بن امية نائما في المسجد، فاتاه رجل وهو نائم، فاستل رداءه من تحت راسه، فتنبه به، فلحقه فاخذه فانطلق به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، كنت نائما في المسجد، فاتاني هذا فاستل ردائي من تحت راسي، فلحقته فاخذته، فامر بقطعه، فقال له صفوان: يا رسول الله، إن ردائي لم يبلغ ان يقطع فيه هذا؟ قال: "فهلا، قبل ان تاتيني به؟".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعْدُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ صَفْوَانُ بْنُ أُمَيَّةَ نَائِمًا فِي الْمَسْجِدِ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ وَهُوَ نَائِمٌ، فَاسْتَلَّ رِدَاءَهُ مِنْ تَحْتِ رَأْسِهِ، فتَنَبَّهَ بِهِ، فَلَحِقَهُ فَأَخَذَهُ فَانْطَلَقَ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كُنْتُ نَائِمًا فِي الْمَسْجِدِ، فَأَتَانِي هَذَا فَاسْتَلَّ رِدَائِي مِنْ تَحْتِ رَأْسِي، فَلَحِقْتُهُ فَأَخَذْتُهُ، فَأَمَرَ بِقَطْعِهِ، فَقَالَ لَهُ صَفْوَانُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ رِدَائِي لَمْ يَبْلُغْ أَنْ يُقْطَعَ فِيهِ هَذَا؟ قَالَ: "فَهَلَّا، قَبْلَ أَنْ تَأْتِيَنِي بِهِ؟".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: (سیدنا) صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ مسجد میں سوئے ہوئے تھے کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا اور ان کے سر کے نیچے سے ان کی چادر کھینچ لے گیا تو صفوان جاگ گئے، اس کے پیچھے دوڑے اور اس چور کو پکڑ لیا اور اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں مسجد میں سویا ہوا تھا یہ شخص آیا اور میرے سر کے نیچے سے میری چادر کھینچ لے گیا، میں نے بھاگ کر اس کو پکڑ لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر اس (چور) کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تو سیدنا صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری چادر اتنی قیمتی نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے اس غریب کا ہاتھ کاٹا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر معاف کرنا تھا تو میرے پاس اس کو لانے سے پہلے ہی کر دیا ہوتا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف أشعث وهو: ابن سوار، [مكتبه الشامله نمبر: 2345]»
اس روایت کی سند اشعث بن سوار کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن دوسری اسانید سے یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4394]، [نسائي 4893، 4896، 4898]، [أحمد 466/6]، [طبراني 55/8، 7326، 7327]، [الحاكم 380/4، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2335)
چوری کرنا حرام ہے اور جو شخص مالِ محفوظ کی قیمتی چیز چرائے قرآنی حکم کے مطابق اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا: « ﴿وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا ....﴾ [المائده: 38] » لیکن اس کے لئے شرط ہے کہ قیمتی چیز ہو اور محفوظ جگہ سے چرائی گئی ہو۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب معاملہ قاضی یا حاکم تک پہنچ جائے اور جرم ثابت ہو جائے تو پھر اس پر حد جاری کی جائے گی، اور اگر صاحبِ مال حاکم کے پاس جانے سے پہلے چور کو معاف کر دے تو اس پر حد جاری نہیں ہوگی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا صفوان رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ میرے پاس آنے سے پہلے معاف کیوں نہیں کر دیا تھا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف أشعث وهو: ابن سوار
4. باب مَا تُقْطَعُ فِيهِ الْيَدُ:
4. کتنی قیمت کی چیز میں ہاتھ کاٹا جائے گا؟
حدیث نمبر: 2337
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سليمان بن داود الهاشمي، اخبرنا إبراهيم بن سعد، عن الزهري، عن عمرة بنت عبد الرحمن، عن عائشة: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "تقطع اليد في ربع دينار فصاعدا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْهَاشِمِيُّ، أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "تُقْطَعُ الْيَدُ فِي رُبْعِ دِينَارٍ فَصَاعِدًا".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ پر (چور کا) ہاتھ کاٹا جائے گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2346]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6789]، [مسلم 1686]، [أبوداؤد 4383]، [ترمذي 1445]، [نسائي 4931]، [ابن ماجه 2585]، [أبويعلی 5833]، [ابن حبان 4461]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2336)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ربع دینار یا اس سے زیادہ قیمت کی چیز چرانے پر ہاتھ کاٹا جائے گا۔
