الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
حدود کے مسائل
حدیث نمبر: 2343
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا إسحاق، حدثنا وكيع، عن سفيان، عن يحيى بن سعيد، عن محمد بن يحيى بن حبان، عن عمه واسع بن حبان، عن رافع بن خديج، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا قطع في ثمر ولا كثر".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ عَمِّهِ وَاسِعِ بْنِ حَبَّانَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا قَطْعَ فِي ثَمَرٍ وَلَا كَثَرٍ".
اس سند سے بھی مثلِ سابق مروی ہے۔ حدیث کا ترجمہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2352]»
اس حدیث کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ نیز یہ کہ اس کی سند میں ضعف ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2344
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا سفيان، عن يحيى بن سعيد، عن محمد بن يحيى بن حبان، عن رافع بن خديج، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ.
اس سند سے بھی مثلِ سابق مروی ہے۔ حدیث کا ترجمہ اوپر گذر چکا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2353]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ تخریج اس باب کی پہلی حدیث میں ملاحظہ فرمائیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2345
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا إسحاق، حدثنا جرير، والثقفي، عن يحيى بن سعيد، اخبرني محمد بن يحيى بن حبان، عن رافع بن خديج، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم , يقول: "لا قطع في ثمر ولا كثر". قال: وهو شحم النخل. والكثر: الجمار.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، وَالثَّقَفِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: "لَا قَطْعَ فِي ثَمَرٍ وَلَا كَثَرٍ". قَالَ: وَهُوَ شَحْمُ النَّخْلِ. وَالْكَثَرُ: الْجُمَّارُ.
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: پھل اور خوشے کی چوری میں ہاتھ کاٹا نہ جائے، راوی نے کہا: کھجور کے اندر جو سفید جھلی ہوتی ہے اسے کثر کہتے ہیں اور کثر وہ خوشہ ہے جو کھجور کے درخت میں ہوتا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو مكرر سابقه، [مكتبه الشامله نمبر: 2354]»
اس روایت کی سند صحیح اور تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو مكرر سابقه
حدیث نمبر: 2346
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن منصور، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن يحيى بن سعيد، عن محمد بن يحيى بن حبان، عن ابي ميمون، عن رافع بن خديج، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: "لا قطع في كثر". قال ابو محمد: القول ما قال ابو اسامة.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ أَبِي مَيْمُونٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "لَا قَطْعَ فِي كَثَرٍ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: الْقَوْلُ مَا قَالَ أَبُو أُسَامَةَ.
اس حدیث کا ترجمہ بھی اوپر گذر چکا ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: ابواسامہ (ان کا نام حماد بن اسامہ ہے) نے جو کہا وہی صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده فيه مجهول، [مكتبه الشامله نمبر: 2355]»
اس حدیث کی تخریج اوپر گذرچکی ہے۔ اس میں ابومیمون غیر معروف ہیں لیکن حدیث صحیح ہے۔ حاکم و بیہقی نے بھی اسے روایت کیا ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 2342 سے 2346)
مذکورہ بالا تمام روایات سے یہ ثابت ہوا کہ آدمی اگر ضرورت بھر پھل اور میوے کھا لے تو اس کا ہاتھ کاٹا نہیں جائے گا، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا یہی قول ہے کہ کھجور، میوے، ترکاریاں، لکڑی یا گھاس کی چوری میں قطع ید نہیں ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا: اگر یہ چیزیں محفوظ مقام پر ہیں جیسے باغ کے اندر یا مکان میں اور کسی نے وہاں سے ان تمام چیزوں کی چوری کی تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔
اہلِ حدیث کا بھی مذہب یہی ہے کہ میوہ اور پھل فروٹ اور کھجور کے گابھا کی چوری میں قطع ید نہیں ہے جب تک کہ یہ چیزیں سوکھنے کے لئے محفوظ مقام میں نہ رکھی جائیں، اور شرط یہ ہے کہ چور صرف کھا لے، گود میں بھر کر نہ لے جائے، اگر ایسا کرے گا تو اس کی قیمت کا ڈبل جرمانہ ادا کرنا ہوگا اور سزا بھی ملے گی۔
(وحیدی)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده فيه مجهول
8. باب مَا لاَ يُقْطَعُ مِنَ السُّرَّاقِ:
8. چوری کرنے والوں میں سے جس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے اس کا بیان
حدیث نمبر: 2347
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، عن ابن جريج، قال: انبانا ابو الزبير، قال جابر: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ليس على المنتهب، ولا على المختلس، ولا على الخائن قطع".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ، قَالَ جَابِرٌ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَيْسَ عَلَى الْمُنْتَهِبِ، وَلَا عَلَى الْمُخْتَلِسِ، وَلَا عَلَى الْخَائِنِ قَطْعٌ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُچک کر لے جانے والے، اور چھین کر لے جانے والے، اور خیانت کرنے والے کے لئے قطع ید کی سزا نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «حديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2356]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4391]، [ترمذي 1448]، [نسائي 4987]، [ابن ماجه 2591]، [ابن حبان 4456]، [الموارد 1502]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2346)
«منتهب على الاعلان جبرًا» بزورِ بازو کسی سے مال چھین لینے والے کو کہتے ہیں (یعنی ڈاکو)، اور «مختلس»: گرہ کٹ کو کہتے ہیں جو اچانک کسی سے بٹوہ وغیرہ چھین اور جھپٹ کر رفو چکر ہو جائے، اور خائن وہ ہے کہ اس کے سپرد کوئی چیز ادھار یا امانت کے طور پر رکھی جائے اور وہ اس کا انکار کر دے یا بہانہ بنا دے کہ ضائع ہو گئی اور ہڑپ کر جائے، نیز مالک کے مال میں سے کچھ چرا لینا اور اپنے آپ کو چاپلوسی کر کے امانت دار ظاہر کرنا بھی خائن کی تعریف میں آتا ہے۔
ان تینوں افراد کے ہاتھ نہیں کاٹے جائیں گے لیکن قید اور کوڑے وغیرہ کی قرارِ واقعی سزا دی جائے گی تاکہ ان جرائم سے دور رہیں کیونکہ ڈاکہ زنی، جیب کترنا، اور خیانت سب بڑے جرم ہیں اور معاشرے میں اس سے افراتفری پھیلتی ہے، لہٰذا ان کو سزا ضرور دی جائے گی۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بزورِ بازو زبردستی مال چھین کر لے جانے والا، یا اچانک جھپٹا مار کر لے جانے والا اور خائن کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، کچھ علماء نے خیانت کرنے والے اور جیب کترے یا گرہ کٹ کے بارے میں کہا کہ ان کا ہاتھ کاٹا جائے گا کیونکہ یہ چوری کی حد میں آتا ہے، بہرحال اگر مال محفوظ جگہ سے چوری کیا اور وہ ربع دینار سے زیادہ مالیت کا ہو، اور عدالت میں آئے تو ایسے شخص کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔
والله اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: حديث صحيح
9. باب في حَدِّ الْخَمْرِ:
9. شراب پینے پر حد کا بیان
حدیث نمبر: 2348
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا هاشم بن القاسم، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن انس،"ان النبي صلى الله عليه وسلم اتي برجل قد شرب خمرا فضربه بجريدتين"، ثم فعل ابو بكر مثل ذلك، فلما كان عمر: استشار الناس، فقال عبد الرحمن بن عوف: اخف الحدود: ثمانين، قال: ففعل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ،"أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِرَجُلٍ قَدْ شَرِبَ خَمْرًا فَضَرَبَهُ بِجَرِيدَتَيْنِ"، ثُمَّ فَعَلَ أَبُو بَكْرٍ مِثْلَ ذَلِكَ، فَلَمَّا كَانَ عُمَرُ: اسْتَشَارَ النَّاسَ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ: أَخَفُّ الْحُدُودِ: ثَمَانِينَ، قَالَ: فَفَعَلَ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص کو لایا گیا جس نے شراب پی لی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دو چھڑیوں سے مارا، پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا ہی کیا، جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو صحابہ سے انہوں نے شرابی کی سزا کے بارے میں مشورہ کیا تو سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: سب سے کم حد (سزا) اسّی کوڑے کی ہے (تہمت میں)، چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسی کو نافذ کر دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2357]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6773]، [مسلم 1706]، [أبوداؤد 4479]، [ابن ماجه 2570]، [أبويعلی 2894]، [ابن حبان 4448]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 2349