تفصیل آگے آ رہی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 2338
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا سفيان، عن ايوب، وإسماعيل بن امية، وعبيد الله، وموسى بن عقبة، عن نافع، عن ابن عمر، قال: "قطع رسول الله صلى الله عليه وسلم في مجن قيمته ثلاثة دراهم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَيُّوبَ، وَإِسْمَاعِيل بْنِ أُمَيَّةَ، وَعُبَيْدِ اللَّهِ، وَمُوسَى بْنِ عُقْبَة، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: "قَطَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مِجَنٍّ قِيمَتُهُ ثَلَاثَةُ دَرَاهِمَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈھال میں ہاتھ کاٹا جس کی قیمت تین درہم تھی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2347]»
اس روایت کی سند صحیح اورحدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6795]، [مسلم 1686]، [أبوداؤد 4385]، [نسائي 4923]، [أبويعلی 5833]، [ابن حبان 4461، 4464]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2337)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جب تک نصابِ سرقہ مکمل نہ ہو چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، جمہور علماء کرام کی یہی رائے ہے۔
کچھ علماء نے قلیل و کثیر ہر چوری پر قطعِ ید کی سزا کو واجب قرار دیا ہے جو صحیح نہیں۔
اس سلسلے میں مذکورہ بالا حدیث صریح اور واضح ہے، جس سے آیتِ شریفہ: « ﴿وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا﴾ » کی تحدید و تخصیص ہو جاتی ہے۔
پھر نصاب کے بارے میں مختلف اقوال ہیں جن میں زیادہ مشہور یہ دو قول ہیں:
(1) پہلا یہ کہ سونے میں نصاب ایک دینار کا چوتھا حصہ، اور چاندی میں تین درہم۔
امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ کا یہی قول ہے۔
(2) دوسرا قول یہ ہے کہ دس درہم نصاب ہے، اس سے کم میں قطع ید کی سزا نہیں دی جاسکتی، سفیان ثوری و احناف کا یہ قول ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ نے مذکورہ بالا متفق علیہ احادیث سے استدلال کیا ہے کہ ایک دینار کا وزن چار ماشہ سونا، اور درہم ساڑھے تین ماشہ چاندی گویا چوتھائی دینار، اور تین درہم ہم وزن ہیں، اس سے کم قیمت چوری پر قطع ید کی سزا نافذ نہیں ہوگی، سونے یا چاندی کے علاوہ کسی چیز کی چوری کرے تو اس کا نصاب تین درہم کے حساب سے ہوگا، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وغیرہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے استدلال کیا ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈھال پر جس کی قیمت دس درہم تھی چور کا ہاتھ کاٹا۔
یہ روایت اولاً تو تین درہم والی روایت کے خلاف نہیں، کیونکہ ہو سکتا ہے ایک بار تین درہم کی ڈھال پر اور دوسری بار دس درہم کی قیمت کی ڈھال پر ہاتھ کاٹا، اس سے کم سے کم نصاب معلوم ہوا، نیز دس درہم والی روایت متفق علیہ ربع دینار یا تین درہم کے مقابلے میں کم درجہ کی ہے اس لئے امام شافعی رحمہ اللہ کا مذہب و مسلک ہی راجح اور قوی ہے۔
والله اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
5. باب الشَّفَاعَةِ في الْحَدِّ دُونَ السُّلْطَانِ:
5. حاکم کے پاس حدود کے سلسلے میں سفارش کا بیان
حدیث نمبر: 2339
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا احمد بن عبد الله، حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن عروة بن الزبير، عن عائشة: ان قريشا اهمهم شان المراة المخزومية التي سرقت، فقالوا: من يكلم فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم؟، قالوا: ومن يجترئ عليه إلا اسامة بن زيد حب رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فكلمه اسامة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"اتشفع في حد من حدود الله؟"ثم قام فاختطب، فقال: "إنما هلك الذين قبلكم انهم كانوا إذا سرق فيهم الشريف، تركوه، وإذا سرق فيهم الضعيف، اقاموا عليه الحد، وايم الله، لو ان فاطمة بنت محمد سرقت، لقطعت يدها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ قُرَيْشًا أَهَمَّهُمْ شَأْنُ الْمَرْأَةِ الْمَخْزُومِيَّةِ الَّتِي سَرَقَتْ، فَقَالُوا: مَنْ يُكَلِّمُ فِيهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، قَالُوا: وَمَنْ يَجْتَرِئُ عَلَيْهِ إِلَّا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ حِبُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَكَلَّمَهُ أُسَامَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"أَتَشْفَعُ فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ؟"ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ، فَقَالَ: "إِنَّمَا هَلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهُمُ الشَّرِيفُ، تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الضَّعِيفُ، أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ، وَايْمُ اللَّهِ، لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ، لَقَطَعْتُ يَدَهَا".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مخزومی عورت کا معاملہ جس نے چوری کی تھی قریش کے نزدیک اہمیت اختیار کر گیا اور انہوں نے کہا: اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کون گفتگو کرے؟ پھر انہوں نے کہا: اس کی جرأت سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے علاوہ کون کر سکے گا؟ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے ہیں، چنانچہ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم الله کی حدود میں سفارش کرنے آئے ہو؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اے لوگو! تم سے پہلے کے لوگ اس لئے برباد ہو گئے کہ جب ان میں کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے لیکن اگر کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے تھے، اللہ کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی چوری کی ہوتی تو میں اس کا ہاتھ ضرور کاٹ دیتا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2348]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2648، 6788]، [مسلم 1688]، [أبوداؤد 4374]، [ترمذي 1430]، [نسائي 4914]، [ابن ماجه 2547]، [أبويعلی 4549]، [ابن حبان 4402]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2338)
یہ حدیث اس پر واضح دلیل ہے کہ حدود میں کسی کی سفارش کرنا جائز نہیں، سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ گرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے اور محبوب تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ حدود میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت الفاظ میں ان سے کہہ دیا کہ یہ کیا تم اللہ کی حدود میں سفارش کر رہے ہو، اور ان کی سفارش کو رد کر دیا، یہی نہیں بلکہ خطبہ دیا اور ببانگِ دہل فرمایا کہ پہلی امتوں کی ہلاکت و بربادی کا سبب یہی تھا کہ وہ جس کو چاہتے جکڑ لیتے اور حد جاری کرتے اور جسے چاہے چھوڑ دیتے تھے۔
قربان جائیں نبیٔ رحمت و نبیٔ عدل و انصاف کے اوپر، فرمایا: میری سب سے چہیتی چھوٹی بیٹی فاطمہ بھی اگر چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دوں گا۔
سبحان اللہ! کیا شانِ اطاعت گذاری اور رب کے احکامات کی پابندی ہے، گرچہ سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا سے ایسا فعل سرزد ہونا محال تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مثال دے کر فرمایا کہ اگر وہ بھی ایسا کریں تو اللہ کے حکم کی تنفیذ میں کوئی تردد نہیں کروں گا۔
«صلى اللّٰه على محمد وعلى آله وصحبه وسلم تسليمًا كثيرًا كثيرا.»

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
6. باب الْمُعْتَرِفِ بِالسَّرِقَةِ:
6. چوری کا اعتراف کرنے والے کے ساتھ سلوک کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2340
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا حجاج بن منهال، حدثنا حماد بن سلمة، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، عن ابي المنذر مولى ابي ذر، عن ابي امية المخزومي، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتي بسارق اعترف اعترافا، لم يوجد معه متاع، فقال: "ما إخالك سرقت؟"قال: بلى، قال:"ما إخالك سرقت؟"قال: بلى، قال:"فاذهبوا فاقطعوا يده ثم جيئوا به"فقطعوا يده، ثم جاءوا به، فقال:"استغفر الله وتب إليه"، فقال: استغفر الله واتوب إليه، فقال:"اللهم تب عليه، اللهم تب عليه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي الْمُنْذِرِ مَوْلَى أَبِي ذَرٍّ، عَنْ أَبِي أُمَيَّةَ الْمَخْزُومِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِسَارِقٍ اعْتَرَفَ اعْتِرَافًا، لَمْ يُوجَدْ مَعَهُ مَتَاعٌ، فَقَالَ: "مَا إِخَالُكَ سَرَقْتَ؟"قَالَ: بَلَى، قَالَ:"مَا إِخَالُكَ سَرَقْتَ؟"قَالَ: بَلَى، قَالَ:"فَاذْهَبُوا فَاقْطَعُوا يَدَهُ ثُمَّ جِيئُوا بِهِ"فَقَطَعُوا يَدَهُ، ثُمَّ جَاءُوا بِهِ، فَقَالَ:"اسْتَغْفِرِ اللَّهَ وَتُبْ إِلَيْهِ"، فَقَالَ: أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ، فَقَالَ:"اللَّهُمَّ تُبْ عَلَيْهِ، اللَّهُمَّ تُبْ عَلَيْهِ".