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا مسلم بن إبراهيم، اخبرنا عبد العزيز بن المختار، حدثنا عبد الله الداناج، حدثنا حضين بن المنذر الرقاشي، قال: شهدت عثمان بن عفان واتي بالوليد بن عقبة، فقال علي: "جلد النبي صلى الله عليه وسلم اربعين، وجلد ابو بكر اربعين، وعمر ثمانين، وكل سنة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ الدَّانَاجُ، حَدَّثَنَا حُضَيْنُ بْنُ الْمُنْذِرِ الرَّقَاشِيُّ، قَالَ: شَهِدْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ وَأُتِيَ بِالْوَلِيدِ بْنِ عُقْبَةَ، فَقَالَ عَلِيٌّ: "جَلَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعِينَ، وَجَلَدَ أَبُو بَكْرٍ أَرْبَعِينَ، وَعُمَرُ ثَمَانِينَ، وَكُلٌّ سُنَّةٌ".
حضین بن منذر قاشی نے بیان کیا کہ میں سیدنا عثان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر تھا کہ ولید بن عقبہ (سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے اخیافی بھائی) کو لایا گیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شرابی کو چالیس کوڑے مارے، اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی چالیس ہی مارے، اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسّی کوڑے لگائے، اور سب سنت ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2358]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1707]، [أبوداؤد 4480]، [ابن ماجه 2571]، [أبويعلی 504، 3015]، [الطيالسي 1537]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2347 سے 2349)
شراب پینے والے اور نشہ کرنے والے کی سزا قرآن پاک میں مذکور نہیں ہے۔
یہ معلوم ہے کہ شراب پینا حرام ہے، یہ اُم الخبائث ہے، اور نشہ کی حالت میں انسان سے قبیح اور ناقابلِ معافی جرم سرزد ہو جاتے ہیں اس لئے اسلام نے اس دروازے ہی کو بند کر دیا۔
اب اگر کوئی شخص پی ہی لے تو اس کو سزا ضرور ملنی چاہیے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کی چھڑی وغیرہ سے شرابی کو سزا دی، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا ہی کیا یعنی چالیس کوڑے لگائے، جب لوگ بکثرت پینے لگے تو امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے صحابہ کے مشورے سے شرابی کی سزا اسّی کوڑے مقرر کر دی۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا «كُلٌّ سُنَّةٌ» اس بات کی تائید کرتا ہے کہ چالیس اور اسّی سب ٹھیک اور سنّت ہے، نیز حاکمِ وقت کو اختیار ہوگا کہ وہ اپنی صواب دید کے مطابق جتنی چاہے شرابی کو سزا دے، چالیس کوڑے یا اسّی کوڑے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
10. باب في شَارِبِ الْخَمْرِ إِذَا أُتِيَ بِهِ الرَّابِعَةَ:
10. شراب پینے والا جب چوتھی بار حاکم کے پاس لایا جائے اس کا بیان
حدیث نمبر: 2350
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله الرقاشي، حدثنا يزيد هو ابن زريع، حدثنا محمد هو ابن إسحاق، حدثنا عبد الله بن عتبة بن عروة بن مسعود الثقفي، عن عمرو بن الشريد، عن ابيه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: "إذا شرب احدكم فاضربوه، ثم إن عاد، فاضربوه، ثم إن عاد، فاضربوه، ثم إن عاد الرابعة فاقتلوه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ هُوَ ابْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ إِسْحَاق، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُتْبَةَ بْنِ عُرْوَةَ بْنِ مَسْعُودٍ الثَّقَفِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: "إِذَا شَرِبَ أَحَدُكُمْ فَاضْرِبُوهُ، ثُمَّ إِنْ عَادَ، فَاضْرِبُوهُ، ثُمَّ إِنْ عَادَ، فَاضْرِبُوهُ، ثُمَّ إِنْ عَادَ الرَّابِعَةَ فَاقْتُلُوهُ".
عمرو بن شرید نے اپنے والد سے روایت کیا: انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے فرماتے ہوئے سنا: جب تم میں سے کوئی پی لے تو اس کو مارو، پھر پئے پھر مارو، پھر اگر چوتھی بار پئے تو اس کو قتل کر دو۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف عبد الله بن عتبة بن عروة بن مسعود الثقفي ما وجدت له ترجمة وباقي رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 2359]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ عبداللہ بن عتبہ بن عروہ بن مسعود ثقفی کا ترجمہ کسی نے نہیں لکھا، باقی رجال ثقہ ہیں، دیکھئے: [أبوداؤد 4484]، [نسائي 5678]، [ابن ماجه 2572]، [طبراني 7244]، [أحمد 388/4، 389، ويشهد له حديث أبى هريرة فى صحيح ابن حبان 4447]، [موارد الظمآن 1517] و [أبويعلی 7363]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2349)
اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوا کہ شرابی چوتھی بار اگر شراب پیئے تو اس کو قتل کی سزا دی جاسکتی ہے، بعض علماء کی یہی رائے ہے مگر جمہور نے شرابی کے قتل کو اور اس حدیث کو منسوخ قرار دیا ہے، اور ناسخ ایک تو وہ حدیث ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مسلمان کا قتل تین چیزوں کے ارتکاب پر جائز ہے: قتل کے بدلے قتل، مرتد اور زانی المحصن (دیکھئے حدیث رقم 2334)، اس میں چور کی سزا قتل نہیں ہے، نیز سنن ابی داؤد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی (کسی کو) چوتھی بار شراب پینے پر قتل نہیں کیا تھا، صرف کوڑوں کی سزا ہی پر اکتفا کیا، اور امام شافعی رحمہ اللہ نے اجماع نقل کیا ہے کہ شراب پینے والے کو کسی صورت میں قتل کی سزا نہیں۔
اس کی تفصیل حدیث (2142) کی تشریح میں گذر چکی ہے۔
(مبارکپوری رحمہ اللہ)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف عبد الله بن عتبة بن عروة بن مسعود الثقفي ما وجدت له ترجمة وباقي رجاله ثقات
11. باب التَّعْزِيرِ في الذُّنُوبِ:
11. جرائم پر تعزیر کا بیان
حدیث نمبر: 2351
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن يزيد، حدثنا سعيد هو ابن ابي ايوب، حدثني يزيد بن ابي حبيب، عن بكير بن عبد الله بن الاشج، عن سليمان بن يسار، عن عبد الرحمن هو ابن جابر، عن ابي بردة بن نيار، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: "لا يحل لاحد ان يضرب احدا فوق عشرة اصوات إلا في حد من حدود الله".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ هُوَ ابْنُ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ هُوَ ابْنُ جَابِرٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ نِيَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ يَضْرِبَ أَحَدًا فَوْقَ عَشْرَةِ أَصْوَاتٍ إِلَّا فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ".