سیدنا ابوامیہ مخزومی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک چور کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا جس نے چوری کا اعتراف کر لیا لیکن چوری کا مال اس کے پاس سے برآمد نہ ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ تو نے چوری نہیں کی؟ وہ بولا: نہیں میں نے چوری کی ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں سمجھتا ہوں تو نے چوری نہیں کی؟ اس نے عرض کیا: میں نے چوری کی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعتراف کے بعد فرمایا: اسے لیجاؤ اور اس کا ہاتھ کاٹ دو، پھر اسے میرے پاس لے کر آنا۔ چنانچہ صحابہ کرام نے اس کا ہاتھ کاٹا اور اسے لے کر حاضرِ خدمت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الله تعالیٰ سے بخشش کی دعا مانگو اور اس سے توبہ کرو، اس شخص نے مغفرت طلب کی اور اللہ سے توبہ کی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! اسے معاف کر دے، اے اللہ! اسے معاف کر دے۔

تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 2349]»
یہ حدیث متعدد طرق سے مروی ہے اور بعض اسانید صحیح ہیں۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4380]، [نسائي 4892]، [ابن ماجه 2597]، [طبراني 360/22، 905]، [أحمد 293/5]، [معرفة السنن و الآثار للبيهقي 17228]، [الحاكم 381/4، وقال هذا حديث على شرط مسلم ولم يخرجاه]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2339)
اس حدیث میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے چور کے اعترافِ جرم کرنے پر بھی فرمایا کہ میرا خیال ہے تم نے چوری نہیں کی، یہ غالباً اس لئے فرمایا تھا کہ وہ شخص اپنے نفس پر رحم کرے اور اپنے گناہ کو ظاہر نہ کرے اور الله تعالیٰ سے بصدق و صفا توبہ کرے، اور ہر جرم و حد کا یہی حکم ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ظاہر نہ کرے تو توبہ و استغفار کرنا چاہیے اور حاکم کو بھی چاہیے کہ مجرم کی اچھی رہنمائی کرے، اور مناسب تعلیم دے، اور توبہ و استغفار کی تلقین کرے، پھر حد جاری کرے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حسنِ تعامل دیکھئے: توبہ و استغفار کراتے ہیں پھر باری تعالیٰ سے التجا کرتے ہیں، اے الله اس کی توبہ قبول کر لے، اس کو معاف کر دے۔
نیز اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چوری کا مال برآمد نہ ہو تو چور سے عدالت دو بار اعتراف کرائے گی، لیکن اکثر علماء نے کہا کہ ایک بار کا اعتراف ہی کافی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق
7. باب مَا لاَ يُقْطَعُ فِيهِ مِنَ الثِّمَارِ:
7. پھل فروٹ کی چوری میں ہاتھ نہ کاٹے جانے کا بیان
حدیث نمبر: 2341
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا يحيى هو ابن سعيد، ان محمد بن يحيى بن حبان اخبره، عن رافع بن خديج، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: "لا قطع في ثمر ولا كثر".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ أَخْبَرَهُ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "لَا قَطْعَ فِي ثَمَرٍ وَلَا كَثَرٍ".
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ: پھل اور خوشے کی چوری میں قطع ید نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2350]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4388]، [نسائي 4976]، [طبراني 260/4، 4339]، [ابن حبان 4466]، [الموارد 1505]، [الحميدي 411]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2342
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا الحسين بن منصور، حدثنا ابو اسامة، عن يحيى بن سعيد، عن محمد بن يحيى بن حبان، عن رجل من قومه، عن رافع بن خديج، عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال: "لا قطع في ثمر ولا كثر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "لَا قَطْعَ فِي ثَمَرٍ وَلَا كَثَرٍ".
اس سند سے بھی مثلِ سابق مروی ہے۔ حدیث کا ترجمہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه جهالة وأبو أسامة هو: حماد بن أسامة وأخرجه النسائي، [مكتبه الشامله نمبر: 2351]»
اس حدیث کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ اس کی سند میں ابواسامہ کا نام: حماد بن اسامہ ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 2340 سے 2342)
کھجور کے درخت کا گوند جو چربی کی طرح رنگ میں سفید اور ذائقہ دار و مزہ میں گری کی طرح، کھجور کے تنے کے وسط میں پایا جاتا ہے اور کھایا جاتا ہے، اس کو «كثر» کہتے ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه جهالة وأبو أسامة هو: حماد بن أسامة وأخرجه النسائي

1    2    3    4    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.