سیدنا ابوبردہ ہانی بن نیار رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے: حدود اللہ میں سے کسی حد کے سوا کسی کو دس کوڑوں سے زیادہ کی سزا نہ دی جائے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2360]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6848]، [مسلم 1708]، [ابن حبان 4452]، [تلخيص الحبير 79/4]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2350)
تعزیر اس سزا کو کہتے ہیں جو حد سے کم ہوتی ہے اور یہ حسبِ حال قول و فعل دونوں طرح سے دی جاتی ہے، یہ عزر سے مأخوذ ہے جس کے معنی ہیں منع کرنا اور روکنا، اس کا نام تعزیر اس لئے رکھا گیا کہ یہ فعلِ قبیح سے روک دیتی ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جن جرائم اور گناہوں پر شریعت میں کوئی حد مقرر نہیں کی گئی حاکمِ وقت اپنی صواب دید سے اس حدیث سے مجرم کو سزا دے سکتا ہے جو دس کوڑوں سے زیادہ نہ ہو، امام احمد رحمہ اللہ اور دیگر علماء نے اس حدیث کے پیشِ نظر یہی کہا ہے لیکن حنفی و شافعی اس کے مخالف ہیں اور کہا ہے کہ دس کوڑوں سے زیادہ بھی سزا دی جاسکتی ہے جو مذکورہ بالا صریح اور واضح حدیث کے مخالف ہے۔
اللہ تعالیٰ سب کو حدیثِ رسول پیغمبرِ اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و پیروی کی توفیق بخشے اور مخالفت سے بچائے، آمین۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
12. باب الاِعْتِرَافِ بِالزِّنَا:
12. زنا کے اعتراف کا بیان
حدیث نمبر: 2352
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، حدثنا ابن جريج، اخبرني ابن شهاب، عن ابي سلمة، عن جابر: ان رجلا من اسلم اتى النبي صلى الله عليه وسلم فحدثه انه زنى فشهد على نفسه انه زنى اربعا، فامر برجمه وكان قد احصن".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرٍ: أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَسْلَمَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثَهُ أَنَّهُ زَنَى فَشَهِدَ عَلَى نَفْسِهِ أَنَّهُ زَنَى أَرْبَعًا، فَأَمَرَ بِرَجْمِهِ وَكَانَ قَدْ أُحْصِنَ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک صحابی قبیلہ اسلم کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیان کیا کہ ان سے زنا سرزد ہو گیا ہے اور انہوں نے چار بار اعتراف کیا کہ انہوں نے زنا کیا ہے، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو رجم کر دینے کا حکم صادر فرمایا کیونکہ وہ شادی شدہ تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2361]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5270]، [مسلم 1691]، [ابن حبان 3094، 4440]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2351)
برضا و رغبت زنا کرنے والے کی سزا اگر غیر شادی شدہ ہے تو سو کوڑے، شادی شدہ ہے تو رجم یعنی پتھروں سے مار مار کر ہلاک کر دیا جائے تاکہ اس فعلِ قبیح کی کوئی شخص جرأت نہ کر سکے۔
اور حد جاری کرنے کے لئے چار گواہوں کی گواہی ضروری ہے لیکن اگر کوئی شخص اعتراف کر لے تو اس پر زنا کی حد نافذ کی جائے گی۔
قرآن پاک میں ہے: « ﴿الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ .....﴾ [النور: 2] » یعنی زانیہ عورت اور مرد کو سو سو کوڑے مارو .....۔
یہ حکم غیر شادی شدہ کے لئے ہے اور شادی شدہ زانی و زانیہ کی سزا قرآن پاک میں موجود نہیں، اس کی قرأت منسوخ ہو چکی ہے، جو احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے۔
اس متفق علیہ حدیث کی تفصیل آگے آ رہی ہے، بعض علماء نے کہا چار بار اعتراف کرانے کی ضرورت نہیں، ایک بار بھی اگر اعتراف کر لیا تو حد لگانے کے لئے کافی ہے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    1    2    3    4    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.